To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, May 7, 2011

Blood Donation:
All you want to Know
خون کا عطیہ ایک ایسی بات ہے کہ ہماری اکثریت اس سے خوف کھاتی ہے۔ بے جا خوف۔ اس کا سبب یہی ہے کہ سبھی جانتے ہیں ’’خون ہے تو زندگی ہے‘‘۔ اگر ہم نے خون کا عطیہ کر دیا  تو ہماری زندگی کے لالے پڑ جائیں گے!۔ جبکہ عطیہ کا مطلب ہی وہ عمل ہے کہ اگر آپ کے پاس اپنی ضرورت کے بعد کچھ اضافی ہے تو اسے دوسرے کو دیجیے تاکہ اس کی حاجت پوری ہو سکے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بدن میں کچھ اضافی خون بھی موجود ہوتا ہے کہ عطیہ کے فلسفہ کا اس پر اطلاق ہوتا ہے؟ جی ہاں۔ یہی بات ہے۔
ہر انسان کے بدن میں تقریباً ایک لیٹر خون (یعنی دو سے تین بوتلیں) اضافی پایا جاتا ہے۔ اسی لیے ایک تندرست شخص تین مہینے کے وقفے سے بھی خون کا مسلسل عطیہ کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح صحت پر بہتر اثر مرتب ہوتا ہے اور خون میں کولیسٹرول کی مقدار طبعی (نارمل) رہتی ہے۔ تین ماہ میں نیا خون ذخیرہ میں جمع ہو جاتا ہے۔ ایک نظریہ یہ بھی قائم کیا جاتا ہے کہ نئے خون کی ذخیرہ میں شمولیت کی وجہ سے بیماریوں کے خلاف بدن کی قوتِ مدافعت بھی تازہ دم ہوجاتی ہے اور اسے تحریک ملتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ جو صحتمند افراد خون کا عطیہ تین ماہ یا اس سے زیادہ کے وقفے سے دیا کرتے ہیں ان کو نہ تو موٹاپا ہی جلد لاحق ہوتا ہے اور نہ کوئی دوسرا مرض۔ ہارٹ اٹیک (دورہ قلب) کا امکان بھی ایک تہائی ہی رہ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں خون کا عطیہ دینے والے کے خون کی مختلف اور اہم جانچ بالکل مفت میں انجام دی جاتی ہے جن میں خون میں موجود رہنے والے امراض، یرقان، ملیریا، ایڈز (HIV)، اور خون کے مختلف اجزا کی طبعی مقدار معلوم کرنے والے ٹیسٹ شامل ہیں۔

Donating Blood Saves Lives

آئیے چند سوالات اور ان کے جوابات کو یکے بعد دیگرےسمجھیں۔
س: مجھے خون کا عطیہ کیوں کرنا چاہیے؟
ج: کیونکہ ایک مریض کی جان بچانے کے لیے اسے سخت ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس میں آپ کا کوئی نقصان نہیں ہے، کیونکہ خون کہیں اور سے حاصل نہیں ہو سکتا، اس کا کوئی متبادل بھی موجود نہیں ہے، کیونکہ آپ صحتمند ہیں، کیونکہ آپ دوسروں کا بھلا چاہتے ہیں۔ تصور کیجیے کہ خود آپ کو یا آپ کے کسی چہیتے رشتہ دار کو خون کی ضرورت پڑ جائے تو آپ کے جذبات کیا ہوں گے۔ ایک نومولود بچے کی جان کو خطرہ ہوتا ہے تو صرف تین بڑے چمچے بھر خون چڑھانے سے اس کی جان بچ سکتی ہے۔
س: بلڈ ڈونیشن کے بعد کمزوری آ جاتی ہے؟
ج: بالکل نہیں۔ آپ کے بدن میں ۵ تا ۶ لیٹر خون موجود رہتا ہے اور صرف ۳۵۰ ملی لیٹر خون نکالا جاتا ہے۔نکالے گئے خون کی یہ مقدار ۲۴ گھنٹے کے بعد دوبارہ تیار ہو جاتی ہے۔ خون دینے کے فوراً بعد بھی آپ اپنے معمول کے کام کاج پر لگ سکتے ہیں۔
س: کیا خون کا عطیہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہے؟
ج: بالکل نہیں۔ جنھوں نے خون کا عطیہ کیا ہے انھی سے پوچھ لیجیے۔
س: کیا خون کا عطیہ کرنے سے مجھے بھی کوئی بیماری لگ سکتی ہے، جیسے ایڈز، ہیپاٹائٹس وغیرہ؟
ج: اس کا قطعی امکان نہیں ہے۔ کیونکہ خون نکالنے کے لیے جراثیم سے بالکل پاک (مطہر/ sterile) اور صرف ایک ہی مرتبہ استعمال کی جانے والی سوئیاں اور آلات لیے جاتے ہین اور خون دینے والے کو کسی بیماری میں مبتلا ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
س: میں کیسے جان سکتا ہوں کہ میں خون دینے کے قابل ہوں؟
ج: خون لینے سے پہلے آپ کا طبی معائنہ کیا جائے گا کہ آپ کو پہلے سے کوئی مرض تو نہیں ہے۔ آپ کی عمر ۱۸ اور ساٹھ سال کے درمیان ہونی چاہیے۔ آپ کا وزن کم از کم ۴۵ کلوگرام ہونا چاہیے۔ خون میں ہیموگلوبن کی مقدار ساڑھے بارہ گرام فیصدی سے اوپرہونی چاہیے۔ اگر آپ کچھ دنوں پہلے بیمار ہوئے ہوں تو اس کی اطلاع ڈاکٹر کو دینی ضروری ہے۔ یہ آپ اور مریض دونوں کی صحت کے لیے بیحد ضروری ہے۔ خصوصاً:

٭پچھلے ایک برس میں یرقان (پیلیا) کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
٭ آپ کو ٹی بی، جذام، مرگی (جھٹکے)، ملیریا، تائیفائیڈ اور بدن سے زیادہ مقدار میں خون ضائع ہوجانے والی کوئی تکلیف نہ ہوئی ہو۔
٭ آپ کو ہائی بلڈپریشر، دل کا کوئی مرض، مرگی، دمہ، ہیموفیلیا (وہ مرض جس میں چوٹ وغیرہ لگنے پر خون بہنے لگے تو جم نہیں پاتا) اور دوسری کوئی الرجی نہیں ہونی چاہیے۔
٭ گذشتہ چھ مہینوں کے درمیان آپ کا کوئی بڑا آپریشن نہیں ہوا ہو۔
 خواتین کے لیے:
٭ ابھی ماہواری نہ جاری ہو، حاملہ بھی نہ ہوں، بچے کو دودھ پلاتے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہو۔
س: اگر میں خون کی بوتل خریدنے کی حیثیت رکھتا ہوں تو میں خون کا عطیہ کیوں کروں؟
ج: جب آپ کو خون خریدنا پڑتا ہے تو وہ خون پیشہ ور خون دینے والوں سے ملتا ہے جو کم یا خراب خوراک کے باعث تنومند اور تندرست نہیں رہتے بلکہ بسا اوقات ان کے بدن میں کوئی بیماری ہو سکتی ہے جو مریض کے بدن میں منتقل ہوجاتی ہے۔کیا آپ اپنے کسی چہیتے رشتہ دار کو ایسے آزار میں مبتلا کرنا پسند کریں گے۔ علاوہ ازیں یہ سماج کے غریب طبقے کے ساتھ کھلواڑ بھی ہے۔ اس لیے ناپسندیدہ ہے۔ خون کے مستند بینکوں سے آپ اپنا خون دے کر مطلوبہ گروپ کا خون تبادلے میں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس میں خرچ بھی نہیں ہوتا اور آپ کو بالکل محفوظ خون مہیا کیا جاتا ہے۔
س: خون عطیہ کرنے کے عوض میں مجھے کیا ملے گا؟
ج: (a) عطیہ کوئی بھی ہو وہ قیمتی ہوتا ہے۔ کسی کی ضرورت میں کام آتا ہے۔ خون کا عطیہ سب سے قیمتی عطیہ ہے۔ یہ کسی انسان کی جان بچانے کے کام میں آتا ہے۔ ضرورت میں کسی کے کام آنے پر دل کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ (b) بلڈ بینک آپ کو ایک شناختی کارڈ دیتا ہے۔جب آپ کے لیے یا آپ کے گھرانے کے کسی فرد کے لیے خون کی ضرورت آن پڑے تو اس کارڈ کے عوض آپ اتنا ہی خون بلامعاوضہ حاصل کرسکتے ہیں جتنا آپ نے عطیہ کیا ہو۔ (c) اگر آپ پچیس یا پچاس مرتبہ خون عطیہ کرچکے ہوں تو آپ کو ایک خصوصی سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔
س: میں کتنی مرتبہ خون کا عطیہ کرسکتا ہوں؟
ج: تین مہینے کے وقفے سے آپ مسلسل خون عطیہ کرسکتے ہیں۔ اپنے دوستوں کو بھی اس کارِ خیر کے لیے آمادہ کیجیے۔
س: میں بہت مصروف رہتا ہوں تو کیسے اور کہاں خون کا عطیہ کرسکتا ہوں؟
ج: خون عطیہ کرنے میں صرف آدھ گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔ ’’یاد رکھیے کہ آپ کا اتنا سا وقت کسی کی زندگی بن سکتا ہے‘‘۔ آپ کے نزدیک کسی سرکاری یا مستند بلڈ بینک میں یا اس کی جانب سے (کسی مقامی تنظیم کے تعاون سے) منعقد کیے جانیوالے بلڈ ڈونیشن کیمپ میں آپ خون کا عطیہ کر سکتے ہیں۔ خون کا عطیہ کرتے وقت آپ اپنے گروپ کی اطلاع بھی ڈاکٹر کو ضرور دیں۔ اس کو ڈاکٹر دوبارہ جانچ کر کے کنفرم کرتے ہیں۔ اب ہر مریض کو خون اس کے گروپ کا ہی چڑھایا جاتا ہے۔
