ISIS: A Political Force, Not Islamic Dr. Rehan Ansari |
جو بھی فرد یا گروہ (خصوصاً اسلامی گروہ یا جماعت) مغربی یا امریکی (تجارتی یا مادّی) مفادات کے خلاف ہوجاتے ہیں یا مزاحمت آمادہ ہوتے ہیں انھیں عالمی میڈیا کے ذریعہ انھی القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اتفاق سے تازہ تاریخ میں طالبان، القاعدہ، صدام حسین، اخوان المسلمون، وغیرہ چند مثالیں ہیں جن کے وجود تک انھیں طرح طرح کے الزامات اور حملوں کا سامنا رہا اور جب یہ ختم ہو گئے یا کمزور ہوگئے تو ان پر لگے الزامات کافور ہوگئے، دنیا کو بھی ان الزامات کی حقیقت کی دریافت یا بازپرس سے کوئی غرض نہیں رہی، استبدادی طاقتیں یوں بھی جوابدہی کی ذمہ داری سے بالا ہوتی ہیں، دنیا کے بیشتر ممالک تو امریکہ اور یورپ کے بندۂ بے دام بننا ہی پسند کرتے ہیں، خواہ اس کے لیے انھیں کیسی ہی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔
اقوامِ متحدہ کے استفسار پر اپنا موقف واضح کرتے ہوئے الجامعۃ الازہر کے سربراہ مفتیِ اعظم شوقی عالم نے داعش کی مذمت کی ہے اور اسے ایک ایسی بدعنوان انتہاپسند تنظیم قرار دیا ہے جو اسلام کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ان کے مطابق داعش ایک ایسا نتہاپسند اور خونی گروپ ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے ضرر کا باعث ہے۔جس کا تشخص خونریزی اور بدعنوانی سے آلودہ ہے۔
مفتیِ اعظم شوقی عالم نے مزید رائے یہ دی ہے کہ داعش کی کارروائیاں ان اسلام دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں جو مسلمانوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے معاملات میں مداخلت کرنا چاہتے ہیں۔
Areas captured by ISIS |
Indian Nurses from Iraq back at home |
داعش نے عراق اور شام میں اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں اسلامی خلافت قائم کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔ اس پر گفتگو آگے ہوگی البتہ جو تفصیلات ہم تک پہنچی ہیں ان کے مطابق داعش کی ماضی میں القاعدہ سے وابستگی تھی اور اس گروہ کو ابتدا میں ’القاعدہ آف عراق‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ بعد میں اس کے نام کی تبدیلی عمل میں آئی۔ موجودہ داعش مخفف ہے ’دولت الاسلامیۃ العراق و الشام‘‘ کا۔گذشتہ آٹھ برسوں میں اس کا وجود عراقی خانہ جنگی اور مختلف جنگجویانہ وارداتوں کے دوران رفتہ رفتہ ظاہر ہوا۔ لیکن اسے قبولیت عام حاصل ہونے میں اس کی کارروائیاں مانع ثابت ہوئیں۔ بیشتر کے نزدیک یہ شیعہ مخالف اور صوفی اِزم کے خلاف ایک دستہ کے روپ میں سامنے آیا؛ کیونکہ انھوں نے مقدس تصور کیے جانے والے مقابر پر حملہ کردیا تھا۔ اس تنظیم کا حالیہ سپریمو ابوبکر البغدادی ہے جو کوئی معروف شخصیت بھی نہیں ہے۔
تبصرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ امریکہ نے بعث کی طاقت ختم کرکے غلطی کی ہے، اس کی وجہ سے اندرونی مزاحمت کم ہوگئی جس کے نتیجہ میں داعش کو ابھرنے کا موقع ملا۔ تصادم کی نیتی داعش کے لیے نفع بخش نہیں ہے۔ ایسا کرنے والی تنظیمیں بہت کم عرصہ میں نیستی کا شکار ہوجاتی ہیں یا تاریخ میں بدنام رہتی ہیں۔
امریکہ اور دیگر یورپی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ میں مستحکم و فعال ریاستوں کا قیام چاہتی ہی نہیں۔اپنے منصوبوں کو مفاد بخش بنائے رکھنے کے لیے وہ داعش اور طالبان وغیرہ جیسے گروہوں کو زندہ رکھتی ہیں۔ عراق کی حالیہ تباہی کا صد فیصد ذمہ دار امریکہ ہے لیکن دنیا کا میڈیا امریکہ کو اس طرح پیش کیے جارہا ہے گویا عراق کے جملہ مسائل کا حل کرنے کی صلاحیت صرف امریکہ اور اوبامہ میں ہے۔ اوبامہ بھی اپنی چالیں مہرے اور گھر دیکھ کر چل رہے ہیں۔ کبھی آگے چلتے ہیں تو کبھی ڈھائی کی جست لگاتے ہیں۔ داعش کے ہاتھوں یزیدیوں کی ہلاکت کے بہانے امریکی فضائی حملے اس کی تازہ مثال ہیں۔ ورنہ اس کے پہلے وہ عراق میں کسی تازہ فوجی مداخلت سے انکار کر رہے تھے۔ ان کا یہ قول بھی کتنی تہیں رکھتا ہے ملاحظہ فرمائیں: ’امریکہ اس مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں رکھتا، بلکہ اس کا عراقی روپ (حل) پیش کرنا چاہتا ہے اسی لیے حملے مخصوص و محدود اہداف پر ہی کیے جائیں گے۔‘ امریکی فضائیہ شمالی کُردِستان میں داعش کی پیش رفت کو روکنے اور کوہستانی علاقوں میں محصور یزیدی اقلیت کو تحفظ دینے کی غرض پوری کرے گی۔
برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ’داعش کے جنگجوبرطانیہ کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں،اگر ہم نے ’’غیرمعمولی خطرناک دہشت گرد تحریک‘‘ کو روکنے کے لیے اقدام نہ اٹھایا تو یہ زیادہ مضبوط ہوتی جائے گی اور ہمیں برطانیہ کی سڑکوں پر نشانہ بنانے لگے گی!‘ یہ کون سی بڑ ہے یہ تو ڈیوڈ کیمرون ہی جانیں مگر انھیں ایسے اندیشے سوتے میں لاحق ہوئے ہیں یا جاگتے میں یہ ہماری سمجھ سے بالا ہے۔ کیونکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ داعش کی عسکری طاقت تو ٹوٹے پھوٹے عراق کی عسکری طاقت سے بھی کم ہے! البتہ ڈیوڈ کیمرون کے اعلان میں ان کی بدنیتی صاف اور واضح ہے۔
جب بھی مغربی اور امریکی طاقتوں کی مزاحمت میں یا ان کی پسندیدہ حکومتوں کی مخالفت کوئی سر ابھارتا ہے اسے یہ دہشت گرد اور پوری دنیا کے لیے خطرناک بتانے لگتے ہیں۔
داعش کا عندیہ ایک سخت گیر (سنّی؟) اسلامی مملکت کے قیام کا ہے۔ اوّل تو سخت گیری اسلام کا وطیرہ ہی نہیں ہے۔ خلافت تو جمہوری طریقہ سے قائم ہوتی ہے۔ داعش کا طریقۂ کار اسلامی خلافت کے مسلمہ و مقبول اکرام کو بدنام کرنے والا ہے۔
آبزرور اخبار کو تحریر کردہ ایک خط میں بشپ آف لیڈز نکولس بینز نے کہا کہ ’’دنیا میں تیزی سے پروان چڑھتے ہوئے اسلامی انتہاپسندی کے رجحان کو روکنے کے لیے ہمارے پاس مربوط اور جامع اپروچ کی کمی ہے۔‘‘ یہ زبان کسی معاملہ میں عیسائیوں یا یہودیوں سے متعلق ایک اسلامی رہنما کی ہوتی تو دنیا بیک زبان اسے دہشت گردی کا ترجمان بولتی مگر پادری اس الزام سے بری ہیں۔
داعش نیا اسلامی گروہ ہے مگر غلطیاں وہی جذباتی اور جارحانہ انداز میں دُہرا رہا ہے جو اس سے قبل طالبان اور اخوان المسلمون وغیرہ نے کی تھیں۔ اس زمرے میں آیت اللہ خمینی ایک استثنا ہیں۔ انھوں نے (شیعی) اسلامی ایران کے قیام کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی مگر ان کا وقت الگ تھا اور ایران کے عوام ان کے ساتھ جی جان سے لگ چکے تھے۔ اسی لیے بین الاقوامی سُوپرطاقتیں شکست کھا گئی تھیں وگرنہ رضاشاہ کو جلا وطنی نہ کرنی پڑتی۔
مصر میں اخوان المسلمین کا حالیہ انجام بھی عاقبت نااندیشی کی ایک عبرت انگیز مثال ہے۔ محمد مرسی اور اخوان نے انتخابات جیتنے کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ انتخابات انھوں نے اپنے دم خم پر جیتا تھا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ حسنی مبارک سے تنگ آئے ہوئے عوام نے موقع غنیمت سمجھ کر تبدیلیٔ آب و ہوا کی خاطر ’بہارِ عرب‘ کے جھونکوں کے طفیل اخوان کو واضح اکثریت دلائی تھی۔ان کی طاقت مصر کے سبھی طبقوں اور عقیدوں کے عوام بنے تھے۔اسی لیے فوج بھی عوام کی رائے کے خلاف ایک قدم بھی اٹھانے سے گریزاں تھی۔ مگر جب مرسی نے نئے دستور (اسلامی) کے نفاذ کا اعلان کیا تو تاک میں بیٹھے ہوئے ملکی و بین الاقوامی بدخواہ اندھوں کو گویا دو آنکھیں مل گئیں۔انھوں نے فوری طور پر بدامنی پھیلانے کی سازش رچی بھی اور بروئے کار بھی لائی۔ نتیجتاً ہٹ دھرم اخوان کو معزول کردیا گیا۔ اخوان کو یہ کام جلد بازی کی بجائے حسنِ تدبّر کے ساتھ طویل وقتی منصوبے کے ساتھ دھیرے دھیرے بلا اعلان کرنا چاہیے تھا۔
اسلامی عدل و انصاف تمام انسانوں کا دل ماضی میں بھی جیت چکا ہے اور تاقیامت اس کا یہ اثر قائم رہنے والا ہے۔ البتہ اس کے نفاذ میں صرف عدل و انصاف اور سماجی مساوات و عدم تشدد کا ہی نام لیا جانا اس کے طویل مدتی نفاذ کی ضمانت بنے گا۔ اسلامی قوانین اور دستور جیسے ناموں سے اپنی دنیا کافی الرجِک ہو چکی ہے۔ آپ کو کئی دہائیوں اورممکن ہے صدیوں تک اس ذہنیت کی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