To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Wednesday, October 12, 2011

We Salute Your Justice Your Honour
Justice Markandey Katju and PCI

Dr. Rehan Ansari
دہلی بم دھماکوں (7th Sept 2011) کے بعد اپنی کہنہ عادت کے مطابق قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا National Media نے شک کی سوئی کو نام نہاد اور جعلی مسلم تنظیم کی جانب موڑنے کی ناپاک سازش کی تھی۔ اﷲ کا شکر ہے کہ ان کو منہ کی کھانی پڑی۔جان لیوا اور نقصاندہ بم دھماکے پہلے بھی ہرلحاظ سے قابلِ مذمت تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ ہمیں بہت افسوس ہے کہ ان کی تحقیق ابھی تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی ہے۔


The 'Urdu-Dareecha' image
of 8th Sept. 2011
قومی میڈیا کی نعزش پر ’اردودریچہ‘ کے میڈیم سے ہم نے فوری احتجاج اور ردّعمل ظاہر کرکے ’پریس کونسل آف انڈیا‘ Press Council of India : PCI کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی؛ (دیکھیے اردودریچہ، 8th Sept، جمعرات کی پوسٹنگ)۔ ہمیں بیحد مسرت ہوئی جب آج (12th October) کے ’انقلاب‘ (ممبئی اور دیگر ایڈیشن) ، راشٹریہ سہارا اردو، صحافت جیسے موقر روزناموں میں یو این آئی کی جانب سے جاری کردہ ریلیز دیکھی۔ پریس کونسل آف انڈیا کے صدر محترم جسٹس مارکنڈے کاٹجو Justice Markandey Katju کا بیان پڑھا اور انھوں نے اقدام کرتے ہوئے تمام میڈیا کے ذمہ داران کو شرم کا احساس دلاتے ہوئے تنبیہ کی کہ آئندہ ایسے حالات و معاملات میں سنسنی خیزی اور الزام تراشی سے احتیاط برتیں۔


The responsible
Urdu Media
carried the message
of today 12th October
محترم جسٹس کاٹجو صاحب! آج آپ کے بیان سے ہمارا خون منوں بڑھ گیا ہے، آپ سے اسے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ آپ ہی جیسے مہان لوگ ہندوستان کے سیکولر فیبرک کی آبرو ہیں، بھارت ماتا کے سر کا آنچل سجانے کے قابل آپ جیسے ہی لوگ ہیں۔ آپ لوگوں کو بصد خلوص سلام و احترام ۔
لیکن ایک بات کھٹکی ضرور...!
کھٹکی یہ بات کہ پریس کونسل آف انڈیا کی گرفت اخباروں اور میڈیا پر ہوتی ہے ، وہی اصول و ہدایات مرتب کیے جاتے ہیں... اس کے صدر کی اتنی اہم اور ہندوستان کے سیکولر امیج کا تحفظ کرنے والی اس بات کو قومی میڈیا نے کیسے یکسر نظر انداز کر دیا!
آج ہم نے صبح کو ہی بیشتر غیر اردو اخبارات اور خصوصیت کے ساتھ انگریزی اخبارات میں مذکورہ خبر و بیان تلاش کرنے کی سعی کی۔ آدھ گھنٹے سے زیادہ کی ورق گردانی کے باوجود ہمیں بہت افسوس ہوا کہ پریس کونسل آف انڈیا کے صدر کی پریس کانفرنس؛ جس میں رپورٹ کے مطابق درجنوں اخبارات کے مدیر اور ٹی وی چینلوں کے ذمہ داران موجود تھے، کی روداد شائع کرنے سے احتراز کیا (بلکہ اعتراض کیا، شاید؟)۔ خیر۔ بقول ’جس کا درد ہے وہی محسوس کرتا ہے‘ کے مصداق اردو اخبارات نے پورے اعزاز و اکرام و اہتمام کے ساتھ محترم جسٹس کاٹجو کی گفتگو کو شایع کیا۔
انگریزی و دیگر لسانی میڈیا میں جسٹس کاٹجو کا بیان شائع نہ کرنے اور ٹی وی والوں کی بھی سنی ان سنی کرنے کی عادت کی مصلحتیں وہی جانیں؛ ہمیں تو محسوس ہوا کہ انھیں محض اپنی لنگوٹی بچا کر بھاگنے میں ہی عافیت نظر آئی۔ پھر بھی ہمیں یقین ہے کہ پریس کونسل آف انڈیا اپنے محترم صدر کے بیان اور اپیل کو پوری قوت اور اثرانگیزی کے ساتھ زیرِ عمل لائے گی۔ ایک بار پھر شکریہ۔ ’کہیں سے روشنی لاؤ بہت اندھیرا ہے‘۔ جاگتے رہیے۔ جے ہند.

