Mumbai Terror Attacks Do They Have Enmity Against Common Man Dr. Rehan Ansari |
اب تک جتنے بم دھماکے ہوئے ہیں ان میں استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر اکثر تجارتی علاقوں یا مراکز (پر نہیں) کے جوار میں کیے گئے ہیں۔ تجزیہ کار یہ بتلایا کرتے ہیں کہ وہ دہشت گرد ان علاقوں کا انتخاب اس لیے کرتے ہیں کہ وہاں بھیڑ ہونے سے زیادہ ہلاکتیں اور نقصان ہو سکتا ہے۔ جہاں تک نقصان کی بات ہے تو ہم نے سدا یہی پایا کہ یہ دہشت گرد مالی نقصان زیادہ نہیں ہونے دیتے (شاید اس لیے کہ یہ مال خواص کا ہوتا ہے!) مگر ’عوام‘ کا جانی یا بدنی نقصان بے دریغ اور انتہائی سفاکانہ انداز سے کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ عوام خوفزدہ ہوتے ہیں اور دہشت ان کی ریڑھ میں ایک سرد لہر بن کر سرایت کرجاتی ہے پھر برسوں تک اس کی تصویر ذہن کے پردے پر مرتسم رہتی ہے۔
نشانہ پر رہنے والے تجارتی مراکز بھی وہ ہیں جو یا تو مالیاتی منتقلی کے ہیں یا پھر ہیرے جواہرات کی منڈیاں ہیں۔ گویا بنیادی مقصد زر و جواہر کی تجارت سے متعلق نظر آتا ہے۔ اس شک سے بہت سی شاخیں بھی پھوٹتی ہیں۔ مثلاً کن لوگوں کا یہ مقصد ہو سکتا ہے؟... وہ لوگ ملک یا بیرونِ ملک کے کن علاقوں میں زیادہ رہتے ہیں؟... اگر دہشت گردوں کا مقصد صرف عوام کو ڈرانا یا دھمکانا ہوتا ہے تو انھیں کئی بار ممبئی واسیوں کی جانب سے ہزیمت ہی اٹھانی پڑی ہے اور عوام اپنے زخموں کی مرہم پٹی کے بعد دوبارہ کسی غیرواجب احساس کے ساتھ اپنے معمولات میں مشغول ہوئے ہیں؛ تو آخر دہشت گردوں کو کامیابی کہاں حاصل ہوتی ہے؟ ہمیں امید ہی نہیں یقین ہے کہ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوگا۔
Union Home Minister P. Chidambaram visiting the site of blast in Mumbai on 14th July |
RR Patil: Maharashtra Home Minister |
Police Naka Bandi |
CCTV کی تنصیبات سے جب مناسب نتیجے نہیں نکل پائے ہیں تو اس کے متبادل پر حکومت کیوں نہیں سوچتی۔ دوسرے طبقات میں سے بھی جب دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب ہوئے ہیں تو حکومت ان کے چینل کو کیوں نظر انداز کردیتی ہے۔ جب دہشت گردوں کے نشانے مخصوص ہیں تو ان مخصوص علاقوں کے تمام داخلہ دروازوں پر ہائی ٹیک سینسر اور ڈٹیکٹر نصب کر کے بڑی حد تک تحفظی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت گرد بم ڈھونے کے لیے جب چھوٹی موٹرگاڑیاں یا اسکوٹر وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں تو ان کی پارکنگ (خواہ وہاں کے دکاندار یا آفس والے ہوں) ایسے علاقوں میں سرے سے کرنے ہی نہ دی جائے؛ بلکہ کچھ دور پر کہیں پارکنگ زون بنا کر مکمل سیکوریٹی چیک کے ساتھ پارکنگ کی اجازت دی جائے۔
مگر ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد دہشت گرد تو شہر سے چھو ہو جاتے ہیں اور شہر میں مصروف ترین شب و روز گذارنے والے شہریوں کو اکثر و بیشتر حوالداروں کی تعیناتی کے سبب دشواریوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ انھیں تلاشی دینی پڑتی ہے۔ موٹر یااسکوٹر کے کاغذات دکھلانے پڑتے ہیں۔ راستے پر ٹریفک الگ جام ہوتا ہے اور وقت برباد ہوتا ہے۔ مہنگائی سے پریشان عوام کی گاڑیوں کا ایندھن بے سبب جلتا رہتا ہے۔ شہر کی آلودگی میں الگ اضافہ ہوتا ہے۔
Police Naka Bandi |