Thank You Letter to M. Aslam Kiratpuri Penned by: Dr. Rehan Ansari On Behalf of: M. Aslam Kiratpuri Felicitation Forum, Mumbai |
آپ نے ممبئی کے بیشتر اردو اخبارات میں خدمات انجام دیں۔ آپ خوشنویس بھی رہے اور تیز نویس بھی۔ ہزاروں صفحات کی کتابت نیز کتابوں اور رسائل کے ٹائٹل ڈیزائن کرچکے ہیں۔
عبدالمجید سالک ؔ صاحب نے ہر چند کہ خطاط الملک تاج زرّیں رقم کی رحلتِ پُراَندوہ پر ایک تعزیتی نوٹ لکھا تھا مگر ہم اسلم صاحب کی تہنیتِ پُرشکوہ کے موقع پر اس کی اک سطر کا حوالہ من و عن دینا پسند کرتے ہیں کہ پیغام میں ایک زبردست ترسیل مخفی ہے۔ ملاحظہ کیجیے: ’’سلاطین کے زمانے میں زیادہ تعجب انگیز نہیں مگر جمہوریت کے اس دور میں جب فن کے قدردان محض لفظی ہمدردی کرتے ہیں خطاط الملک جیسے فنکار کا پیدا ہونا ان کے اپنے فن سے لگاؤ اور محنت کی دلیل ہے‘‘۔
اسلم صاحب کا سب سے زیادہ قابلِ سپاس کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے استادِفن خطاط الہند فیض مجدد لاہوری کا ’مرقعِ فیض‘ ترتیب دے کر مبتدیان اور کاتبین و خوشنویسان کے لیے ایک لاثانی و رہنما کتاب منصہ شہود پر لے آئی جو ہنوز تشنگانِ علم و فن کے لیے ایک مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
The "Sipasnama" image Please click on the image to enlarge |
اسلم صاحب ۱۹۷۴ء میں ’اردو کیلی گرافرز ایسوسی ایشن‘ کے صدر منتخب ہوئے تو اس وقت کاتبوں کے بیشتر مسائل اورالجھنوں کے تعلق سے کئی حل بھی پیش کیے۔ وہ ہر لحاظ سے اس جماعت کو خوشحال دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ اخبارات کو عملۂ کتابت بھی فراہم کرنے کا ذریعہ تھے۔ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈیمی کے قیام کے بعد ایک سہ ماہی جریدہ ’نورس‘ جاری ہوا تو اسلم صاحب کو اس کی کتابت و تزئین کے شعبہ کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس جریدہ کا نام بعد میں ’امکان‘ سے تبدیل ہو گیا۔ وہ جب تک جاری رہا اپنے دور کے لحاظ سے بالکل منفرد اندازِ پیش کش لیے ہوئے تھا۔
گذشتہ بیش از چالیس برسوں سے آپ فنِ کتابت و طباعت سے وابستہ ہیں۔ یہ سننے میں محض ایک معمولی سی بات لگتی ہے؛ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ انقلاباتِ دنیائے طباعت کا وہ زمانہ ہے کہ جس کے ہر دوپانچ برسوں میں ایک نئی تکنیک کی آمد ہوتی رہی اور پرانی تکنیک کباڑ کی نذر کی جاتی رہی تھی۔ان تیزترین تبدیلیوں کے ہم رفتار ممبئی کی دنیائے اردو صحافت نے جس اکلوتے شخص کو مستقل سفرانداز پایا وہ کوئی اور نہیں صرف محمد اسلم کرتپوری ہیں۔ آپ محض کاتب اور خوشنویس ہی نہیں رہے بلکہ اردو اخبارات میں ’صفحہ اوّل‘ نیز ’سینٹر اسپریڈ‘ جیسے صفحات کی تزئین و آرائش (لے آؤٹ ڈیزائننگ) میں بھی ندرت اور زیبائش پیدا کرنے نیز قارئین کے لیے قابلِ توجہ و مرغوب بنانے کی مسلسل کاوشیں کی۔ آپ نے صحافت کے تمام شعبوں میں جدید مشینی تکنیک پر شائع ہونے والے انگریزی اخبارات کے مساوی دستی (Manual) فن پیش کرکے دادِ تحسین پائی۔
رنگین طباعت کے شروع ہوتے ہی ممبئی میں سب سے پہلا اردو چہاررنگی ماہنامہ ’’ہیما‘‘ (۱۹۷۳) دے کر اسلم صاحب نے صرف اخبار نہیں پیش کیا بلکہ یہاں کی اردو دنیا کو حوصلہ و نظر دیا۔اس کے بعد ۱۹۸۶ء میں بھی رنگین ہفت روزہ اخبار ’’الفتح‘‘ کی رسمِ اجراء مشہور پنج ستارہ ہوٹل ’’تاج اِنٹرکانٹی نینٹل‘‘ میں کرواکے یہ پیغام دیا کہ اردو اخبارات کا اجرا بھی باوقار انداز میں کیا جاسکتا ہے اور سب نے دیکھا کہ ابتدا سے ہی ’الفتح‘ اردو دنیا میں ایک ہلچل کا سبب بنا رہا۔
رفتہ رفتہ اردو دنیا کے افق پر بھی کمپیوٹر کی روشنی پھیل گئی۔ اسلم صاحب کی خواہش کے مطابق ان کے شاگرد ڈاکٹر ریحان انصاری نے فیض صاحب کے عکسِ کتابت کو ڈیجیٹل روپ دیا جس کی نوک پلک کو اسلم صاحب نے پورے استقلال کے ساتھ درست کیا۔اسے فونٹ کی صورت میں سید منظر حسن زیدی نے منتقل کیا اور اس فونٹ کو ’فیض نستعلیق‘ سے موسوم کرکے فیض صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
اسلم صاحب خوش خلق ہیں، بردبار و متحمل طبع شخص ہیں، صلحِ کل اور باغ و بہار طبیعت کے مالک ہیں۔ آپ کسی کا بھی تعاون کرنے میں پیچھے نہیں رہتے۔ اسی لیے ان کی بیٹھک کے احوال تو دیکھنے یا سننے سے زیادہ تجربہ لینے سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں ادیب و شاعر، صحافی و فنکار ، سیاستداں، علمی و فلمی ہستیاں اور تمام ہی شعبۂ حیات سے متعلق افراد کی آمدورفت رہا کرتی ہے۔ یہ دروازہ ہر کسی کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ یہ مقبولیت و التفات کی علامت ہے۔
ہمیں اعتراف ہے کہ ممدوح نے ہر موقع و محل پر بہت بڑی خدمات انجام دی ہیں اور آج کمپیوٹر کے ذریعہ ڈیجیٹل طغروں کی تشکیل کا انقلابی کام بھی انجام دیا ہے جو ایک نیا سنگِ میل قائم کرتا ہے۔ اس جشنِ تہنیت پر ہم جملہ احباب و تلمیذانِ اسلم ان کی خدمت میں مبارکباد کے ساتھ ہدیۂ سپاس بھی پیش کرنا چاہتے ہیں۔
’’گرقبول افتد زہے عز و شرف‘‘
منجانب: محمد اسلم کرتپوری فیلی سٹیشن گروپ، ۱۰فروری ۲۰۱۲ء، بروز جمعہ
بمقام: کریمی لائبریری، انجمن اسلام، سی ایس ٹی، ممبئی