Why the harmed will respect Bal Thackeray Dr. Rehan Ansari |
ان کی موت پر ہونے والا بند (میڈیا کی زبانی چلّا کر) صرف کہنے سے رضاکارانہ تھا یا اصل میں برائے خوف و اندیشہ تھا، اس کی حقیقت افشا کرنے کا گناہ فیس بک پر کرنے والی دو عورتوں کو جس انداز میں سزا کا موجب ٹھہرایا گیا اور ایک کے چچا کے اسپتال کو جو نقصان پہنچایا گیا وہ اس بات کا غماز ہے کہ ’’پرانی عادتیں مشکل سے ہی چھوٹتی ہیں‘‘ اور اس عادت کو ڈالنے والا کون ہے اسے بیان کرنے کی شاید کوئی ضرورت نہیں ہے۔عقلمند را اشارہ کافی است۔
یہاں سوال ہمارا ریاستی حکومت سے ہے جو پوری طرح شہ دینے کی سازش میں ملوث معلوم ہوتی ہے۔ وہ شیوسینکوں کے جذبات کو کیش کرنا چاہتی ہے تبھی تو بال ٹھاکرے کے انتم سنسکار کو بھی شیواجی پارک جیسے عوامی مقام پر انجام دینے کی خصوصی اجازت کا پرویژن تلاش کرنے پر ایڈمنسٹریشن کو لگا دیا جس نے محض کچھ گھنٹوں میں انگلی رکھ کر حکومت کو بتلا دیا اور پولیس کے ذریعہ یہ کام آسان کروا لیا۔ ہمیں کسی بھی خبر نامہ میں یہ نہیں نظر آیا کہ اس کی اجازت طلب کرنے والا اصلی شخص کون تھا؟ حکومت ہی کیا ایک عام آدمی بھی یہ جانتا تھا کہ اب کل کے روز اسی جگہ پر ’بال ٹھاکرے میموریل‘ کی تعمیر کرنے کا مطالبہ شیوسینک ضرور کریں گے۔
شیواجی پارک پر میموریل کے قیام کے لیے بھی وہ دبی زبان سے ’ہاں‘ کہتی دکھائی دے رہی ہے۔ جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ اس جگہ میموریل کے قیام سے دہائیوں اور صدیوں تک تنازعہ کا ایک بیج بھی بو دیا جائے گا۔
بال ٹھاکرے کی چتا پر آخری رسوم میں حکومت کے ذریعہ قومی اعزاز کی شمولیت بھی استفسار طلب ہے کہ جو شخص زندگی بھر اعلانیہ جمہوریت کا مذاق اڑاتا رہا ہے، اور ہٹلرشاہی یا تانا شاہی کا علمبردار رہا ہے، وہ راتوں رات خادمِ ملک و قوم کا اعزاز کیسے حاصل کرلیتا ہے؟ جس نے زندگی بھر ترنگے کی جگہ بھگوا جھنڈے کو پسند کیا تھا ،اس لیڈر کی نعش کو بھگوا پرچم میں ہی لپیٹنے کے لیے کسی معتقد نے مطالبہ کیوں نہیں کیا؟
ہم محسوس کرتے ہیں کہ شاہین ڈھوڈھا کا معاملہ گرما کر حکومت شیوسینکوں کو اکسا نے اوردوسروں کو (شیوسینکوں کی زبان اور ہاتھ سے) دھمکانے کا کام کررہی ہے کہ کسی نے اس میموریل کی تنصیب و تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے یا بننے کی کوشش کی تو اس کی اور اس کے جملہ متعلقین کی خیر نہیں ہوگی! وگرنہ کیا معنی ہیں کہ حکومت آزادئ اظہار رائے پر حملہ کرنے والوں اور جسمانی و مالی نقصان پہنچانے والوں کو اچانک غائب بھی کردیتی ہے۔
ہم بال ٹھاکرے کے معتقدین کے جذبات کا احترام کرتے ہیں۔ کچھ دہائیوں تک بال ٹھاکرے کی مہاراشٹر کے بے تاج بادشاہ یا ریموٹ کنٹرول رہنے کی حیثیت کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی تسلیم کرنے والی بات ہے کہ دنیا میں اس شخصی یا روحانی درجہ یا تقدیس کو پانے والی وہ تنہا شخصیت تو تھے نہیں۔ اور بھی محترم شخصیات زندہ بھی رہی ہیں اور مرتی بھی رہی ہیں۔مگر کسی کے احترام و عقیدت کو اپنالینا یہ شخصی انتخاب ہے۔ ہم بھی چاہیں گے کہ شیوسینکوں کی خواہش یعنی میموریل کی تعمیر و تنصیب ہو، ہو، ضرور ہو، اور اس بارے میں ہمارا تو مشورہ ہے کہ بال ٹھاکرے نے جہاں اپنی زندگی کے اہم ترین شب و روز گذارے ہیں یعنی ’ماتوشری بنگلے‘ میں یا کلانگر (باندرہ) میں ہی ان کا میموریل قائم کرکے انھیں صحیح خراجِ عقیدت پیش کیا جائے۔ وگرنہ عوامی مقامات پر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اب میموریل کی تعمیر یا مقبروں اور سمادھیوں کی تعمیر کا ایک مضبوط حوالہ ہاتھ آجائے گا اور ہندوستان میں جگہ جگہ صرف میموریل ہی رہ جائیں گے اور زندہ لوگوں کے لیے ہمیشہ نئے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