To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, February 7, 2013

The Side Effect of being a lady IAS officer
and other News of today

Dr. Rehan Ansari
آج کے مختلف اخبارات میں مندرجہ بالا تین خبریں شائع ہوئی ہیں۔ سرخیاں اور متن معمولی طور سے الگ الگ ہیں۔ ہم نے یہاں ممبئی سے شائع ہونے والے روزناموں ’اردوٹائمز‘ اور مراٹھی ’سامنا‘ کے عکس مع متن پیش کیے ہیں۔ اور ان پر اپنی خیال آرائی!
٭پہلی خبر (یواین آئی کے حوالے سے) کا تعلق ایک ریاستی وزیر کے تعلق سے ہے جس نے اپنی ریاست کی ایک لیڈی آئی اے ایس افسر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) کی عوامی جلسے میں بنام پذیرائی ایسی تعریف کیا جو غیرڈپارٹمنٹل ہی نہیں اسے جنسی لذت خیزی Sexist سے تعبیر کیا جائے گا۔

Click the photo to enlarge to read
ہمیں  یاد آیا کہ ہم ایک بچی کے تعلیمی مستقبل کے تعلق سے فکرمندی لے کر ممبئی میں ماہرِ تعلیم جناب مبارک کاپڑی صاحب سے رجوع کیا تھا اور یہ عندیہ ظاہر کیا تھا کہ بچی کو تعلیمی جلسے اٹینڈ کرتے ہوئے آئی اے ایس افسر یا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننے کی خواہش ہے اور وہ اس کے لیے ایلی جیبل eligible بھی ہے، تو انھوں نے یہ راز کھولا تھا کہ کسی بھی بچی اور خصوصاً مسلم بچی کے لیے یہ دونوں جگہیں ایسی ہیں جو پروفیشنل لائف میں مردوں کی اکثریت والی دنیا ہے۔ اس میں مسلسل خطرات رہیں گے۔ اس لیے اہلیت رکھنے والی طالبات کے لیے اور بھی میدان ہیں ان پر توجہ مرکوز کریں۔ آج کی خبر پڑھنے کے بعد عبرت بھی ہوئی اور جانے کتنے غیرمنکشف کونوں سے کئی چیخیں عدم تحفظ کی ہمارے کانوں سے ٹکرائیں! ہمیں ڈی ایم بھاگیہ لکشمی (یا کیپشن کے مطابق دھن لکشمی) کے بھاگ سے ہمدردی بھی ہے اور ان کے لیے حفاظت کی دعا دل سے نکلتی ہے۔
٭ دوسری خبر کو غیر اردوداں اخبارات نے بڑے طعنہ باز انداز میں شائع کیا ہے۔ 
Click the photo to enlarge to read
یعنی مرکزی وزیرِ داخلہ سشیل کمار شندے نے اپنے جے پور والے ’بھگوا دہشت واد‘ والے بیان سے ’یوٹرن‘ لیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی رنگ نہیں ہوتا!... کیا نئی بات کہی ہے؟!... جب مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے تو اسے مراٹھی میں ’ہیروا دہشت واد‘ (بہ معنی گرین ٹیررِزم) مسلم ٹیرر اور اسلاموفوبیا جیسے جانے کتنے نئے اور پرانے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے اور مسلمان وضاحت کرتے ہیں کہ دہشت اور دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے تو یہی عناصر اسے نظر انداز کرتے رہتے ہیں ... سُنی اَن سنی کرتے ہیں... خیر، ہمیں پوری امید ہے کہ اس عادت کو یہ اب بھی نہیں چھوڑیں گے... لیکن، ہمیں جو فکر لگی ہے وہ یہ کہ مہاراشٹر ہو یا ملک کی کوئی اور ریاست ہو یا مرکز ہی ہو، جب بھی بھگواوادیوں کی دہشت کے خلاف کسی وزیرِ داخلہ نے کوئی بیان دیا ہے تو اس کے بعد ناقابلِ تردید ثبوت پیش کرنا اور اقدام تو دور کی بات ہے وہ ایسے بزدل ثابت ہوا کیے ہیں کہ اپنا بیان واپس لینے میں ہی عافیت جانی ہے۔ ہمیں کوئی بہادر ریاستی یا مرکزی وزیرِ داخلہ کیوں نصیب نہیں ہوتا؟ ایسے مقتدر عہدہ پر متمکن ہونے کے بعد کسی بھی شخص کو اس عہدہ کی رسوائی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ جبکہ سشیل کمار شندے نے اپنے جے پور والے بیان میں واضح طور سے ثبوت اور رپورٹ کی تحویلی کی بات کی تھی اور ان کے بعد داخلہ سکریٹری نے بھی اس کی توثیق کی تھی۔ لیکن آج کی خبر سے تو محسوس ہوا کہ مرکزی وزیرِ داخلہ کو سادھوؤں سے ڈر کر برسرِ اقتدار جماعت نے ہی ’دماغ کاجلاب‘ دیا ہے تاکہ وہ سیاسی گنگا میں اشنان کرلیں۔
٭ تیسری اور تشویشناک خبر یہ کہ مہاراشٹر پبلک سروس کمیشن (MPSC) امتحانات کے پرچے حکومت اردو اور ہندی میں شائع نہ کرے۔

Click the photo to enlarge to read
ہمیں کمل ہاسن کی نئی فلم پر احتجاج کے تعلق سے ان کے مشہور کردہ اختراعی جملے Cultural Terrorism میں کسی قدر ترمیم کے ساتھ کہنے دیجیے کہ ’ایم پی ایس سی کے لیے اردو/ہندی پرچہ‘ کے خلاف مہاراشٹر میں شیوسینا نے ’’ایجوکیشنل ٹیررِزم‘‘ Educational Terrorism پھیلا دیا ہے اور اس کے ایم پی سنجے راؤت سمیت نومنتخبہ شیوسینا چیف اُدھوٹھاکرے نے حکومت کو انتباہ دیا ہے کہ ’اردو/ہندی میں MPSC کے پرچے ہرگز نہ نکالے، کیونکہ اس سے مراٹھی طلبہ کا نقصان ہوگا!... شیوسینا نے اسی خبر میں یہ دھمکی بھی دی ہے کہ بصورتِ دیگر نتائج کی ذمہ دار ریاستی حکومت ہوگی۔ہمیں آغاحشرکاشمیری کا وہ مشہور مکالمہ یاد آگیا ’’تمہاراخون خون ہے، ہمارا خون پانی!‘‘۔
٭ایک خبر یہ بھی ہے کہ کل ہند سطح پر ہونے والے ’پری میڈیکل امتحان: نیٹ‘ NEET کے پرچے سی بی ایس ای بورڈ اردو زبان میں شائع نہیں کرے گا۔ یہ ملک کی ایک سرکاری زبان ہی نہیں بلکہ ملک کی (ملک گیر) ’اکلوتی اصلی زبان‘ کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ مانا کہ اس کی حالت ملک گیر سطح پر اردووالوں نے ہی خراب کی ہے مگر ابھی مہاراشٹر سمیت دیگر کئی ریاستوں میں اردومیڈیم سے طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ خود مہاراشٹر میں ایک سو اڑسٹھ 168 جونیر کالج اردو میڈیم کے جاری ہیں۔ اس کے خلاف احتجاج نما دفتری درخواست کی تحریک چلی ہوئی ہے۔ ہم بھی اس تحریک کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