To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Friday, June 24, 2011

 Asthma: Disease or Handicap  Dr. Rehan Ansari


An Asthmatic
during attack
easing to breath
دنیائے طب میں ربع صدی کا عرصہ گذارنے کے بعد میری طبعِ جویا ایک ایسے نتیجے پر پہنچی ہے کہ آدمی کی طبیعت کو آزار میں مبتلا کرنے والے اصل میں دو مستقل دھارے ہیں جنھیں بوجوہ اب تک جدا نہیں کیا گیا ہے۔ ان دونوں دھاروں کو لغاتِ طب اور لغاتِ لسانیات میں بھی چند توضیحات کے ساتھ ایک دوسرے کے مترادف یا پیوستہ معنوں میں ہی قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں ہیں مرض اور عرض (عارضہ، معذوری) یا جدید زبان میں Disease اور  Condition (Ailment, Handicap۔ میری نجی رائے میں، جو بے دعویٰ ہے اور ناقص بھی ہوسکتی ہے؛ یہ دونوں بالکل مختلف عنوانات ہیں۔ کیونکہ ’’ہر وہ آزار جو قابلِ علاج ہے اسے مَرَض کہا جانا چاہیے‘‘ اور ’’جس آزار سے آدمی کو تا حیات چھٹکارا نہیں مل سکتا، صرف طبی تدبیروں یا دواؤں کا سہارا مل سکتا ہے اور معیارِ زندگی کسی طرح سنبھالا جاسکتا ہے انھیں عَرَض کہا جانا چاہیے‘‘۔ میرے اس خیال کی بنیاد وہ فرمانِ الٰہی ہے جس میں مذکور ہے کہ ’’اﷲ نے ہر مرض کا علاج بھی رکھا ہے‘‘۔ لاریب فیہ۔ یعنی جس تکلیف کا کوئی مستقل علاج نہیں موجود ہے وہ عضوی معذوری ، کمزوری یا عارضہ ہی ہے؛ مرض نہیں ہے، بالکل اسی طرح جیسے لنگڑا یا لولا ہوجانا، بہرا یا اندھا ہو جانا، وغیرہ۔
کتابوں میں امراض کے تعلق سے تو باتیں بہت صاف صاف لکھی ہیں لیکن عوارض کے باب میں لوگوں کو مبینہ طور پر معلومات نہیں دی گئی ہے۔ یہاں وضاحت کے لیے چند بنیادی جملے لکھ کر میں اپنے عنوان پر آؤں گا کہ مثلاً دل کے بیشتر اور مشہور امراض جیسے ہائی بلڈپریشر، کولیسٹرول، انجائنا وغیرہ، ذیابیطس، جوڑوں کی بیماریاں، بینائی کی خرابیاں، دمہ، جلد کے بعض حالات وغیرہ کو عوارض یا Conditions ہی میں شمار کرنا چاہیے۔ کیونکہ ان تمام تکالیف میں سہولتِ جانی کے وسائل اور تدبیریں تو بہت ہیں اور بڑی متنوع بھی ہیں لیکن ان سے مستقل چھٹکارے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ ایک درمیانی معاملہ یہ بھی ہے کہ اس تقسیم کے ذیل میں کچھ مخصوص امراض کی وجہ سے بھی مذکورہ عوارض کی پیدائش ہوتی ہے جیسے گردہ کے کسی مرض سے ہائی بلڈ پریشر ہو جاتا ہے، ماحولیاتی آب و ہوا اور اشیائے خورونوش کی تبدیلیوں سے دمہ یا سانس کی تکلیفیں آجانا، غذائی بے اعتدالیوں سے خون میں چند عوارض کا داخل ہو جانا وغیرہ؛ تو ایسی حالتیں ’’ثانوی‘‘ ہیں اور قابلِ علاج ہیں اس لیے انھیں زیرِ بحث عنوان مرض کے ذیل میں ’’علامتوں اور نشانیوں‘‘ Signs and Symptoms میں کیا جائے گا۔ ان چند تمہیدی خیالات کے بعد آئیے ہم ایک بہت ہی عام حالت ’’دمہ‘‘ کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔
دمہ
دمہ کو سانس کی تنگی، ضیق النفس، دم پھولنا، استھما (Asthma) بھی کہا جاتا ہے۔ (پیشِ نظر رہے کہ اس مضمون میں دل کی بیماری کے سبب پیش آنے والا دمہ cardiac asthma ہمارا موضوع نہیں ہے۔)


Normal versus Constricted
 Bronchioles
دمہ اصل میں ایک کہنہ تکلیف یا عارضہ کا نام ہے جو اعضائے تنفس کو متواتر متاثر کرتا رہتا ہے۔ پھیپھڑے کی باریک ہوائی نالیوں اور ان کے عضلات (Smooth muscles) میں تشنج پیدا ہو جاتا ہے اور سانس تنگی سے آتا ہے۔ یہ عارضہ اکثر دورہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ طب میں اس کی دو قسمیں شمار کی گئی ہیں ایک خشک اور دوسرا مرطوب۔ خشک میں صرف ہوا کی نالیوں میں اور عضلاتِ تنفس میں تشنج ہوتا ہے جس سے سانس لینے میں دشورای ہوتی ہے۔ مرطوب دمہ میں علاوہ تشنج کے ہوائی نالیوں میں بلغم بھی جمع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس عرض میں ہر شخص بیش یا کم مختلف انداز سے متاثر ہوتا ہے۔ عمرکی بھی کوئی خاص قید نہیں ہے البتہ ’بالکل نوعمر‘ بچوں میں یہ حالت نسبتاً کم دیکھنے میں آتی ہے۔
 دم گھٹ گھٹ کر اور بسا اوقات آواز کے ساتھ آتا ہے۔ کھانسی بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ بولنے میں دشواری ہوتی ہے۔ روزانہ کے معمولات کی انجام دہی نہیں ہو پاتی۔ بچوں کا اسکول اور کھیل کود بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ دورہ سے وقفہ کی حالت میں مریض (عریض پڑھیے) بالکل تندرست معلوم پڑتا ہے اور اسے کوئی تکلیف نہیں رہتی۔ ہر شخص میں دمہ کی حالت ابھرنے کی الگ الگ وجوہات ہیں۔ دمہ کی حالت جن عوامل سے ابھرتی ہے وہ تین طرح کے ہیں؛  خارجی  Extrinsic، داخلی Intrinsic،دونوں Mixed۔
خارجی عوامل میں پھولوں کا موسم، مرطوب ہوا، سگریٹ کا دھواں، دھول دھپا اور عطریات، اسپرے و خوشبو، گھریلو یا پالتو جانوروں کے بال و پر سے جھڑنے والے حصے، وغیرہ شامل ہیں، زیادہ تر ان کی ’الرجی‘ کی وجہ سے دمہ ہوتا ہے۔ داخلی عوامل میں اکثر ایسے ہیں کہ الرجی ان کی ذمہ دار نہیں ہے مثلاً چھڑکاؤ کے وقت کیمیکل گیسیں یا سگریٹ کا دھواں سانس کے ذریعہ اندر آجانا، صاف صفائی میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادّے، ایسپرین کی گولیاں، سینے کے بعض امراض، معدہ سے حموضت کا غذا کی نالی میں داخل ہونا (GERD)، ذہنی تناؤ، بہت زیادہ ہنسنا، کسرت کرنا، مرطوب یا ٹھنڈی ہوا، کھانے کی چیزوں میں شامل رنگ یا کیمیائی مادّے، وغیرہ وغیرہ۔ مکسڈ (دونوں) طرح کے عوامل میں خارجی و داخلی دونوں عوامل مل جل کر متاثر کرتے ہیں۔ یہ صلاح دی جاتی ہے کہ جس شخص کو جس عامل/عوامل کی وجہ سے دمہ کا دورہ پڑا کرتا ہے اسے اس/ان سے دور رہنا چاہیے۔
بعض اصحاب دمہ کی تقسیم احوال یا اوقاتِ دورہ کے مطابق بھی کرتے ہیں جیسے ٭شبانہ دمہ (Nocturnal) یعنی نصف شب کے وقت پیش آنے والا۔ ٭برانکیئل (شعبی bronchial) دمہ جو اکثر الرجی سے ہوتا ہے۔ ٭ موسمی دمہ جو موسم کی تبدیلیوں اور پھولوں کی پیدائش یا گھاس اُگنے وغیرہ سے لاحق ہوتا ہے۔ ٭کسرتی دمہ جو ورزش کی زیادتی سے ہوتا ہے۔ ٭پیشہ وارانہ دمہ جو صنعتی یا کیمیائی کارخانوں میں کام کرنے والے افراد کو ہوا کرتا ہے۔ وغیرہ۔
دمہ سے بچاؤ کی تدبیریں
چھ مخصوص نکات دئیے جاتے ہیں۔
٭کسی بھی پرانی تکلیف کا احساس ہو تو فوری علاج کروائیں۔ ٭ ہمیشہ اپنی سانس کی رفتار پر دھیان دیں اور اسے طبعی رکھنے کی کوشش کریں۔ ٭اپنے معمولات کو پورے طور پر اور انہماک کے ساتھ جاری رکھیں، ورزش بھی۔ ٭جب بھی دمہ کی کیفیت محسوس کریں تو فوری طور سے اس کے ازالے کی تدبیر و ترکیب اپنائیں تاکہ اسپتال یا ایمرجنسی سے دور رہ سکیں۔ ٭دوائیں معالج کے مشورے کے مطابق لینے میں غفلت نہ کریں اور حسبِ کیفیت کم سے کم دوا اور کم سے کم ڈوز کی عادت رکھیں تاکہ سائیڈ افیکٹ سے محفوظ رہیں۔
علاج
جیسا کہ اوّلاً ہی ذکر کیا گیا ہے کہ عارضوں کو محض ایک اچھی کوالیٹی آف لائف مہیا کرنے تک ہی سہارا دیا جا سکتا ہے، ان کا کوئی حتمی علاج ممکن نہیں ہے۔ علاوہ اس بات کے کہ یہ عارضہ کسی مرض کی علامت کے طور پر ابھرا ہو۔ اس لیے دمہ کے علاج کی بابت بھی یہی اصول ہوگا کہ علامات کی تخفیف کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جانا چاہیے اور سانس کی باریک نالیوں میں التہاب و  بلغم کی پیدائش کو روکنے کے بھی جتن کرنا چاہیے۔ اس طرح علاج کے دو اہم شعبے بنتے ہیں؛ یعنی علامات ظاہر ہوں تو دمہ کو فوری کنٹرول کرنے کے لیے دوائیں ہونی چاہئیں اور دوسرا یہ کہ طویل عرصہ تک کنٹرول کرنے والی اور دورہ کو روکنے والی دوائیں استعمال کرنا چاہیے۔ جدید علاج پر گفتگو سے قبل آئیے اس پر بھی کچھ دقیقہ غور کرلیں کہ ماضی میں اطبا دمہ کے دوروں کے وقت کیا قدم اٹھایا کرتے تھے۔
طب میں دو طرح کی دوائیں بذریعہ دہن استعمال کراتے تھے جن میں ایک لعوق کہلاتی ہیں یعنی ’چاٹنے والی دوائیں‘ اور دوسری شربت یعنی پینے والی دوائیں۔ جب دمہ خشک ہوتا تھا تو اطبا عموماً شربت دیا کرتے تھے اور گاہے گاہے لعوق کا بھی اضافہ کرتے تھے۔ شربتوں کا نسخہ عام طور سے جن دواؤں کی شمولیت سے بنتا تھا ان میں عناب، خشخاش، پوست خشخاش، بنفشہ، تخم کاہو، شہد، نمک، وغیرہ شامل ہوتے تھے جبکہ بلغمی یا مرطوب دمہ کے نسخوں میں لعوق تیار کر کے دیتے تھے۔ ان میں گاؤزباں، عناب، سپستاں، اصل السوس، پرسیاؤشاں، بیخِ بادیان، زوفا، کتاں جیسی مجرب دوائیں شامل ہوتی تھیں جو مخرج و منفثِ بلغم ہیں۔ ان دواؤں کے علاوہ لوبان (بینزوئین Benzoin ) کے بخور یا دھونی کا بھی اہتمام کر کے بلغم کو رقیق کرنے کی کوشش اسی دور کی دین ہے۔
جدید طب میں فوری اثر کرنے والی دواؤں میں شعب (سانس کی باریک نالیوں) کو کشادہ کرنے والی دوائیں یعنی Bronchodilators دیتے ہیں اور ساتھ ہی بلغمی ترشح اور اجتماع کو روکنے کے لیے اور التہاب کو کم کرنے کے لیے Steroids اضافہ کیے جاتے ہیں۔ یہ دوائیں کئی قسم کی ہوتی ہیں اور گولیوں، شربت، انجکشن یا سڑکنے والی شکلوں میں ملتی ہیں۔


طویل عرصہ تک دوروں سے محفوظ رکھنے والی دوائیں بھی الگ الگ قسم کی ملتی ہیں اور روزانہ ہی ایک متعینہ ڈوز میں انھیں لینا لازمی ہوتا ہے۔
کبھی کبھار دونوں قسم کی دواؤں کو ایک ساتھ بھی لینا لازمی ہوتا ہے۔ مگر اصولی صلاح یہ دی جاتی ہے کہ جس فرد کو دمہ کا عارضہ لاحق ہوا ہے اسے اپنا دمہ اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے اور اپنے معالج پر پورا اعتماد رکھ کر اس کی ہدایات پر برابر عمل کرنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ کنٹرول کو کچھ وقت درکار ہو۔ مگر کسی دوسرے فرد کے دمے کو اپنے جیسا دمہ اور اس کے جاری علاج کو اپنے لیے بھی مناسب سمجھنا ایک بڑی غلطی ہو سکتی ہے۔ جو عموماً دیکھنے کو ملتی ہے۔ دمہ کے خارجی اور داخلی عوامل پر برابر نظر رکھنے سے بھی آپ بیشتر اوقات اس عارضہ سے محفوظ رہ سکتے ہیں.



Wednesday, June 22, 2011

Darwin evolved from ape
دو حقیقت افروز اشعار
نئی  تعلیم کو کیا  واسطہ  ہے  آدمیت  سے
جناب ڈارون کوحضرت آدم سےکیا مطلب
اکبر الہ آبادی 
دم ہوتی گر چہ حضرت انساں کو ڈارون
ہوتا  دلیپ کمار  بھی   دم دار  ستارہ
حامد اقبال صدیقی

Tuesday, June 21, 2011

Hepatitis B: The dreadful Jaundice
Dr. Rehan Ansari
Yellow discolouration of Eyes
’ہیپاٹائٹس بی‘ کبد (جگر) کا ورم ہے۔ اس کی وجہ ایک وائرس ہے جسے ہپاٹائٹس بی وائرس کہتے ہیں یا ہپاڈی این اے وائرس (HepaDNA virus)۔ جگر کے ہر ورم میں یرقان (پیلیا، کملا) ایک لازمی علامت بن کر ابھرتی ہے۔ اس میں آنکھیں، منہ کی اندرونی جھلی اور جلد کی رنگت پیلی ہو جاتی ہے۔ یہ ایک علامت ہے جس کا سبب خون میں Bilirubin نامی مادے کی مقدار زیادہ ہوجانا ہے۔ لوگ باگ اس علامت کو ہی مرض ماننے لگتے ہیں اور جانے کیا کیا علاج کرنا شروع کر دیتے ہیں۔جگر متاثر ہوتا ہے، اس کا فعل متاثر ہوتا ہے، اس کی ساخت میں ورم اور سوجن آ جاتی ہے اور کسی بھی طب میں (بشمول جدید طب) اس کا تیربہدف علاج ہنوز ممکن نہیں ہوا ہے۔البتہ اس کی وجہ سے بدن کو جو تکالیف ہوتی ہیں ان کو manage کرنے اور انھیں رفع کرنے کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ ھپاٹائٹس بی ایک حادثاتی یا اتفاقی یرقان پیدا کرتا ہے، جو اکثر مہلک بھی ہوجاتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق پوری دنیا میں فی زمانہ اس وائرس کے تقریباً 350  ملین افراد کہنہ مرض بردار (Chronic carriers)موجود ہیں جن سے مرض برابر پھیلتا رہتا ہے۔ مرض بردار افراد بظاہر بیماری کی نہ کوئی علامت رکھتے ہیں نہ ہی انھیں اس کا احساس رہتا ہے۔ان میں سے نوّے فیصدی تو غیرمحسوس رہتے ہوئے مکمل طور پر صحتیاب بھی ہوجاتے ہیں۔سالانہ تقریباً ایک تا ڈیڑھ ملین مریض موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں ہر بیس میں ایک فرد کہنہ مرض بردار (carrier) ہے۔ اس کے علاوہ جگر کے کینسر میں مبتلا تقریباً 80% مریضوں میں کینسر کی وجہ یہی وائرس ہے۔



اس کا انفیکشن کئی ذرائع سے ہوتا ہے۔ جیسے متاثرہ یا مرض بردار فرد کا خون کسی کو چڑھایا جائے، ایسے ہی افراد کے تھوک کے ذریعہ، جنسی ملاپ میں مادۂ منویہ کے ذریعہ، غیرتطہیر شدہ (unsterile)سوئیوں کے ذریعہ، کان چھدانے یا نشانات (Tattoo) گدوانے کے عمل سے، آپریشن میں غیرتطہیر شدہ آلات و اوزار کے استعمال سے، زخموں کی سلائی یا مرہم پٹی کے دوران۔ قارئین غور کریں تو ان سبھی عوامل میں ہر دو فرد (مرض بردار اور مقابل) کے خون کی مائیت (Plasma / serum) یا کوئی جسمانی رطوبت کا آپس میں ملاپ ہی بنیادی پہلو ہے۔انفیکشن لاحق ہونے کے بیشتر مواقع حادثاتی نوعیت کے ہیں۔ اس لیے کب کون اس کا شکار ہو جائے؛ یہ کہا نہیں جاسکتا۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ہپاٹائٹس بی کے انفیکشن کے لیے صرف 0.00004 ملی لیٹر خون ہی کافی ہے۔
ممکنہ شکار
طب و صحت کے شعبہ سے متعلق افراد جیسے ڈاکٹر، نرسیں، پیتھالوجی اور بلڈبینک میں کام کرنے والے افراد میں اس کا انفیکشن ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ رہتا ہے۔ان کے علاوہ غیرفطری یا غیرسماجی جنسی رشتے رکھنے والے لوگ، فاحشہ عورتیں، نشہ آور انجکشن کے عادی افراد، نشانات (ٹیٹو) گدوانے والے، ایسے کھلاڑی جن کا جسم کھیل کے دوران ٹکراتے رہتا ہے، ایسے مریض جن میں کئی مرتبہ خون چڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے، گردوں کے وہ مریض جنھیں ڈائلیسس Dialysis سے گذرنا پڑتا ہے، ایسے نولود بچے جن کی ماؤں میں ہپاٹائٹس بی کا انفیکشن موجود ہو۔
علامات و نشانیاں
نومولود بچوں میں عموماً انفیکشن کے باوجود کسی طرح کی علامات و نشانیاں نہیں ملتیں۔ بالغ عمر والوں میں بھی مختصر تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جن میں کوئی علامت نہیں پائی جاتی۔ دیگر افراد میں ابتدا میں فلو (Flu) سے مشابہ علامات جیسے بھوک کی کمی، جگر کے مقام پر درد، تھکن، بدن میں جھرجھری کا احساس اور ہلکا بخار، بدن میں شدید درد موجود ہوتے ہیں۔ دوسرے درجہ میں یرقان (jaundice) ظاہر ہوتا ہے۔چہرہ سفید پڑنے لگتا ہے۔ پیشاب کا رنگ گہرا ہو جاتا ہے۔
بعض لوگوں میں چند مہینوں کے اندر یہ مرض خود بخود اچھا ہو جاتا ہے۔ جن میں اچھا نہیں ہو پاتا ان میں کہنہ صورت اختیار کر لیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں جگر کی ساخت تباہ ہونے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ جگر سکڑنے لگتا ہے، اس میں سختی پیدا ہوجاتی ہے جو انجام کار کینسر میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔
تشخیص
محض علامات و نشانیوں کی بنیاد پر اس مرض کی تشخیص قطعی مناسب نہیں ہے۔ اس کی تشخیص کے لیے کئی جانے والے ٹیسٹ کو ہپاٹائٹس بی وائرس ’اینٹی جین‘ اور ’اینٹی باڈی‘ کی تحقیق کہتے ہیں جنھیں عام طبی زبان میں ’’آسٹریلیا اینٹی جین‘‘ کہتے ہیں۔ جگر کی خرابی کا اندازہ ایک ٹیسٹ SGPT کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
علاج
بدقسمتی سے ہپاٹائٹس بی کا کوئی بھی کاری علاج دستیاب نہیں ہے۔ اِنٹرفیران (interferon)نامی نامیاتی دوا کے تجربات بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ تحفظی طور پر ٹیکے لگوائے جاتے ہیں جو دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک حیوانی ذرائع (خون وغیرہ) سے تیار کیا جاتا ہے اور دوسرا جینی (genetic) انجینئرنگ کے ذریعہ۔ ان میں آخرالذکر مضر اثرات سے محفوظ  خیال کیا جاتا ہے۔ اسے تین متعینہ مقدارِ خوراک میں دیا جاتا ہے۔ پہلا ڈوز جس دن دیا جاتا ہے اس کے ٹھیک ایک مہینہ بعد دوسرا ڈوز اور پہلے ڈوز کے ہی ٹھیک چھ ماہ بعد تیسرا ڈوز دیا جاتا ہے۔
تحفظ
شک کی صورت میں فوری طور پر خون کا چیک اپ کرانا چاہیے۔ اسپتالوں اور لیباریٹری وغیرہ میں تطہیر (sterilisation) کا خاص دھیان رکھنا چاہیے۔ ڈِسپوزیبل سوئیاں استعمال کی جانی چاہیے۔ ہاتھوں میں دستانے پہننے چاہئیں۔ ٹیکے لگوانا چاہیے۔ ان کے علاوہ گھر میں مریض کو چاہیے کہ اپنے استعمال کی چیزیں دوسروں کو ہرگز استعمال نہ کرنے دے مثلاً حجامت کی اشیاء، ریزر، کنگھی، ناخن کاٹنے کا آلہ، وغیرہ۔ مریض ماں اپنے بچے کے لیے نوالہ خود چبا کر نہ کھلائے۔ وغیرہ۔
اس مرض کے شکار لوگ جب اچھے ہو جاتے ہیں تو ان کے خون میں وائرس کے خلاف دفاعی اجسام جنھیں اینٹی جین کہا جاتا ہے وہ بنے رہتے ہیں۔ انھیں ’آسٹریلیا اینٹی جین‘   Australia antigenکہتے ہیں یا ہیپاٹائٹس بی سرفیس اینٹی جین HBsAg کہا جاتا ہے۔ جن لوگوں کے خون میں یہ اینٹی جین موجود ہوتے ہیں (جو کبھی تاحیات بھی ملتے ہیں) تو ایسے لوگوں کو مرض بردار تسلیم کرتے ہوئے بیرونی یا خلیجی ممالک میں ملازمت سے انکار کردیا جاتا ہے تاکہ ان کے یہاں عوام کو کوئی خطرہ نہ رہے۔
 ’آسٹریلیا اینٹی جین‘
 ’آسٹریلیا اینٹی جین‘ کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ورمِ جگر کے اس وائرس کے اینٹی جین کا پہلا پتہ ایک آسٹریلیانژاد قبائلی کے خون سے چلا تھا۔ جس کی دریافت کرنے والے امریکی فزیشین ’بروچ بلومبرگ‘ Baruch Blumberg کو نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا.