To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Friday, May 13, 2011

Health & Urban Life
انسان کی معاشرتی و تہذیبی زندگی سدا سے دو اہم حصوں میں منقسم رہی ہے۔ ایک دیہی اور دوسری شہری۔ دیہی زندگی محدود جغرافیہ، محدود مسائل، محدود وسائل، محدود معاملات اور محدود معمولات سے عبارت رہتی ہے۔ اس کے برعکس شہری زندگی میں حرکت و برکت کا ایک بے پایاں اور بے قابو سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ دیہی زندگی ویسے توسادہ نظر آتی ہے لیکن اس میں پیچیدگی زیادہ ہوا کرتی ہے۔ تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے اور اکثر اوقات ان کے حصول کے لیے دیگر جگہوں کا سفر ناگزیر ہوا کرتا ہے جو دیہاتیوں کے لیے اپنے آپ میں خود ایک پیچیدگی ہے۔ دوسری جانب شہری زندگی میں سہولیات اور آسانیاں کہا جا سکتا ہے کہ محض ایک ہاتھ کے فاصلے پر مل جاتی ہیں۔
شہر کی بے کیف اور سڑکوں یا مشینوں پر بھاگتی دوڑتی زندگی کا اپنا ماحول بے حد سادہ سا ہے۔ بظاہر یہ تجزیہ بڑا اَٹ پٹا سا لگتا ہے لیکن شہر میں (فرداً فرداً) سبھی کے شب و روز یکساں سے ہیں، معمولات دن میں شاید ہی کبھی تبدیل ہوتے ہیں، منٹ اور گھنٹے کی مخصوص و متناسب تقسیم کاموں پر حاوی رہتی ہے۔ دن کے چوبیسوں گھنٹے الگ الگ عوامی طبقات میں جدا جدا انداز سے تقسیم ہوتے ہیں۔ جب کام کے اوقات جنھیں Duty hours کہتے ہیں سے لوگ فارغ ہوتے ہیں تو اپنے لیے سوچنا شروع کرتے ہیں؛ اپنے اہل و عیال کے لیے سوچنا شروع کرتے ہیں۔ بھاگتی دوڑتی زندگی کا یہ سلسلہ مشینوں کی ایجادواستعمال سے قبل کم کم تھا۔ یعنی ایک یا دو صدیوں پہلے لوگ گاؤں کے کسی قدر پرلطف، دیدہ زیب، خوشنما و خوش آواز چرند و پرند کے درمیان پرسکون ماحول میں گذارا کر لیتے تھے۔ مرغ کی بانگ یا چھتوں کی دراز میں چڑیوں کے گھونسلوں سے چہچہاہٹ اور پائیں باغ میں شاخوں پر چہکنے والے پرندوں کی موسیقی ریز آواز پر صبح خیزی ہوتی تھی۔مسجدوں سے اذان، معبدوں اور مندروں کی گھنٹیوں کی آواز سے نغمگی و سرور پھوٹتا تھا، اور مویشی بھی اپنی اپنی آواز کے ساتھ سب کو قریب بلاتے تھے۔ شہری زندگی میں یہ سب ناپید ہے۔
آدمی ترقی کرتا گیا۔ گاؤں چھوٹتا گیا۔ شہر بستا گیا۔ ترقیات کا بنیادی محرک ہے جسم و دماغ کے افعال کا خوبصورت آہنگ اور تال میل۔ سائنس نے اس تال میل کو زندگی دی اور نتیجہ کے طور پر آج زیادہ تر انسان شہروں میں بستے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے اس کی زندگی کو پُرآسائش اور پُرسہولت ضرور بنا دیا مگر ساتھ ہی اس کے لیے نئے مسائل بھی پیدا ہوئے۔ہمیں دونوں پہلوؤں پر غور کرنا ہے۔
ہمارا جسم اصل میں مجموعہ ہے اعضا اور نفس (روح) کا۔ اعضا پر روح کا عمل (کنٹرول) ہوتا ہے تو مختلف نظام کام کرتے ہیں۔ جیسے نظامِ اعصاب، دورانِ خون، تنفس، ہاضمہ اور اخراج کے نظام۔ ان سب کا اعتدال پر قائم رہنا ہی اچھی صحت کا ضامن ہے۔ اس اعتدال کی برقراری کے لیے جسم کی تین بنیادی ضروریات ہیں۔ ہوا پانی اور غذا۔ یہاں ایک مفکر کا قول نقل کرنے کا جی ہو رہا ہے: ’’صحتمند سماج کسی بھی ملک کی اصل دولت ہے۔‘‘ سماج کی صحت بہت سے پہلو رکھتی ہے مگر ہم یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ سب سے بڑا اور اوّلین پہلو عوام کی جسمانی صحت ہی ہوگا۔

Lifestyle has too much to affect the lives
زندگی روز نئے رنگ دکھاتی کیوں ہے
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ دنیا کی بیشتر آبادی اب شہروں میں بستی ہے اور اس کے تمدنی تقاضوں کی بنیاد پر ہوا، پانی اور غذا کو وافر اور معیاری طور سے مہیا ہونا چاہیے۔ سچ پوچھیں تو انھی تینوں یعنی ہوا، پانی اور غذا کے تلوث، آلودگی اور عدم اعتدال سے انسانی صحت بگڑتی ہے۔ جسم کے مختلف نظام گڑبڑی کا شکار ہوتے ہیں، اور انجام کار نفس یعنی روح بھی متاثر ہوتی ہے۔ ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ ان تینوں کا تعلق آپ پر اختصار کے ساتھ واضح کردیں۔ تاکہ جسمِ انسان پر طرح طرح کے امراض اور لاچاریاں کس طرح حملہ کرتی ہیں اس کا اظہار آسان ہو جائے۔
ابتدا میں شہری زندگی کے مسائل بیشمار تھے۔ آبادی کے لحاظ سے پانی اور غذا کی وافر فراہمی اور حصول مشکل تھا۔ تازہ غذائی اجناس صرف موسموں میں ملتی تھیں۔ گندے اور استعمال شدہ پانی کا نکاس کئی صدیوں تک ایک مسئلہ بنا رہا تھا۔ سائنس اور مشینوں کے جدید دور میں یہ تمام معاملات بخوبی حل کر لیے گئے ہیں۔ ان کے سبب ذرائع حمل و نقل میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں، عوام کی غذائی عادات و اطوار تبدیل ہوئے ہیں، اب غذائی اجناس سال بھر دستیاب رہتی ہیں۔ گندے پانی کے نکاس کا نظام تکنیکی طور پر بیحد اطمینان بخش ہو چکا ہے۔ اس کے سبب ہونے والے صحت کے خطرات کم سے کم ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب چند ایسے عوارض بڑھ گئے ہیں جنھیں بیماریاں نہیں ’’لاچاریاں‘‘ کہنا چاہیے ؛ مگر لائف اسٹائل ڈسیزز (Lifestyle Diseases) کے نام سے ان کی جماعت بندی کی گئی ہے۔ ان میں ذیابیطس، دل کے امراض، ہائی بلڈپریشر، ذہنی تناؤ (Stress) ، آنکھوں کی تکان یا Computer Eye Syndrome  جیسے مستقل عوارض شامل ہیں۔
شہری ماحول میں کام کاج کا انداز کچھ ایسا ہے کہ انفرادی کام کا زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ کسی بھی فرد کی مجموعی قابلیت و صلاحیت کے استعمال کی بجائے اس سے بندھا ٹکا کام عادت کے بطور لیا جاتا ہے اور بالکل مشینی انداز میں صبح سے شام کی جاتی ہے۔ وقت کی سخت پابندی کے ساتھ۔ جبکہ مجموعی صلاحیتوں کا استعمال صبر اور انتظار کا متقاضی ہوتا ہے۔ اس عادتانہ کام کے انداز کے سبب آدمی اپنے بدن کے بعض اعضا کو کام کے پورے وقت استعمال بھی نہیں کرپاتا۔ مثلاً مسلسل کئی گھنٹے بیٹھ کر کام کرنے والے کا پیر استعمال میں نہیں آتا۔ ایک ہی جسمانی پوزیشن میں رہ کر کام کرنے والے جسم کے دوسرے جوڑوں کی حرکت خاطرخواہ نہیں ہوپاتی۔ اس کے برعکس کوئی مخصوص عضو ضرورت سے زیادہ حرکت کرتا ہے۔ یہ سب بے اعتدالی ہے۔ امراض کا پیش خیمہ ہے۔ آنکھوں اور اعصاب کو تھکانے والے کام کی بہتات ہے۔ ذہن کی تکان اور عضلات کے کم استعمال کی وجہ سے آدمی ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ دیہاتی زندگی کے کام کی صورتیں پورے جسم کو متوازن طور پر متحرک رکھتی ہیں جبکہ نئے دور کے آدمی کو اصلی کام شروع کرنے سے بہت پہلے سے ہی ذہنی تناؤ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ یوں کہ گھر سے آفس کو روانہ ہونے کے لیے راستے بھر کی دشواریاں، ہمسفروں کی تلخیاں، بھیڑ بھاڑ کی کوفت، بار بار گھڑی میں وقت دیکھنا، یہ ایسی چھوٹی چھوٹی الجھنیں ہیں جو کام کے شروع ہونے سے قبل ہی اس کے دماغ میں گھر کرتی ہیں۔
عجیب و غریب قسم کا مشینی شور بھی ہر جگہ اور ہر لحظہ موجود ہے۔ آپ ان سے کسی طرح بھی بچ نہیں سکتے۔ حتیٰ کہ سونے کے بعد بھی یہ آپ کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ راستوں پر دندناتی گاڑیوں کا شور، الیکٹرانک مشینوں (ٹی وی، کمپیوٹر وغیرہ) کا شور، دوسری مشینوں کا شور، اشتہاری میڈیا کے ذریعہ تو ایسی ایسی صورتیں اور آوازیں پیدا کی جاتی ہیں کہ جن کا تصور بھی عام زندگی میں ممکن نہیں ہے۔ یہ سب مل ملا کر ذہنی تناؤ، الجھن اور گھبراہٹ و بے چینی جیسے عوارض کی پیداوار کرتے ہیں۔
ذہنی تناؤ راست طور سے دل اور ہضمِ غذا کے نظام پر اثرانداز ہوتا ہے۔ دورۂ قلب یا ہائی بلڈ پریشر وغیرہ لاحق ہوتا ہے۔ پیٹ کا اَلسر، ذہنی تناؤ کی صورت میں شدید انداز سے وجود میں آتا ہے۔ ن دونوں نظام یعنی دل اور معدہ و ہضم کی خرابیاں تنفس اور اخراج کے نظام کو متاثر کرتی ہیں۔ یہ عموماً پینتیس تا پینتالیس برس کی عمر والوں کو ہوتا ہے۔ یہ ایسی عمر ہے کہ جب کوئی بھی شخص کاروبار اور دیگر معاملات میں عمر کے کسی دوسرے حصے کی مناسبت زیادہ مصروف رہتا ہے۔ ذہنی تناؤ کسی بھی شخص کے جسم کی وہ تبدیلیاں ہیں جو بیرونی عوامل کے سبب ہوتی ہیں۔ یہ حرارت ہو، تبرید ہو یا کوئی کیمیائی شئے ہو یا پھر امراض ہوں۔ گردوں کے اوپری قطب پر غدود ٹوپی کی مانند سجے ہوتے ہیں انھیں غدۂ فوق الکلیہ یا Adrenal Glands کہتے ہیں۔ ان سے کیمیائی مادّے بنام ہارمون خارج ہوتے ہیں جو جسم کے بڑے کام کے ہوتے ہیں۔ ان سے جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ (کون و فساد) یا  wear and tear کا کام انجام پاتا ہے۔ انھی کا اخراج متاثر ہوجائے تو ذیابیطس، تھائرائیڈ کے امراض، اور پیٹ کا السر نیز برتاؤ کے امراض Behavioral Diseases پیدا ہوتے ہیں۔ مریض چڑچڑا، کاہل اور کھویا کھویا سا رہتا ہے۔
فضائی آلودگی بھی شہروں میں دیہاتوں کے مقابلے چار گنا زیادہ ملتی ہے۔اس کے نتیجہ میں کہنہ کھانسی، پھیپھڑوں کا کینسر، دیگر تنفسی امراض، جلدی امراض اور کینسر، دل نیز خون کی نالیوں کے امراض، کئی قسم کی الرجیاں اور دوسرے مضر و مہلک عوارض کی پیدائش ہوتی ہے۔ فضائی آلودگی کا سبب صنعتی کارگاہوں سے نکلنے والے زہریلے اجزا، موٹرگاڑیوں سے پیدا ہونے والا دھواں، سیسہ، سنکھیا اور دیگر دھاتی اجزا، تیزابی گیسیں، کاربن مونوآکسائیڈ، فارمالڈیہائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، امونیا، دیگر زہریلی گیسیں اور انھی کی مانند سیکڑوں دوسرے زہریلے اجزا ہیں جن کا سائنسی تجزیہ کیا جا چکا ہے۔ یہ سبھی ہمارے بدن کے مختلف نظام کے لیے ضرررساں ہیں۔یہ تنہا تنہا بھی مضر ہیں مگر جب ایک دوسرے سے مل جل کر Synergistically حملہ آور ہوتے ہیں تو زیادہ خطرناک ہوجاتے ہیں۔
فضائی آلودگی کے مقابلے میں آبی آلودگی جسم کو زیادہ آسانی سے نقصان پہنچاتی ہے اور بسا اوقات یہ نقصان زیادہ خطرناک بھی ہوتا ہے۔پانی ہماری بنیادی ضرورت ہے مگر یہی بیماریوں کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے ذریعہ جراثیم اور زہریلے اجزا پیٹ میں بہت آسانی سے داخل ہوتے ہیں اور امراض پیدا کرتے ہیں۔ شہروں میں پینے کے پانی میں صنعتی آلودگیوں کا تلوّث یا ملاوٹ مل سکتی ہے۔ ان آلودگیوں میں بلیچنگ ایجنٹ، صابونی اجزا، پٹرولیم اور تیل کے اجزا، دھاتیں اور اَدھاتیں، جراثیم کش یا کیڑامار دوائیں، رنگ اور تابکار اجزا شامل ہیں۔ یرقان، جگر کے دیگر امراض، تائیفائیڈ بخار، پولیو وغیرہ ایسے ملوث پانیوں سے ہی پھیلا کرتے ہیں۔
غذائی آلودگیوں کے سبب نظامِ ہضم کے چیدہ چیدہ امراض کی پیدائش ایک مسلسل عمل کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ان میں اسہال (ڈائریا)، ہیضہ (کالرا)، یرقان (جانڈیس) اور دیگر امراض بہت عام ہیں۔علاوہ ازیں پیٹ کے کیچوے، آنتوں کے بیشتر امراض و کینسر کی پیدائش بھی غذائی آلودگی کی مرہونِ منت ہے۔
گوکہ یہ تمام کیفیات علیحدہ علیحدہ دنوں اور حالتوں میں وجود پایا کرتی ہیں اس لیے مجموعی طور پر ان سے تحفظ کی کوئی اکلوتی صورت ممکن نہیں ہے بلکہ ہر مرتبہ حسبِ ضرورت اقدامات کرنے پڑیں گے، تاہم یہ مشورہ ضرور دیا جاسکتا ہے کہ کسی بھی قسم کے حالات چند افراد میں یکساں نظر آئیں اور ان کے کام کاج و معمولات میں حارج ہوں تو انھیں اپنے قریبی ڈاکٹر سے صلاح و مشورہ کے ساتھ ضروری اقدامات اٹھانا چاہیے تاکہ ہمارے سماج میں صحت کا بول بالا رہے اور امراض کا منہ کالا رہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ’’صحتمند سماج ہی کسی بھی ملک کی اصلی دولت و سرمایہ ہے‘‘۔

ذہنی تناؤ
آئیے ہم کچھ باتیں شہری زندگی کے سب سے اہم عارضہ ’ذہنی تناؤ‘ پر مزید کریں۔ یہ ایسا عارضہ ہے جس کے لیے نہ کوئی جنس مخصوص ہے اور نہ کوئی عمر۔ ہر کسی کی زبان سے ’’آج کل بہت ٹینشن ہے یار‘‘... ادا ہوتا ہی رہتا ہے۔ ہمیں اس کا علم نہیں ہے کہ پرانے دور میں یہ کتنا عام رہا ہوگا اور اس کی کیا صورتیں رہی ہوں گی کیونکہ پرانی طبی کتب میں اس کا تذکرہ الگ سے موجود نہیں ملتا۔ البتہ نئے زمانے میں کتابوں میں اسٹریس (Stress) کے عنوان پر بالکل جدا مضمون ہی نہیں ملتا بلکہ اس موضوع پر پوری پوری کتابیں بھی موجود ہیں۔

Stress Kills Oneوبال جان ہے ذہنی تناؤ 

انٹرنیٹ کی ویب سائٹس کو کھنگالیں تو آپ کو ہیلتھ کی کیٹگری میں ہر سائٹ پر اسٹریس کے عنوان پر متعدد مضامین نظر آئیں گے جو پوری تفصیل اور گہرائی کے ساتھ اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں۔
اس باب میں اگر پرانی طبی کتب سے رہنمائی حاصل کرنا ہے تو حواسِ خمسہ باطنہ کے ضمن میں ’’ھمّ و غم‘‘ اور ’’فکر و تردّد‘‘ کے ذیل میں یا مالیخولیا Melancholia  کے زیرِ عنوان کچھ رہنما باتیں مل جائیں گی۔ حکیم کبیرالدین صاحب نے اس کا فلسفہ یوں لکھا ہے کہ ’’یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جس میں روح کسی واقعی یا خیالی موذی سے بھاگ کر اندر کی طرف چلی جاتی ہے۔اس کا اصل سبب نامعلوم ہے مگر متقدمین کا خیال ہے کہ یہ مرض غلبۂ سودا سے پیدا ہوتا ہے‘‘...
جدید دور میں اسی ذہنی تناؤ کو موٹیویشنل لیکچررس Motivational lecturers نگیٹیوز Negatives  (منفیات)کے ذیل میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے سبب آدمی کے دل میں شکوک و شبہات، خوف، وحشت، بے بھروسگی، غصہ اور افسردگی وغیرہ بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے نتیجہ میں صحت پر خاصہ اثر پڑتا ہے۔ دردِسر، قلبی امراض، ہائی بلڈپریشر، ہاضمہ کی خرابیاں، پیٹ کے اَلسر، نیند کی گڑبڑی وغیرہ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ایک ذہنی تناؤ نارمل ہوتا ہے۔ یہ وجود کے مقصد کے لیے ضروری ہے۔  اسے عام زبان میں ’’احساسِ ذمہ داری‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ہر فرد کی اپنی استطاعت کے مطابق یہ موجود ہوتا ہے۔ آدمی اس کے سہارے زندگی پلان کرتا ہے۔ منصوبہ بندی کرتا ہے۔ دوسرا اضافی ہوتا ہے جو مادّی فوائد کی چاہت یا خواہشات کے سبب وجود میں آتا ہے۔ اس لیے یہ واضح ہے کہ مثبت رہیں یا منفی ذہنی تناؤ سے ہمیں چھٹکارا یا مَفر نہیں ہے۔ مختلف حالات اور مختلف عمر میں اس کی قدر و مقدار بھی الگ الگ ہوتی ہے۔
ذہنی تناؤ سے تحفظ کی کچھ تدبیریں
دنیا میں اس وقت سیکڑوں تدابیر اور طریقۂ علاج رائج ہیں جنھیں ذہنی تناؤ سے متاثر لوگوں کو اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔
٭کوئی یوگا کا مشورہ دیتا ہے، کوئی مراقبہ کا، کوئی پوجا اور کسی عبادت کا، کوئی نیچروپیتھی اور ہولسٹک Holistic میڈیسین کا، کچھ لوگ ٹونے ٹوٹکے اور عملیات کو راہِ نجات بتلاتے ہیں تو کوئی کاڑھا، جوشاندہ اور گھول پلاتا ہے۔ غرض ایک طویل فہرست ہے جس کا مقصود صرف روحِ انسانی اور نفسیات کی اصلاح و سکون ہے۔
٭ اُن عوامل کو پہچان کر ان سے گریز کریں جو مستقل طور سے آپ کے لیے پریشانی کا سبب بنتے ہیں۔
٭ زندگی کی بہترین منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور منفیات سے بچتے رہیں۔
٭ خود میں وہ بصیرت پیدا کرنا چاہیے جو ہر قسم کے حقائقِ زندگی کو قبول کرتی ہے، ان کا استقبال کرتی ہے۔ پھر اس بصیرت کی باقاعدہ پرورش کرنا چاہیے۔
٭ نقصان کے لیے خود کو ہمیشہ تیار رکھیں؛ کسی کھلاڑی کی مانند۔ کیونکہ نقصان کی صورت میں آپ رنجیدہ و مایوس نہیں ہوں گے، آئندہ بہتر پرفارمنس کے لیے خود کو تیار کریں گے؛ اور فائدہ کی صورت میں آپ کو حقیقی خوشی حاصل ہوگی۔
٭ اپنی قوتِ ارادی (self confidence) کو مضبوط بنائیں۔ اور اس کابہترین طریقہ خالقِ کائنات سے مدد و استعانت کی چاہ میں مضمر ہے۔ اس کی عبادت میں مخفی ہے۔
٭ ٹینشن کی دوائیں ایک محدود و مختصر مدت کے لیے ہوا کرتی ہیں۔بوقتِ ضرورت۔ لیکن ساری زندگی میں ایڈجسٹمنٹ آپ کی اپنی ذمہ داری ہے اور سوجھ بوجھ کی متقاضی ہے۔
٭ اچھی غذاؤں کا استعمال کریں۔ وزن کو اعتدال پر رکھیں۔
٭ بے وجہ و بے سبب قرض لینے سے بچیں۔
٭ معمولی ورزش کی عادت و معمول بنائیں۔ آہستہ آہستہ گہرے سانس لینے سے بدن کو راحت ملتی ہے۔
٭ سگریٹ نوشی، تمباکوخوری، نشہ، چائے، کافی وغیرہ کے استعمال سے بچیں۔
٭ کام اور معمولات سے کچھ دنوں کے لیے چھٹی لینا اور پُرفضا مقامات کی سیر کرنا چاہیے۔
٭ پرسکون نیند کے لیے تدبیر کرنا اور اس پر استقلال کے ساتھ جمے رہنا چاہیے۔
٭ بڑے بڑے سپنے سجانے اور ناقابلِ عمل منصوبے بنانے سے حتی الامکان گریز کریں۔ ناکامیوں پر مغموم نہ ہوں اور شاعر کے اس حال سے عبرت حاصل کریں کہ:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن  پھر  بھی  کم  نکلے
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
٭٭٭٭٭٭

Wednesday, May 11, 2011

 حرارت شدیدہ   Heat Stroke
فصلُ الصیف یعنی موسمِ گرما کی آمد کے ساتھ ہی انسان بہت سے اہتمام میں جٹ جاتا ہے۔ موسمِ گرما کی اپنی خصوصیات ہیں مگر اسی موسم میں کچھ زمینی علاقوں پر گرم ہوا ؤں کے جھکڑ چلتے ہیں اور کبھی کبھار کئی کئی گھنٹوں تک گرم ہوا بہتی رہتی ہے۔ اس ہوا کا درجۂ حرارت اتنا بڑھا ہوا ہوتا ہے کہ جسم متاثر ہو جاتا ہے۔ گرم ہوا کے بہاؤ کو لو چلنا اور اس سے متاثر ہونے کو لو لگنا کہتے ہیں۔ ہم اس کی ماہیت پر گفتگو کرنے سے قبل یہ جاننا ضرور چاہیں گے کہ بدن کا طبعی یا نارمل درجۂ حرارت کتنا ہوتا ہے اور اسے کس طرح بدن سنبھالے رکھتا ہے؟
طبعی درجۂ حرارت
ہم جو کچھ غذا کھاتے ہیں وہ ہضم کے عمل سے گذر کر تین اہم اجزاء میں تقسیم ہو جاتی ہے یعنی کاربوہائیڈریٹ (نشاستہ)، پروٹین (لحم) اور چربی (شحم)۔ غذا کے ہضم کے عمل کے دوران حرارتی توانائی کا اخراج ہوتا ہے اور یہ عمل پورے چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے۔ اسی حرارت کو بدن کا طبعی درجۂ حرارت اور طب کی زبان میں حرارتِ غریزیہ کہتے ہیں۔ بدن کے  جن حصوں میں عضلاتی حرکت زیادہ ہوتی ہے وہاں زیادہ غذا ہضم ہوتی ہے اور وہ حصہ ان مقامات کے مقابلے قدرے زیادہ گرم ہوتا ہے جہاں عضلات کی حرکت زیادہ نہیں ہوا کرتی۔ اسی طرح جب کوئی محنت مشقت کرتا ہے تو اس کا جسم زیادہ گرم ہوتا ہے۔

تھرمامیٹر Thermometer (مقیاس حرارت) سے ناپنے پر انسانوں میں عام طور پر 37 ڈگری سیلسیس یا 98.6 ڈگری فاہرین ہائیٹ کا درجۂ حرارت طبعی قرار دیا جاتا ہے۔ گو کہ 36.4  اور 37.2 ڈگری سیلسیس یا 97.5 اور 99  ڈگری فاہرین ہائیٹ تک کی حدود کو نارمل یا طبعی ہی سمجھا جاتا ہے۔
اگر یہ درجۂ حرارت اپنی حدود سے بڑھ جائے تو بدن کی اکائیاں یعنی خلیات؛ وہ نازک ترین ساختیں جن سے پورا بدن بنا ہوا ہے، اپنا فعل صحیح انداز سے انجام نہیں دے پاتے اور تباہ بھی ہو جاتے ہیں۔ اور اگر یہی درجۂ حرارت طبعی سے کافی کم ہو جائے تو غذا کا انہضام ہی نہیں ہو پاتا۔ بدن کے اندر پیدا ہونے والی یہ حرارت جلد کی راہ پسینے اور بخارات میں زائل ہوتے رہتی ہے اسی طرح منہ میں لعاب کی پیدائش بھی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ان افعال پر دماغ کا ایک حصہ پورا کنٹرول رکھتا ہے جسے تھرموریگولیٹری سینٹر Thermoregulatory centre کہتے ہیں۔
لو لگنا
جب جسم شدید حرارت سے دوچار ہوتا ہے اور پسینے و لعاب کے اخراج کا نظام بگڑ کر جسم کے اندر شدید گرمی اکٹھا ہو جاتی ہے (خارج نہیں ہو پاتی) اور جسم کا درجۂ حرارت کنٹرول کرنے والا دماغ کا حصہ اس شدید حرارت کو قابو میں کرنے سے ناکام ہو جاتا ہے تو جسم کے جملہ افعال متاثر ہو جاتے ہیں۔ یہ شدید حرارت کسی بھی بیرونی ذریعہ سے ہو سکتی ہے مگر جب سورج کی تپش اس کا سبب ہوتی ہے تو عموماً اسے ’’سن اسٹروک‘‘ کہتے ہیں۔ لو لگنے پر حرارت 41 ڈگری سیلسیس یا 106 ڈگری فاہرین ہائیٹ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ اس کا دوسرا سبب یہ بھی ہے کہ کسی فرد کے جسم میں پانی کی کمی ہو گئی ہے, Dehydration (ڈیہائیڈریشن)۔ ایسی صورت میں اسے پسینہ لانے کے لیے مناسب مقدار میں پانی ہی جسم میں موجود نہیں ہے تو اندرونی درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے۔
لو لگنے کی وجہ سے بڑھی ہوئی حرارت بخار کی تعریف میں نہیں آتی۔

لو لگنے کے بعد جلد بالکل گرم، سرخی مائل، اور سوکھی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں بدنی اور دماغی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور یہ ایک طبی ایمرجنسی ہے، متاثرہ فرد کو فوری طبی امداد پہنچانا چاہیے ورنہ خطرناک نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ شدید صورتوں میں مریض ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔ قحط زدہ علاقوں میں عام طور پر اموات کی وجہ یہی ہوتی ہے۔
لو کا شکار عموماً چھوٹے بچے، بوڑھے افراد اور محنت کش یا کھلاڑی طبقہ کے افراد ہوتے ہیں۔
علامات
لو لگنے کے بعدمریض ذہنی الجھن میں گرفتار نظر آتا ہے، بداطوار و بد تہذیب ہو جاتا ہے، سر میں درد ہوتا ہے اور مخمور سا لگتا ہے۔ اس کا بلڈپریشر بہت کم ہو جاتا ہے۔ کھڑے ہونے کی کوشش میں گر پڑتا ہے۔ وہ بیہوش ہو سکتا ہے، جھٹکے بھی آ سکتے ہیں۔ بڑھے ہوئے درجۂ حرارت کے باوجود پسینہ نہیں نکلتا۔ دل کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ سانس تیز تیز چلنے لگتی ہے۔ کچھ مریضوں کو متلی اور قے بھی محسوس ہوتی ہے۔ تکان، کمزوری اور پٹھوں میں کھنچاؤ کی شکایت ملتی ہے۔ کچھ مریضوں میں کسی بھی علامت کی غیرموجودگی کے باوجود فوری طور پر بھی لو لگنے کی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

علاج
لو لگنا ایک طبی ایمرجنسی ہے اس لیے ممکن ہو تو مریض کو فوری طور پر اسپتال میں پہچانے کے جتن کیے جائیں۔ اس کے علاوہ مریض کو بیرونی طور پر تبرید (ٹھنڈک) پہنچانے والی تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں۔ مریض کو فوراً سایہ دار مقام پر لٹا دیا جائے، ستر کے علاوہ اس کے زیادہ تر کپڑے نکال دئیے جائیں، ٹھنڈے پانی یا دستیاب ہو تو برف کے پانی سے اس کے جسم کو بھگونا شروع کر دیا جائے یا اس پر پانی کی پھوہار ڈالی جائے۔ تالو، سر، چہرہ، گردن اور رانوں کے درمیانی حصوں سے حرارت کا اخراج زیادہ آسان ہوتا ہے اس لیے ان حصوں پر خصوصیت کے ساتھ تبریدی تدابیر اختیار کی جائیں۔ اگر مریض ہوش و حواس میں ہے تو ٹھنڈے (برف آمیز سرد نہیں!) پانی سے بھرے ہوئے ٹب میں مریض کو لٹانا بھی مفید ہوتا ہے۔ مریض کو زیادہ سے زیادہ پانی اور تسکین دینے والے شربت پلائے جائیں۔ اگر مریض کی حالت نیم بیہوشی وغیرہ کی ہو تو اسے اسپتال یا دواخانے میں درونِ وریدی (Intravenous) سیال پہنچانے کی تدبیر کی جانی چاہیے تاکہ بدن میں پانی کی کمی کو دور کیا جاسکے۔ اس کے بعد جو بھی مناسب طبی علاج درکار ہو اسے بروئے کار لایا جائے۔
احتیاطی تدابیر
سخت گرمی کے موسم میں کوشش کی جائے کہ پانی وافر مقدار میں پیا جائے۔ تیز دھوپ یا گرم ہوا میں زیادہ محنت طلب کاموں کے کرنے سے گریز کیا جائے۔ ایسے کام ناگزیر ہوں تو اس کے دوران کئی مرتبہ وقفہ کر کے پانی اور نمک یا لیموں کے قطروں کا آمیزہ یا شربت بھی پینا چاہیے۔ سرکو ڈھکا رکھیں۔ ہلکے رنگ اور ہلکے وزن کے کپڑے پہنیں، چائے کافی اور شراب کے استعمال سے اجتناب کیاجائے۔ اپنی حالت کا خود سے مشاہدہ کرتے رہیں۔ پیشاب کا رنگ ضرور دیکھیں۔ اگر پیشاب عام دنوں سے گہرے رنگ کا آ رہا ہے تو یہ پہلی علامت ہو سکتی ہے کہ بدن میں پانی کی کمی ہو رہی ہے.


 بھیونڈی میں سمر کیمپ برائے ریاضی کا کامیاب انعقاد
رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئرکالج کے طالب علم محمد رضی محمد ریحان انصاری کی نمایاں کامیابی
اسکول کے پرنسپل اور اساتذہ نے مبارکباد
از:  خالد عبدالقیوم
Back (L to R) Anwar Khot, Ameen Sir, Khan Zakir Husain
Principal ZiaurRahman Ansari, Dr. Abu Talib Ansari, Prof. Mushtaq Baig,
Abdul Aziz Ansari. (Front- L to R) Siddiqui Iram, Siddiqui Shirin,
Razi Ansari, Khan Razia, Khan Irfan standing with their Trophies
بھیونڈی: ’’ اعلیٰ ریاضی کی ابتدا ’بنیادی ریاضی‘ سے ہوتی ہے‘‘۔ مذکورہ خیالات کا اظہار ،رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کے پرنسپل ضیاء الرحمان انصاری نے  متھمٹکس سوسائٹی Mathematics Society Of Bhiwandi کے زیر اہتمام رئیس ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج ہال میں پندرہ روزہ سمر کیمپ Summer Camp کے آخری دن منعقدہ تقسیم انعامات کی تقریب میں ادا کئے ۔موصوف نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ ریاضی Mathematics نہایت آسان اور دلچسپ مضمون ہوتے ہوئے بھی’بنیاد ‘ کی کمزوری کی وجہ سے مشکل سمجھ لیا جاتا ہے لیکن  اس طرح کے پروگرام منعقد کر نے سے بچوں کی بنیاد مضبوط ہوگی اور طلبہ کی ریاضی میں  دلچسپی بڑھے گی۔‘
واضح رہے کہ ۱۵روزہ سمر کیمپ کے آخری دن طلبہ کا ٹیسٹ لیا گیا۔سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے والے دس طلبہ کو انعامات سے نوازا گیا جن میں صلاح الدین  ایوبی ہائی اسکول کے خان عرفان اقبال کو اول انعام ، اسی اسکول کی خان رضیہ شمس اﷲ کو دوم جبکہ رئیس ہائی سکول کے طالب علم انصاری محمد رضی محمد ریحان کو سوم انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ صلاح الدین ایوبی ہائی اسکول کی صدیقی شیریں عبدالستار اور صدیقی ارم محمد کلیم کو با لترتیب چہارم اور پنجم انعام کے لئے منتخب کیا گیا۔اس کے علاوہ پانچ طلبہ کو حوصلہ افزائی کے انعامات بھی دیئے گئے۔اس سمر کیمپ میں بھیونڈی کے ۱۵ ہائی اسکولوں کے کل۶۲ طلبہ نے حصہ لیا۔ جنہیں ماہرین نے روزانہ سویرے ۷ بجے سے ۱۲ بجے تک ریاضی کی بنیادی باتوں کے علاوہ پرسنالٹی ڈیولپمنٹ  ،ماحولیات ،صحافت ،جانئے اپنے شہر کو، اور صحت ِعا مہ کی خصوصی معلومات دی گئی۔
مہمان خصوصی ڈاکٹر مصدّق پٹیل نے سمر کیمپ کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کی اور اسے طلبہ کے لئے مفید بتایا ۔ اس تقریب میں انور کھوت ، ذاکر خان، امین مومن سر، عبدالعزیز انصاری ، ڈاکٹر ابو طالب انصاری نے بھی طلبہ سے خطاب کیا اور انہیں اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔مقررین نے متھمٹکس  سوسائٹی کی کارکردگی کی بھرپور سراہنا کرتے ہوئے ،سوسائٹی کے ذریعہ انجام دیئے کاموں کا تفصیلی ذکرکیا اوراس طرح کے کیمپ کو موجودہ دور کی ضرورت بتایا۔
پروگرام کا آغاز تلا وت کلام پاک سے ہوا ۔متھمٹکس سوسائٹی کے صدر پروفیسر مشتاق احمد بیگ نے پروگرام کی غرض و غایت اور سوسائٹی کی روداد پیش کی۔ محترمہ حنا بیگ نے مہمانوں کا تعارف و استقبال پیش کیا جبکہ صلاح الدین ہائی اسکول کی طالبہ خان گلشن اور اقصی گرلز ہائی اسکول کی بولنجکر وداد شہباز نے نظامت کا فریضہ  انجام دیا ۔ رسم شکریہ پر پروگرام اختتام پذیر ہوا۔

M. Razi Receiving his award by the hands of
Mr. Abdul Aziz Ansari while Prof. Mushtaq Baig
expressing his happiness
محمد رضی محمد ریحان انصاری کی اس قابل ذکر کامیابی پر رئیس ہائی اسکول کے اساتذہ اور اسٹاف نے مسرت کا اظہار کیا اور اسے مبارکباد دی.

Monday, May 9, 2011

Babri Masjid Decision: Justice Undone
[یہ مضمون الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ (٣٠ ستمبر ٢٠١٠) کو آنے کے فورا بعد لکھا گیا تھا. خوش بختی سے آج (٩ مئی ٢٠١١) کو سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس میں کہی گئی باتیں اس مضمون کا حصہ ہیں. اس مضمون کو قند مکرر کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے.]
۳۰ستمبر کی سخت دوپہر؛ رفتہ رفتہ ایک سناٹا سا پسرا جا رہا تھا؛ سڑکوں پر سے لوگ دھیرے دھیرے ہٹنے لگے تھے؛ اعلان شدہ وقت قریب آتا جا رہا تھا؛ دکانوں کے شٹر گرنے لگے تھے؛ ایک غیر معمول سا منظر تھا اور تمام ملنے جلنے والوں کے چہرے پر آنکھوں کی جگہ پر سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے۔ گھر میں کھانے کا وقت ہو کر بھی کسی کو بجا طور پر بھوک نہیں محسوس ہو رہی تھی۔ ذہن ایک انجانے خوف کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔
فیصلہ اور انصاف میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بابری مسجد کے قضیہ کا فیصلہ بھی سامنے آیا... پورے ساٹھ برسوں کے عدالتی عمل کے بعد... افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم انصاف کے متمنی تھے مگر اس تمنا کا خون ہوگیا۔ واقعی فیصلہ اور انصاف میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ہم بھی اتنے معصوم نہیں ہیں کہ ایک فیصلہ کو انصاف مان لیں۔عدالتی فیصلہ کو چونکہ قبول کرنے کا ہم قرار دے چکے تھے اس لیے آپ کا فیصلہ بسر و چشم قبول بھی کیا ہے مگر ہمیں شدت کے ساتھ اپنے ایک بزرگ کا یہ شعر یاد آگیا کہ:

ہم تو پچھتاتے ہیں وفا کرکے
کچھ تو  شرماؤ  تم  جفا  کرکے
ہم عدالت کے فیصلہ اور وقار کا پورا احترام کرتے ہیں مگر بابری مسجد کی جگہ پر ’’رام بابر اکھاڑہ‘‘ کی تاسیس جس روحانی کرب و بے چینی کا سبب بنی ہوئی ہے اس کا اظہار بھی ہم اپنا بنیادی جمہوری حق سمجھتے ہیں۔عدالت بھی عقائد اور حقائق کو خلط ملط کرنے کی ایک ’’ناقابلِ یقین مگر سچ‘‘ والی نظیر قائم کرنے کی غلطی کرے گی ہمیں اس کا گمان بھی نہیں تھا۔ قابلِ عبرت ہے۔
ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ میڈیا کے ذریعہ یہ بات آتی رہی کہ بابری مسجد کی جگہ کی ملکیت کے حقوق کے تعلق سے فیصلہ آنے والا ہے مگر فیصلہ ایسا آیا کہ تین دھاری ہتھیار سے زمین کو لخت لخت کردیا گیا۔ ہمارے دلوں اور ذہن کو وہ صدمہ ملا کہ اب شاید کئی صدی اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہوگا۔ بہرحال ہمیں تلقینِ صبر و صلوٰۃ کی گئی ہے سو وہ ہم کر رہے ہیں، انشاء اﷲ استعانت بھی حسبِ وعدہ ہو کر رہے گی۔
ماہ ستمبر ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ اسی وقت سے بابری مسجد کی جگہ کی ملکیت کے تعلق سے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے متوقع فیصلہ کی خبریں میڈیا کا حصہ بنتی جارہی تھیں۔ ہمارے دل میں بھی تمام مسلمانوں کی مانند ایک امید بنی تھی کہ عدالت چونکہ شواہد اور دستاویزات کو ہی ٹٹولتی ہے اور ’انصاف کی دیوی کی آنکھوں پر بندھی پٹی‘ کچھ اور نہیں دیکھ اور محسوس کر پاتی اس لیے جو لوگ عقائد کی دہائیاں دے رہے ہیں انھیں شاید منہ کی کھانی پڑے گی۔ مگر یہ ہماری معصومیت ہی تھی کہ ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ پٹی اس کی آنکھوں پر ہے مگر کان کھلے ہوئے ہیں جن سے عقیدتوں کی چنگھاڑ مسلسل ’انصاف کی دیوی‘ کے پورے وجود کو متزلزل کیے ہوئے رہی تھی۔ اور پھر ماہ ستمبر کے آخری ہفتے کی تاریخیں تبدیل ہوتے ہوتے آخری دن ایک عبرت انگیز تاریخ رقم ہو گئی۔
ملکیت کے تعلق سے تو فیصلہ سامنے آیا نہیں کہ قطعۂ اراضی کے اصل کاغذات اور آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کی رو سے آخر وہ زمین کسے سونپی جائے لیکن ایک ایسا فیصلہ کیا گیا کہ اس ملکیت کے تین حصے کرکے تینوں متحارب فریقوں کو سونپے جائیں گے۔ سوال یہ ضرور اٹھتا ہے کہ کیا ان تینوں میں سے کسی بھی فریق نے ایک تہائی زمین کا مطالبہ عدالت سے کیا تھا کہ عدالت’’ اس تقسیمِ اراضی کو اپنا دوراندیشانہ فیصلہ‘‘ کہلانے کی مستحق قرار پاتی؟ ملکیت کی دعویٰ داری یقینا کئی قانونی و آئینی تقاضوں کی روشنی میں کی جاتی ہے اور قضاۃ کا فرض یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی ناانصافی کا مرتکب نہ ہو۔ اگر زمین پر مطلقاً ان کا حقِ ملکیت ثابت ہوتا ہے تو پوری کی پوری زمین انھیں سونپ دی جائے اس میں کسی کو کوئی اعتراض ہی کیوں ہوگا؟ مسلمان بھی اپنے دعوے سے خود ہی دستبردار ہو جائیں گے۔ بابری مسجد اراضی کی ملکیت میں عدالت نے یقینا اپنے منصب کے اعتبار کو مجروح کیا ہے۔ بہرکیف فیصلہ اور انصاف میں بڑا فرق ہوتا ہے اور کسی بھی فیصلہ کو انصاف نہیں قرار دیا جاسکتا۔
اس روز نصف شب تک الیکٹرانک میڈیا کے مبصرین اور اینکر پرسنس کی حرکات بھی دیدنی تھی۔ کہاں کہاں کی کوڑیاں لائی جارہی تھیں سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا، اور کسی بھی چینل یا سائٹ پر کوئی بھی بابری مسجد کی زمین کی ملکیت کے تعلق سے کوئی بات کرنے کو تیار تھا نہ ہنوز ایسا دیکھنے یا سننے کو مل رہا ہے۔ عدالت کے فیصلے کی چہار جانب سے پذیرائی اور سراہنا کی جارہی ہے۔ ہم نے بھی اسے تسلیم کرنے کی ہامی بھری تھی اس لیے مسلمان نمائندوں نے بھی رائی برابر بھی اپنے اس موقف سے اعراض نہیں کیا۔ لیکن اس الیکٹرانک میڈیا پر ایک بات بڑی واضح اور صاف تھی کہ کسی بھی مسلم نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اینکر پرسن بہت جلدی سے فریم کی تبدیلی چاہتے تھے یعنی اگر مسلم نمائندے نے مسلم خیالات کی ترجمانی کی کوشش کی تو فوراً اسے کٹ کردیا جاتا اور کوئی دوسرے سوال کی زد میں لانے کی کوشش کی جاتی تاکہ اسے ’’سچ بولنے‘‘ کا وقت ہی نہ مل سکے۔ اس کے برعکس ’’آستھا‘‘ کی ترجمانی کرنے والوں کو ’’پورے وِ ستار‘‘ سے بات کرنے کا موقع دیا جاتا رہا تھا۔ اس طرح یہ کوشش برابر کی جاری رہی کہ مسلمانوں کی ترجمانی بھی کم سے کم ہو اور شارٹ سے شارٹ کی جاتی رہے۔ جہاں تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے تو اس میں بھی اردو سے ہٹنے کے بعد مسلم آواز بلند کرنے والے لوگ خال خال ہی ملتے ہیں اور انھیں بھی اس کا موقع نہیں دیا جاتا البتہ مسلمانوں کو تیز آواز سے ڈانٹنے کے لیے ان کے ہاں کئی قلم چلتے ہیں اور دلوں کو چھلتے ہیں۔ انھیں ایک موقع اور مل چکا ہے۔ مگر یہ تو کہا ہی جائے گا کہ ایک ترشولی فیصلہ سے انصاف مجروح ہوا ہے۔ مسلمانوں میں عام صدمے کی لہر ہے اور یہ صدمہ بھی روح کی گہرائی میں اپنی جڑیں پیوست کیے ہوئے ہے۔ حقیقتاً ہر فیصلہ انصاف کہلانے کا حقدار نہیں ہوتا۔ فیصلہ اور انصاف میں بڑا فرق ہوتا ہے.
Gehri Jadein: The Deep RootsFiction by Dr. Neerja Madhav
Translated by: Dr. Ghulam Nabi Momin
Reviewed by: Mohd. Rafi Ansari
ڈاکٹر غلام نبی مومن کا نام تعلیمی اور ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ موصوف نے عرصۂ دراز تک ٹیکسٹ  بک بیورو  ، پونہ میں اردو افسر کی حیثیت سے نصابی کتابوں کی ترتیب و تدوین میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ابتداء ہی سے ڈاکٹر صاحب کو علم و ادب سے شغف رہا ہے اور طالب علمی ہی کے زمانے سے انھوں نے لکھنے پڑھنے کا کام بڑے سلیقے اور منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا ہے ، جس کا سلسلہ وقت کے ساتھ خوب سے خوب تر ہواہے۔اب تک ان کی تصنیف اور تالیف کردہ کئی کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں جن میں ادبِ اطفال، تنقید اور تعلیم کے موضو عات سے بحث ہے۔
The Cover Page
ان دنوں ڈاکٹر غلام نبی مومن علمی حلقے میں ایک مترجم کی حیثیت سے بھی مقبولیت حاصل کر رہے ہیں.  انگریزی کے علاوہ انھوں نے مراٹھی اور ہندی کی منتخب تخلیقات کو اردو کے قالب میں بڑی عمدگی سے ڈھالا ہے۔ ۲۰۰۲؁ء میں ان کی ترجمہ شدہ سات کہانیوں کا انتخاب ’دھنک‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہوا۔ ان کی ترجمہ کردہ نئی کتاب ’ گہری جڑیں‘ جدید ہندی کہانی کی مایہ ناز ادیبہ ڈاکٹر نیرجا بینی مادھوکی گیارہ معرکۃُالآراکہانیوں کا خوبصورت مجمو عہ ہے جو اسی سال ۲۰۱۱ میں  منظرِ عام پر آیا ہے۔
ایک سو اٹھائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب صوری و معنوی اعتبار سے لاجواب ہے۔ ڈاکٹر غلام نبی مومن نے اپنی اس ادبی کاوش کو مشہور ماہر تعلیم محترمہ نورالعین علی صاحبہ کے نام معنون کیا ہے جنھوں نے عورتوں کے مسائل پر کئی معیاری ڈرامے تحریر کیے ہیں اور جن کی درسیات کی تیاری کی بے پناہ صلاحیت اور تجربے سے ڈاکٹر صاحب مستفیض ہوئے ہیں.
کتاب ’گہری جڑیں‘کے ابتدائی صفحات پر ’ڈاکٹرنیرجامادھو -ایک نظر میں‘ عنوان کے تحت مصنفہ کا ایک جامع تعارف پیش کیا گیاہے جو قارئین کوہندی کی اس باکمال ادیبہ کی ادبی فتح مندیوں کی کہانی سناتا ہے۔ محترمہ نیرجامادھو نے افسانوں کے علاوہ کئی ناول بھی لکھے ہیں جن میں ان کے ناول ’ یم دیپ‘اور ’گےشے جمپا‘ کو بڑی شہرت ملی اور ان ناولوں کے ترجمے اریہ، انگریزی اور تبّتی زبانوں میں ہوئے۔ ڈاکٹر نیرجامادھو کا ناول ’یم دیپ‘(۲۰۰۲)ہجڑوں کی زندگی پر لکھا گیا ہندی کا پہلا ناول  مانا جاتا ہے اور ’گےشے جمپا‘ بھارت میں پناہ گزین تبتیوں  کی تحریکِ آزادی اور ان کے اپنے معاشرے اور اپنی مذہبی و تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے کی جانے والی کوششوں کے موضوع پر لکھا گیا ایک بہترین ناول تسلیم کیا گیاہے۔
ڈاکٹر نیرجامادھو کہانی کار اور ناول نگار ہی نہیں بلکہ شاعرہ بھی ہیں۔آ پ کا پہلا شعری مجموعہ’پرستھان ترئی‘ (۲۰۰۰ میں) شائع ہوا۔ محترمہ کی گوناں گوں تخلیقات اور نو بہ نو کاوشوں پر ایک نظر ڈال کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ انھوں نے اپنی انچاس سالہ زندگی کا بڑا حصہ تصنیف و تالیف کی نذر کیا اور خوش بختی دیکھیے کہ ان کے ایک ایک لفظ کی پذیرائی ہوئی ۔
ہندی کہانیوں کے اس انتخاب کی سبھی گیارہ کہانیاں ’جہانِ دیگر‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جنہیں پڑھتے ہوئے قاری عجیب و غریب کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ مصنفہ نے کمالِ مہارت سے بشری خامیوں اور کمزوریوں کو اس طرح کہانیوں میں پرو کر پیش کیا جسے ملاحظہ فرما کر بڑے بڑے پارسا بھی شرمائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس کتاب کی ایک اثرانگیز کہانی ’ گہری جڑیں ‘ عنوان سے ہے۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک عورت ’وِ دیو تما‘ہے۔ ایک اصول پسند اور منصف مزاج باپ کی لائق و فائق دختر، جو دفتر میں اپنے اعلیٰ افسروں سے اصولوں کے ٹکراؤ میں اپنی پوزیشن کو بچانے کی کوشش میں صلیب و دار کے مرحلوں سے گزرتی ہے۔کہانی کے موڑ پر اس کی سہیلی اپرنا جب اس سے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاح دیتی ہے تو وہ اس کے جواب میں جو کچھ کہتی ہے وہ کہانی کےساتھ ساتھ ’وِدیو تَما‘ کو بھی بامِ عروج پر پہنچا دیتا ہے ۔ وہ کہتی ہے’’ ۔۔۔تجھے ہنسانے کے لئے اس وقت مجھے ایک بہت اچھا چٹکلا یاد آرہا ہے جومیری موجودہ حالت کے عین مطابق ہے۔ایک بار کا ذکر ہے سب کتے بھاگ رہے تھے۔ان ہی کے ساتھ ایک اونٹ بھی بھاگا جا رہا تھا۔ایک آدمی نے روک کر پوچھا
 ’ ارے بھائی اونٹ، تم کتوں کے ساتھ کیوں بھاگ رہے ہو؟‘‘
اونٹ نے جواب دیا ’’ میونسپلٹی والے کتوں کو پکڑنے کی تحریک چلا رہے ہیں۔‘‘
’لیکن تم تو اونٹ ہو، پھر۔۔۔؟‘‘
’’ یہ تم کہہ رہے ہو نا بھائی۔اگر پولس والوں نے مجھے پکڑ لیا تو بیس سال لگ جائینگے  گے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ میں کتّا نہیں  اونٹ ہوں۔‘‘
’’سوچتی ہوں کہ کہیں سے وہ کالیداس ہی آجائے اور کتوں کی اس بھیڑ میں مجھے دیکھ کر چلا پڑے ’ اونٹ ، اونٹ‘۔۔میں اُس کالیداس کے چرنوں میں جھک جاؤں گی ۔ بس۔۔۔کم سے کم میرا اصل چہرہ تو واضح ہوجائے۔‘‘
ڈاکٹرنیرجا مادھو کے اسلوب میں بڑی ندرت ہے ۔انھیں کہانی کہنے کا فن آتا ہے ۔کہانی میں قاری کی شمولیت اسے اس مقام پر لے جاتی ہے کہ وہ کہانی کا چشم دید گواہ بن جاتا ہے۔  ان کی کہانیوں کے تمام کردار ہندوستانی معاشرے کا حصہ ہیں۔وہ محروم طبقات کی اتنی کامیابی سے نمائندگی کرتی ہیں کہ جیسے محسوس ہوتا ہے آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہی ہوں۔ چونکہ وہ ایک بھارتی ناری ہیں اس لیے بھارتی ناری کے دکھ کو بخوبی محسوس کرتی ہیں ۔ ان کی کہانیاں عورت کی مظلومیت  اور محکومیت کا اتنا اچھا تجزیہ ہیں کہ جسے دےکھ کر حقوقِ نسواں کے علمبردار بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ان کی کہانی’ بھنوری‘ تین دھارے، ابھی ٹھہرو اندھی صدی ‘ اور ’بوئے آدم‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ کتاب کی دیگر کہانیاں ’ پنُّو کے دار جی، اکیلے چنے کی آزاد لے، حاکم، راستے کی چبھن اور کہانی ’ فیٹ' انفرادی نوعیت کی حامل ہیں۔

ڈاکٹر غلام نبی مومن نے ان بامقصد اور فکرانگیز کہانیوں کو بڑی مہارت سے اردو میں منتقل کیا ہے۔جس کی داد انہیں ضرور ملے گی۔ کتاب میں ’ہندی کہانی کا ارتقاء ۔۔۔ایک سرسری جائزہ ‘ کے عنوان ہندی کہانی کی ابتداء سے اب تک کااحوال سنا کر ڈاکٹر صاحب نے ہندی ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کا کام آسان کیا ہے۔
مصنفہ: ڈاکٹر نیرجا مادھو  [ پتہ:مدھوبن، 14/598 سارنگ ناتھ کالونی، سارناتھ، وارانسی 221007، اترپردیش (انڈیا) فون: ٩٧٩٢٤١١٤٥١ 
سن اشاعت: فروری ۲۰۱۱ء، قیمت: ۷۶ روپے، کل صفحات: (۱۲۸+۱۶)
ملنے کے پتے:
۱)ڈاکٹر غلام نبی مومن ، روم نمبر ۲،چودھری چال،چودھری محلّہ، کلیان۔۴۲۱۳۰۱۔ ضلع تھانہ(مہاراشٹر، انڈیا) فون: 9321259451
۲) سیفی بک ایجنسی، امین بلڈنگ، ابراہیم رحمت اﷲ روڈ،بھنڈی بازار،ممبئی 400003
۳) مدنی گرافکس، شاپ نمبر ۵، انامئے بلڈنگ، ۳۰۵ سوموار پیٹھ، پونے 411011