To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Monday, May 2, 2011

Herbal Remedies Re-Emerging
کرۂ ارض پر جہاں جہاں بھی انسان آباد ہیں وہاں صدیوں سے جڑی بوٹیوں کے ذریعہ علاج کے طریقے بھی رائج رہے ہیں۔اگلے وقتوں میں مقامی طور پر پائی جانے والی جڑی بوٹیاں ہی مختلف طریقوں سے استعمال کی جاتی تھیں۔ جدید دور میں نظریں اور نظریے بدل گئے ہیں اس لیے اب انھیں روایتی طریقۂ علاج کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے۔ اور جدید رنگ اختیار کرنے والے اسے ’ہربل میڈیسین‘ کہتے ہیں۔
جڑی بوٹیوں کا استعمال ابتدا میں اصلاً مصالحہ (اب مسالہ) کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ یعنی بعض نباتاتی اشیاء کو غذاؤں کی اصلاح اور کھانے کے قابل بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ چونکہ سبزیوں اور ترکاریوں کو کم مضر سمجھا جاتا ہے اسی لیے گوشت کی بہ نسبت ان میں مصالحہ کی مقدار کم ہوا کرتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے انسانی سماج میں علم عام ہونے لگا، تحقیقات ہونے لگیں اور تجربات پھیلنے لگے ویسے ویسے ان جڑی بوٹیوں کے استعمال اور اثرات کا مطالعہ بیماریوں کے خلاف بھی کیا جانے لگا۔ دنیا کے ہر برِّاعظم میں اس کی ایک مستحکم تاریخ موجود ہے۔ہر خطے میں اس کا اپنا ایک نام ہے۔ کہیں مصری ہے کہیں یونانی، کہیں چینی ہے کہیں آیوروید، کہیں عربی وغیرہ۔

ہربل میڈیسین نے بھی جب ترقی کی تو اس میں صرف پودے، جھاڑیاں اور درختوں کے پھول، پھل، پتے اور جڑیں نیز تنے ہی استعمال میں نہیں رہے بلکہ اس چھت کے نیچے کائی، پھپھوند، شہد کی مکھیوں اور حشرات (کیڑوں) کے اجزاء، سمندری مخلوقات جیسے سیپیوں کے خول،جانوروں کے جسم کے مختلف اعضاء و حصے وغیرہ بھی شامل ہوگئیں۔ ان کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی سادہ طور سے سالم استعمال ہوتا ہے تو اکثر انھیں بھگو کر اس کا زلال (دھوون) حاصل کیا جاتا ہے، کبھی اس کے ٹکڑے کر کے یا کوٹ پیس کر اس کا جوشاندہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی کئی طرح کے اجزاء ایک تناسب اور مخصوص وزن میں ملا کر مرکب دوائیں بنائی جاتی ہیں۔ کچھ دواؤں کو جسم کے اوپر خارجی طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو کچھ دواؤں کو بدن کے اندر داخل کر کے استعمال کرتے ہیں۔ کسی کو سرد کر کے استعمال کرتے ہیں تو کسی کو گرم کر کے یا بھاپ بنا کر۔ غرض جو بھی طریقہ فائدہ بخش ہوتا ہے اسی کو اپنا کر ہربل دواؤں کو استعمال کیا جاتا ہے۔
قدرت نے نباتات میں ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ایسے بہت سے اجزاء اپنے اندر تیار کرتے ہیں اور ذخیرہ کرتے ہیں جو حیوانات کے علاوہ انسانی فائدے کے لیے ہوتی ہیں اور صحت کا پورا دارومدار اُن پر ہوتا ہے۔
ان اجزاء میں نائٹروجن کے مرکبات بے حد اہمیت کے حامل ہیں اور سائنس میں انھیں ’الکلائیڈ‘ Alkaloids کہتے ہیں۔ طب میں انھیں ’جوہرِ موثرہ‘ کے نام سے لکھا جاتا ہے۔ ان کی اکثریت دماغ اور اس کی ساخت و افعال پر اثر کرتی ہے۔ کافی اور دھتورا اور افیون کے الکلائیڈ۔ دوسرا اہم جز ’فینول‘ Phenol پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس سے رنگ بنتے ہیں یا پھر نمی اور رطوبات کو سکھانے والی (مجفف) دوائیں اس سے بنتی ہیں۔ تیسرا جز ٹرپینس Terpenes کہلاتا ہے یہ جز خوشبو اور رنگ پیدا کرتا ہے۔ گلائیکوسائیڈ Glycoside جیسا جز بھی موجود ہوا کرتا ہے جو جسم میں کسی زہر یلے اثر کو زائل کرنے (تریاق) کے استعمال میں آتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ متعدد کیمیائی اجزا ، رس اور رُسوب کا دوائی نباتات (ہربل میڈیسین) میں ایک زبردست اجتماع ہوتا ہے۔
ہربل میڈیسین کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔اتنی ہی قدیم جتنی کہ انسانی تاریخ ہے۔ ماضی میں جدید طب اور اس کی تحقیقات کا جب وجود نہیں تھا تو بقائے صحت کا پورا انحصار انھی دواؤں (اور غذاؤں) پر تھا۔ مگر جدید و ترقی یافتہ دور میں ہربل دواؤں کی جانب سے مسلسل چشم پوشی یا انھیں کمتر سمجھنے علاوہ ازیں جنگلات کے اجڑنے اور رفتہ رفتہ ختم ہونے کے نتیجے میں ان کے بیشتر فائدہ بخش پہلو بھی اب تاریکی کی نذر ہو چلے ہیں۔ لاپروائی کے سبب یہ مایہ ناز ورثہ ضائع ہوتا جارہا ہے۔ البتہ ایک روشنی کی کرن یوں نظر آتی ہے کہ جدید طب میں ’اینٹی آکسی ڈنٹس‘ Antioxidants کے عنوان سے بہت سے ایسے نباتاتی اجزاء دوبارہ سامنے آتے جارہے ہیں جن کے تعلق سے تحقیقی لٹریچر پیش کیا جاتا ہے کہ بیشتر قلبی امراض، کینسر اور زودحساسیت (Allergy) و سِن رسیدگی (aging) جیسے امراض و عوارض سے یہ اجزاء انسانوں کو محفوظ رکھنے میں معاون ہیں۔ انھیں علم نباتیات میں ’نباتی کیمیائی مادّے‘ Phytochemicals کہتے ہیں۔ یہ ’فائٹوکیمیکل‘ نباتات کے تمام حصوں میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں؛ پتّے، جڑیں، پھول، بیج، رال اور گوند، چھالیں، تنہ کے اندرونی حصے، جڑوں کی چھالیں، جڑوں کے اندرونی حصے، پھلوں کے چھلکے، بیجوں کے چھلکے؛ غرض کوئی حصہ نہیں بچا رہتا جو دوائی اغراض کے لیے مستعمل نہیں ہوتا۔
اینٹی آکسیڈنٹ کی کھوج اور اس کے کثیر پیمانہ پر استعمال کے ساتھ ہی یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہربل میڈیسین کے نشاۃ ثانیہ کا اجراء ہوچکا ہے اور وہ دور پھر سے لوٹ رہا ہے جب انسانی امراض کے علاج کے لیے نباتاتی جڑی بوٹیاں نت نئے انداز اور ایک اسٹینڈرڈ کے ساتھ پیش کی جائیں گی۔ کیونکہ خالص ایلوپیتھک دواؤں کے مضر اثرات کی فہرست بڑی طویل ہوتی جارہی ہے اور دنیا کے سامنے اس کا متبادل اسی پرانی اور محفوظ ڈگر کو اختیار کرنے اور اس پر چلنے کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ہاں ایک بات لازم ہے کہ پرانی چیز کو پرانی سوچ اور فکر، جس کی بیشتر بنیاد قیاسات و تجربات پر ہے ، کی کسوٹی پر نہیں لاگو کرنا چاہیے بلکہ نئی دنیا میں جیسا کہ جدید (ایلوپیتھک) طب نے ٹکنالوجی کو اپنا کر پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے ہمیں بھی ٹکنالوجی اور اسٹینڈرڈائزیشن کو ہی پیمانہ بنانا ہوگا۔
بعض جدید محققین نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ نباتاتی ادویہ کو مکمل محفوظ نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان میں اکثر سنکھیا (Arsenic)، پارہ (Mercury) اور سیسہ (Lead) کے اجزا بھی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے استعمال سے کبھی کبھی طبیعت پر غیرمطلوبہ اثرات بھی پڑتے ہیں اور امراض کی شدت میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ تحقیق کا یہ پہلو اکثر لوگوں کے لیے بہت سے اندیشوںکو جنم دیتا ہے۔ مگر ان محققین کو شاید یہ نہیں پتہ کہ اساتذۂ طب کو بھی اس کا علم رہا ہے کہ دواؤں کے (کئی طرح سے) مضر اثرات بھی ہوتے ہیں اسی لیے وہ ادویہ یا مرکبات کو انھی اثرات سے تحفظ کے لیے (صدیوں سے ہی) اصلاح کے بعد تیار کرتے آئے ہیں جبکہ مذکورہ تحقیقی رپورٹ خام ادویہ کے پیشِ نظر تیار کی گئی ہے۔ اس لیے یہاں نظریات کا ٹکراؤ لازم ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ جدید محققین کو بھی دیانتداری کے ساتھ اور اشتراک کے ساتھ تحقیق کرنی چاہیے۔ طب جدید میں یوں بھی مرضی (Consent) حاصل کرنے کا رواج لازمی قرار دیا گیا ہے۔ یہاں بھی اسے رائج کرنا چاہیے۔ جب یہ ہوجائے گا تو ہربل میڈیسین کے افق پر ایک نیا سورج طلوع ہوگا.

7 comments:

डॉ.रूपेश श्रीवास्तव(Dr.Rupesh Shrivastava) said...

पारा,संखिया जैसी भारी धातुओं को लेकर आयुर्वेद और यूनानी पद्धतियों पर सवाल उठाया जाता रहा है लेकिन इस विषय पर सीधे शास्त्रार्थ करने की बारी आने पर मीडिया में एलोपैथी का M.D. बैठता है और वैद्य या हकीम फ़ुटपाथिया जिसके कारण विचार विमर्श एक तरफ़ा ही रह जाता है और भ्रामक धारणाएं फैलाने का षडयंत्र कामयाब हो जाता है। दुनिया में कुछ भी विष या अमृत नहीं है उसे लेने का तरीका उसे विषाक्त या अमृतदायी बना देता है।
उत्तम आलेख है। साधुवाद स्वीकारिये

Dr Rehan Ansari said...

ڈاکٹر روپیش جی،
چاہتا تو یہی تھا کہ آپ کو ہندی میں جواب دوں. لیکن اردو کے ایک عاشق یعنی آپ کی ناقدری ہو جاتی. میں آپ کی اردو سی محبّت کی بڑی قدر کرتا ہوں. آپ میرے مضامین کو پڑھتے ہی نہیں ہیں بلکہ ان پر مکمّل اور جائز راےبھی دیتے ہیں اور حق کی آواز بھی بلند کرتے ہیں. واقعی آپ نے میرا دل جیت لیا ہے. اردو اور اردو والوں کے تئیں آپ کے جذبہ محبّت کو ڈھیروں سلام.
مخلص: ڈاکٹر ریحان

Unknown said...

کافی معلوماتی مضمون ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دور حاضر میں ایک بڑا طبقہ جو خود حکیم کہلاتا ہے عوام الناس کو بے وقوف بنانے میں لگا ہو اہے۔

Hamid Iqbal Siddiqui said...

rehan bhai/ rupesh bhai ! kya khudsaakhta qaumi rehnumaon, mullaon, allama, maahereen-e-t`aaleem, aur zaban se nawaqif mushairon ke azeem sho`ara ka bhi koi ilaaj hai tibb e unani aur ayurved main?

Sanaullah said...

rehan bhai harbl medicn k koi pharmacopia bhi hay.

Sanaullah said...

rehan bhai harbl medicn k koi pharmacopia bhi hay.

Dr Rehan Ansari said...

ASA, Herbal medicines ke liye Ayurvedic aur Unani mein jo book kaafi authentic aur research based samjhi jaati hai us ka pata darj zel link se mil jaayega.

http://www.indiacom.com/yellow-pages/ayurvedic-herbal-drugs-and-medicinal-plants/Kolkata(Calcutta)/?area=J+K+Chatterjee+Road

is ke alawa bhi aap kai books paayeinge. Urdu mein bhi Mufradaat aur Murakkabat ki kai books aap ko mil jayegi. Sab se mash'hoor Bayaz-e-Kabir hai. Is ke baad Hamdar ki Qarabadeen-e-Majeedi bhi hai.Deegar doosre kam maaroof murattabin ki bhi kitabein milti hain. Aap Tibbi ishaati idaaron se raabta kar ke apni tashaffi ki kitab haasil kar sakte hain.