س: خون کے گروپ کے تعلق سے بتلائیں۔
ج: خون کے چار اہم گروپ ہیں۔ A ،، AB اور O۔ ان کے ضمنی گروپ مثبت (Rh +ve) اور منفی (Rh -ve) ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان میں Rh -ve گروہ کی آبادی صرف پانچ فیصد ہے۔ خون کبھی بھی کسی بھی فرد کے لیے ضروری ہو سکتا ہے اس لیے ہر گروپ کے لوگوں کو خون کا عطیہ کرنا چاہیے۔ اگر آپ کے خون کا گروپ کم پایا جانے والا خصوصاً Rh -ve ہے تو بہتر صورت یہ ہے کہ آپ اپنا نام، پتہ اور ٹیلیفون نمبر یا رابطے کی تفصیل قریب ترین بلڈ بینک میں لکھوا رکھیں تاکہ بوقتِ ضرورت آپ کو بلایا جاسکے اور اس وقت آپ بھی آمادہ رہیں۔
س: خون کی ضرورت کب کب پیش آتی ہے؟
ج: طبی دنیا میں خون کی ضرورت ہر دن پڑتی ہے۔ مختلف طرح کے آپریشن میں۔ ڈیلیوری کی پیچیدگیوں میں، حادثات میں اور خون کے بعض امراض (Thalessaemia) وغیرہ سے متاثرہ مریضوں میں۔
س:بلڈ بینک کس طرح کام کرتے ہیں؟
ج: بلڈ بینک مختلف عطیہ دہندگان سے خون جمع کرتے ہیں، انھیں صحیح حالت میں محفوظ رکھنے کا انتظام کرتے ہیں اور جب ضرورت پیش آتی ہے تو مریض کے خون کے گروپ کے مطابق خون سپلائی کرتے ہیں۔ کبھی کبھار خون پورا کا پورا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کے کچھ اجزا کی ضرورت مریض کو پڑتی ہے اس لیے بلڈ بینک خون کے اجزا کو بھی الگ الگ کرکے محفوظ کرلیتے ہیں اور مہیا کرتے ہیں۔ بلڈ بینک میں خون محفوظ کرنے سے پہلے اس کی بہت اہم جانچ کی جاتی ہے۔ مثلاً گروپ جانچا جاتا ہے، ایڈز اور ہیپاٹائٹس، VDRL وغیرہ کی جانچ کی جاتی ہے اس کے بعد ہی سپلائی ہوتی ہے۔ بلڈ بینک مختلف سماجی تنظیموں کا تعاون حاصل کرکے شہر اور نواح کے علاقوں میں گاہے گاہے بلڈ ڈونیشن کیمپ کا انعقاد کرتے ہیں۔ جن اسپتالوں میں بلڈ بینک موجود ہوتے ہیں وہ وہاں کے مریضوں کو (خون کے عطیے کے عوض خون) اور بلڈ بینک کا کارڈ رکھنے والوں کو خون مہیا کرتے ہیں۔ اسی طرح دیگر اسپتالوں کے مریضوں کو ’بلڈ ڈونیشن کارڈ‘ کے عوض بھی خون مہیا کرتے ہیں۔ انتہائی غریب مریضوں کو اس علاقے کی (معاون) سوشل تنظیم کی سفارش پر بالکل مفت خون سپلائی کیا جاتا ہے۔
س: Autologous (اپنا ہی) خون چڑھانے کا کیا مطلب ہے؟
ج: اس کا مطلب ہے اپنا ہی خون اپنے لیے استعمال کرنا۔ اس کی شکل یہ ہے کہ مستقبل قریب میں اپنا کوئی بڑا آپریشن کروانا مقصود ہو اور خون کی ضرورت پیش آسکتی ہے تو اپنے ڈاکٹر کی رہنمائی میں اپنا خون بلڈ بینک میں جمع رکھوایا جاسکتا ہے۔ اس طرح آپ کا خون آپ کے لیے بالکل محفوظ اور بے خطر رہے گا۔ لیکن اس خون کے بلڈ بینک میں جمع رکھنے کی سبھی شرائط بالکل وہی رہیں گی جو خون کا عطیہ دینے والے فرد کے تعلق سے مذکور ہیں نیز آپ کو اس کے عوض ایک مناسب فیس بھی ادا کرنی ہوگی.

3 comments:

nizam-momin said...

کافی اچّھی معلومات ہے ' شکریہ

Hamid Iqbal Siddiqui said...

bohot malumati mazmun hai

Dr moin bubere said...

jazakallah