To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, May 7, 2011

Blood Donation:
All you want to Know
خون کا عطیہ ایک ایسی بات ہے کہ ہماری اکثریت اس سے خوف کھاتی ہے۔ بے جا خوف۔ اس کا سبب یہی ہے کہ سبھی جانتے ہیں ’’خون ہے تو زندگی ہے‘‘۔ اگر ہم نے خون کا عطیہ کر دیا  تو ہماری زندگی کے لالے پڑ جائیں گے!۔ جبکہ عطیہ کا مطلب ہی وہ عمل ہے کہ اگر آپ کے پاس اپنی ضرورت کے بعد کچھ اضافی ہے تو اسے دوسرے کو دیجیے تاکہ اس کی حاجت پوری ہو سکے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بدن میں کچھ اضافی خون بھی موجود ہوتا ہے کہ عطیہ کے فلسفہ کا اس پر اطلاق ہوتا ہے؟ جی ہاں۔ یہی بات ہے۔
ہر انسان کے بدن میں تقریباً ایک لیٹر خون (یعنی دو سے تین بوتلیں) اضافی پایا جاتا ہے۔ اسی لیے ایک تندرست شخص تین مہینے کے وقفے سے بھی خون کا مسلسل عطیہ کر سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح صحت پر بہتر اثر مرتب ہوتا ہے اور خون میں کولیسٹرول کی مقدار طبعی (نارمل) رہتی ہے۔ تین ماہ میں نیا خون ذخیرہ میں جمع ہو جاتا ہے۔ ایک نظریہ یہ بھی قائم کیا جاتا ہے کہ نئے خون کی ذخیرہ میں شمولیت کی وجہ سے بیماریوں کے خلاف بدن کی قوتِ مدافعت بھی تازہ دم ہوجاتی ہے اور اسے تحریک ملتی ہے۔ مشاہدہ ہے کہ جو صحتمند افراد خون کا عطیہ تین ماہ یا اس سے زیادہ کے وقفے سے دیا کرتے ہیں ان کو نہ تو موٹاپا ہی جلد لاحق ہوتا ہے اور نہ کوئی دوسرا مرض۔ ہارٹ اٹیک (دورہ قلب) کا امکان بھی ایک تہائی ہی رہ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں خون کا عطیہ دینے والے کے خون کی مختلف اور اہم جانچ بالکل مفت میں انجام دی جاتی ہے جن میں خون میں موجود رہنے والے امراض، یرقان، ملیریا، ایڈز (HIV)، اور خون کے مختلف اجزا کی طبعی مقدار معلوم کرنے والے ٹیسٹ شامل ہیں۔

Donating Blood Saves Lives

آئیے چند سوالات اور ان کے جوابات کو یکے بعد دیگرےسمجھیں۔
س: مجھے خون کا عطیہ کیوں کرنا چاہیے؟
ج: کیونکہ ایک مریض کی جان بچانے کے لیے اسے سخت ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس میں آپ کا کوئی نقصان نہیں ہے، کیونکہ خون کہیں اور سے حاصل نہیں ہو سکتا، اس کا کوئی متبادل بھی موجود نہیں ہے، کیونکہ آپ صحتمند ہیں، کیونکہ آپ دوسروں کا بھلا چاہتے ہیں۔ تصور کیجیے کہ خود آپ کو یا آپ کے کسی چہیتے رشتہ دار کو خون کی ضرورت پڑ جائے تو آپ کے جذبات کیا ہوں گے۔ ایک نومولود بچے کی جان کو خطرہ ہوتا ہے تو صرف تین بڑے چمچے بھر خون چڑھانے سے اس کی جان بچ سکتی ہے۔
س: بلڈ ڈونیشن کے بعد کمزوری آ جاتی ہے؟
ج: بالکل نہیں۔ آپ کے بدن میں ۵ تا ۶ لیٹر خون موجود رہتا ہے اور صرف ۳۵۰ ملی لیٹر خون نکالا جاتا ہے۔نکالے گئے خون کی یہ مقدار ۲۴ گھنٹے کے بعد دوبارہ تیار ہو جاتی ہے۔ خون دینے کے فوراً بعد بھی آپ اپنے معمول کے کام کاج پر لگ سکتے ہیں۔
س: کیا خون کا عطیہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہے؟
ج: بالکل نہیں۔ جنھوں نے خون کا عطیہ کیا ہے انھی سے پوچھ لیجیے۔
س: کیا خون کا عطیہ کرنے سے مجھے بھی کوئی بیماری لگ سکتی ہے، جیسے ایڈز، ہیپاٹائٹس وغیرہ؟
ج: اس کا قطعی امکان نہیں ہے۔ کیونکہ خون نکالنے کے لیے جراثیم سے بالکل پاک (مطہر/ sterile) اور صرف ایک ہی مرتبہ استعمال کی جانے والی سوئیاں اور آلات لیے جاتے ہین اور خون دینے والے کو کسی بیماری میں مبتلا ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
س: میں کیسے جان سکتا ہوں کہ میں خون دینے کے قابل ہوں؟
ج: خون لینے سے پہلے آپ کا طبی معائنہ کیا جائے گا کہ آپ کو پہلے سے کوئی مرض تو نہیں ہے۔ آپ کی عمر ۱۸ اور ساٹھ سال کے درمیان ہونی چاہیے۔ آپ کا وزن کم از کم ۴۵ کلوگرام ہونا چاہیے۔ خون میں ہیموگلوبن کی مقدار ساڑھے بارہ گرام فیصدی سے اوپرہونی چاہیے۔ اگر آپ کچھ دنوں پہلے بیمار ہوئے ہوں تو اس کی اطلاع ڈاکٹر کو دینی ضروری ہے۔ یہ آپ اور مریض دونوں کی صحت کے لیے بیحد ضروری ہے۔ خصوصاً:

٭پچھلے ایک برس میں یرقان (پیلیا) کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
٭ آپ کو ٹی بی، جذام، مرگی (جھٹکے)، ملیریا، تائیفائیڈ اور بدن سے زیادہ مقدار میں خون ضائع ہوجانے والی کوئی تکلیف نہ ہوئی ہو۔
٭ آپ کو ہائی بلڈپریشر، دل کا کوئی مرض، مرگی، دمہ، ہیموفیلیا (وہ مرض جس میں چوٹ وغیرہ لگنے پر خون بہنے لگے تو جم نہیں پاتا) اور دوسری کوئی الرجی نہیں ہونی چاہیے۔
٭ گذشتہ چھ مہینوں کے درمیان آپ کا کوئی بڑا آپریشن نہیں ہوا ہو۔
 خواتین کے لیے:
٭ ابھی ماہواری نہ جاری ہو، حاملہ بھی نہ ہوں، بچے کو دودھ پلاتے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہو۔
س: اگر میں خون کی بوتل خریدنے کی حیثیت رکھتا ہوں تو میں خون کا عطیہ کیوں کروں؟
ج: جب آپ کو خون خریدنا پڑتا ہے تو وہ خون پیشہ ور خون دینے والوں سے ملتا ہے جو کم یا خراب خوراک کے باعث تنومند اور تندرست نہیں رہتے بلکہ بسا اوقات ان کے بدن میں کوئی بیماری ہو سکتی ہے جو مریض کے بدن میں منتقل ہوجاتی ہے۔کیا آپ اپنے کسی چہیتے رشتہ دار کو ایسے آزار میں مبتلا کرنا پسند کریں گے۔ علاوہ ازیں یہ سماج کے غریب طبقے کے ساتھ کھلواڑ بھی ہے۔ اس لیے ناپسندیدہ ہے۔ خون کے مستند بینکوں سے آپ اپنا خون دے کر مطلوبہ گروپ کا خون تبادلے میں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس میں خرچ بھی نہیں ہوتا اور آپ کو بالکل محفوظ خون مہیا کیا جاتا ہے۔
س: خون عطیہ کرنے کے عوض میں مجھے کیا ملے گا؟
ج: (a) عطیہ کوئی بھی ہو وہ قیمتی ہوتا ہے۔ کسی کی ضرورت میں کام آتا ہے۔ خون کا عطیہ سب سے قیمتی عطیہ ہے۔ یہ کسی انسان کی جان بچانے کے کام میں آتا ہے۔ ضرورت میں کسی کے کام آنے پر دل کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ (b) بلڈ بینک آپ کو ایک شناختی کارڈ دیتا ہے۔جب آپ کے لیے یا آپ کے گھرانے کے کسی فرد کے لیے خون کی ضرورت آن پڑے تو اس کارڈ کے عوض آپ اتنا ہی خون بلامعاوضہ حاصل کرسکتے ہیں جتنا آپ نے عطیہ کیا ہو۔ (c) اگر آپ پچیس یا پچاس مرتبہ خون عطیہ کرچکے ہوں تو آپ کو ایک خصوصی سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔
س: میں کتنی مرتبہ خون کا عطیہ کرسکتا ہوں؟
ج: تین مہینے کے وقفے سے آپ مسلسل خون عطیہ کرسکتے ہیں۔ اپنے دوستوں کو بھی اس کارِ خیر کے لیے آمادہ کیجیے۔
س: میں بہت مصروف رہتا ہوں تو کیسے اور کہاں خون کا عطیہ کرسکتا ہوں؟
ج: خون عطیہ کرنے میں صرف آدھ گھنٹہ درکار ہوتا ہے۔ ’’یاد رکھیے کہ آپ کا اتنا سا وقت کسی کی زندگی بن سکتا ہے‘‘۔ آپ کے نزدیک کسی سرکاری یا مستند بلڈ بینک میں یا اس کی جانب سے (کسی مقامی تنظیم کے تعاون سے) منعقد کیے جانیوالے بلڈ ڈونیشن کیمپ میں آپ خون کا عطیہ کر سکتے ہیں۔ خون کا عطیہ کرتے وقت آپ اپنے گروپ کی اطلاع بھی ڈاکٹر کو ضرور دیں۔ اس کو ڈاکٹر دوبارہ جانچ کر کے کنفرم کرتے ہیں۔ اب ہر مریض کو خون اس کے گروپ کا ہی چڑھایا جاتا ہے۔
س: خون کے گروپ کے تعلق سے بتلائیں۔
ج: خون کے چار اہم گروپ ہیں۔ A ،، AB اور O۔ ان کے ضمنی گروپ مثبت (Rh +ve) اور منفی (Rh -ve) ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان میں Rh -ve گروہ کی آبادی صرف پانچ فیصد ہے۔ خون کبھی بھی کسی بھی فرد کے لیے ضروری ہو سکتا ہے اس لیے ہر گروپ کے لوگوں کو خون کا عطیہ کرنا چاہیے۔ اگر آپ کے خون کا گروپ کم پایا جانے والا خصوصاً Rh -ve ہے تو بہتر صورت یہ ہے کہ آپ اپنا نام، پتہ اور ٹیلیفون نمبر یا رابطے کی تفصیل قریب ترین بلڈ بینک میں لکھوا رکھیں تاکہ بوقتِ ضرورت آپ کو بلایا جاسکے اور اس وقت آپ بھی آمادہ رہیں۔
س: خون کی ضرورت کب کب پیش آتی ہے؟
ج: طبی دنیا میں خون کی ضرورت ہر دن پڑتی ہے۔ مختلف طرح کے آپریشن میں۔ ڈیلیوری کی پیچیدگیوں میں، حادثات میں اور خون کے بعض امراض (Thalessaemia) وغیرہ سے متاثرہ مریضوں میں۔
س:بلڈ بینک کس طرح کام کرتے ہیں؟
