To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Wednesday, April 30, 2014


Pakistan: The Deadliest Country for Journos
Dr. Rehan Ansari
جیو نیوز چینل کے اینکر پرسن حامد میرؔ پر تازہ ترین حملہ پاکستان میں صحافیوں پر کوئی تازہ حملہ نہیں ہے۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں آپ نے عوام کے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ دیکھے ہیں ہیں جن میں اپیل کی گئی ہو کہ ’’صحافیوں پر حملے مت کرو‘‘؟۔ شاید یہ منظر پاکستان کے علاوہ متواتر کہیں اور دیکھنے کو نہ ملے۔ کیونکہ پاکستان میں ہی صحافی کسی جنگی صورتحال کے بغیر اپنی جان ہاتھوں میں لے کر رپورٹنگ کرتے پائے جاتے ہیں۔ حکومت کے متوازی کوئی اور طاقت اپنا دبدبہ رکھتی ہے؛ اور شاید حکومت بھی اس سے ڈرتی ہے۔


ایک بات اور دیکھنے میں آئی کہ حامد میرؔ خود پاکستانی جرنلسٹ ہیں اور ان پر حملہ بھی پاکستان میں ہی ہوا ہے، مبینہ طور سے پاکستانیوں نے ہی کیا ہے، اس لیے اس پر بین الاقوامی میڈیا میں احتجاج کافی دھیمے انداز میں ہوا۔ افسوس کا روایتی اظہار کیا گیا، ایک دو جگہ مذمت کی گئی اور ان کی موجودہ طبی حالت کی خبروں کے علاوہ زیادہ کچھ رائے زنی کی گئی نہ زیادہ احتجاج ہوا۔ اداریے لکھے گئے نہ کالم سیاہ ہوئے۔ پیمانہ مختلف لگا۔ اس رویہ کے بعد ہم سوچنے لگے کہ صحافیوں میں بھی رنگ و نسل ہوتی ہے، جغرافیہ ہوتا ہے، سب کے خون کی قیمت الگ الگ ہوتی ہے۔ یہ سوال بھی سامنے کھڑا آنکھیں مٹکاتا رہا کہ اگر کسی پاکستانی (مسلمان پڑھیں) صحافی پر دوسرے ملک میں حملہ ہوجائے تو کس قسم کا ردّعمل سامنے آئے گا؟ اس احساسِ زیاں کوش کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ حملہ آور، پاکستانی حکومت ، پاکستانی عوام یا خود بین الاقوامی میڈیا برادری؟
حامد میر پر حملوں کے فوراً بعد آنے والی خبروں میں حامد میر کے بھائی عامر میر نے اس حملے کا الزام پاکستانی انٹیلی جنس آئی ایس آئی کے سر تھوپا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آئی ایس آئی پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے‘۔ خود حامد میر نے دو ہفتوں قبل ہی کہہ دیا تھا کہ اگران پر ابھی کوئی حملہ ہوتا ہے تو اس کی ذمہ دار آئی ایس آئی ہوگی۔ ویسے تادمِ تحریر حملہ آوروں کے تعلق سے کوئی علم نہیں ہوسکا ہے۔ واضح ہو کہ حامد میر پاکستانی فوج کو حاصل اختیارات اور اس کی کارکردگی پر اکثر تنقید کیا کرتے ہیں۔ عامر میر کے مطابق حامد میر نے ’’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹؔ کے لیے ایک پیغام ریکارڈ کروا رکھا ہے جس میں انھوں نے آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیرالسلام اور کچھ کرنل رینک کے سربراہوں کے نام لیے ہیں‘‘۔ ہم سب ہندوستان میں آئی ایس آئی کی معاندانہ سرگرمیوں سے تو واقف ہیں ہی مگر یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے کہ حکومت کا ایک ذمہ دار ادارہ ہوکر آئی ایس آئی اندرونِ ملک بھی اتنا ہی غیرمعتبر ہو! اگر اس میں شرم کا عنصر ہے تو وہ کم سے کم ہموطنوں میں ہی اپنے اعتبار کی فکر کرلے۔
دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ بغیر کسی ثبوت آئی ایس آئی یا اس کے سربراہ کو حملہ کا ذمہ دار قرار دینا ’’افسوسناک اور گمراہ کن‘‘ ہے۔انھوں نے حملے کی مذمت کے ساتھ ہی آزادانہ انکوائری کا مطالبہ بھی کیا۔
حامد میر پر حملے کی مذمت و مخالفت میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے مظاہرے بھی کیے اور سینئر صحافیوں نے کہا کہ پاکستانی میڈیا کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ایکسپریس ٹریبیون کے چیف ایڈیٹر ایم ضیاء الدین کے مطابق میڈیا اداروں کے مالکان بے حس اور کاروبار کے نام پر بک چکے ہیں۔ وہ مقابلہ بازی اور ریٹنگ کے لیے ایک دوسرے کی عزت کرنا بھول چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے صحافتی اداروں میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے صحافیوں کو چن چن کر مارا جارہا ہے۔‘ ان خیالات سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کی میڈیا برادری خود انتشار کا شکار ہے۔ حتیٰ کہ صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی خبریں نشر کرنے میں بھی جانبداری یا چشم پوشی کی ادا دیکھی جاتی ہے۔


Hamid Mir: The Geo TV Anchorperson
صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’’بدقسمتی سے ابھی میڈیا کے اداروں کے درمیان جو چپقلش ہے اور جو اختلافات ہیں اس کے نتائج ایک ورکنگ جرنلسٹ اور اخباری کارکنوں کو بھگتنے پڑرہے ہیں۔ لوگ ’نجی چینل‘ یا ’نجی اخبار‘ کہہ کر بات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔۔۔۔ کسی بھی صحافی پر حملے کو دردِ مشترک بنا کر نہ پیش کیا جاتا ہے نہ محسوس کیا جاتا ہے۔
ایم ضیاء الدین مزید کہتے ہیں کہ اس طرح کے حملوں کے بعد اکثر پاکستانی سوشل میڈیا پر پاسٹر نیمو کا یہ قول شیئر کیا جاتا ہے جسے اگر ہم آج کے پاکستانی میڈیا کے حالات پر لاگو کریں تو کچھ یوں بنے گا’پہلے جب ایکسپریس پر حملہ کیا گیا تو میں نے کہا میں کوئی ایکسپریس کے لیے کام کرتا ہوں، مجھے کیا، پھر اس کے بعد جیوؔ کے اینکر حامد میر پر حملہ ہوا تو میں نے سوچا ٹھیک ہے مگر میں جیوؔ کا ملازم تو نہیں ۔۔۔‘ پاسٹر نیمو کے اس تخیلاتی قول کا اگلا حصہ کوئی بھی پاکستانی صحافی اپنے چینل، اخبار کے مالکان اور ادارے کی مناسبت سے پُر کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ تقریباً ہم سب پر صادق آتا ہے۔
جیو نیوز کے صدر عمران اسلم نے حامد میر پر حملے کو انتہائی ٹارگیٹڈ آپریشن کہا اور مطالبہ کیا کہ اس واردات کے ذمہ داروں کو سامنے لایا جانا چاہیے۔
رواں سال میں بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ساں فرنٹیئرز‘ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان میں فوج اور طالبان دونوں ہی صحافیوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور منتخب حکومت ان دونوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔‘‘
پاکستانی وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ’’پولیس کی جانب سے بڑی دلجمعی کے ساتھ تفتیش جاری ہے اور حامد میر پر قاتلانہ حملے میں جو بھی ملوث ہوا اسے کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ یقینا یہ حکومت اور پولیس کے لیے چیلنج ہے اور ہمیں حملہ آوروں کا سراغ لگانا ہی ہوگا‘‘۔ ماضی میں بھی صحافیوں پر حملوں کی تحقیقات کے لیے کمیشنوں کا قیام عمل میں آیا تھا البتہ ان کی رپورٹس بے نتیجہ و بے ثمر ہی رہیں۔ پڑوسی ملک کے خلاف ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوجانے والے ملک کے وزیرِ اعظم اپنے اندرونی دشمن سے کس قدر خوفزدہ ہیں وہ بھی ملاحظہ کرلیں۔ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں نوازشریف نے انتہائی محتاط انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوشش تو کافی عرصہ سے جاری ہے۔ کبھی کبھی اونچ نیچ بھی ہوجاتی ہے لیکن اپنی طرف سے ہم پورے خلوص کے ساتھ کوشش کررہے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعہ معاملات حل کرلیں، کیونکہ اسی میں سب کی بہتری ہے‘‘۔
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف نے حالیہ دنوں میں ’بعض عناصر کی طرف سے پاکستانی فوج پر غیرضروری تنقید‘ پر افسروں اور جوانوں کے تحفظات کے بارے میں کہا کہ ’فوج اپنے وقار کا ہر حال میں تحفظ کرے گی‘۔ اس بیان میں جنرل راحیل شریف نے ’غیرضروری تنقید‘ کے الفاظ پتہ نہیں کس عندیہ کے اظہار کے تحت استعمال کیے ہیں؟ اور کیا ’ضروری تنقید‘ سہنے کا پاکستانی فوج میں یارا بھی کبھی دکھائی دیا؟ اسی تسلسل میں ان کا یہ بیان بھی ’کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘ کا غماز ہے کہ ’’ملک اندرونی اور بیرونی مشکلات سے دوچار ہے اور پاک فوج تمام اداروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے‘‘۔ کاش کہ وہ شدت پسندوں کو قدر کی نہیں غیض کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تو بیشتر مسائل چٹکیاں بجاتے حل ہوجائیں گے۔
بی بی سی اردو کے صحافی ہارون رشید نے اپنے تبصرے میں کیا خوب لکھا ہے کہ ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جن ایک دو صحافیوں کو خیبر پختونخوا میں ہلاک کیا تو اس کا برملا اعتراف کیا۔لیکن باقی اسّی فیصد ہلاکتوں کے پیچھے کون تھا آج تک واضح نہیں ہوسکا ہے اور یہی ابہام ہے جو ان کے بار بار نشانہ بننے میں مدد دیتا ہے۔ جب تک اس ابہام کو دور نہیں کیا جاتا اور ملزمان کو بے نقاب نہیں کیا جاتا یہ سلسلہ جاری رہنے کا قوی امکان ہے۔ فوج اور طالبان دونوں نے حامد میر کے واقعہ میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے جس کے بعد یہ ابہام ’اعلیٰ ترین سطح‘ کو پہنچ چکا ہے‘۔
خیر، ہمارے سامنے یہ خیال بھی اہم ہے کہ آخر صحافیوں کو بے سبب اور بے موسم بھی پاکستان میں ہلاکت خیز حملوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ نیویارک ٹائمز میں سالِ گزشتہ (اکتوبر 2013) میں کالم نویس ہما یوسف رقمطراز ہیں کہ پاکستانی طالبان کی ایک شاخ ’شوریٔ مجاہدین‘ نے ایک برس قبل یہ انتباہ جاری کردیا تھا کہ پاکستانی صحافی اور میڈیا مآخذ ’’مجاہدین کے دشمن‘‘ ہیں۔ پاکستانی طالبان نے واضح طور سے مختلف ٹیلیویژن چینلوں اور اینکر پرسنس کو کھلے لفظوں میں دھمکایا بھی تھا جن میں حامد میر اور حسن نثار وغیرہ کے نام شامل تھے۔ ان نام نہاد مجاہدین نے میڈیا پرسنس پر الزام لگایا تھا کہ وہ اسلام مخالف طاقتوں کے مقاصد کے لیے کام کرتے ہیں اور لامذہبیت اور مغربی کلچر کے فروغ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستانی طالبان اس وقت سے تلملائے اور بپھرے بیٹھے ہیں جب سے ملالہ یوسف زئی کو 2012ء میں ختم کرنے میں انھیں ناکامی ہوئی اور ساتھ ہی ملالہ یوسف زئی کے لیے میڈیا نے شہرت و تحفظ کا سامان کردیا۔
طالبان کا زور پاکستانی سرحدوں سے باہر تو چل نہیں سکتا اس لیے وہ اپنے ملک کے اندر نہتے صحافیوں پر اس قسم کے بزدلانہ حملے کرکے اپنے ہمنواؤں میں خود کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ان پاکستانی طالبان کا یہ بھی طورر ہے کہ وہ صحافیوں کو بلیک میل کرتے ہیں کہ ان کے خیالات و تحریکات کو عوام تک پہنچانے اور مقبول کرنے میں صحافی ان کی مدد کریں اور ریڈیو نیز نیوز چینلوں سے اسے براڈکاسٹ یا ریلے کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کم از کم ان کے گروہ کے تشدد کی خبروں کو بھی نظر انداز کردیا کریں، کوئی تنقید نہ کریں، بصورتِ دیگر انھیں جان سے مار دیا جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستانی حکومت نے ان کی اس دو برس پرانی دھمکی کو سُنی اَن سُنی کردیا تھا۔ اگر وہ اس وقت سے ہی کسی قابلِ ذکر تحفظ کے اقدام کرتی تو کراچی ایئرپورٹ سے محض چند کلومیٹر بعد واقع سڑک کے موڑ پر حامد میر کی گاڑی بہ سلامت گذر چکی رہتی۔
طالبان ایک جنگجو جماعت ہے۔ بزعمِ خود وہ جہاد کر رہے ہیں۔ کس کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اس کی وضاحت کبھی سامنے نہیں آئی۔ البتہ جو واضح ہوتا آیا ہے وہ یہ کہ وہ تعلیم، تہذیب، معاشرت، رواداری، اخوت اور اسی قسم کی صالح قدروں کے خلاف جہاد کرتے نظر آتے ہیں۔وہ ایک جنگجو اور مسلح جماعت ہے۔ البتہ انھیں اپنے خلاف لڑنے والے نہیں ملتے تو وہ ستم آزمائی کے لیے سب سے پہلے صحافیوں کو تاکتے ہیں، کہ یہی سب سے پہلے منہ کھولتے اور بولتے ہیں، اس کے بعد سماجی مصلحین اور معلمین کو۔ماضی میں متعدد صحافی اور علما و مصلحین ان کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔مگر طالبان کا کل کچھ بگڑا تھا نہ آج کے حکمرانوں سے کچھ بگڑنے کا امکان ہے۔ پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا اردو ہے یا پھر انگریزی۔ علاقائی زبانوں کے میڈیا بھی اپنا حلقہ ضرور رکھتے ہیں۔ لیکن طرہ یہ ہے کہ روشن فکر سماج کو میڈیا سے شکایت ہے کہ وہ شدت پسندوں کے خلاف اظہار میں نرمی برتتا ہے اور دوسری جانب شدت پسندوں کو میڈیا پسند نہیں آتا۔ اس طرح صحافی چکی کے دو پاٹوں کے بیچ پس رہے ہیں۔
یہ خبریں بھی ملتی رہی ہیں کہ پاکستان کے سرحدی صوبوں میں طالبان کے علاوہ علاقائی شدت پسند بھی انھی کے انداز میں صحافیوں کو دھمکاتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں سیکوریٹی فورسیز بھی ان پر اسی طرح کا خوف رکھتی ہیں۔ ایسے میں بیچارے جرنلسٹ کے پاس دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں کہ اپنے قلم میں روشنائی بھرے یا اپنا خون۔
سامنے کے منظر میں تو پاکستان میں صحافی ہونا خامہ بر گوش اور کفن بردوش ہونے کے مصداق ہے۔ان کا دوست و سرپرست کوئی نہیں ہے، دشمن سامنے بھی ہیں اور مبہم بھی، خود صحافی بھی منتشر ہیں، اگر اپنے قلم کو حریت پسندی کی راہ پر چلائیں تو سیلِ خوں سے گذرنا ہوگا، اور جو کاروباری مصلحت اپنائیں تو پیشہ طعنہ دے گا۔ اپنی بقا ملک کی بقا ہے۔ نسلِ نو کے لیے مثالیں بھی چھوڑنا ہے۔تو کیا پے در پے حملوں کے بعد پاکستانی میڈیا پر یہ حقیقت کھل رہی ہے کہ اس کی بقا صرف اتحاد میں چھپی ہے اور ایک صحافی یا اینکر پرسن پر حملہ پورے میڈیا پر حملہ سمجھا جائے گا؟