To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Monday, May 9, 2011

Gehri Jadein: The Deep RootsFiction by Dr. Neerja Madhav
Translated by: Dr. Ghulam Nabi Momin
Reviewed by: Mohd. Rafi Ansari
ڈاکٹر غلام نبی مومن کا نام تعلیمی اور ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ موصوف نے عرصۂ دراز تک ٹیکسٹ  بک بیورو  ، پونہ میں اردو افسر کی حیثیت سے نصابی کتابوں کی ترتیب و تدوین میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ابتداء ہی سے ڈاکٹر صاحب کو علم و ادب سے شغف رہا ہے اور طالب علمی ہی کے زمانے سے انھوں نے لکھنے پڑھنے کا کام بڑے سلیقے اور منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا ہے ، جس کا سلسلہ وقت کے ساتھ خوب سے خوب تر ہواہے۔اب تک ان کی تصنیف اور تالیف کردہ کئی کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں جن میں ادبِ اطفال، تنقید اور تعلیم کے موضو عات سے بحث ہے۔
The Cover Page
ان دنوں ڈاکٹر غلام نبی مومن علمی حلقے میں ایک مترجم کی حیثیت سے بھی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں.  انگریزی کے علاوہ انھوں نے مراٹھی اور ہندی کی منتخب تخلیقات کو اردو کے قالب میں بڑی عمدگی سے ڈھالا ہے۔ ۲۰۰۲؁ء میں ان کی ترجمہ شدہ سات کہانیوں کا انتخاب ’دھنک‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہوا۔ ان کی ترجمہ کردہ نئی کتاب ’ گہری جڑیں‘ جدید ہندی کہانی کی مایہ ناز ادیبہ ڈاکٹر نیرجا بینی مادھوکی گیارہ معرکۃُالآراکہانیوں کا خوبصورت مجمو عہ ہے جو اسی سال ۲۰۱۱ میں  منظرِ عام پر آیا ہے۔
ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب صوری و معنوی اعتبار سے لاجواب ہے۔ ڈاکٹر غلام نبی مومن نے اپنی اس ادبی کاوش کو مشہور ماہر تعلیم محترمہ نورالعین علی صاحبہ کے نام معنون کیا ہے جنھوں نے عورتوں کے مسائل پر کئی معیاری ڈرامے تحریر کیے ہیں اور جن کی درسیات کی تیاری کی بے پناہ صلاحیت اور تجربے سے ڈاکٹر صاحب مستفیض ہوئے ہیں.
کتاب ’گہری جڑیں‘کے ابتدائی صفحات پر ’ڈاکٹرنیرجامادھو -ایک نظر میں‘ عنوان کے تحت مصنفہ کا ایک جامع تعارف پیش کیا گیاہے جو قارئین کوہندی کی اس باکمال ادیبہ کی ادبی فتح مندیوں کی کہانی سناتا ہے۔ محترمہ نیرجامادھو نے افسانوں کے علاوہ کئی ناول بھی لکھے ہیں جن میں ان کے ناول ’ یم دیپ‘اور ’گےشے جمپا‘ کو بڑی شہرت ملی اور ان ناولوں کے ترجمے اریہ، انگریزی اور تبّتی زبانوں میں ہوئے۔ ڈاکٹر نیرجامادھو کا ناول ’یم دیپ‘(۲۰۰۲)ہجڑوں کی زندگی پر لکھا گیا ہندی کا پہلا ناول  مانا جاتا ہے اور ’گےشے جمپا‘ بھارت میں پناہ گزین تبتیوں  کی تحریکِ آزادی اور ان کے اپنے معاشرے اور اپنی مذہبی و تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں کے موضوع پر لکھا گیا ایک بہترین ناول تسلیم کیا گیاہے۔
ڈاکٹر نیرجامادھو کہانی کار اور ناول نگار ہی نہیں بلکہ شاعرہ بھی ہیں۔آ پ کا پہلا شعری مجموعہ’پرستھان ترئی‘ (۲۰۰۰ میں) شائع ہوا۔ محترمہ کی گوناں گوں تخلیقات اور نو بہ نو کاوشوں پر ایک نظر ڈال کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ انھوں نے اپنی انچاس سالہ زندگی کا بڑا حصہ تصنیف و تالیف کی نذر کیا اور خوش بختی دیکھیے کہ ان کے ایک ایک لفظ کی پذیرائی ہوئی ۔
ہندی کہانیوں کے اس انتخاب کی سبھی گیارہ کہانیاں ’جہانِ دیگر‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جنہیں پڑھتے ہوئے قاری عجیب و غریب کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ مصنفہ نے کمالِ مہارت سے بشری خامیوں اور کمزوریوں کو اس طرح کہانیوں میں پرو کر پیش کیا جسے ملاحظہ فرما کر بڑے بڑے پارسا بھی شرمائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کتاب کی ایک اثرانگیز کہانی ’ گہری جڑیں ‘ عنوان سے ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک عورت ’وِ دیو تما‘ہے۔ ایک اصول پسند اور منصف مزاج باپ کی لائق و فائق دختر، جو دفتر میں اپنے اعلیٰ افسروں سے اصولوں کے ٹکراؤ میں اپنی پوزیشن کو بچانے کی کوشش میں صلیب و دار کے مرحلوں سے گزرتی ہے۔کہانی کے موڑ پر اس کی سہیلی اپرنا جب اس سے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاح دیتی ہے تو وہ اس کے جواب میں جو کچھ کہتی ہے وہ کہانی کےساتھ ساتھ ’وِدیو تَما‘ کو بھی بامِ عروج پر پہنچا دیتا ہے ۔ وہ کہتی ہے’’ ۔۔۔تجھے ہنسانے کے لئے اس وقت مجھے ایک بہت اچھا چٹکلا یاد آرہا ہے جومیری موجودہ حالت کے عین مطابق ہے۔ایک بار کا ذکر ہے سب کتے بھاگ رہے تھے۔ان ہی کے ساتھ ایک اونٹ بھی بھاگا جا رہا تھا۔ایک آدمی نے روک کر پوچھا
 ’ ارے بھائی اونٹ، تم کتوں کے ساتھ کیوں بھاگ رہے ہو؟‘‘
اونٹ نے جواب دیا ’’ میونسپلٹی والے کتوں کو پکڑنے کی تحریک چلا رہے ہیں۔‘‘
’لیکن تم تو اونٹ ہو، پھر۔۔۔؟‘‘
’’ یہ تم کہہ رہے ہو نا بھائی۔اگر پولس والوں نے مجھے پکڑ لیا تو بیس سال لگ جائینگے  گے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ میں کتّا نہیں  اونٹ ہوں۔‘‘
’’سوچتی ہوں کہ کہیں سے وہ کالیداس ہی آجائے اور کتوں کی اس بھیڑ میں مجھے دیکھ کر چلا پڑے ’ اونٹ ، اونٹ‘۔۔میں اُس کالیداس کے چرنوں میں جھک جاؤں گی ۔ بس۔۔۔کم سے کم میرا اصل چہرہ تو واضح ہوجائے۔‘‘
ڈاکٹرنیرجا مادھو کے اسلوب میں بڑی ندرت ہے ۔انھیں کہانی کہنے کا فن آتا ہے ۔کہانی میں قاری کی شمولیت اسے اس مقام پر لے جاتی ہے کہ وہ کہانی کا چشم دید گواہ بن جاتا ہے۔  ان کی کہانیوں کے تمام کردار ہندوستانی معاشرے کا حصہ ہیں۔وہ محروم طبقات کی اتنی کامیابی سے نمائندگی کرتی ہیں کہ جیسے محسوس ہوتا ہے آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہی ہوں۔ چونکہ وہ ایک بھارتی ناری ہیں اس لیے بھارتی ناری کے دکھ کو بخوبی محسوس کرتی ہیں ۔ ان کی کہانیاں عورت کی مظلومیت  اور محکومیت کا اتنا اچھا تجزیہ ہیں کہ جسے دےکھ کر حقوقِ نسواں کے علمبردار بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ان کی کہانی’ بھنوری‘ تین دھارے، ابھی ٹھہرو اندھی صدی ‘ اور ’بوئے آدم‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ کتاب کی دیگر کہانیاں ’ پنُّو کے دار جی، اکیلے چنے کی آزاد لے، حاکم، راستے کی چبھن اور کہانی ’ فیٹ' انفرادی نوعیت کی حامل ہیں۔

ڈاکٹر غلام نبی مومن نے ان بامقصد اور فکرانگیز کہانیوں کو بڑی مہارت سے اردو میں منتقل کیا ہے۔جس کی داد انہیں ضرور ملے گی۔ کتاب میں ’ہندی کہانی کا ارتقاء ۔۔۔ایک سرسری جائزہ ‘ کے عنوان ہندی کہانی کی ابتداء سے اب تک کااحوال سنا کر ڈاکٹر صاحب نے ہندی ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کا کام آسان کیا ہے۔
مصنفہ: ڈاکٹر نیرجا مادھو  [ پتہ:مدھوبن، 14/598 سارنگ ناتھ کالونی، سارناتھ، وارانسی 221007، اترپردیش (انڈیا) فون: ٩٧٩٢٤١١٤٥١ 
سن اشاعت: فروری ۲۰۱۱ء، قیمت: ۷۶ روپے، کل صفحات: (۱۲۸+۱۶)
ملنے کے پتے:
۱)ڈاکٹر غلام نبی مومن ، روم نمبر ۲،چودھری چال،چودھری محلّہ، کلیان۔۴۲۱۳۰۱۔ ضلع تھانہ(مہاراشٹر، انڈیا) فون: 9321259451
۲) سیفی بک ایجنسی، امین بلڈنگ، ابراہیم رحمت اﷲ روڈ،بھنڈی بازار،ممبئی 400003
۳) مدنی گرافکس، شاپ نمبر ۵، انامئے بلڈنگ، ۳۰۵ سوموار پیٹھ، پونے 411011

1 comment:

Hamid Iqbal Siddiqui said...

mohammed rafi ansari sahab ki nasr bohot dilkash hoti hai, afsos ke urd ke naam-nihad fehrist saazon ne unhen wo maqaam nahin diya jis ke wo haqdaar hain, kuch rafi sahab ki saada louhi aur beniyazi bhi unhen khasare me rakhti hai. allah unhen sehat ataa farnae.