Tuesday, October 11, 2011

We are very thankful to you Jagjit
Dr. Rehan Ansari

غزل کو اِک نیا آہنگ دے کر چل دیا جگجیت

غزل ہے منتظر کوئی ملے پھر اُن کے جیسا میت

شکریہ جگجیت بیحد شکریہ جگجیت!
کل (۱۰اکتوبر کو) جگجیت سنگھ کی موت کی خبر آئی۔ یوں تو برصغیر کی پوری سنگیت برادری میں ایک سوگ کی کیفیت چھا گئی؛ لیکن غزل گائیکی کے مداحان کو یقینا درست محسوس ہوا کہ ایک دور کا خاتمہ ہوگیا۔ کیونکہ ایک طویل فہرستِ مغنّیان میں صرف جگجیت سنگھ ہی ایک نام ایسا رہ گیا تھا جس کی حرارت مارکیٹ میں کم نہیں ہوئی تھی۔
موت کی خبر پھیلتے ہی صحافتی حلقوں میں روایتی طور پر سوگواری سرگرمی شروع ہوگئی۔ عوام و خواص سے ان کے تاثرات جاننے کا سلسلہ جاری کیا گیا۔ انھیں جگجیت کا کون سا نغمہ یا غزل سب سے زیادہ پسند ہے اس کی معلومات جمع کی جانے لگی۔ جبکہ یہی میڈیا جگجیت کے ۲۳ستمبر کو برین ہیمریج کے بعد اسپتال میں داخلے کی خبر تو دی لیکن اس کے بعد ایک دن سے زیادہ فالواَپ شاید ہی کسی نے کیا۔ ان کی صحت کا بلیٹن حاصل کرنے کے لیے لیلاوتی اسپتال میں صحافیوں کی بھیڑ نہیں لگی کسی دن!۔ دو ہفتوں سے زیادہ اسپتال میں گذرے مگر ان کی صحت کے تعلق سے ہمارے میڈیا میں سناٹا رہا۔ خیر ہمیں اس کا کوئی قلق اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے یہاں میڈیا کی ترجیحات اور اس کی اخلاقیات بالکل تبدیل ہو چکی ہیں۔
البتہ ہم سوچنے لگے کہ یہی میڈیا جب ہم سے سوال کرتا کہ جگجیت سنگھ کے اس نغمہ کی نشاندہی کریں جس نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر اور راغب کیا تو ہمارا جواب ہوگا کہ ایک ایسا نغمہ جس میں جگجیت سنگھ کی آواز تو نہیں ہے مگر میوزک کمپوزیشن انہی کا ہے اور ہمارا بچپن سے مرغوب نغمہ ہے علامہ اقبال کی تحریرکردہ ’بچے کی دعا‘ یعنی ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘۔ وگرنہ جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی ہزاروں غزلوں اور سیکڑوں نغموں میں ریٹنگ کرکے انھیں مرتب کرنے میں ہم شاید انصاف نہیں کرسکیں گے۔ ہم جگجیت سنگھ کی زندگی میں بھی ان کے شکرگذار تھے اور موت کے بعد بھی ان کا شکریہ اداکرتے ہیں کہ انھوں نے ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ کی کمپوزیشن کرکے اس نغمہ کو اردوداں حلقوں سے بھی دور دوسری زبان والوں میں بھی مقبول ترین نغمہ بنا دیا۔ یہیں ہم ہندوستانی تنظیم برائے طفلاں CRY (چائلڈ رائٹس اینڈ یو) کے بھی شکرگذار ہیں کہ اس نے اس نغمہ کو اپنے اشتہاری و امدادی آڈیو پروگرام کے لیے منتخب کیا تھا اور سیزا روئے (Siza Roy) نے اپنی متاثرکن آواز میں پیش کیا۔ ایک مرتبہ ممبئی کے نہروسینٹر کے پروگرام میں گرین روم میں جگجیت سے ملاقات ہوئی تھی تو یہی بات ہم نے ان سے بھی کی تھی اور انھوں نے ہمیں مسکراکر شاباشی بھی دی تھی۔
جگجیت سنگھ میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ ان سے دل کو ایک سلسلہ سا لگتا ہے؟ جب ہم نے خود کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ صرف ’اردو‘ ہی ایک ایسی شئے ہے جو اس قربت کا احساس دلاتی ہے۔ جگجیت سنگھ نے یوں تو موسیقی کی دنیا میں رہ کر گیت، نغمے، بھجن اور دوسری ہندوستانی زبانوں میں بھی اپنا فن پیش کیا مگر ان کی موت کے بعد خبر کے ساتھ ہر زبان میں یہی لکھا ملا ’غزل گایک جگجیت سنگھ‘ گذر گئے۔ اور دنیا میں کون نہیں جانتا کہ غزل کو جب ہندوستانی جانب منسوب کیا جاتا ہے تو یہ صرف اردو زبان کی دین ہے۔
جگجیت سنگھ نے تقریباً تین دہائیوں تک غزل کے حوالے سے اپنا فن پیش کیا اور ایک ایسے دورمیں پیش کیا جب ہندوستان میں ہندوستانی موسیقی کا دورِ ابتلا تھا، مغربی موسیقی نوجوان نسلوں کو اپنے جال میں اسیر کر چکی تھی۔ پھر غزل گائیکی کی دنیا پر پاکستانی فنکاران مہدی حسن اور غلام علی صاحبان کا اجارہ تسلیم کیا جاتا تھا۔ ہندوستان میں بھی کئی نام غزل گائیکی کے لیے مارکیٹ میں چلائے گئے مگر بین الاقوامی طور سے ان کا چراغ پاکستانی فنکاران کے سامنے نہیں جل سکا۔ اس بھیڑ میں جگجیت سنگھ نے نئی نسل کے تبدیل ہوتے رجحان کو بھی پرکھا اورمغربی ساز اور انداز کو ہندوستانی موسیقی سے ہم آہنگ کر کے ایک نئی راہ نکالی۔ مارکیٹنگ کے بدلتے ٹرینڈ کو بھی دیکھا اور بالکل کمرشیل سطح سے اس مہذب صنف یعنی غزل کو مارکیٹ میں یوں لائے کہ اردو تو اردووالے غیر اردوداں طبقہ بھی گیسوئے غزل میں آسودگی محسوس کرنے لگا۔ آڈیوکیسٹوں کو ڈولبی اسٹیریو اور خوبصورت ڈیجیٹل افیکٹ کے ساتھ پیش کرکے ہر طبقے کے نوجوانوں کو لیلائے غزل کی محبت میں گرفتار کروا دیا۔ جگجیت سنگھ نے یہ نئے طور اپنا کر اپنی شناخت ہی نہیں شخصیت کو بھی مستحکم کر دیا۔ اگر مہدی حسن اور غلام علی کو پاکستان میں شہنشاہانِ غزل کہا گیا تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں تھا بالکل ویسے ہی کہ ہندوستانی لہجہ میں جگجیت سنگھ کو ’غزل سمراٹ‘ کہا جاتا رہا ہے۔ معاف کیجیے گا ہم یہاں کوئی موازنہ اور تقابل کرنے نہیں بیٹھے ہیں بلکہ صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ان سبھی کی عزت و ناموس کا پیرہن غزل نے تیار کیا ہے جو اردو زبان کی مہربان ترین صنف ہے۔
جگجیت سنگھ کے تعلق سے یہ بات بھی کافی مشہور ہے کہ وہ دیگر فنکاروں کی مانند صرف فن پروری نہیں کرتے یعنی گلے سے نہیں بلکہ وہ ’دل سے‘ گاتے تھے۔ اس کا ثبوت ہم یوں دے سکتے ہیں کہ ان کی کمپوز کی ہوئی غزلوں اور نغموں کے اندر جو موسیقی بھری جاتی تھی وہ ایک نفسیاتی ٹچ رکھتی تھی۔ بالکل دل میں اترجانے والے غزل کے خوبصورت شعر کی مانند۔ مثالیں بہت ہیں۔ آپ بھی کسی غزل کو سنیں اور خود پرکھیں۔ یہاں ہم دو مثالیں ایسی ضرور دیں گے جو ہماری بات کی تائید کریں گی اور اتفاق سے ان دونوں میں جگجیت کی اپنی آواز نہیں ہے۔ ایک تو محولہ بالا دعا ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ اور دوسرا گیت ’لکڑی کی کاٹھی، کاٹھی پہ گھوڑا...‘۔ جب جب یہ نغمے فضا میں پھیلتے ہیں تو ہر سننے والا خود کو ان میں جذب Involve محسوس کرتا ہے۔ شکریہ جگجیت بیحد شکریہ جگجیت.
جگجیت سنگھ نے جب غزلوں کی مارکیٹ میں قدم رکھا تھا تو ایک اور رجحان پنپنے لگا تھا؛ یعنی ڈوئیٹ غزل کا۔ غزل گائیکوں کی جوڑی کا۔ جگجیت سنگھ کی اہلیہ چترا سنگھ ان کے لیے بہترین پارٹنر سنگر ثابت ہوئیں۔ ایک طویل دور تک دونوں کی جوڑی جمی رہی۔ ان کی نقالی میں اور جوڑیاں بھی بنیں لیکن از خود ٹوٹتی بھی رہیں یا محض کاروباری معاہدوں تک جاری رہیں۔ جگجیت اور چترا کی جوڑی کو بھی غزل کے شائقین نے ’دل سے‘ ہی قبول کیا۔ یہ جوڑی ٹوٹی نہیں بلکہ موقوف ہوگئی ان کے بیٹے وویک کی سانحاتی موت کے بعد۔ چترا سنگھ کنارہ کش ہو گئیں۔ مگر جب تک انھوں نے جگجیت کے ساتھ گایا تو ان کی غزلیں درونِ خانہ بھی انہماک حاصل کرتی تھیں۔ وہ دور ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی گلف کے روزگار میں رغبت کا دور بھی تھا۔ پردیس کے موضوع پر دل کی باتیں کہنے اور سننے والوں کو جگجیت کی گائی ہوئی غزلوں سے زیادہ کسی دوسرے وسیلے کی ضرورت نہیں تھی۔پردہ کا پردہ ہوتا تھا اور بات کی بات۔ جگجیت سنگھ نے ہر کلام کو اس کے وقار اور تہذیب کی شناخت کے بعد ہی منتخب کیا۔ پھوہڑ اور بازاری انداز کے کلام کو کبھی انھوں نے گھاس نہیں ڈالی۔ انھوں نے اردو کے کلاسیکی ادب سے بھی کلام منتخب کیے اور تازہ لہجہ کی جدید شاعری کو بھی اٹھایا۔ وہ لفظ و شعر سے بہت شناسا تھے۔ کلام کی گہرائی و گیرائی ہی نہیں اس کی اپیل کا دائرہ بھی جانتے تھے۔ اسی سبب انھیں وہ آڈینس ملی جو سماج کے ہر طبقہ میں موجود ہے۔ ایک معمولی سا کام کرنے والا عام شخص ہو یا کسی مسند اعلیٰ پر براجمان کوئی وی وی آئی پی۔ موسیقی کے تعلق سے بالکل کورا فرد ہو یا سنگیت کا کوئی گیانی ہو۔ جگجیت سنگھ اپنے میدان میں سب کی اوّلین پسند بنتے گئے۔ جگجیت سنگھ نے پیچیدہ سے پیچیدہ راگ کو بالکل سلیس انداز سے گاکر کچھ یوںپیش کیا کہ عام لوگوں کو انھیں گنگنانے کی عادت سی ہوگئی تھی۔ ان کی آواز میں گرج تھی لیکن اس پر حلاوت حاوی تھی۔ ان کی غزلیں خلوت اور جلوت دونوں میں یکساں مزہ دیتی ہیں۔ ایسا کم ہی مغنیوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے.