To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Friday, July 15, 2011

Mumbai Terror Attacks
Do They Have Enmity Against Common Man

Dr. Rehan Ansari
بم دھماکے... پے بہ پے بم دھماکے... اچانک اور بھیڑ بھاڑ کے وقت کے بم دھماکے ممبئی میں کسی تجربہ گاہ کی مانند کیے جاتے ہیں۔ شکار ہوتے ہیں عوام۔ نقصان میں صرف پبلک رہتی ہے۔ اس کی جان بھی جاتی ہے اور معذور بھی یہی ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ عوام سے خصوصاً ممبئی (اور کسی حد تک دہلی) کی پبلک سے ایسی گہری دشمنی آخر کسے ہو سکتی ہے؟  شک کے ذہن سے سوچنے بیٹھیں تو کچھ دھندلی سی تصویریں، لالچی چہروں والی؛ اُبھرتی ہیں۔ ایسا سوچنے میں برائی بھی نہیں ہے کیونکہ حکومت کی مشنریاں بھی ایسی ہی سوچ کے ساتھ چند امکانی لوگوں کی حرکت کا اعلان کرتی رہتی ہیں جو بعد میں اکثر جھوٹی نکلتی ہیں۔ جرمن بیکری سے لے کر تازہ ترین واردات جے ڈے کےقتل کیس کے بعد ’انڈین مجاہدین‘ کے نام کا اعلان تھا جسے یمن سے ایک گمنام کال کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا تھا۔ کالر کو ٹریس کیا گیا یا نہیں اس کی خبر نہیں دی گئی مگر بعد میں جے ڈے کے قاتلوں کو ’چھوٹا راجن‘ گینگ سے برآمد کیا گیا تھا۔ خیر ہم اپنی سوچ، مشکوک چہروں کی بات کر رہے تھے اس لیے آئیے پلٹیں۔ دیکھیں کہ کیا ایسا بھی ممکن ہے یا صرف ہمیں دہشت زدہ کرنا ہی ان بزدل بلاسٹرس (بلکہ باسٹرڈس) کا کام ہے۔


اب تک جتنے بم دھماکے ہوئے ہیں ان میں استثنائی صورتوں کو چھوڑ کر اکثر تجارتی علاقوں یا مراکز (پر نہیں) کے جوار میں کیے گئے ہیں۔ تجزیہ کار یہ بتلایا کرتے ہیں کہ وہ دہشت گرد ان علاقوں کا انتخاب اس لیے کرتے ہیں کہ وہاں بھیڑ ہونے سے زیادہ ہلاکتیں اور نقصان ہو سکتا ہے۔ جہاں تک نقصان کی بات ہے تو ہم نے سدا یہی پایا کہ یہ دہشت گرد مالی نقصان زیادہ نہیں ہونے دیتے (شاید اس لیے کہ یہ مال خواص کا ہوتا ہے!) مگر ’عوام‘ کا جانی یا بدنی نقصان بے دریغ اور انتہائی سفاکانہ انداز سے کر دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ عوام خوفزدہ ہوتے ہیں اور دہشت ان کی ریڑھ میں ایک سرد لہر بن کر سرایت کرجاتی ہے پھر برسوں تک اس کی تصویر ذہن کے پردے پر مرتسم رہتی ہے۔
نشانہ پر رہنے والے تجارتی مراکز بھی وہ ہیں جو یا تو مالیاتی منتقلی کے ہیں یا پھر ہیرے جواہرات کی منڈیاں ہیں۔ گویا بنیادی مقصد زر و جواہر کی تجارت سے متعلق نظر آتا ہے۔ اس شک سے بہت سی شاخیں بھی پھوٹتی ہیں۔ مثلاً کن لوگوں کا یہ مقصد ہو سکتا ہے؟... وہ لوگ ملک یا بیرونِ ملک کے کن علاقوں میں زیادہ رہتے ہیں؟... اگر دہشت گردوں کا مقصد صرف عوام کو ڈرانا یا دھمکانا ہوتا ہے تو انھیں کئی بار ممبئی واسیوں کی جانب سے ہزیمت ہی اٹھانی پڑی ہے اور عوام اپنے زخموں کی مرہم پٹی کے بعد دوبارہ کسی غیرواجب احساس کے ساتھ اپنے معمولات میں مشغول ہوئے ہیں؛ تو آخر دہشت گردوں کو کامیابی کہاں حاصل ہوتی ہے؟ ہمیں امید ہی نہیں یقین ہے کہ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوگا۔


Union Home Minister P. Chidambaram
visiting the site of blast in Mumbai on 14th July
آئیے ہم کچھ باتیں اپنی ریاستی حکومت کی کارکردگی کے تعلق سے بھی کرلیں۔ جب کبھی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو کسی نہ کسی ذریعہ سے شک کی پہلی سوئی کچھ منتخبہ ناموں پر ٹکتی ہے جن کے تعلق سے ہمیں آج تک نہیں پتہ کہ ان کے ہیڈکوارٹر یا ریجنل اور ژونل اڈے کہاں ہیںپھر وہ ہماری ایجنسیوں یا سیکوریٹی مشینریوں سے بچ کر یہ حملے کیسے کر جاتے ہیں؟ برسوں میں یہ حیرت بھی معدوم ہو چکی ہے۔سب کچھ ایک رُوٹین جیسا لگتا ہے۔ ہاں البتہ، جب کبھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ان مخصوص ناموں کے سبب ہمیں محسوس ہوا ہے کہ ملک کے ایک طبقے کے خلاف نفرت کی (غیراعلانیہ) کاشت کی جاتی ہے۔ نسلوں اور برسوں سے ایک دوسرے کے پڑوس میں رہنے والے بھی نظروں میں شک کا زاویہ پال لیتے ہیں۔ سانپ کے نکل جانے کے بعد لکیر پیٹنے کے نام پر پولیس کے ذریعہ ناکہ بندی کرکے عوام کو مزید ہراس میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ اور یہاں بھی اکثر کسی کا نام یا ظاہر مخصوص طبقے کا ہوا تو اس کی پوچھ تاچھ طویل تر ہوجاتی ہے۔ روزنامہ انقلاب کے فوٹوگرافر سمیر عابدی کا معاملہ تازہ ترین مثال ہے۔

RR Patil: Maharashtra Home Minister
ہاں، ایسے واقعات کے بعد ہمارا دل اس وقت دہشت محسوس کرتا ہے جب حکومت یا اس کی مخصوص مشینری کی کارکردگی کے تعلق سے ہم کوئی سوال اٹھائیں؛ ہمیں ڈر لگتا ہے کہ ہمیں کسی بھی حیلے سے دبوچ لیا جاسکتا ہے۔ ورنہ ہم حکومت سے یہ سوال کر سکتے ہیں کہ جس شخص نے گذشتہ واقعات کے بعد اپنی ناکامی (نااہلی پڑھیں) کی اخلاقی ذمہ داری قبول کر لی تھی اسے بار بار ریاست مہاراشٹر کا وزیرِ داخلہ کیوں بنا دیا جاتا رہا ہے۔ایسا وزیرِ داخلہ اکثر دہشت گردانہ واقعات کے دن جائے واردات سے دور کیوں رہتا ہے۔ میڈیا کا سامنا کیوں نہیں کرتا۔ سرکاری ٹی وی چینل سے اعلان یا بیان کے ذریعہ عوام کی ڈھارس کیوں نہیں بندھاتا۔ آخر کن سیاسی مصلحتوں کی دہلیز پر عوام کی جان و مال سے کھیلا جا رہا ہے۔


Police Naka Bandi
دہشت گردانہ واقعات کے بعد مسلسل یقین دہانیوں کے باوجوددہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں تو ان کے تدارک پر حکومت کی جانب سے دیگر ماہرین کی جماعت سے کوئی مباحثہ یا گفتگو کے ذریعہ متبادل حل پر غور کیوں نہیں کیا جاتا۔
CCTV کی تنصیبات سے جب مناسب نتیجے نہیں نکل پائے ہیں تو اس کے متبادل پر حکومت کیوں نہیں سوچتی۔ دوسرے طبقات میں سے بھی جب دہشت گردوں کے چہرے بے نقاب ہوئے ہیں تو حکومت ان کے چینل کو کیوں نظر انداز کردیتی ہے۔ جب دہشت گردوں کے نشانے مخصوص ہیں تو ان مخصوص علاقوں کے تمام داخلہ دروازوں پر ہائی ٹیک سینسر اور ڈٹیکٹر نصب کر کے بڑی حد تک تحفظی اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ دہشت گرد بم ڈھونے کے لیے جب چھوٹی موٹرگاڑیاں یا اسکوٹر وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں تو ان کی پارکنگ (خواہ وہاں کے دکاندار یا آفس والے ہوں) ایسے علاقوں میں سرے سے کرنے ہی نہ دی جائے؛ بلکہ کچھ دور پر کہیں پارکنگ زون بنا کر مکمل سیکوریٹی چیک کے ساتھ پارکنگ کی اجازت دی جائے۔
مگر ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ ایسے واقعات کے بعد دہشت گرد تو شہر سے چھو ہو جاتے ہیں اور شہر میں مصروف ترین شب و روز گذارنے والے شہریوں کو اکثر و بیشتر حوالداروں کی تعیناتی کے سبب دشواریوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ انھیں تلاشی دینی پڑتی ہے۔ موٹر یااسکوٹر کے کاغذات دکھلانے پڑتے ہیں۔ راستے پر ٹریفک الگ جام ہوتا ہے اور وقت برباد ہوتا ہے۔ مہنگائی سے پریشان عوام کی گاڑیوں کا ایندھن بے سبب جلتا رہتا ہے۔ شہر کی آلودگی میں الگ اضافہ ہوتا ہے۔


Police Naka Bandi
 ہمیں تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ممبئی شہر کے ’ملک کی اقتصادی راجدھانی‘ کے اسٹیٹس سے نہ صرف جلتے ہیں بلکہ اس کو چھین لینے کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہتے ہیں؛ خواہ اس کے لیے انھیں دہشت گردوں کو ’ممبئی کی پبلک کی سپاری‘ دینی پڑ جائے۔ اور وہ یہی کر ہے ہیں۔ چاہنے کے باوجود یہ شک ہمارے ذہن سے محو نہیں ہوتا

Thursday, July 14, 2011

Women's Health Is Family's Health
Dr. Rehan Ansari
عورتوں اور مردوں کے صحت کے مسائل تقریباً یکساں ہوتے ہیں مگر عورتوں میں کسی قدر مختلف انداز میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔ مثلاً دل کے امراض کی علامات مردوں اور عورتوں میں جدا جدا ہو سکتی ہیں۔ عورتوں میں چند عوارضات مردوں کے مقابلے میں زیادہ ملتے ہیں جیسے جوڑوں کا درد، موٹاپا اور ڈِپریشن یا افسردگی۔ علاوہ ازیں حیض، حمل اور سنِ یاس (مینوپآز) کی پریشانیاں صرف عورتوں کی ہوتی ہیں۔
عورتیں اکثر اپنی پریشانیوں سے بے پروا ملتی ہیں اور اپنے خاوند اور بچوں کی پریشانیوں پر توجہ رکھتی ہیں۔ یہ انتہائی غلط بات ہے۔ اپنی صحت کو ہمیشہ ترجیح ملنی چاہیے۔ ہم اس مضمون میں عورتوں کو چند ترکیبیں بتانا چاہتے ہیں کہ جن کو اپنا کر آپ اپنی صحت کی حفاظت کر سکتی ہیں۔
روزانہ
٭کھانوں میں سبزیاں اور پھلوں کے استعمال سے آپ کئی قسم کے کہنہ امراض اور کینسر سے خود کو بچا سکتی ہیں۔پھلوں اور سبزیوں میں آپ کو کئی قسم کی معدنیات، حیاتین، نباتاتی ریشے اور کئی مفید اجزاء ملتے ہیں جو صحت کے محافظ ہوتے ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں میں قدرتی طور پر چربی اور کیلوری نسبتاً کم پائی جاتی ہے اور یہ صرف بھوک کا مداوا کرتے ہیں۔ آپ ان کا انتخاب بھی حسبِ موسم کم و بیش کر سکتے ہیں اور موسمی پھل یا سبزیاں ہی استعمال کرنا مفید ہوتا ہے۔ پانی بھی زیادہ پیا کریں۔ نمک کا استعمال کم رکھیں۔ میٹھی اور تلی ہوئی اشیاء سے ممکنہ حد تک بچتے رہیں۔ جب جب ہلکا ناشتہ لیں تو اس میں وہی منتخب کریں جو موٹاپا پیدا نہ کرے۔
٭موٹاپا یا وزن کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے آپ کو متوازن غذا ہی استعمال کرنی چاہیے۔ تلی ہوئی اشیاء یا چربی دار غذاؤں سے بچنا چاہیے۔ ناشتہ وغیرہ میں بھی کم چیزیں اور وہ بھی سائز میں چھوٹی ہونی چاہئیں۔ ہلکی پھلکی ورزشیں جاری رکھنی چاہیے۔

A Balanced Food Is The Right Chioce
٭چہل قدمی کرتے رہنے یا خود کو متحرک رکھنے سے دل کی بیماریوں سے حفاظت رہتی ہے۔ علاوہ ازیں لقوہ، آنتوں کے کینسر، ذیابیطس اور ہائی بلڈپریشر سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ چہل قدمی سے وزن بھی کنٹرول میں رہتا ہے، ہڈیاں بھی صحتمند رہتی ہیں، پٹھے اور جوڑ بھی درست رہتے ہیں اور بڑھاپے میں گرنے اور زخمی ہونے کے امکانات گھٹ جاتے ہیں، جوڑوں کے درد میں بھی افاقہ ہوتا ہے، تردّد اور افسردگی کی علامات کو قابو میں رکھتی ہے،اسپتالوں یا ڈاکٹروں اور دواؤں سے بھی کسی قدر بچاؤ ہوتا ہے۔ ہفتے میں پانچ یا چھ دن محض آدھ گھنٹے یومیہ کی تیز چہل قدمی ان فوائد کے حصول کے لیے کافی ہے۔
٭کچھ عورتوں کو تمباکو نوشی کی عادت ہوتی ہے۔ اگر وہ اسے ترک کر سکیں تو اس سے بڑا اور کوئی کام خود کے لیے نہیں ہوگا۔ اس سے آپ کی عمر اور صحت دونوں دراز ہو سکتے ہیں۔ دل کے امراض، کینسر، لقوہ اور دیگر شدید امراض سے بچ سکتی ہیں۔آپ حاملہ ہوجائیں تو نومولود صحتمند رہے گا۔ آپ کے تمام افرادِ خانہ کی بھی صحت کی حفاظت ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ تمباکونوشی پر خرچ ہونے والی رقم بچا کر دوسرے اہم کاموں پر لگا سکتی ہیں۔
٭ گھریلو کے علاوہ برسرِ روزگار خواتین کے ساتھ ایک اہم مسئلہ یہ بھی لگا ہوتا ہے کہ وہ کام کے بوجھ اور دباؤ کے سبب ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ ذہنی تناؤ متعدد امراض کا سبب ہوتا ہے جن میں دل اور دماغ و نفسیاتی امراض کے علاوہ جوڑوں اور پٹھوں کے امراض بھی شامل ہیں۔ اس کا سہل ترین طریقہ یہی ہے کہ حتی الامکان خود کو ذہنی تناؤ کا شکار ہونے سے بچائے رکھیں۔ دواؤں کے چکر میں نہ پڑیں۔
٭ خود کے بارے میں بھی زیادہ جانکاری حاصل کریں جیسے آپ والدین میں سے کسی کو ذیابیطس، ہائی بلڈپریشر، دل کے امراض یا کینسر تو نہیں رہا؟، اگر آپ کسی روزگار یا کاروبار سے متعلق ہیں تو آپ کسی کیمیکل یا دوسرے زخمی کرنے والے اوزار کا استعمال تو نہیں کرتیں، کھیل کے شعبہ میں ہیں تو بھی یہی خیال رکھنا لازمی ہے۔ آپ کے روزمرّہ کے معمولات اور عادتیں آپ کی صحت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
٭ ہمیشہ زخمی ہونے سے خود کو محفوظ رکھیں۔ آپ کے کام کی جگہوں پر ایسے اوزار یا حالات موجود ہو سکتے ہیں جو آپ کو زخمی کر سکتے ہیں یا پھر چند کیمیکل ہوسکتے ہیں جو آپ کی جلد یا دیگر اعضاء کے لیے مضر ہوسکتے ہیں اس لیے ان خطرات سے خود کو ہمیشہ محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کیے رکھیں۔
٭ اپنے لیے بھی وقت نکالیں۔ صرف کام ہی کام مت کرتے رہیں۔ ایسے مشغلے اختیار کریں جو تمہاری دلچسپی کا سامان ہوں۔ آرام اور سونے کے لیے بھی مناسب وقفہ نکالیں۔
ہفت روزہ
٭اگر آپ کوئی ورزش شروع کرنا چاہتی ہیں تو اس کی ابتداء تھوڑی تھوڑی ورزش کے ساتھ کریں اور رفتہ رفتہ بڑھاتے جائیں تاکہ نقصان یا زخمی ہونے سے بچیں۔ شدید ورزش اختیار کرنے سے قبل اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور ہر ممکنہ رِسک کو جان لیں۔
٭اگر آپ شروع میں کچھ دِقّت محسوس کریں تو بھی ہمت نہ ہاریں بلکہ ورزش جاری رکھیں۔ دھیرے دھیرے عادت ہو جائے گی۔
٭پورے ہفتے میں صحت پر اثر انداز ہونے والے سبھی عوامل کا جائزہ لیا کریں کہ کس چیز سے آپ کو فائدہ پہنچا ہے اور کیا بات نقصاندہ ثابت ہوئی۔
ماہانہ
٭ہر مہینے اپنے پستان کا خود ہی معائنہ کرنے کی عادت ڈالیں۔ آپ اس کی جانکاری اپنی معالج یا ڈاکٹر سے لے سکتی ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ پستان کے کینسر کی جلد نشاندہی سے اس کا علاج آسان ہو جائے گا۔
٭ہر مہینے کی برابر سے پلاننگ کرتے رہنا بھی صحت کے لیے بہت مفید ہے۔ کھانے پینے اور خود کے علاوہ گھر کے دیگر افراد کے لیے دوائیں اور دیگر لازمی اشیاء کی مناسب فراہمی، موسم اور اس کے معمولات کا خیال کرنا، اپنے علاقے سے باہر کسی ضرورت کے لیے جانا ہو تو روانگی سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مناسب صلاح لینی چاہیے۔
سالانہ
چند امراض کی وجہ سے اپنے ڈاکٹر کے پاس سالانہ جیک اپ بھی بے حد ضروری ہے۔ خصوصاً چالیس سال کی عمر کے بعد پستانوں کے ایکسرے (میموگرافی) کروانا، مہبل کے راستے کا خوردبینی معائنہ (Pap Test) کروانا، ذیابیطس، دانت، آنکھیں اور جنسی معاملات کے ٹیسٹ کروانا، موروثی اور نفسیاتی امراض سے متعلقہ ٹیسٹ کروانا۔ وغیرہ۔
امراض سے تحفظ کے ٹیکے صرف بچوں کے لیے ہی نہیں ہوتے بلکہ بالغ افراد کو بھی بعض ٹیکے لیتے رہنا چاہیے۔ اگر آپ چند پالتو حیوانات کے ساتھ گذر بسر رکھتے ہیں تو اس کا خیال رکھیں کہ ان حیوانات کی صحت بھی قائم رہے کیونکہ وہ بھی بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔
حمل اور احتیاط
اگر آپ حاملہ ہونا چاہتی ہیں تو یہ خیال رہے کہ آپ کو استقرارِ حمل سے پہلے، دورانِ حمل اور وضعِ حمل کے بعد بھی ’’فولِک ایسڈ‘‘ کی گولیاں لیتے رہنا چاہیے۔ اس سے نومولود کسی بھی پیدائشی نقص سے محفوظ رہے گا۔
امراض اور مسائل
چند حالتیں تکلیف پیدا کرتی ہیں جیسے ماہواری کی خرابیاں، خون کی کمی، ہڈیوں کی کمزوری (کیلشیم کی کمی)، پیٹھ اور کمر کا درد، سفید رطوبت کا اخراج، بانجھ پن، بچے کی پرورش اور دودھ پلانے کے دوران پیش آنے والی مشکلات و کیفیات، بالوں کا جھڑنا، نفسیاتی عوارض اور ہسٹیریا؛ یہ سب اپنی جگہ اہم اور عام ہونے کے ساتھ ساتھ طویل وضاحت بھی چاہتے ہیں۔ انشاء اﷲ آئندہ ملاقاتوں میں ان پر بھی گفتگو ہوگی۔


Tuesday, July 12, 2011

آج کے ہندوستان ٹائمز کے صفحہ اول کی شاہ سرخی اور خبر پیش ہے. دیکھے اسے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو

جے بے پردگی

Monday, July 11, 2011

Rains & Rainy DiseasesDr. Rehan Ansari
موسمِ باراں جتنا رومان پرور اور لطف اندوزی والا موسم ہے اس پر بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے۔ یقینا یہ قدرت کا بیش بہا تحفہ ہے، نعمت ہے، رحمت ہے، لیکن شہری زندگیوں میں یہ بیشتر اوقات زحمت بن جاتا ہے۔ اس کا سبب ہمارا اپنا ماحول اور گذر بسر کے طریقے ہیں۔ ہم اپنا رُوٹین سال بھر تبدیل نہیں ہونے دینا چاہتے جبکہ قدرت کا رُوٹین سال بھر میں مختلف تقاضے کرتا ہے۔ انھی تقاضوں میں سے حفظانِ صحت کے طریقے بھی ہیں۔
برسات کے موسم کے ساتھ ماحول تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس ماحول میں پلنے اور بڑھنے والے امراض مخصوص ہیں۔ انھیں دو اہم قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک تو ہوا سے پھیلنے والے امراض اور دوسرے پانی سے پھیلنے والا امراض۔ پانی سے پھیلنے والے امراض میں سب سے زیادہ عام اور پریشان کن مرض ’’پیچش‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ یرقان، کالرا، پولیو، ٹائیفائڈ، ڈینگو بخار، لیپٹواسپائروسس Leptospirosis وغیرہ بے حد سنگین امراض ہیں۔ ان کے علاوہ امراض میں دمہ، جوڑوں کا درد، جلد کے امراض، سردی، کھانسی، نمونیا بھی ہیں۔



Dengue Fever, Aedis egypti mosquito
اس میں کئی امراض ایسے ہیں کہ جو انسانوں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جو پالتو یا غیرپالتو جانوروں یا کیڑے مکوڑوں اور دوسرے حیوانات سے منتقل ہوتے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو غذاؤں میں امراض کے جراثیم کی شمولیت سے پھیلتے ہیں۔ یہ سب باتیں تمہیداً اس لیے بیان کی جارہی ہیں کہ انھی عوامل پر قابو پا لیا جائے تو برسات میں پھیلنے والے امراض سے بچاؤ کی بڑی اچھی صورت نکل آئے گی۔
پیچش
پیچش کا اصل سبب غذائی تلوّث ہے۔ یہ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک امیبائی اور دوسری جراثیمی۔ یعنی غذا یا پینے کے پانی میں جب امیبا نامی خوردبینی جاندار شامل ہو جائے یا شِگیلا (Shigella) نامی جراثیم (بیکٹیریا) کا تلوّث ہو جائے تو پیچش لاحق ہو جاتی ہے اور پیٹ میں سخت مروڑ کے ساتھ چپچپے پاخانے ہونے لگتے ہیں، جس میں کبھی خون بھی شامل ہوتا ہے۔ ایسا دن میں کئی بار ہوتا ہے اور مریض نڈھال ہو جاتا ہے۔ علامت میں قے بھی شامل یا شریک ہو سکتی ہے۔ کبھی پاخانے بالکل پتلے دست کی شکل میں بھی ہوتے ہیں اور دیگر علامات یکساں ہوتی ہیں۔
اس کا علاج ڈاکٹر سے ہی کروانا چاہیے۔ کیونکہ صحیح تدبیر نہ اپنانے اور بے پروائی کی صورت میں معاملہ خطرناک بھی ہو جاتا ہے۔
علاج میں خود کرنے کے کام یہ ہیں: زیادہ سے زیادہ پانی پینا چاہیے۔ پینے کا پانی اُبلا ہوا رکھا جائے۔ اگر ORSیعنی پانی میں ملانے والا نمک اور شکر کا سفوف استعمال کیا جائے تو اور بہتر ہوتا ہے۔ آرام کیا جائے۔ مرض کی شدت کے اعتبار سے گھر پر علاج کروایا جائے یا اسپتال میں داخل کرنا لازمی ہے اس کا فیصلہ اپنے فیملی ڈاکٹر پر چھوڑیں۔


Diarrheoa and Cholera
ڈائریا (اور) کالرا
یہ بھی آلودہ یا ملوّث پانی کے پینے سے ہوتا ہے۔ اس میں پتلے دست آتے ہیں اور دن بھر میں بار بار جلاب ہوتا ہے۔ اسی سبب جسم میں پانی کی کمی کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ مریض ڈھلک جاتا ہے۔ بخار چڑھ جاتا ہے۔ پیٹ میں درد نیز متلی اور قے بھی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق علاج کریں اور صاف شدہ پانی پئیں۔ باقی تدابیر حسبِ بالا یعنی پیچش کے علاج کی مانند ہیں۔ کالرا کا ڈائریا بے حد شدید اور بہت زیادہ متعدی یعنی ایک سے دوسرے کو لگنے والا مرض ہے۔ یہ اکثر اوقات مہلک ہو جاتا ہے۔ اس لیے برسات کے موسم کے ڈائریا کو کسی بھی صورت میں نظر انداز کرنا اپنی جان سے کھیلنے کے مترادف ہوتا ہے۔جس قدر جلد ممکن ہو قریبی اسپتال سے رجوع ہو نا چاہیے اور کالرا کی تشخیص ہو جائے تو مقامی حکام کو فوری طور پر اس کی اطلاع دینی لازمی ہے۔


Leptospirosis & Jaundice
یرقان
یہ جگر کی خرابی کے سبب ہوتا ہے۔ جب جگر میں سوجن پیدا ہو جاتی ہے تو خون میں ایک ذرہ بڑھ جاتا ہے جسے بلیروبین (Bilirubin)کہتے ہیں۔ اس کی وجہ سے جلد اور آنکھوں کے سفید حصے میں زردی یا پیلا رنگ دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس کے اسباب اور حالات تو بہت سارے ہیں لیکن یہاں برسات کے مطابق بتلانا چاہیں گے کہ اس موسم میں یرقان کا عام سبب ’لیپٹواسپائروسس‘ نامی مرض ہوا کرتا ہے جسے Weil's Disease  بھی کہتے ہیں۔ یہ مرض تحقیق کے مطابق ایک بیکٹیریا سے پھیلتا ہے جو برسات کے پانی میں چوہوں کے (کبھی کتوں، خنزیر اور گھوڑوں کے بھی) پیشاب کے ذریعہ سے شامل ہوتا ہے اور جمع ہوئے پانیوں میں جب کوئی چلتا ہے اور اس کی جلد کسی وجہ سے مجروح ہو تو اس زخم کے راستے یہ جراثیم جسم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس کی اہم علامات میں بخار، لرزہ، شدید بدن درد اور سر کا درد شامل ہیں۔ بڑھی ہوئی صورتوں میں جگر اور گردہ بھی متاثر ہو جاتے ہیں اور یرقان ظاہر ہوتا ہے۔ آنکھوں اور جسم کی اندرونی جھلیوں میں خون رِسا ہوا بھی نظر آتا ہے۔ اگر یہ منزل آجائے تو اس مرض کو خطرناک درجے میں سمجھا جاتا ہے۔
اس کا علاج تو اسپتال میں ہی ممکن ہے، جیسے ہی کچھ علامات ظاہر ہوں فوراً اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ خود سے کچھ کرنے کے اور تحفظی طریقے یہ ہیں: پانی سے بھرے ہوئے علاقوں میں چلنے سے گریز کریں، اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر گمبوٹ استعمال کریں۔ کچرا وغیرہ کوڑا دان یا صحیح جگہوں پر پھینکیں۔ چوہوں کی آبادی کم کرنے میں بلدیہ کا تعاون کریں ۔
۶ تا ۸گلاس پانی یومیہ پئیں۔ تازہ پھل اور ان کا رس نکال کر استعمال کریں۔ کھانے میں بھی تازہ اور دھلی ہوئی سبزیاں استعمال کرنا بہتر ہے۔ کافی، مشروبات، شراب، اور اسی قسم کی کباڑ غذائیں استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ گوشت، مچھلی، دودھ، پنیر، کا استعمال نہ کریں۔ سگریٹ اور تمباکو کے دیگر استعمال سے بچیں۔
ڈینگو
یہ فلیوی وائرس Flavi-virusکی وجہ سے پھیلتا ہے۔ اور اس وائرس کو پھیلانے کا ذمہ دار ایک ایڈیس ایجپٹائی Aedes aegypti نامی مچھر ہے۔ یہ مچھر رات کے برخلاف دن کے وقت کاٹا کرتا ہے۔ اس کی علامات میں اچانک تیز بخار چڑھنا، لرزہ، شدید سر درد، کمزوری، آنکھوں میں درد، پٹھوں اور جوڑوں میں درد، خون نکلنے کی علامات، قے، چٹے، سیاہ پاخانہ جیسی باتیں شامل ہیں۔ اس کا علاج بھی خود سے کرنے کی غلطی نہ کریں۔ ڈاکٹر یا اسپتال سے رجوع کریں۔ مناسب تحفظ کے طریقے اپنائیں جیسے مچھروں کی پیدائش کی جگہوں کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ پانی جمع رہنے والی جگہوں کو مناسب انداز میں ڈھک کر رکھیں یا پھر انھیں ختم کر دیں جیسے پودوں اور پھولوں کے گملے، زیرتعمیر بلڈنگوں کے سلیب، بلڈنگوں کی پانی کی ٹنکیاں، مختلف مصارف میں رہنے والے ٹائر اور ٹیوب،گٹریں اور نالیاں، وغیرہ وغیرہ۔
پولیو
یہ پولیو کے وائرس سے پھیلنے والا شدید قسم کا متعدی مرض ہے۔ یہ بھی پانی کے وسیلے سے پھیلتا ہے۔ پولیو کے وائرس مریض کے فضلے میں شامل رہتے ہیں اور جب یہی فضلہ پینے کے پانی میں شامل ہو کر کسی طرح دوسرے بچّے کے جسم میں منتقل ہوگیا تو اسے متاثر کر سکتا ہے۔
اس کا علاج تو خیر سے ابھی تک کچھ کامیاب نہیں ہے لیکن اس سے بچاؤ کے ٹیکے دستیاب ہیں اور بے حد کارگر ہین۔ حکومتِ ہند اور حکومتِ مہاراشٹر اس کا دور (Pulse)بھی رہ رہ کر چلاتے رہتے ہیں تاکہ اس کے وائرس کا ہمارے  ملک اور ریاست سے نام و نشان مٹ جائے۔ اس لیے جتنی آسانی اس کے وائرس کے پھیلنے کے لیے ممکن ہے اس سے کہیں زیادہ آسان پولیو ڈوز کی دو بوندوں کی خوراک لینے سے اس کے بچاؤ کی تدبیر ہے۔ اس لیے ہم سبھی کو چاہیے کہ اپنے ننھے بچوں کو ہر دور (pulse)میں یہ خوراک ضرور دلوائیں۔

ٹائیفائڈ
یہ مرض سالمونیلا Salmonellaنامی جراثیم سے پھیلتا ہے۔ اس کے پھیلاؤ کا طریقہ بھی پولیو کی مانند ہے۔ یعنی پینے کے پانی یا غذا میں مریض کے فضلے کے اجزاء شامل ہوں تو یہ مرض ان کے ذریعہ جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ البتہ جس طرح پولیو چھوٹے بچوں کو متاثر کرتا ہے تو ٹائیفائڈ کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ ہر عمر کے فرد کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کی تشخیص ڈاکٹروں کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ اس کی عام، علامات میں پوری طرح نہ اترنے والا بخار، کبھی کبھی جلاب، چکتّے، بھی شامل ہیں۔ پھر بھی بہت نمایاں علامات کا پایا جانا ذرا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ البتہ ڈاکٹر پر اعتماد رکھا جائے تو اس کا علاج آسانی کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اچھی سے اچھی اور اثردار دوائیں ہر جگہ دستیاب ہیں۔
دمہ
برسات میں ہوائیں زیادہ مرطوب اور بوجھل ہو جاتی ہیں۔ ان کا بہاؤ بھی نسبتاً دھیما رہتا ہے۔ اسی سبب اس میں زودحسّاسیت کے ذمہ دار الرجین (Allergen)بہت زیادہ ملتے ہیں۔ معلق رہتے ہیں۔اور چونکہ یہ ایک ہی جگہ زیادہ دیر تک موجود رہتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ گھروں یا کارخانوں سے اٹھنے والے دھوئیں، گردوغبار بھی کثیر مقدار میں شامل ہوتے رہتے ہیں، اس لیے دمہ کے مریضوں کے لیے مصیبت کا سبب ہوتے ہیں۔ ان کے لیے دواؤں اور دیگر تدابیر کے اختیار کرنے کا بھی موسم ہو جاتا ہے برسات کا موسم۔


Pneumonia and Cough


فلو،سردی، کھانسی، نمونیا
فلو یا انفلوئنزا ایک شدید متعدی مرض ہے جو وائرس سے پھیلتا ہے۔ سردی کھانسی اس کے ساتھ ہی شامل رہتی ہے۔ نمونیا پھیپھڑوں کی اندرونی سوجن کا نام ہے جو عموماً کئی وجوہات سے پھیلتا ہے لیکن برسات میں فلو کے وائرس کی وجہ سے ہونے والا نمونیا ہی عام ہے اس لیے ہم دیگر اسباب سے ہونے والے نمونیا کے بیان سے انحراف کرکے صرف برساتی نمونیا کے تعلق سے ہی معلومات دیں گے۔
فلو کی عام علامات میں شدید بخار اور بدن میں بہت زیادہ درد کی شکایت ہوتی ہے۔ گلے میں خراش، کھانسی، چھینک، تکان، شدید سر درد، سانس میں قدرے تکلیف، جوڑ جوڑ دُکھنا، آنکھوں میں جلن، متلی و قے کا احساس، ناک سے رطوبت کا گرنا وغیرہ شامل ہیں۔
نمونیا کی علامات میں درجِ بالا کے ساتھ ساتھ سینے میں درد اور شدید کھانسی پائی جاتی ہے۔ بخار بھی شدید ہوا کرتا ہے۔ مریض کو کھانسنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے اس لیے مریض تکلیف کے باوجود کھانسی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تشخیص سینے کے ایکسرے کی مدد سے بہت آسانی سے ممکن ہوگئی ہے۔ تشخیص بر وقت ہو جائے تو علاج بھی آسانی کے ساتھ ہوتا ہے۔
جب ان امراض کا شکار ہوں تو آپ کو چاہیے کہ چھینکتے وقت ناک پر رومال رکھ لیا کریں اور کھانستے وقت منہ کو رومال سے ڈھک لینا چاہیے۔مریضوں سے دور رہنا چاہیے اور اگر آپ خود مریض ہوں تو خود کو دوسروں سے الگ رکھنے کی کوشش کریں۔
جوڑوں کا درد
جوڑوں کا درد بھی لاتعداد اسباب سے لاحق ہوتا ہے۔ یہاں ہم یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ برسات کے موسم میں بھی جوڑوں کے درد میں مبتلا لوگوں کو کافی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ اس کی سب سے اہم علامت درد ہے، جوڑوں کا درد۔ جوڑ اکڑ جاتے ہیں۔ چھونے پر درد کا احساس ہوتا ہے۔ درد کی سبھی علامات برسات کے موسم میں کچھ سوا ہو جاتی ہیں۔ حسبِ ضرورت علاج اور وہ بھی طبیب کی نگرانی میں لازمی ہوتا ہے۔
ہماری ذمہ داریاں
ہمیں برسات کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ ہی ہر طرح کی صورتحال کاسامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔تمام اقدامات میں سماجی طور پرحفظانِ صحت کے اصولوں کو اپنانا چاہیے۔ اور جان لینا چاہیے کہ یہی اصل میں علاج بھی ہے۔ گھروں اور علاقے سے نکلے ہوئے کوڑے اور کچرے کا صحیح ڈسپوژل ہونا چاہیے اور عوامی مقامات پر نہیں پھینکنا چاہیے۔گٹروں کو بھی ان سے اَٹنے اور مسدود ہونے سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ یہ اپنی اور بلدیہ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ بیماری پھیل جاتی ہے تو ایک دوسرے پر الزامات دھرے جاتے ہیں۔ چوہوں اور دیگر حیوانات سے خود کو محفوظ کرنے کے جتن کرنا لازمی ہے۔ مچھروں کی پیدائش کے عوامل ختم کر دیئے جانے چاہئیں۔پینے کا پانی اُبال کر استعمال کرنا پانی سے پیدا ہونے والے امراض سے بچاؤ کی سب سے آسان ترکیب ہے