ج: بلڈ بینک مختلف عطیہ دہندگان سے خون جمع کرتے ہیں، انھیں صحیح حالت میں محفوظ رکھنے کا انتظام کرتے ہیں اور جب ضرورت پیش آتی ہے تو مریض کے خون کے گروپ کے مطابق خون سپلائی کرتے ہیں۔ کبھی کبھار خون پورا کا پورا ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کے کچھ اجزا کی ضرورت مریض کو پڑتی ہے اس لیے بلڈ بینک خون کے اجزا کو بھی الگ الگ کرکے محفوظ کرلیتے ہیں اور مہیا کرتے ہیں۔ بلڈ بینک میں خون محفوظ کرنے سے پہلے اس کی بہت اہم جانچ کی جاتی ہے۔ مثلاً گروپ جانچا جاتا ہے، ایڈز اور ہیپاٹائٹس، VDRL وغیرہ کی جانچ کی جاتی ہے اس کے بعد ہی سپلائی ہوتی ہے۔ بلڈ بینک مختلف سماجی تنظیموں کا تعاون حاصل کرکے شہر اور نواح کے علاقوں میں گاہے گاہے بلڈ ڈونیشن کیمپ کا انعقاد کرتے ہیں۔ جن اسپتالوں میں بلڈ بینک موجود ہوتے ہیں وہ وہاں کے مریضوں کو (خون کے عطیے کے عوض خون) اور بلڈ بینک کا کارڈ رکھنے والوں کو خون مہیا کرتے ہیں۔ اسی طرح دیگر اسپتالوں کے مریضوں کو ’بلڈ ڈونیشن کارڈ‘ کے عوض بھی خون مہیا کرتے ہیں۔ انتہائی غریب مریضوں کو اس علاقے کی (معاون) سوشل تنظیم کی سفارش پر بالکل مفت خون سپلائی کیا جاتا ہے۔
س: Autologous (اپنا ہی) خون چڑھانے کا کیا مطلب ہے؟
ج: اس کا مطلب ہے اپنا ہی خون اپنے لیے استعمال کرنا۔ اس کی شکل یہ ہے کہ مستقبل قریب میں اپنا کوئی بڑا آپریشن کروانا مقصود ہو اور خون کی ضرورت پیش آسکتی ہے تو اپنے ڈاکٹر کی رہنمائی میں اپنا خون بلڈ بینک میں جمع رکھوایا جاسکتا ہے۔ اس طرح آپ کا خون آپ کے لیے بالکل محفوظ اور بے خطر رہے گا۔ لیکن اس خون کے بلڈ بینک میں جمع رکھنے کی سبھی شرائط بالکل وہی رہیں گی جو خون کا عطیہ دینے والے فرد کے تعلق سے مذکور ہیں نیز آپ کو اس کے عوض ایک مناسب فیس بھی ادا کرنی ہوگی.

Thursday, May 5, 2011

Beware: A School Level Awareness Play
(پردہ اٹھتا ہے)

سین نمبر ۱
[ٹیلر کی دکان کا منظر... دو ساتھی سلائی کرنے والے مزدور... اچانک ایک کی انگلی میں سوئی چبھ جاتی ہے، تو دوسرا دوڑ کر اسے پٹی باندھنے آتا ہے... مگر پہلا ساتھی اسے روک دیتا ہے؛ اس کی آنکھوں میں مروّت کے ساتھ خوف جھلکتا ہے۔]
دوسرا:۔  دوست تمھاری انگلی سے خون نکلا جا رہا ہے، اُس پر پٹی باندھنے دو۔ یہ تمھیں کیا ہو گیا ہے؟
پہلا:۔ نہیں دوست، تم میرے قریب مت آنا، میرا خون تمھیں ذرا سا بھی چھونا نہیں چاہیے۔ ورنہ میں خود کو زندگی بھر معاف نہیں کر سکوں گا، تم میرے بہت اچھے ساتھی ہو... تم دور ہی رہو!
دوسرا:۔کمال ہے! مجھے اچھا ساتھی کہتے ہو لیکن میں تمھاری مدد کرنا چاہتا ہوں تو مجھے دُور رہنے کو کہتے ہو۔ آخر کتنا خون نکل رہا ہے تمھاری انگلی سے، اور درد بھی ہو رہا ہے۔
پہلا:۔میں تمھارا بھلا چاہتا ہوں اسی لیے دور رہنے کو کہتا ہوں۔ (پھر خود ہی اپنی انگلی   پر کپڑوں کی کترن لپیٹ لیتا ہے۔)
دوسرا:۔ایک بات بتاؤ یار، تم کئی روز سے نہ پہلے کی طرح ہنستے بولتے ہو اور نہ خوش دکھائی دیتے ہو۔ پہلے تو دن بھر کھِلے کھِلے سے رہتے تھے، اب تو بالکل مرجھا گئے ہو۔ صحت بھی کچھ ٹھیک نہیں لگتی... بات کیا ہے؟ کیا میں تمھاری کچھ مدد کر سکتا ہوں؟
پہلا:۔(بہت پریشان ہو کر کہتا ہے اور سسکنے لگتا ہے) دراصل... دراصل...  ڈاکٹر نے مجھے ایسا مرض بتلا دیا ہے کہ جس کسی کو اس کا پتہ چلے گا وہ مجھ سے نفرت ہی کرے گا؛ حالانکہ مجھے خود یاد نہیں پڑتا کہ یہ مجھے یہ مرض کہاں سے مل گیا؟ (دہاڑیں مار مار کر رونے لگتا ہے)
دوسرا:۔ یعنی کیا؟!... میں تمھارا دوست ہوں، مجھ پر یقین کرو۔ اگر تمھاری کوئی غلطی نہیں ہے تو میں تم سے نفرت نہیں کر سکتا۔
پہلا:۔اگر تم میں تاب ہے تو سنو۔ مجھے ایڈز ہو گیا ہے... ایڈز ہو ا ہے مجھے... ڈاکٹر نے بتایا ہے، ایڈز ہوا ہے مجھے... (خود سے الجھ کر) لیکن ایڈز مجھے کیوں ہوا، کیسے ہوا، مجھے یاد نہیں پڑتا!... کہتے ہیں ایڈز بڑی گھناؤنی بیماری ہے، غلط کاریوں سے ہوتی ہے، مگر میں نے تو کبھی ایسا ویسا کام نہیں کیا پھر؟... آں... پھر؟... پھر مجھے کیوں ہوا ایڈز...؟؟؟
دوسرا:۔(اسے دلاسہ دیتے ہوئے) ... دیکھو... دیکھو دوست... حوصلہ رکھو... ایک کام کرو تم مجھے اپنی رپورٹ دے دو۔ میری پہچان کے ایک بہت ہی اچھے ڈاکٹر صاحب ہیں، میں ان سے بات کروں گا، ہم دونوں ہی  ساتھ چلیں گے۔

سین نمبر ۲ 
[دونوں دوست ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔  ڈاکٹر ان کا استقبال کر کے بیٹھ جانے کو کہتے ہیں پھر ان کے ہاتھوں سے رپورٹ لے کر ایک نظر دیکھتے ہیں۔]
ڈاکٹر:۔تم دونوں میں سے کس کی رپورٹ ہے یہ؟
دوسرا:۔میرے ساتھی کی۔ (پہلا ساتھی گم سم بیٹھا ہوا ہے)
ڈاکٹر:۔(رپورٹ دیکھ کر)... hmmm... ایک مہینہ پہلے کی اس رپورٹ کے مطابق تمھارے ساتھی کو ایک ایسی بیماری نے گھیرا ہے جس کا چرچا آج کل زیادہ ہے۔اور اس سے ہر کسی کو بچنا چاہیے کیونکہ یہ جان لیوا ہے۔لیکن... (پہلے ساتھی سے) کیا تم یاد کر سکتے ہو کہ تم کو یہ مرض کیسے لگا؟ اور یہ کہ تمھیں آج کل کیا تکلیفیں ہو رہی ہیں؟
پہلا:۔نہیں ڈاکٹر صاحب، جب سے یہ رپورٹ دیکھی ہے میں صرف اپنی موت کو یاد کرتا ہوں... اور کچھ نہیں... لیکن میں نے کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا ڈاکٹر صاحب... کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا... پھر یہ مجھے کیوں ہوا؟... (پھر رونے لگتا ہے)
ڈاکٹر:۔دیکھو بھائی، تم کہہ رہے ہو کہ تم نے کوئی غلط کام نہیں کیا تو ہمیں بھی یقین کرنا ضروری ہے... مگر یاد کرو کوئی اور بات ہوئی ہے تمھارے ساتھ... پانچ سات برس پہلے؟... یعنی کبھی کسی نے استعمال کی ہوئی سیرِنج سے تمھارا خون لیا ہو؟ کبھی تم نے بغیر جانچ کا خون چڑھوایا ہو؟... کوئی نشہ آور انجکشن لیا ہو؟... کبھی بدن پر کوئی نشان گُدوایا ہو یعنی Tattoo، یا کہیں کان وغیرہ میں استعمال کیے ہوئے آلے سے سوراخ بنوایا ہو؟...؟ ... یاد کرو... یاد کرو...!!
پہلا:۔(سوچتے ہوئے) پانچ برس پہلے!... سات برس پہلے!... آں... ہاں (پھر اپنا بایاں ہاتھ کھول کر اپنا نام بتاتا ہے)، ہاں ڈاکٹر صاحب یاد آیا... میں جب گھومنے کی غرض سے گیا تھا اور میں نے اپنے اس ہاتھ پر ممبئی کے گیٹ وے آف انڈیا کے پاس اپنا نام گُدوایا تھا۔ کہیں اس کی وجہ سے تو..؟ ...؟ ...؟
ڈاکٹر:۔دیکھو، دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ کوئی بات ضرور ہوئی ہے۔ اسی لیے جسم میں ہر چبھنے والی ضروری چیز کو نئی اور Disposable استعمال کرنا چاہیے۔ اور یقینا اپنے پاکیزہ رشتوں کے علاوہ کسی دوسری جانب نہیں جانا چاہیے۔
دوسرا:۔ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب، لیکن کیا میرے ساتھی کا علاج بھی ممکن ہے؟
ڈاکٹر:۔بدنصیبی سے اس کا علاج ابھی تک ممکن نہیں ہوا ہے۔ مگر مریض ہر عام آدمی کی طرح زندگی گذار سکتا ہے۔ صرف احتیاط کی ضرورت ہے۔ موت سب کو جلد یا دیر سے آنی ہے۔ احتیاط کرتے ہوئے اپنی زندگی کو گذارا جائے تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور کوئی دوسرا مریض بننے سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے۔
دوسرا:۔ڈاکٹر صاحب، کیا اپنے ساتھی کے ساتھ میں پہلے کی طرح دوستی اور میل جول رکھ سکتا ہوں؟
ڈاکٹر:۔کیوں نہیں... بالکل رکھ سکتے ہو... اور پیارے صرف ایچ آئی وی پازیٹیو کا مطلب ایڈز ہو جانا نہیں ہے جیسا کہ تمھارے ساتھی نے کسی ڈاکٹر کی بات مان کر یقین کر لیا ہے... بلکہ ایڈز کی تشخیص کنفرم (Confirm)کرنے کے لیے HIVکے بعد دوسرے اہم اور مخصوص ٹیسٹ کرنا بھی لازمی ہے جیسے CD4 cell count۔  جہاں تک ساتھ رہنے سہنے کی بات ہے تو ایڈز مریض کو صرف چھونے سے، ایک ہی مکان میں رہنے سے، کھیلنے کودنے سے، ساتھ کھانا کھانے سے، چھینکنے اور کھانسنے سے نہیں پھیلتا بلکہ اس کے پھیلنے کی وجہ خون کے اندر کسی سبب Virus کے براہِ راست داخل ہو جانا ہے۔
ڈراپ سین
پہلا اور دوسر ا:۔(خوش ہو کر تیز آواز میں... یکے بعد دیگرے ایک ایک بات  کہتے ہیں) مطلب ڈاکٹر صاحب احتیاط ہی علاج ہے... استعمال کی ہوئی سیرِنج اور انجکشن سے بچو... کان میں سوراخ کرنے کے لیے ڈسپوزیبل سوئی استعمال کرو... صرف بڑی بلڈ بینک سے لیا ہوا جانچ شدہ خون چڑھواؤ... Tattooبنانے سے بچو... شیونگ ہمیشہ نئے بلیڈ اور ریزر سے کرواؤ...  اور صرف پاکیزہ رشتے قائم کرو... اسی میں تمھاری بھلائی ہے۔
(ڈاکٹر بھی ان دونوں کے ساتھ فرنٹ پر آجاتا ہے)
ڈاکٹر،پہلا اور دوسرا:۔(ایک ساتھ) بالکل ٹھیک!!
(پردہ گرتا ہے)

Tuesday, May 3, 2011

Will Obama?
A question arose from the Water Grave
Will Obama allow the world to expect peace after Osama
گور قلزم سے ابھراایک اورسوال
کیا اسامہ کے بعد اوبامہ اب دنیا والوں کو چین سے جینے دیں گے؟

Monday, May 2, 2011

Herbal Remedies Re-Emerging
کرۂ ارض پر جہاں جہاں بھی انسان آباد ہیں وہاں صدیوں سے جڑی بوٹیوں کے ذریعہ علاج کے طریقے بھی رائج رہے ہیں۔اگلے وقتوں میں مقامی طور پر پائی جانے والی جڑی بوٹیاں ہی مختلف طریقوں سے استعمال کی جاتی تھیں۔ جدید دور میں نظریں اور نظریے بدل گئے ہیں اس لیے اب انھیں روایتی طریقۂ علاج کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے۔ اور جدید رنگ اختیار کرنے والے اسے ’ہربل میڈیسین‘ کہتے ہیں۔
جڑی بوٹیوں کا استعمال ابتدا میں اصلاً مصالحہ (اب مسالہ) کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ یعنی بعض نباتاتی اشیاء کو غذاؤں کی اصلاح اور کھانے کے قابل بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ چونکہ سبزیوں اور ترکاریوں کو کم مضر سمجھا جاتا ہے اسی لیے گوشت کی بہ نسبت ان میں مصالحہ کی مقدار کم ہوا کرتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے انسانی سماج میں علم عام ہونے لگا، تحقیقات ہونے لگیں اور تجربات پھیلنے لگے ویسے ویسے ان جڑی بوٹیوں کے استعمال اور اثرات کا مطالعہ بیماریوں کے خلاف بھی کیا جانے لگا۔ دنیا کے ہر برِّاعظم میں اس کی ایک مستحکم تاریخ موجود ہے۔ہر خطے میں اس کا اپنا ایک نام ہے۔ کہیں مصری ہے کہیں یونانی، کہیں چینی ہے کہیں آیوروید، کہیں عربی وغیرہ۔

ہربل میڈیسین نے بھی جب ترقی کی تو اس میں صرف پودے، جھاڑیاں اور درختوں کے پھول، پھل، پتے اور جڑیں نیز تنے ہی استعمال میں نہیں رہے بلکہ اس چھت کے نیچے کائی، پھپھوند، شہد کی مکھیوں اور حشرات (کیڑوں) کے اجزاء، سمندری مخلوقات جیسے سیپیوں کے خول،جانوروں کے جسم کے مختلف اعضاء و حصے وغیرہ بھی شامل ہوگئیں۔ ان کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی سادہ طور سے سالم استعمال ہوتا ہے تو اکثر انھیں بھگو کر اس کا زلال (دھوون) حاصل کیا جاتا ہے، کبھی اس کے ٹکڑے کر کے یا کوٹ پیس کر اس کا جوشاندہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی کئی طرح کے اجزاء ایک تناسب اور مخصوص وزن میں ملا کر مرکب دوائیں بنائی جاتی ہیں۔ کچھ دواؤں کو جسم کے اوپر خارجی طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو کچھ دواؤں کو بدن کے اندر داخل کر کے استعمال کرتے ہیں۔ کسی کو سرد کر کے استعمال کرتے ہیں تو کسی کو گرم کر کے یا بھاپ بنا کر۔ غرض جو بھی طریقہ فائدہ بخش ہوتا ہے اسی کو اپنا کر ہربل دواؤں کو استعمال کیا جاتا ہے۔
قدرت نے نباتات میں ایسی صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ایسے بہت سے اجزاء اپنے اندر تیار کرتے ہیں اور ذخیرہ کرتے ہیں جو حیوانات کے علاوہ انسانی فائدے کے لیے ہوتی ہیں اور صحت کا پورا دارومدار اُن پر ہوتا ہے۔
ان اجزاء میں نائٹروجن کے مرکبات بے حد اہمیت کے حامل ہیں اور سائنس میں انھیں ’الکلائیڈ‘ Alkaloids کہتے ہیں۔ طب میں انھیں ’جوہرِ موثرہ‘ کے نام سے لکھا جاتا ہے۔ ان کی اکثریت دماغ اور اس کی ساخت و افعال پر اثر کرتی ہے۔ کافی اور دھتورا اور افیون کے الکلائیڈ۔ دوسرا اہم جز ’فینول‘ Phenol پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس سے رنگ بنتے ہیں یا پھر نمی اور رطوبات کو سکھانے والی (مجفف) دوائیں اس سے بنتی ہیں۔ تیسرا جز ٹرپینس Terpenes کہلاتا ہے یہ جز خوشبو اور رنگ پیدا کرتا ہے۔ گلائیکوسائیڈ Glycoside جیسا جز بھی موجود ہوا کرتا ہے جو جسم میں کسی زہر یلے اثر کو زائل کرنے (تریاق) کے استعمال میں آتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ متعدد کیمیائی اجزا ، رس اور رُسوب کا دوائی نباتات (ہربل میڈیسین) میں ایک زبردست اجتماع ہوتا ہے۔
ہربل میڈیسین کی تاریخ بڑی قدیم ہے۔اتنی ہی قدیم جتنی کہ انسانی تاریخ ہے۔ ماضی میں جدید طب اور اس کی تحقیقات کا جب وجود نہیں تھا تو بقائے صحت کا پورا انحصار انھی دواؤں (اور غذاؤں) پر تھا۔ مگر جدید و ترقی یافتہ دور میں ہربل دواؤں کی جانب سے مسلسل چشم پوشی یا انھیں کمتر سمجھنے علاوہ ازیں جنگلات کے اجڑنے اور رفتہ رفتہ ختم ہونے کے نتیجے میں ان کے بیشتر فائدہ بخش پہلو بھی اب تاریکی کی نذر ہو چلے ہیں۔ لاپروائی کے سبب یہ مایہ ناز ورثہ ضائع ہوتا جارہا ہے۔ البتہ ایک روشنی کی کرن یوں نظر آتی ہے کہ جدید طب میں ’اینٹی آکسی ڈنٹس‘ Antioxidants کے عنوان سے بہت سے ایسے نباتاتی اجزاء دوبارہ سامنے آتے جارہے ہیں جن کے تعلق سے تحقیقی لٹریچر پیش کیا جاتا ہے کہ بیشتر قلبی امراض، کینسر اور زودحساسیت (Allergy) و سِن رسیدگی (aging) جیسے امراض و عوارض سے یہ اجزاء انسانوں کو محفوظ رکھنے میں معاون ہیں۔ انھیں علم نباتیات میں ’نباتی کیمیائی مادّے‘ Phytochemicals کہتے ہیں۔ یہ ’فائٹوکیمیکل‘ نباتات کے تمام حصوں میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں؛ پتّے، جڑیں، پھول، بیج، رال اور گوند، چھالیں، تنہ کے اندرونی حصے، جڑوں کی چھالیں، جڑوں کے اندرونی حصے، پھلوں کے چھلکے، بیجوں کے چھلکے؛ غرض کوئی حصہ نہیں بچا رہتا جو دوائی اغراض کے لیے مستعمل نہیں ہوتا۔
اینٹی آکسیڈنٹ کی کھوج اور اس کے کثیر پیمانہ پر استعمال کے ساتھ ہی یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ہربل میڈیسین کے نشاۃ ثانیہ کا اجراء ہوچکا ہے اور وہ دور پھر سے لوٹ رہا ہے جب انسانی امراض کے علاج کے لیے نباتاتی جڑی بوٹیاں نت نئے انداز اور ایک اسٹینڈرڈ کے ساتھ پیش کی جائیں گی۔ کیونکہ خالص ایلوپیتھک دواؤں کے مضر اثرات کی فہرست بڑی طویل ہوتی جارہی ہے اور دنیا کے سامنے اس کا متبادل اسی پرانی اور محفوظ ڈگر کو اختیار کرنے اور اس پر چلنے کے علاوہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ہاں ایک بات لازم ہے کہ پرانی چیز کو پرانی سوچ اور فکر، جس کی بیشتر بنیاد قیاسات و تجربات پر ہے ، کی کسوٹی پر نہیں لاگو کرنا چاہیے بلکہ نئی دنیا میں جیسا کہ جدید (ایلوپیتھک) طب نے ٹکنالوجی کو اپنا کر پوری دنیا کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے ہمیں بھی ٹکنالوجی اور اسٹینڈرڈائزیشن کو ہی پیمانہ بنانا ہوگا۔
بعض جدید محققین نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ نباتاتی ادویہ کو مکمل محفوظ نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان میں اکثر سنکھیا (Arsenic)، پارہ (Mercury) اور سیسہ (Lead) کے اجزا بھی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کے استعمال سے کبھی کبھی طبیعت پر غیرمطلوبہ اثرات بھی پڑتے ہیں اور امراض کی شدت میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ تحقیق کا یہ پہلو اکثر لوگوں کے لیے بہت سے اندیشوںکو جنم دیتا ہے۔ مگر ان محققین کو شاید یہ نہیں پتہ کہ اساتذۂ طب کو بھی اس کا علم رہا ہے کہ دواؤں کے (کئی طرح سے) مضر اثرات بھی ہوتے ہیں اسی لیے وہ ادویہ یا مرکبات کو انھی اثرات سے تحفظ کے لیے (صدیوں سے ہی) اصلاح کے بعد تیار کرتے آئے ہیں جبکہ مذکورہ تحقیقی رپورٹ خام ادویہ کے پیشِ نظر تیار کی گئی ہے۔ اس لیے یہاں نظریات کا ٹکراؤ لازم ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ جدید محققین کو بھی دیانتداری کے ساتھ اور اشتراک کے ساتھ تحقیق کرنی چاہیے۔ طب جدید میں یوں بھی مرضی (Consent) حاصل کرنے کا رواج لازمی قرار دیا گیا ہے۔ یہاں بھی اسے رائج کرنا چاہیے۔ جب یہ ہوجائے گا تو ہربل میڈیسین کے افق پر ایک نیا سورج طلوع ہوگا.