To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Tuesday, May 1, 2012

The Pity State Of Imams & Muazzins
Of Our Mosques

Dr. Rehan Ansari
ہمارے ہندوستانی مسلم معاشرے میں اور خصوصاً اردو شاعری میں بھی مسجد کے امام، ملا اور مؤذنین کو نشانے پر ہی رکھا جاتا رہا ہے۔ انھیں طعن و تشنیع سے نوازا گیا ہے۔ دیروحرم کا مضمون باندھ کرانھیں انسانوں میں تقسیم کا ذمہ دار بتایا جاتا ہے۔ ان سے سدا بدظنی ہی منسوب کی گئی ہے۔ انھیں ہمیشہ ایک ایسی علامت بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے کہ کریئرسازی کی مسابقت کے دور میں کوئی بھی صلاحیت مند نوجوان ان مناصب پر متمکن ہونے کی خواہش رکھتا ہوا پورے معاشرہ میں نہیں پایا جاتا۔ چند استثنائی صورتوںسے صرفِ نظر کریں تو معمولی سا آسودہ گھرانہ بھی ا پنے بچوں کو مساجد میں ان کاموں کی ترغیب دینا پسند نہیں کرتا۔ انجام کار مساجد میں ان خدمات پر مامور اکثر افراد شمالی ہند کی ریاستوں اور مدارس سے ’امپورٹیڈ‘ ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے شہر بھیونڈی میں ایک باکمال شاعر و حکیم گذرے ہیں ان کا نامِ نامی تھا ’حکیم عبدالحئی ظریفؔ نظامپوری‘ صاحب؛ انھوں نے اردو کے ساتھ ہی ساتھ اپنی زبان کوکنی میں بھی شاعری کی ہے، آپ کا تنقیدی اور حقیقتِ حالات کا غماز ایک شعر یوں ہے کہ:
کنانچی یانچی مشیدی، کنانچی یانچی نماز؟
تمام بانگی مسافر،   امام باہرچے!
جسے اردو میں کسی قدر یوں لکھا جاسکتا ہے کہ:
کہاں کی اِن کی مساجد، کہاں کے اِن کے امام؟
تمام بانگی(مؤذن)  مسافر،   امام باہر کے!
آج جب ہم سوچنے بیٹھتے ہیں تو یہی چور ہمارے دل میں بھی بسیرا کرتا ہے۔مگر اس فیصلہ میں بھی دانشمندی کا پہلو ملتا ہے۔ مساجد کے ذمہ داران یا ٹرسٹیان وغیرہ سمیت اہلِ محلہ و اہالیانِ شہر تک ان خدامانِ دین و ملت کے ساتھ جیسا رویہ روا رکھتے ہیں وہ عبرت انگیز ہوتا ہے، حوصلہ شکن ہوتا ہے۔ آخر کیا وجوہات ہو سکتی ہیں ان سب باتوں کی؟ آئیے اپنے دامن میں جھانک کر دیکھیں۔
الٰہ العالمین کے حضورمسلمانوں کی صفوف کی رہبری کرنے والے کو یہ اختیار محض جماعت سے نماز کی ادائیگی تک ہی دیا جاتا ہے کہ وہ فرض کی ادائیگی کرکے مناجات پیش کردے۔ دن کی پانچ نمازوں میں یہ وقت زائد از زائد سوا گھنٹے ہوا کرتا ہے۔ جمعہ کے دن دو گھنٹے تک اس کی توسیع کرتے ہیں۔ باقی بچے ہوئے وقت میں امام صاحب کی حیثیت کیا رہتی ہے؟۔ انھی کی مانند مسجد میں حاضری کے وقت کی آگاہی دینے والے خادم یعنی مؤذن کو بھی کیسا مقام ملتا ہے اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ ہم یہاں استثنائی صورتوں سے ایک مرتبہ پھر صرفِ نظر کرتے ہوئے عمومی صورت پر گفتگو کر رہے ہیں۔
مسجد کی تعمیر کئی باتوں اور ضرورتوں کے تحت کی جاتی ہے۔ مسجد اور جائے نماز (مصلیٰ) کے فرق سے بھی ہم سب واقف نہیں ہیں کہ مسجد ایک غیر منقولہ مستقل ملّی ملکیت، عبادت گاہ اور پورا قطعۂ زمین ہے جبکہ جو جگہ یا کمرہ عارضی طور سے بلڈنگوں، ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور محلّوں میں نماز کے لیے مختص یا وقف کیا جاتا ہے اسے مصلیٰ کہتے ہیں جو منہدم بھی کیا جاسکتا ہے اور منتقل بھی۔ اس کی حیثیت مستقل کی نہیں ہے۔ میں نے بظاہر چند غیرمتعلق سطریں لکھی ہیں لیکن مجھے ان کا تعلق زیرِ بحث مسئلے سے نظر آیا ہے۔ چنانچہ عرض ہے کہ مسجد میں امام یا مؤذن کا انتخاب ایک منتخبہ یا متعینہ ٹرسٹ مطلوبہ شرعی شرائط کے ساتھ کرتا ہے جبکہ مصلیٰ کے لیے عموماً جو شخص پابندی کے ساتھ مصلیٰ کو کھولنے اور بند کرنے کے ساتھ ساتھ نماز کی ادائیگی کروا دیا کرے نیز کم سے کم معاوضہ پر راضی ہو جائے،اسے مقرر کردیا جاتا ہے۔ اکثر ایسے فرد کی تلاش بھی کی جاتی ہے جو اذان و امامت دونوں کاموں کو انجام دے سکے۔ اس کے معاوضے کو دوچند کرنے کے لیے بلڈنگ میں رہائش پذیر افراد اپنے بچوں کو ناظرہ قرآن کی تعلیم ایک معقول معاوضہ پر طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے کھانے پینے کا معاملہ بھی اکثر مل جل کر گھروں سے باری کا ٹفن (ٹگارا) مہیا کروا کے حل کر دیتے ہیں۔ ’اندھا کیا چاہے دو آنکھ‘ کے مصداق انھیں ایسا بنگالی یا بہاری ’ملازم‘ مل ہی جاتا ہے جو کمالِ ہوشیاری کے ساتھ پوری بلڈنگ کو خوش رکھا کرتا ہے۔ ان کے کئی چھوٹے موٹے کام بھی مناسب محنتانہ کے عوض انجام دے کر ’اوورٹائم‘ کما لیتا ہے۔
اب آئیے دوسری جانب۔ مساجد میں امام و مؤذن کو منتخب کرنے کے پیمانے اور شرائط پر عمل کرنے کے بعد جنھیں منتخب کیا جاتا ہے ان کے ساتھ ہمیں کس رویہ کا مشاہدہ ہوتا ہے اور کن مسائل سے ہم انھیں دوچار دیکھتے ہیں۔
اکثر ائمۂ کرام کے متعلق ٹرسٹی حضرات کسی زرخرید غلام کی مانند برتاؤ کرتے ہیں۔ مسجد کا فنڈ تو چندے کے ذریعہ جمع ہوتا ہے مگر ٹرسٹی حضرات محسوس کرتے ہیں گویا امام کی تنخواہ وہ اپنی جیب سے ادا کررہے ہیں اس لیے امام صاحب کو ان کی ہر جا و بے جا بات سننی اور ماننی چاہیے۔ ذرا چوں و چرا کی تو امامت سے برخاست کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ بشری تقاضوں یا کمزوریوں اور مجبوریوں کے سبب جماعت میں ایک یا چند منٹ کی تاخیر ہوجائے تو اس پر ان کا پارہ اتنا چڑھ جاتا ہے کہ تشدد پر بھی اتر آتے ہیں۔ امام کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ مسلکی و فروعی معاملات میں امام یا مؤذن جتنی خاموشی  اختیار کرے (علمی طور پرگونگا اور بہرہ بن جائے) اتنااس کے حق میں اچھا ہوتا ہے۔


جہاں تک تنخواہ کا معاملہ ہے تو وہ ایسی ہوتی ہے کہ دوسرا کوئی پوچھے تو امام صاحب شرم کے مارے بتانا گوارا نہیں کرتے؛ عار محسوس کرتے ہیں یا بات کو دوسری جانب گھما دیتے ہیں۔حالانکہ ٹرسٹی حضرات معیاری تنخواہ دینا چاہیں تو یہ ان کے لیے ممکن بھی ہے اور اس سے ان کی اپنی عزتِ نفس کی حفاظت بھی ہوگی۔
مؤذنین کے ساتھ یہ رویہ مزید افسوسناک ہوتا ہے۔ انھیں مسجد کی خدمت کے نام پر تمام اضافی ذمہ داریاں بھی انجام دینی پڑتی ہیں۔ پانی کا انتظام، جھاڑو اور صاف صفائی، تمام لائٹ پنکھوں اور دیگر الیکٹرک و الیکٹرانی آلات کی دیکھ ریکھ کے ساتھ ہی ساتھ طہارت خانے کی صفائی کی ڈیوٹی بھی انھیں انجام دینی پڑتی ہے اور تنخواہ امام سے کسی قدر کم ہی رکھی جاتی ہے!
کچھ مقامات پر ائمہ و مؤذنین سے ایک کام اور کروایا جاتا ہے کہ محلہ محلہ گھوم کر چندے کی رسیدیں کٹوائیں اور اس طرح مسجد کے غلہ کے لیے رقم جمع کریں۔
اکثر دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ امام و مؤذن کو دنیاوی معاملات اور کاموں خصوصاً کاروبار و دیگر روزگار میں لوگ مشغول اور ترقی کرتے ہوئے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ وہ اسے خلافِ تقویٰ خیال کرتے ہیں۔ جس کے سبب امام و مؤذن معاشی و اقتصادی بدحالی کا شکار ملتے ہیں۔ چالاک امام و مؤذن اس کا راستہ دعا تعویذ اور جھاڑپھونک و عملیات میں تلاش کرکے آسودہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسجد کے ٹرسٹیوں اور عوام میں بھی اکثر کا خیال ایسا رہتا ہے کہ امام و مؤذن مسجد کی حدود و رقبہ سے باہر کی دنیا میں رہنے کی قطعی کوشش نہ کریں، عوام سے بھی (بے تکلف) رابطہ میں نہ رہیں، مسجدومحراب کے علاوہ کہیں نشست و برخاست نہ کریں، یہ سارے عمل کسی متقی انسان کے نہیں ہیں! جو امام و مؤذن ان کاموں میں خود کو ملوث کرتا ہے وہ طرح طرح کے الزامات سہتا ہے اور لوگ اس سے بدظن ہوجاتے ہیں۔
جن مساجد میں فل ٹائم امامت اور خدمت کے لیے تقرری کی جاتی ہے ان میں بیشتر کی داستان یوں ہے کہ ’رہنے کا کمرہ‘ کے نام پر ایک تنگ سی نیم روشن کوٹھری کا اہتمام کیا جاتا ہے جس کی چھت اکثر پہلے منزلے پر جانے والے زینے کی ہوتی ہے اس لیے ترچھی رہتی ہے۔ اس کی چوڑائی زینے کی چوڑائی کے مطابق ہوتی ہے۔ لمبائی اور اونچائی  کا بیان پیمائشوں کو شرماتا ہے۔ ہوا کا گذر صرف دروازہ کھلا رکھنے پر ہی ہو سکتا ہے۔ اب بھلا ایسی ٹھسی ٹھسائی کوٹھری میں روزوشب بسر کرنے والا انسان ذہنی و جسمانی آرام و آسودگی کیسے حاصل کرسکے گا؟ ان کوٹھریوں کا دروازہ بھی مسجد کے آنگن میں کھلا کرتا ہے۔ اس لیے کوئی شادی شدہ امام اور مؤذن اپنے بال بچوں کو تو اس میں آباد کرنے سے رہا۔ اس طرح ٹرسٹی حضرات اور ذمہ داران اس پر ’تجرّد‘  temporary Asceticismتھوپتے ہیں، وقتی رہبانیت، وہ اپنی نفسانی خواہشات کے ساتھ کتنے عرصہ تک صلح کرسکتا ہے؟۔ ٹرسٹی حضرات کو ان خدامان کی آمدورفت کے لیے علیحدہ دروازے والی یا کسی دوسری عمارت میں معقول رہائش کا انتظام کرنا انسانی ہی نہیں دینی ذمہ داری بنتی ہے، جہاں وہ اپنے بال بچوں کے ساتھ رہ سکیں۔ وگرنہ ایک امام یا مؤذن ہی نہیں اس کی بیوی کی بھی نفسانی خواہشات کو گناہوں کی جانب پھیرنے اور اس خادم کے بال بچوں کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت میں خلل انداز ہونے کا الزام ٹرسٹی حضرات کے ہی سر جائے گا۔
محرومی کا شکار ان افراد یعنی ائمہ و مؤذنین کا بھی اس میں کچھ قصور ضرور ہے۔ اچھے برے سبھی اس ناانصافی کا شکار ہیں۔ داستان طویل ہے لیکن مشہور ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہاں گیہوں میں گھن زیادہ پڑ گئے ہیں۔ ائمہ و مؤذنین اپنے علم یا علمی حیثیت کو بچا کررکھتے ہیں۔ وہ اسے عام کرنے کی جانب سے تغافل برتتے ہیں یا اپنا مزاج سماج سے غیرآمیز رکھتے ہیں۔ لوگوں کے روزانہ کے معاملات و مسائل کے دینی حل کو پیش کرنے میں چوک جاتے ہیں۔ باحوالہ دوٹوک دینی رہنمائی کرنے کی جگہ چہرہ دیکھ کر مصلحت اپناتے ہیں۔ شادی بیاہ اور موت مٹی یا تیوہاروں کے موقع پر بھی وہ اکثر غلط یا غیراسلامی امور کی ادائیگی سے منع نہیں کرتے۔ جمعہ اور عیدین یا رمضان کے ایام میں کچھ دینی خطابات ضرور کیے جاتے ہیں لیکن ان میں مسلکی اور مکتبی تنگ نظری حاوی رہتی ہے۔ دین کو جانے کتنے خانوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ مسلم سماج کی باطنی اصلاح کا کام اتنے خلوص و استقلال کے ساتھ انجام نہیں دیا جاتا جتنا ظاہری شناخت کو مخصوص کرنے پر دیا جاتا ہے۔ ساغرؔ خیامی نے اس پر طنز کا جو تیر تاکا ہے وہ یوں ہے کہ:

محشر میں پہنچے شیخ تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
 اس طرح جو مسجد اسلامی معاشرت کی داغ بیل ڈالنے کا ذریعہ بن سکتی ہے وہ محض فرض نمازوں کی ادائیگی اور نکاح خوانی یا قرآن خوانی سے زیادہ کسی اور استعمال میں خال خال ہی آتی ہے۔ اس میں ہم سبھی کا اجتماعی قصور ہے۔