To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, September 3, 2011

Hair: Escalates Your Personality
Dr. Rehan Ansari
بال ایسی شئے ہے جو تمام جانداروں میں صرف ممالیوں (دودھ پلانے والوں) کے جسم پر پایا جاتا ہے۔ یہ جلد کی بیرونی سطح سے نکلنے والی ریشہ دار ساخت ہے۔ جوڑ دار پیروں والے کیڑوں وغیرہ میں بھی ایسے ساختیں جسم سے باہر نکلتی ہیں مگر انھیں بال نہیں کہا جاتا کیونکہ ان کی بناوٹ دوسری قسم کی ہوتی ہے۔ انسان کے علاوہ دیگر تمام چوپایوں اور ممالیوں کے جسم کے بال کے لیے ایک مشترک اصطلاح ’’فر‘‘ Fur استعمال کی جاتی ہے۔جیسے بندر، گلہری، گھوڑا، ریچھ، بلی، کتا، چوہے، کنگارو وغیرہ کے فر ہوتے ہیں۔
فیشن پرستی کے اس دور میں بیوٹی پارلر اور ہیئرڈریسنگ کے پیشے سے وابستہ افراد کو جس مخصوص حصۂ بدن سے سب سے زیادہ رغبت ہے، وہ بال ہے۔ بال کے زیب و زینت کے جتن پر صدیوں سے بے حساب دولت خرچ ہوتی آئی ہے۔اور اب تو کچھ سِوا ہو رہی ہے۔ پوری دنیا میں کروڑوں روپوں کے خرچ سے فیکٹریوں میں بالوں کی دیدہ زیبی اور کنڈیشننگ کے لیے سامان تیار کیے جاتے ہیں کیونکہ بالوں کا تعلق بالکل شخصی (انفرادی) ہے۔ یہ شخصیت کو باوقار اور بارعب بنانے میں بڑے مددگار ہیں۔ مگر بال حقیقتاً جاندار جسم کا ایک بے جان لیکن مفید حصہ ہے۔ویسے تو یہ کھال کا ایک حصہ ہے مگر آئیے ہم آج اس کی بھی کھال اتارنے کی کوشش کریں۔ مضمون ہٰذا میں ہم اس کی ساخت اور کیفیتوں کے بارے میں گفتگو کریں گے اور اس کے بعد والے مضمون میں بال کی چند عام مگر پریشان کن بیماریوں کا تذکرہ کریں گے۔
دوطرح کے بال:
ہمارے جسم پر دو طرح کے بال ہوتے ہیں۔٭روویں: Vellus Hair یہ باریک، ہلکی رنگت کے ہوتے ہیں اور ہاتھ پیر کے پنجوں کے علاوہ تقریباً پورے جسم پر موجود ہوتے ہیں۔ ٭مکمل بال: Terminal Hair یہ گھنے اور گہرے رنگ کے ہوتے ہیں۔سر، چہرہ، شرمگاہ، بغل اور جوارح (بازوؤں اور پیروں) پر موجود ہوتے ہیں۔
بال اور پسینے کے غدود ہمارے جسم کے سب سے بڑے عضو جِلد کے ذیلی اعضاء ہیں۔ یہ جلد کی بیرونی سطح (Epidermis) میں پائے جاتے ہیں۔بال کے ساتھ ہی ملحق ہوتے ہیں غددِ دُہنیہ (Sebaceous Glands) جن سے ایک روغنی مادّہ خارج ہوتا رہتا ہے۔ جلد کی ملائمت، چمک نیز دیدہ زیبی اسی روغنی مادّہ کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ادبی زبان میں اسے ’جلد کا نمک‘ کہا جاتا ہے۔ بال جلد کی بیرونی تہہ میں موجود نلکی نما گہرائی والی ساخت سے باہر آتا ہے۔ اسے کیسہ (Follicle)کہتے ہیں۔ غددِ دہنیہ اور کیسے کی سطح جلد کی بیرونی تہہ کے ساتھ مسلسل ہوتی ہے جبکہ ان کی اندرونی سطح کو جلد کی بیرونی تہہ کی نچلی سطح سے گوشت کا ایک معمولی سا لچھّا جوڑتا ہے، جسے Arrector pili کہتے ہیں۔ سردی لگنے یا شدید جذبات اور خوف کے عالم میں عصبی تحریکات کے زیرِ اثر گوشت کے یہ لچھّے بالوں اور روؤں کو کھڑا کر دیتے ہیں۔


