To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, December 27, 2012

Nobody wrestled Modi
The results were obvious, Nothing astonishing

Dr. Rehan Ansari
نریندرمودی نے ہیٹ ٹرک کی، کیا کوئی خاص بات ہوئی؟... گجرات الیکشن میں اس بار بھی بی جے پی کی جیت ہوئی، کیا یہ غیرمتوقع تھی؟... ہرگز نہیں! گجرات کے اسمبلی انتخابی نتائج توقع کے عین مطابق ہی نکلے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ البتہ ہماچل پردیش کے نتائج یقینا کسی قدر حیرت انگیز نکلے۔ جس کے نتیجہ میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ امسال کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو کراری شکست ہوئی ہے۔ گجرات جیتنا بی جے پی کی جیت ہرگز نہیں ہے بلکہ ہماچل ہار جانا بی جے پی کی شکست ہے!
گجرات انتخابات میں کسی نے مقابلہ کیا ہی نہیں تو بھلا ہار جیت کی گفتگو ہی کیوں ہو۔ جس طرح گجرات میں مودی کی جیت ہوئی ہے اسے بی جے پی کی جیت سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جاسکتا، یہ مودیتوا کی جیت ہے، اسی کی مانند گجرات میں کانگریس سمیت سونیا گاندھی، منموہن سنگھ اور راہل گاندھی کی زبردست شکست ہوئی ہے۔



Oh! Congress... High Drama
انتخابات پر اور اس کے نتائج پر ابھی ماہرین کا تبصرہ اور اعدادوشمار کی پیشکش کچھ دنوں تک جاری رہے گی۔ ہم یہاں انتخابی مہم کے دوران کانگریس کے ہیوی ویٹس کی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ کانگریس اور آلِ کانگریس نے شروع سے ہی دفاعی پوزیشن لے رکھی تھی۔ اسے برسرِاقتدار مودی کے خلاف کھلا پرچار کرتے ہوئے کسی دن بھی نہیں دیکھا گیا۔ بلکہ اس کے ہیوی ویٹس کے بیانات مودی کے لیے کسی ٹانک کی مانند ثابت ہوتے رہے۔ مودی نے اپنی پروپیگنڈہ مشینری کا خوب استعمال کیا۔ کانگریسی جغادری تو کچھ اس انداز میں بیانات دیتے تھے جیسے پہلے سے پلاننگ کے تحت مودی کو بغیر تھکے ہارے پلٹ کر وار کرنے کا بندوبست کرنے آئے تھے۔ ایک مضحکہ خیز صورت پیدا ہوچلی تھی۔ کانگریسی ماں بیٹے نے اپنے دورے میں ہر موقع پر یہ خیال رکھا کہ ان کی زبان سے ایسا کوئی جملہ نہ نکلنے پائے جو مودی یا اس کی طرزِحکومت پر حملہ تصور کیا جائے۔ اور اقلیتوں کے نمائندہ وزیرِ اعظم نے تو گجرات کی مٹی پر جانے کے بعد وہاں گذشتہ زائد از دس برس سے اقلیتوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافی کو ’’محسوس‘‘ کیا!... ہائے اس زودپشیماں کا پشیماں ہونا!۔ شرم کا مقام ہے۔ اپنے دورے میں وزیرِاعظم نے اقلیتوں (مسلمانوں پڑھیں) کے علاقوں میں حاضری تو چھوڑئیے وہاں کی سڑک سے گذرجانے میں بھی احتیاط ہی روا رکھی۔ یہاں یہ تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ راجیوگاندھی فاؤنڈیشن ، جس کی سربراہ سونیاگاندھی ہیں، نے ماضی میں (May 2005) مودی برانڈ کو ’’بہترین معاشی منتظم کا راجیوگاندھی قومی ایوارڈ‘‘ بھی دیا ہوا ہے۔ پھر بھلا ایسے ’بہترین منتظم‘ کے خلاف وہ انتخابات میں حصہ کیسے لے سکتے تھے؟ مودی کو ہیٹ ٹرک تو کرنی ہی تھی۔
ریاستی سطح پر دیکھا جائے تو کیشوبھائی پٹیل نے بھی کسی ایشو کے بغیر محض اپنی ’پٹیل برادری‘ کے تحفظات اور حصہ داریوں کی بابت الیکشن میں حصہ لیاتھا۔ اس بات میں ریاست بھر کے عوام کو دلچسپی بھلا کیونکر ہو سکتی تھی۔ وہ گجرات الیکشن نہیں مودی سے نجی لڑائی لڑ رہے تھے۔ انھیں تو کثیر ووٹ ملنے کے امکانات پہلے اعلان کے ساتھ ہی ختم ہوچکے تھے۔ وہ بھی مقابلہ میں نہیں تھے۔ جتنی سیٹیں وہ اسمبلی انتخاب میں جیت کر لائے ہیں اس سے زیادہ مودی کے ساتھ سودے بازی سے مل جاتیں۔ ویسے ہمارا ایک شک یہ بھی ہے کہ وہ درپردہ مودی سے ملے ہوئے ہیں اور مودی کے ہاتھ نہ آنے والے علاقوں میں دوسری پارٹیوں کا اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے ڈمی انداز سے انتخاب میں اترے تھے، یہ بات جلد ہی کھل سکتی ہے اگر وہ دوبارہ سیاسی مفاہمت کے بہانے اپنی پارٹی کو بی جے پی میں ضم کرنے کا ڈرامہ کریں گے۔
غور سے دیکھا جائے تو انتخابات میں اس مثلث کا ایک ہی راس مستحکم تھا اور باقی دونوں راس ’ہرچند کہیں ہے نہیں ہے‘ کے مصداق نظروں سے اوجھل ہی رہتے تھے۔
اس انتخاب کا سب سے کربناک پہلو یہی تھا کہ مسلم اقلیت کو ہر پارٹی نے اچھوت کی مانند نظر انداز کر رکھا تھا۔ مودی کا ترقیات کا ’پاپ سانگ‘ کچھ اتنی تیز آواز میں بجتا رہا کہ بےچارے مظلوم مسلمانوں کی نحیف آواز کا نمائندہ کوئی نہیں بنا۔ (ان ترقیات کے تعلق سے بھی بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے مگر سرِ دست ہمارا موضوع دوسرا ہے)۔ ایسی ترقیات کس کام کی جس میں کسی ریاست کی عوام کا ایک طبقہ محض تحفظِ جان و مال کی ضمانت کو ترستا ہو۔ ریاست میں اس کے حقوقِ جمہوری تو کجا حقوقِ انسانی بھی اسے نہ ملتے ہوں۔ انھیں حقوق دلانے کی بات کرنے والوں کی کھلے عام تذلیل و تضحیک کی جاتی ہو۔ کانگریس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمانوں کے پڑنے والے صد فیصد ووٹ اسی کو مل سکتے ہیں؛ ان کے حقوق کی بازیابی کی بات بھی منہ سے نہیں نکالی۔ کیا اسے جمہوریت کہتے ہیں؟ یہ استفسارِ معترضہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا گجرات واقعی کسی جمہوری عمل سے گذر رہا تھا؟ یا وہاں کسی ڈکٹیٹر کی بازنشینی میں بھرپور تعاون دیا جارہا تھا؟، اس کے لیے راستہ ہموار کیا جارہا تھا۔ کانگریس نے جس بھیگی بلی کی مانند گجرات کی سرزمین پر قدم رکھا اور جگہ جگہ مودی کے مکھوٹے سے ڈرتے ہوئے گجرات کو سرینڈر کردیا ہے، قربان کردیا ہے، اس کا اپنا مہیب سایہ کانگریس کا بہت دور تک پیچھا کرے گا۔ دوسری ریاستوں میں بھی مسلمانوں کی نئی جنریشن اب ہوش کی آنکھیں کھول چکی ہے۔ اسے صرف کانگریس کی ماضی کی کارستانیاں ’ڈھنگ سے‘ سنانے اور بتانے والے افراد کی ضرورت ہے۔ جو یقینا ہمارے درمیان کم ملتے ہیں۔



گجرات انتخابات کے دوران یہ تبصرہ بھی بڑے زوروشور سے ہوتا آیا کہ مودی کا اگلا پڑاؤ نئی دہلی ہوگا۔ ۲۰۱۴؁ء کے پارلیمانی انتخابات میں وہ بی جے پی کے وزیرِ اعظم کے امیدوار ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے اور اﷲ کرے کہ ایسا ہی ہو تو گجرات کے مسلمانوں کو بالواسطہ طور سے مودی اور اس کی اذیتوں سے چھٹکارا ملنے کی سبیل پیدا ہو سکتی ہے۔ مودی کو گجرات کی سرحد سے دور مصروف رہنا لازمی ہوگا۔ منوواد (ہندوتوا) میں یقین رکھنے والی جماعت میں اپنی ذات کی لڑائی لڑنی ہوگی، کیونکہ مودی بنیا ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد بی جے پی کا مرکزی دفتر میڈیا کے اس سوال کا جواب بڑے گول مول انداز سے دے رہا ہے کہ کیا واقعی مودی آئندہ پارلیمانی الیکشن میں مرکزی کردار نبھانے والے ہیں۔ مودی کی ہیٹ ٹرک بی جے پی کے لیے خوشی کا باعث کتنی ہے اس کا اظہار کم ملتا ہے مگر اس کی پیشانی پر تردّد کے آثار بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ ہندوتوا اور مودیتوا ایک ہی سکے کے دو رخ نہیں ہیں بلکہ ان میں بعدالمشرقین پایا جاتا ہے۔ دونوں کی تعریفیں الگ ہیں۔ مودی کی شبیہ پر لگے گجرات فسادات کے داغ دھوئے نہیں دھلتے۔ بی جے پی مرکز میں تنہا پارٹی نہیں ہے بلکہ وہ این ڈی اے کا ایک حصہ ہے اور این ڈی اے کی دوسری پارٹیاں مودی کے ساتھ نمایاں اختلاف رکھتی ہیں۔ یوں مودی خود بی جے پی کے لیے مسئلہ بن چکے ہیں۔ بی جے پی کے لیے وہ گلے کی ہڈی ثابت ہو رہے ہیں اور ہوسکتا ہے وہ اس کی لائبلیٹی (Liability) بھی ثابت ہوں۔
بہرحال گجرات کے اسمبلی نتائج (مودی پڑھیں) پر قومی میڈیا ایک دکاندار کی مانند کچھ دنوں تک خیالات اور آرا کی پُڑیاں بیچے گا جبکہ یہ حیرت انگیز قطعی نہیں ہیں۔ ہاں، اس بیچ بی جے پی کی پریشانیاں مودی کی وجہ سے بڑھ جانے کے امکانات ہیں کیونکہ سنگھ پریوار کسی غیربرہمن کو اپنے شانوں کے برابر اٹھنے دینے کا روادار کبھی نہیں رہا ہے۔