To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, September 24, 2011

The Most Painful Blisters
Herpes Zoster : Shingles
Dr. Rehan Ansari
دواخانوں میں اکثر ایسے مریض آجاتے ہیں جن کے جسم پر کسی ایک مخصوص جگہ پر یعنی دھڑ، گردن، پیٹھ اور کاندھوں وغیرہ پر سرخ اور بے حد دردناک آبلے اور چھالے نمودار ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ مریض آبلوں اور دانوں یا چھالوں کے ساتھ آتے ہیں تو غنیمت ہے وگرنہ ہمارا ہندوستانی سماج ایسا ہے کہ ابتدائی علامتوں کے ساتھ آیا ہوا مریض اور اس کے رشتہ دار دو یا تین دنوں کے بعد دانوں کے ظاہر ہو جانے کو دوائیں کھانے اور اس کی ’’گرمی یا ری ایکشن‘‘ سے تعبیر کرنے لگتے ہیں اور طبیب کو برابھلا بھی سنا ڈالتے ہیں۔
یہ مرض جدید طب میں ہرپِس ژوسٹر (Herpes Zoster) اور قدیم طب میں نملہ، عام زبان میں ناگن اور دنیا کے الگ الگ خطوں میں جدا جدا تہذیبوں میں بھی اسے الگ الگ ناموں سے جانا جاتا ہے۔ طرح طرح کے مذہبی عقائد کے ساتھ بھی اسے جوڑ دیا گیا ہے۔ جدا جدا ناموں کے ساتھ ہی متعدد توہمات اور خوفناک داستانیں بھی اس سے منسوب ہیں جو صرف بکواس ہیں اور کچھ نہیں۔


Herpes Zoster usually affects
One side of the body, Right or Left
نملہ Herpes Zoster
تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ایک قسم کے وائرس وریسیلا ژوسٹر (Varicella zoster)  کی وجہ سے ہوتا ہے اور عصبی ریشوں کا مرض ہے۔ اس کا قدیم طبی نام نملہ [نَمل (عربی) = چیونٹی] اس وجہ سے رکھا گیا تھا کہ اس کا درد چیونٹی کے کاٹنے کے بعد ہونے والے شدید درد سے بہت مشابہت رکھتا ہے نیز یہ درد ریڑھ کی ہڈی سے رینگتا ہوا آگے کی جانب آتا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی حالت سانپ کے رینگنے کی ہوتی ہے اس لیے علاقائی زبان میں اسے ناگن کہا جاتا ہے۔ عام انگریزی میں اسے Shinglesکہتے ہیں۔
تعدیہ Infection
یہ انفیکشن عام طور پر جلد تک ہی محدود ہوتا ہے۔مگر کبھی کبھار آنکھوں، کان، منہ اور دوسرے اندرونی اعضاء میں بھی پایا جا سکتا ہے۔یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ نملہ در اصل ان لوگوں کو ہوا کرتا ہے جن کو بچپن میں ’’چھوٹی چیچک‘‘ (چکن پاکس) نکل چکی ہوتی ہے، اس مفروضہ کی بنیاد یہ ہے کہ دونوں ہی امراض کا سبب وریسیلا ژوسٹر وائرس ہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چکن پاکس سے صحتیاب ہونے کے بعد بھی کچھ مریضوں میں یہ وائرس تباہ نہیں ہوتے بلکہ محفوظ پناہ گاہ پا کر اعصاب کی جڑ (Dorsal root ganglion)میں بے عمل و بے اثر پڑے رہتے ہیں۔ برسوں بلکہ دہائیوں تک یہ اسی طرح رہ جاتے ہیں۔ پھر جیسے ہی بدن کی قوتِ مدافعت کی کمزوری محسوس کرتے ہیں ویسے ہی حملہ آور ہو کر تکلیف پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ وائرس بچوں میں چکن پاکس تو پیدا کرتے ہیں لیکن نملہ کا سبب نہیں بنتے۔


It can affect the skin of
Face and other
Parts of the body
جن مریضوں میں ایسے امراض پائے جاتے ہیں جو بدن کی قوتِ مدافعت کو کم کر سکتے ہیں جیسے ایڈز، ذیابیطس، کینسر وغیرہ اُن میں بھی نملہ واقع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