Hair Structure
Cross Section

Courtesy: Wikipedia
ساخت اور نمو:
٭ساختی اعتبار سے بال دراصل بے جان خلیات پر مشتمل ہوتا ہے جسے کیریٹین (Keratin)کہتے ہیں۔ یہ ایک سخت اور ریشہ دار پروٹین مادّہ ہے۔جسے آپ جلد کی بیرونی سطح (موٹی چمڑی)، بال، ناخن، درندوں اور پرندوں کے پنجوں، چوپایوں کے سینگ اور کھر وغیرہ میں آسانی کے ساتھ مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ٭بال کی جڑوں میں جس جگہ ان کی نمو کا عمل انجام پاتا ہے وہ حصہ جاندار ہوتا ہے۔اسے Hair Bulb کہتے ہیں۔یہیں سے بال کچھ دور تک بڑھتے ہیں اور پھر کریٹین شدہ (Keratinise)ہو جاتے ہیں۔ ان کے خلیات ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح چسپاں رہتے ہیں کہ انھیں علیٰحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ ٭بال کی ساخت میں بیرونی قشر (Cortex)میں خلیات چھوٹے اور مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ جبکہ اندرونی حصہ مغز (Medulla)قدرے لمبے، بڑے اور نسبتاً ڈھیلے خلیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کے درمیان اکثر خالی جگہیں بھی پائی جاتی ہیں۔ ٭بالوں کو اُگانے والے سبھی کیسے (Follicles) پیدائش کے وقت ہی مستحکم ہو چکے ہوتے ہیں، بعد میں کوئی نیا کیسہ نہیں بنتا۔ ٭تولید سے قبل بچے کے جسم پر انتہائی باریک، بے رنگ اور نرم روویں ہوتے ہیں جنھیں Lanugoکہتے ہیں۔یہ پیدائش سے پہلے ساتویں یا آٹھویں ماہ میں رحمِ مادرمیں ہی جھڑ جاتے ہیں۔نومولود کے سر پر نرم و نازک بال اور ہاتھ اور پیروں کے پنجوں کے علاوہ پورے بدن پر روویں پائے جاتے ہیں۔ ٭چہرے، بغل اور شرمگاہ کے بال بلوغت کی عمر میں براہِ راست جنسی ہارمون کے زیرِ اثر بڑھتے ہیں۔ اس وقت یہ ہارمون سر اور بازوؤں وغیرہ کے بالوں پر بھی اثر کرتے ہیں۔ ٭پیدائشی طور پر جنسی معذور یا خصی کردہ افراد میں مذکورہ مقامات پر بال نظر نہیں آتے۔ حتیٰ کہ انھیں ہارمون کے انجکشن دینے کے بعد ہی وہاں بال ظاہر ہوتے ہیں۔ ٭اسی طرح یہ بات کہ زیادہ بالوں کی موجودگی جنسی ہارمون کی زیادتی کا مظہر ہے؛ سائنسی تحقیقات سے صحیح ثابت نہیں ہوئی ہے۔ ٭بالوں کا پیٹرن، رنگ، پھیلاؤ اور تقسیم وغیرہ (مرد و زن میں) موروثی طور پر متعین ہوتے ہیں۔ ٭بال کی جڑیں جلد کے نیچے پائی جانے والی چربی کی تہہ کے اوپری حصہ میں ہوتی ہے اور ان میں خون اور اعصاب کی سپلائی ہوتی ہے۔ ٭بال کی نمو تقریباً۱۲ملی میٹر فی ماہ کی رفتار سے ہوتی ہے۔ ٭بھنوؤں ، بازوؤں اور بدن کے دیگر حصوں کے بال تقریباً ہر چھ ماہ کے وقفے تک بڑھتے ہیں، پھر ان کی نمو رک جاتی ہے اور دوبارہ چھ ماہ بعد یہ نموپذیر ہوتے ہیں۔نمو کے رک جانے کے وقفے کو حالتِ وقوف (Resting Phase) کہتے ہیں۔ ٭سر کے بالوں میں دس فیصد بال ہمیشہ وقوف کی حالت میں پائے جاتے ہیں۔اس حالت میں رہنے والے بال بہت آسانی کے ساتھ جڑ سے اکھیڑے جاسکتے ہیں۔یہی بال کنگھی کرنے یا نہانے کے وقت جھڑا کرتے ہیں۔جبکہ نمو کی حالت میں رہنے والے بال اکھیڑنے پر دردناک ہوتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ ایسے افراد جن میں بالوں کی نمو کا وقفہ حالتِ وقوف کے مقابلے میں چھوٹا ہوتا ہے وہ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بال بہت جھڑتے ہیں۔ ٭جب تک جھڑنے اور نئے بال نکلنے کا دور مسلسل جاری رہتا ہے تب تک گنجا پن نہیں ہوتا۔ ٭پچاس سے سو بالوں کا ہر روز جھڑ جانا ایک معمول ہے۔ ٭ہر بال کی اوسط عمر تین تا چھ سال ہے۔اس کے بعد وہ جھڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ نیا بال اُگتا ہے۔ ٭چند اہم حالات میں بھی بال اکثر تیزی کے ساتھ جھڑنے لگتے ہیں۔ جیسے نفاس (بچے کی پیدائش کے بعد)، بہت تیز بخار یا بڑا آپریشن، کوئی کہنہ مرض، خون کو پتلا بنانے والی دوائیں Anticoagulants استعمال کرنا اور لمبے عرصہ تک شدید ذہنی تناؤ کے حالات۔


Baldness And Greying of Hair
گنجا پن:
بشمول گنجا پن کے آئندہ مضمون میں ہم مزید بیماریوں اور حالتوں پر تحریر کریں گے لیکن یہاں ضمنی طور پر کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہوئے اس مضمون میں بھی کچھ سطریں لکھتے ہیں۔
مردوں میں اکثر بلوغت کے بعد کی عمر میں سر کے کچھ Hair folliclesانحطاط کا شکار ہو جاتے ہیں اور صرف مختصر اور باریک سے بال اگانے کی صلاحیت ان میں رہ جاتی ہے۔ اس صورت کو گنجا پن کہتے ہیں۔ یہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بڑھتا بھی ہے۔ اس کی اصل موروثی ہوتی ہے اور مذکر ہارمون کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔
بال سفید ہونا:
بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بال کا سفید ہونا بھی ایک عام حالت ہے۔ بالوں کو رنگ دینے کا ذمہ دار ایک رنگین مائینہ (پِگمینٹ) ہوتا ہے جسے ’مِلانِن‘ Melanin کہتے ہیں۔ملانن براؤن سے سیاہ رنگ تک متغیر ہوتا ہے اور جلد میں موجود مخصوص خلیات مِلانوسائٹس Melanocytes میں ایک پیچیدہ کیمیائی عمل کے نتیجہ میں تیار ہوتا ہے۔ جب یہی کیمیائی عمل سست پڑ جاتا ہے تو رفتہ رفتہ بالوں میں موجود ملانن ختم ہو جاتا ہے اور بال سفیدی مائل ہو جاتے ہیں۔ملانن بالوں کو رنگین کرنے کا ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ یہ ایک حفاظتی جزو ہے۔ سورج کی الٹراوائلٹ (ماورائے بنفشی) شعاعوں کو جذب کر کے اس کے نقصاندہ اثرات سے جسم اور جلد کو محفوظ رکھتے ہیں۔ عمر کے لحاظ سے بالوں کا سفید ہونا اکثر موروثی خصوصیات کے سبب ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر معاون عوامل میں مسلسل ذہنی تناؤ، قلبی امراض، ہائپرتھائرائیڈزم اور دیگر پیچیدہ امراض شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے مشاہدے میں یہ بات اکثر آئی ہے کہ شہر میں رہنے والوں کے بال دیہاتوں کی آبادی کے مقابلے میں کچھ جلد سفید ہونے لگتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید مندرجہ بالا عوامل کے علاوہ نلوں میں سپلائی ہونے والا کلورین پاشیدہ (Chlorinated) پانی ہے۔ جس میں شامل کلورین گیس رنگ کاٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یاد رکھنے اور آئندہ بحث کے نکات:
٭بالوں کا معاملہ بالکل انفرادی ہے ٭ جسم پر بال دو قسم کے ہوتے ہیں؛ روویں اور پختہ بال ٭بال جلد کی بیرونی تہہ میں ہوتے ہیں، ان کے ساتھ غددِ دُہنیہ ملحق ہوتے ہیں جن سے روغنی مادہ خارج ہوتا ہے۔ ٭بال بے جان خلیات پر مشتمل پروٹین (کیریٹین) ہے۔ ٭بالوں کو اگانے والے سبھی folliclesپیدائش کے وقت ہی مستحکم ہو جاتے ہیں اور بعد میں نئے folliclesنہیں پیدا ہوتے۔ ٭بلوغت کی عمر میں بال جنسی ہارمون کے زیرِ اثر بڑھتے ہیں۔ ٭بالوں کا پیٹرن، رنگ، پھیلاؤ، تقسیم وغیرہ موروثی طور پر متعین ہوتے ہیں۔ ٭سر کے بالوں میں دس فیصد بال ہمیشہ وقوف کی حالت میں ہوتے ہیں اور طبعی طور سے یہی جھڑا کرتے ہیں۔ ٭بالوں کی رنگت کا ذمہ دار ایک رنگین جزو ہے جسے مِلانِن کہتے ہیں۔

Monday, August 29, 2011

Eid and Sorrows are Poles Apart Things
Dr. Rehan Ansari
 ہمارا مشرقی (تہذیبی) معاشرہ حدود کی انتہائیوں کے لیے خاصہ معروف ہے۔ یہ حدود کبھی اتنی وسیع ہوجاتی ہیں کہ خلائے بسیط کی پہنائیوں میں مدغم ہو جاتی ہیں اور کبھی اتنی سمٹ جاتی ہیں کہ سوئی کا ناکہ لگنے لگتی ہیں۔ انسانی جذباتی معاملات اور تعلقات اس کا خاص شعبہ ہیں۔ انھی حدود کا شکار اکثر ہماری عید بھی ملی ہے۔
بچپن سے ہم سب ایک عجیب و غریب رواج کو دیکھتے چلے آرہے ہیں۔کسی کے گھر میں میت ہو جاتی ہے تو عزیز و اقربا ہی نہیں دور و نزدیک والے بھی اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ اپنے عزیز کے انتقال والے برس کی ان کی عید پر صدمات کا ڈونگرہ برسا کرے۔ وہ مسکینی صورت اور اداس کیفیت میں مبتلا رہیں۔ لوگ ان سے اس لیے ملنے لازماً جائیں کہ وہ اپنے مرحوم عزیز کی یاد کرے اور خوشیاں اس کے نام کرکے خود اُداس رہے۔ چاہت و محبت کا یہ کون سا پیمانہ ہے؟... یہ ضرور ہے کہ اس پر ہماری خلط ملط ہندوستانی تہذیب کا اثر ہے۔ برادرانِ وطن کے مختلف مذہبی و تہذیبی اثرات سے یقینا ہم سب نسلاً در نسل متاثر رہے ہیں اور یہ طریقہ بھی وہیں سے درآمدہ ہے.
یقینا ہماری یہ بات چیں بہ جبیں کرنے والی ہے۔ غصہ دلانے والی ہے۔ خون کھولانے والی ہے... کیونکہ ہم مشرقی ہیں...  مگر رفیقو!  ایک بات ضرور ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ ہم عید کیا اپنی مرضی سے مناتے ہیں؟... یا کسی کے حکم کی تعمیل میں اسے مناتے ہیں؟ اگر بات دوسری ہے تو اسے منانے میں ہم اپنی مرضی کیوں تھوپتے ہیں؟ جس انداز سے منانے کا حکم دیا گیا ہے اس سے روگردانی کرکے ہم کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ زیادہ محبت ہمیں کس سے ہے؟ اپنے مرحوم رشتہ دار سے یا آقائے دوجہاں حضرت محمد مصطفےٰ ؐ سے؟
حضورِاکرم ؐ  نے واضح طور پر جو احکام عیدین منانے کے دیئے ہیں ان میں کسی بھی زاویے سے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اگر ہمارا کوئی عزیز و رشتہ دار انتقال کرجائے تو اس برس ہمیں عید منانے کا انداز بدل دینا چاہیے۔ اور کتنی پیاری اور سادہ سی ہدایات دی گئی ہیں۔ غسل کریں، مقدور بھر اچھے یا نئے کپڑے پہن لیں، دوگانہ نمازِ شکرانہ واجب ادا کریں، اور پھر ’’خوشیاں‘‘ منانے کے علاوہ دیگر ’احکام کی پابندی‘ میں دن گذاریں گے۔
خوشیاں منانے کے لیے بھی ہر (جغرافیائی و انسانی) قبیلے کی مروجہ رسوم و رواج کو روا رکھا گیا ہے (تاآنکہ وہ مشرکانہ نہ ہوں اور حدودِ اخلاق کو لانگتی نہ ہوں)۔ مگر کسی بھی جگہ اس بات کا مذکور نہیں ہے کہ کسی کے انتقال پر ان خوشیوں کو غم اور ماتم میں تبدیل کردیا جائے!
عیدالفطر کو اﷲ کی جانب سے انعام کہا گیا ہے اور عیدالاضحی کو ہم سب کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار بنایا گیا ہے۔ ان دونوں دنوں میں کرنے کے سبھی کام بتا دیئے گئے ہیں اور سبھی احکام خوشیاں منانے سے معنون ہیں۔ اب ہم خود اس سے گریز کریں اور اعراض برتیں تو ان احکام کی عدولی کا ذمہ دار ہم کسے قرار دیں گے؟... مگر ہماری یہ تفصیلی بات شاید سبھی کو تلخ تر معلوم ہوگی ... کیونکہ ہم سب مشرقی ہیں!
ہماری عید کی خوشیوں پر تازہ ترین حملے تو سیاسی حضرات کی جانب سے ہونے لگے ہیں۔ کہیں مسلم کش فساد ہوا تو عید سادہ منائیں، کہیں مسلمانوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی ہیں تو عید سادہ منائیں... وغیرہ وغیرہ... حضور سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ ہندوستان میں کبھی رکے گا بھی؟ جنابِ والا ہمیں تو ہر حال میں عید کو سادہ ہی منانے کا حکم دیا گیا ہے۔ کہیں بھی تعلیم میں یہ نہیں ہے کہ اپنی عیدین دھوم دھام اور شور و شغب کے ساتھ منایا جائے،  عیش کوشی کی جائے،فضول خرچیاں کی جائیں، اپنی تونگری کا مظاہرہ کیا جائے، مقابلے کروا کر انعامی رقوم کا لالچ دیا جائے اور اس لالچ میں افراد کی جانیں تک لے لی جائیں، معاشی طور پر کمزوروں کا منہ چڑایا جائے... یہ بھی برادرانِ مشرق کا وطیرہ ہے۔ ہمیں تو از ابتدا تا انتہا یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تک غریب اور کمزور افراد و طبقات کو خوشیوں میں شامل نہیں کرلیتے؛ عید کا منانا مکمل نہیں ہوسکتا اور بارگاہِ الہ العالمین میں عبادات کی قبولیت معلق رہ جائے گی۔ اب ایسی واضح ہدایات کے بعد بھلا کوئی کیسے غمخواری اور ہمدردی کے بغیر خوشیاں منا سکتا ہے؟... اس غمخواری اور ہمدردی میں تو عید کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے اور اصلی خوشی نصیب ہوتی ہے۔
آئیے ہم سب رمضان کی ان وداع لیتی ہوئی گھڑیوں میں اپنا محاسبہ کریں، مغفرت کے طلبگار ہوں، ہمدردی کریں، غمخواری کریں، ’’خوشیاں‘‘ تقسیم کریں اور ہر حال میں حکمِ ربانی اور حکمِ نبوی کا لحاظ رکھیں.