جب یہ حملہ کرتے ہیں تو ریڑھ کی جانب سے جس طرف کے اعصاب کے ریشوں کو متاثر کرتے ہیں ان میں تیزی کے ساتھ سرایت کرتے ہیں اور التہاب (inflammation) پیدا کرتے ہیں۔ ایسا کسی ایک ہی عصبی شاخ اور حصے میں ہوتا ہے۔ یہی التہابی حالت عصبی ریشوں میں بے انتہا درد اور اذیت کا سبب بنتی ہے پھر وہاں دانے اور آبلے ظاہر ہوتے ہیں۔ کسی بھی ایک ہی جانب یعنی بدن کے ایک ہی نصف کے سینہ، پیٹھ، چہرہ، گردن، کمر، کاندھے، بازو، کولہے اور ران کے حصے زیادہ تر متاثر ہوتے ہیں۔
نملہ کسی مریض سے ایسے دوسرے شخص میں منتقل نہیں ہوتا جسے کبھی چکن پاکس نہیں ہوا ہو۔ ہاں مگر، اس کا وائرس دوسرے شخص پر صرف اس وقت منتقل ہو سکتا ہے جب وہ دانوں یا آبلوں کے راست تعلق میں آجائے۔ پھر یہ اس شخص کی قوتِ مدافعت پر منحصر ہوگا کہ اس میں مرض پیدا ہوتا ہے یا نہیں۔ کھرنڈ پیدا ہونے کے بعد اس کا بھی امکان ختم ہو جاتا ہے۔
علامات و نشانیاں Signs and Symptoms
’’درد، درد اور درد‘‘ ہی سب سے اہم علامت ہے۔ البتہ ابتدا میں مریض سر درد، ہلکا بخار، بدن درد اور تکان و کمزوری جیسی عمومی علامات کے ساتھ آتا ہے جو جلد ہی رخصت ہو جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی دانے اور سرخی ظاہر ہونے لگتی ہے جو رفتہ رفتہ چھوٹے بڑے آبلوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ آبلوں کے درمیان میں جلد طبعی ہوتی ہے۔ ان دانوں کا علاقہ کسی بھی ایک ہی عصبی حصے کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ پیچھے ریڑھ کی جانب سے آگے بڑھتا ہوا سامنے جسم کے درمیانی حصے تک ہی محدود ہوتا ہے۔ جسم کے دوسرے نصف میں نہیں دوڑتا۔ اگر دوسرے نصف میں یہ مرض موجود ملا، جو شاذ و نادر ہی ممکن ہے تو وہ اسی جگہ نہیں بلکہ جسم کے دوسرے کسی حصہ میں ملے گا۔
آبلوں کے اندر عصبی درد کے سارے احساسات شدید طور پر محسوس کیے جاتے ہیں جیسے جلن، درد، چبھن، سنسناہٹ، سُن ہو جانا، دھمک، چیونٹی سا رینگنا، جھنجھنانا، تڑپنا، زود حساسیت وغیرہ۔ اکثر ان دردوں کا امتزاج ملتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ مریض کو درد پہلے محسوس ہوتا ہے اور دانے یا آبلے بعد میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں تشخیص و علاج کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔
علاج شروع ہونے پر درد میں کمی ہونے لگتی ہے اور آبلے بھی پھوٹ کر بہہ نکلتے ہیں۔ پھر ان پر کھرنڈ کی ایک تہہ جم جاتی ہے جو بعد میں پپڑی بن کر چھوٹ جاتی ہے اور دانے مندمل ہو جاتے ہیں۔ ان دانوں کے جھڑ جانے پر جلد کی رنگت کی مناسبت سے سیاہ یا سفید داغ پڑ جاتے ہیں۔جو کچھ روز بعد اکثر صاف ہو جاتے ہیں۔ ان سب مراحل میں دو سے تین ہفتے بیت جاتے ہیں۔
علاج Treatment
نملہ کے آبلے بے حد دردناک ہوتے ہیں اس لیے مریض کو بہرصورت آرام کرنے کو کہا جاتا ہے اور اس کا کوئی شافی و کاری علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ درد کو کم کرنے کے سبھی جتن روا ہیں۔ کوئی کچھ کرتا ہے اور کوئی کچھ۔ البتہ جتنی جلدی ہو سکے علاج شروع کرنے سے تکلیف کم ہو جاتی ہے۔ درد کو کم کرنے کے لیے مقامی طور پر مسکن دوائیں لگائی جاتی ہیں اور دانوں یا آبلوں میں پیپ وغیرہ پڑنے سے حفاظت کے اقدام کیے جاتے ہیں۔
چند اینٹی وائرس Antivirus دوائیں بازار میں آئی ہیں جو وائرس کی نمو کو روکنے کے لیے ہیں مگر یہ مہنگی بھی بہت ہیں اور راحت بھی جلدی نہیں دیتیں بلکہ وہی تین ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ اس طرح علاج کی صورت میں کوئی خاطر خواہ اطمینان نہیں ملتا۔
مرض تین سے پانچ ہفتوں میں رخصت ہو جاتا ہے اور کوئی بھی شدید پیچیدگی پیدا نہیں کرتا.

Sunday, September 18, 2011

Will the 'Moderate Islam' of Libya
be Acceptable to the West, France and America


Dr. Rehan Ansari
کرۂ ارض پرلیبیا Libya شمالی افریقہ (صحارا) کا ایک ایسا ملک ہے جس کے تعلق سے دنیا کو زیادہ معلومات صرف ایک صدی سے ہے۔ یعنی ۱۹۱۱ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک۔ ابتدائی معروف دور وہ ہے جب لیبیا اطالوی (Italian) استبداد کے زیرِ اثر رہا اور آج کا دور ایسا ہے کہ اس ملک پر بیالیس برسوں تک ایک فوجی کرنل معمر قذافی کی فرمانروائی رہی۔ اس ملک کے جو سیاسی ادوار عالمی سطح پر مشہور ہیں وہ صرف چار ہیں۔
اوّل سلطنتِ روما Roman Empire کا زمانہ جو صرف لیبیا کے اس ساحلی علاقے پر اپنا تسلط رکھنے میں دلچسپی رکھتا تھا جو بحرالاوسط (Mediterranian Sea) سے متعلق لیبیا کے شمال میں موجود ہے، انھیں دوسرے علاقوں سے کوئی رغبت تھی نہ خطرہ؛ اس کے بعد اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی Benito Mussolini کا عہد، جو لیبیا کے ایک معلمِ قرآن، ۸۴ سالہ حریت پسند رہنما ’عمر المختار‘ Omar Mukhtar کی تاریخ ساز مزاحمت سے معنون ہے جنھیں اطالوی حکمرانوں نے تختۂ دار پر جھلا دیا۔ اس جانباز شہید نے آیتِ کریمہ ’انا ﷲ و انا الیہ راجعون‘ کا ورد کرتے ہوئے پھانسی کے پھندے کو قبول کیا اس طرح لیبیا کے عوام کو دائمی پیغام دے گئے؛ بعد ازاں شاہ ادریس اوّل سنوسی کا دور جو ساڑھے سترہ برسوں کا رہا، ان کے والد محمد سنوسی نے ایک صوفی سلسلہ قائم کیا تھا اور برطانوی حکمرانوں نے انھیں علاقہ سائرینیکا Cyrenaica کا امیر مقرر کیا تھا، پھر تاریخ کا ایک دور پورا ہوتا ہے اور ادریس سنوسی دسمبر ۱۹۵۱ء میں شاہ ادریس اوّل King Idris I بن کر عہدہ پر متمکن ہو جاتے ہیں، ان کے دور میں لیبیا کو برطانوی حکمرانوں سے نجات ملتی ہے مگر بلاحرب بلکہ برطانوی حکمرانوں کی پشت پناہی سے! وہ لیبیا کے اکلوتے بادشاہ تھے؛ چوتھا اور آج کی دنیا کا سب سے نمایاں دور بیالیس برسوں پر محیط کرنل معمر قذافی Muammar Qaddafi کا دور تھا، قذافی نے فوجی بغاوت کے سہارے امریکہ اور برطانوی تعلق و تملق پر آمادہ شاہ ادریس کو معزول کردیا، قذافی کے زمانہ میں دنیا نے لیبیا کو بھرپور انداز سے محسوس ہی نہیں کیا بلکہ عالمی برادری میں معمر قذافی نے لیبیا کو ایک منفرد شناخت بھی عطا کی مگر اپنے اقتدار کے خلاف ہونے والی حالیہ سازشوں کو محسوس نہ کرسکے اور وہ خود ایک افسوسناک انجام سے دوچار ہوئے۔ 
The Four Persons Who had Impact on history
of Libya: Omar Mukhtar, King Idris I
Muammar Al-Qaddafi, Mustafa Abdul Jalil
نامیاتی تیل کی دولت سے مالامال یہ ملک عالمی لالچیوں کی نگاہ میں آگیا اور انھوں نے پوری عیاری کے ساتھ معمر القذافی کے خلاف سازشی جال بچھایا اور جیسا کہ عمر المختار کو جدید تکنیک کے سہارے شکست دی تھی اسی کی مانند معمر القذافی کے بازوؤں کو بھی جدید تکنیک سے ہی شل کر دیا۔ درجِ بالا ادوار کو آپ محسوس کریں تو دیکھیں گے کہ کسی بھی دور کے حاکمین نے لیبیا کی عوام کے لیے ایسے نمایاں کام نہیں کیے جو انھیں عالمی برادری میں منفرد مقام دلاتے۔ معمر قذافی کے دور میں موجود لیبیائی عوام کی تقریباً صد فیصد تعداد ایسی ہے جس نے شاہ ادریس کا دور دیکھا ہے یا پھر معمر قذافی کا۔ یعنی انھوں نے آج تک انتخابی عمل (بیلٹ بکس) کا استعمال نہیں کیا۔ ملک میں کوئی واضح دستورِ حکومت بھی نہیں رائج ہوا۔ ہر بات ’حکمِ حاکم مرگِ مفاجات‘ ہوتی تھی۔
لیبیا کی جملہ آبادی ہماری ممبئی کی مجموعی آبادی کا تقریباً نصف ہے یعنی پینسٹھ تا ستر لاکھ نفوس۔ ملک کے رقبے کے لحاظ سے فی نفر چار کلومیٹر سے بیش و کم جگہ کی تقسیم ہوسکتی ہے۔ اندازہ کیجیے سرحدی وسعت اور آبادی میں کس قدر تفاوت ہے۔ اس کے باوجود کثیر آبادی دو بڑے شہروں یعنی دارالسلطنت طرابلس (Tripoli) اور ’بن غازی‘ (Benghazi) میں مرتکز ہے اس کے علاوہ ان کے نواح میں موجود دوسرے شہروں میں بھی ملتی ہے۔ پورے ملک کا تقریباً دو تہائی علاقہ غیرآباد ہے۔ بنیادی تعلیم لازمی ہونے کی وجہ سے پوری آبادی تعلیم یافتہ ہے اور عربی زبان میں گفتگو کرتی ہے۔ دوسری زبان انگریزی مقبول ہے۔ مذہبی طور پر اکثریت اسلام کی ماننے والی ہے، برطانوی، اطالوی یا قدیم رومی اثرات کے سبب عیسائی آبادی بھی قلیل تعداد میں ہے یعنی تقریباً تین تا پانچ فیصدی۔ مالی حیثیت سے کافی مستحکم یا آسودہ لوگ ہیں۔ غربت کا دور دور تک شائبہ نہیں ملتا۔


Map of Libya
یہ تمہیدی باتیں اختصار سے اس لیے درج کی گئی ہیں کہ ایک پس منظر سامنے آجائے اس بات کے لیے جو لیبیا کے نئے اور ممکنہ حاکم ’مصطفےٰ عبدالجلیل‘ نے کی ہے۔ حالانکہ انکے سروں پر سے قذافی کا خوف ابھی مکمل رخصت نہیں ہوا ہے؛ لیکن شاید آپ کی نظروں سے بھی یہ بات گذری ہو کہ لیبیا کے باغیوں کی جماعت ’قومی عبوری کونسل‘ (National Transient Council) کے سربراہ مصطفےٰ عبدالجلیل نے نئی حکومت کی تشکیل کے لیے جس دستور کا تذکرہ کیا ہے اس میں ’ماڈریٹ اسلام‘ Moderate Islam کی شمولیت کی بات کہی ہے۔راقم نے اس اصطلاح کو پڑھا تو سر دُھنتے ہی بنی: ’اعتدال پسند اسلام‘ چہ خوب!۔ اس وقت مصطفےٰ عبدالجلیل کی جو شبیہ ہماری آنکھوں میں ہے وہ ایک کٹھ پتلی کی سی ہے۔ امریکہ، فرانس اور یورپ کی کٹھ پتلی۔ ان کی سبھی حرکات و سکنات کی ڈور اِن بڑے ممالک کے پاس ہے۔ وہ جو بھی کہیں گے وہ الفاظ ان کے اپنے نہیں بلکہ ان کے اتالیق کے ہوں گے۔ اسی لیے ’ماڈریٹ اسلام‘ کی اصطلاح ہم نے اس زمرے میں رکھی کہ گذشتہ ایک دہائی میں اسلام (مسلمان نہیں) کے عنوان سے مغرب کی یہ تیسری بڑی اصطلاح ہے؛ سب سے پہلی تھی اسلامک ٹیررِزم (اسلامی دہشت گردی)، پھر آئی اسلاموفوبیا (خوفِ اسلام) اور اب ہے ’ماڈریٹ اسلام‘۔ ہم نے ایک عالمِ دین سے اس اصطلاح پر رائے چاہی تو وہ صرف زیرِ لب مسکرا کر رہ گئے اور ساری بات واضح ہوگئی۔ اب ہم اس پر مزید باتیں کسی اور موقع کے لیے چھوڑ رکھتے ہیں کہ اسلام میں ’لااِکراہ فی الدین‘ کی توضیح ہمیں کیا کیا درس دیتی ہے اور جو لوگ اسلام میں اعتدال کو علیحدہ سے نکالنا چاہتے ہیں تو ان کی تہی دستی پر کتنے آنسو بہائے جاسکتے ہیں۔ سرِ دست ہمیں لیبیا کے عوام کا ردّعمل بھی دیکھنے کی خواہش ہے جو عنقریب ایک فطری ردّعمل کی صورت میں ظاہر ہونے والا ہے اور مصطفےٰ عبدالجلیل کی شخصیت کس پیمانے تک مقبولِ عوام ہو سکتی ہے اسے بھی دیکھنا ہے۔ یہ انتظار اس وقت تک باقی رہے گا جب تک معمر قذافی کا انجام سامنے نہیں آجاتا۔ پھر عوام اور باغی NTC آمنے سامنے ہوں گے۔ ہمارا قیاس ہے کہ یہ باتیں مغرب نے مصطفےٰ عبدالجلیل سے اس لیے کہلوائی ہیں کہ ملک کی اکثریت مسلمان ہے اور بیشتر باعمل ہیں۔ عربی ان کی زبان ہے۔ نئی حکومت مغرب کی پٹھو بھی بنی رہے اور عوام اسے محسوس بھی نہ کریں۔ حالیہ اور شاہ ادریس کے دَور میں کسی قدر مطابقت دکھائی دیتی ہے بس فرق ہے تو اتنا کہ شاہ ادریس کو حکومت بغیر لڑائی جھگڑے یا جنگ کے نصیب ہو گئی تھی اور قومی عبوری کونسل کو باقاعدہ داخلی جنگ کے ساتھ۔ مگر ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ گلوبل ولیج بنی ہوئی دنیا میں لیبیا کی نوجوان نسل ان کے دھوکے میں نہیں آئے گی ۔ وہ تعلیم یافتہ بھی ہیں، نئی تہذیبوں سے آشنا بھی اور ترقی کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ وہ مغرب کی چالوں کو اچھی طرح محسوس کریں گے، ہاں البتہ ابھی تک عوام میں کوئی ایسی لیڈرشپ نہیں ابھری ہے جسے تعمیری و فکری سوچ کا حامل سمجھا جائے۔ اب تک چلنے والی اس لڑائی کا ایک ہی مقصد رہا ہے کہ ’قذافی کے اقتدار سے نجات حاصل ہو‘... چھ ماہ کے دوران بھی اور اس سے قبل کوئی ایک بھی قومی مسئلہ زیرِ غور نہیں آیا۔ چلیں بالفرض مان لیں کہ وقتی طور پر مغرب کا ’ماڈریٹ اسلام‘ والا جادو چل بھی گیا تو کیا لیبیا کی آئندہ نسل اپنی حکومت کے ذریعہ اسلام کے محض منتخبہ (من چاہے) احکام پر ہی عمل کرے گی؟ خود مصطفےٰ عبدالجلیل اینڈ کمپنی نے (اگر وہ ظالم تھا تو) قذافی کو کس اسلام کے حوالے سے اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے لوہا لیا ہے؟... اس اقدام کو آپ کیا ’ماڈریٹ اسلام‘ نہیں مانتے کہ جو انصاف پسندی کے لیے آدمی کو ہر طرح کی تدبیر اور قدم اٹھانے پر آمادہ کرتا ہے؟.... جی ہاں یہی اسلام کا عدل و انصاف ہے اور اسی ماڈریٹ اسلام کو لیبیا کی آئندہ نسل بھی آپ کی مانند جاری رکھے گی... ہم بھی دیکھیں گے کہ مصطفےٰ عبدالجلیل اور ان کے مغربی و عالمی آقا اس ماڈریٹ اسلام کو کہاں تک برداشت کریں گے... کیونکہ ’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘.