To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, June 16, 2011

Otomycosis-Fungus in the Ear
برسات کے دنوں میں کان کے درد کا عارضہ لاحق ہونا بالکل عام بات ہے۔ برسات کا موسم اور پھپھوند (Fungus) کی پیدائش لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔
’’پھپھوند‘‘
عالمِ نباتات کی طفیلی قسم ہے؛ یعنی یہ اپنی بقائے حیات کے لیے دوسرے نباتات و حیوانات پر منحصر ہوتی ہے۔ اپنے عرصۂ حیات کی تکمیل کے لیے دیگر قابلِ نمو یعنی نامیاتی (Organic) اشیاء پر انحصار کر کے ان سے غذا حاصل کرتی ہے۔ اس کی نمو کے لیے دو چیزوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے: نمی اور حرارت۔

اسباب

٭ تیراکی کے دوران یا نہانے کے درمیان کان میں پانی چلا جاتا ہے۔ ٭ ہوا کے ذریعہ بھی پانی کے بخارات کان کی نلی میں جاگزیں ہو جاتے ہیں۔
ان ذرائع سے پھپھوند کے باریک باریک تولیدی ذرّات جنھیں ’بذرے‘ (Spores) کہتے ہیں وہ بھی کان کے اندر پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے بدن کی حرارت اسے نمو پانے کے لیے درکار حرارت مہیا کرتی ہے۔ اور کان میں پھپھوند جڑ پکڑ لیتی ہے پھر خوب تیزی کے ساتھ پھلتی پھولتی ہے۔
بسا اوقات کانوں میں لوگ احتیاط سے یا کسی طبی مشورے کے بغیر ہی اینٹی بایوٹک دوائیں ڈالتے ہیں۔ یہ دوائیں بھی وہاں پھپھوند کے اُپجنے کا ماحول تیار کرتی ہیں۔

قسمیں
Aspergillus niger - fungus
کانوں میں اگنے والی پھپھوند بھی عام طور سے تین قسم ہوتی ہیں: Aspergillus niger, A. fumigatus  اور Monilia albicans۔ ان میں بھی زیادہ عام A. niger ہے۔
ماہیت اور علامات
کان کی بیرونی نلی میں پھپھوند اپنی جڑیں پیوست کر لیتی ہے۔ ابتدائی طور پر کانوں میں شدید کھجلاہٹ ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ کان بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے اور پھر کان میں اچانک درد شروع ہو جاتا ہے۔ گندی اور کبھی بدبودار رطوبت خارج ہونے لگتی ہے۔ درد کی وجہ سے جبڑے کھولنے میں دقّت بھی ہو سکتی ہے۔
معائنہ کرنے پر ابتدا میں کان کی بیرونی نلی میں کپاس کے ہلکے گالے کی مانند فنگس (پھپھوند) دکھائی دیتی ہے۔ جس کی شباہت برسات کے موسم میں روٹی / کیک یا چرمی جوتوں / پرس پر جمنے والی پھپھوند کی طرح ہوتی ہے۔ A. niger کے انفیکشن میں بیرونی طور پر کالی رنگت بھی پائی جا سکتی ہے۔ دھیرے دھیرے اس کی ظاہری شکل و صورت ’گیلے اخباری کاغذ‘ جیسی بن جاتی ہے۔ اس میں سفید، مٹیالی اور کالی ملی جلی رنگت پیدا ہو جاتی ہے۔  A. fumigatus کی رطوبت سبزی مائل زرد ہوتی ہے۔ اور Monilia کی رنگت دہی جیسی سفید ہوا کرتی ہے۔ کان کی بیرونی نلی میں ورم کی ساری علامات اور نشانیاں ملتی ہیں۔

Fungus in the Ear canal
علاج
علاج اصل میں تین باتوں کا متقاضی ہے۔
۱) پھپھوند سے نجات حاصل کرنا
۲) درد سے آرام دلانا
۳) آئندہ کے لیے تحفظی تدابیر
کانوں کی صفائی کے متعدد طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ان میںسب سے عام کان کی بیرونی نلی کی پچکاری کی مدد سے صفائی کرنا ہے جس میں صاف شدہ پانی کو اسٹیل کی پچکاری کے ذریعہ دباؤ کے ساتھ کان کی نلی میں ایک مخصوص زاویہ پر پانی کی دھار ماری جاتی ہے اور نتیجتاً وہ اپنے ساتھ کان میں موجود میل یا پھپھوند لے کر بہہ کر باہر گرتا ہے۔ 
(تصویر ملاحظہ کریں)
Syringing the Ear
اس کے علاوہ روئی (کپاس) کی مدد سے بھی کان کو صاف کیا جاتا ہے اور کان صاف ہونے کے بعد اس کے اندر مخصوص دوائیں پھیر دی جاتی ہیں۔ تاکہ وہاں سے پھپھوند کی جڑیں نابود ہو سکیں۔
یہ اعمال اکثر کئی دن تک متواتر جاری رکھنا پڑتے ہیں ورنہ پھپھوند کا معمولی سا حصہ بھی باقی رہ جانے کی صورت میں وہ دوبارہ اسی تیزی کے ساتھ بڑھ جاتی ہے۔
پھپھوند کے علاج کے لیے مخصوص دوائیں Miconazole یا Clotrimazole یا Tolnaftate کے علاوہ Nystatin، Ketoconazole، Fluconazole وغیرہ۔
درد سے نجات پانے کے لیے دردکشا دوائیں دی جاتی ہیں۔ اسی طرح کھجلاہٹ سے آرام دلانے کے لیے بھی علامتی علاج Antihistamine (اینٹی ہسٹامین) سے کیا جاتا ہے۔
احتیاط
٭معمولی علاج زیادہ اثر نہیں رکھتا اس لیے کم سے کم دو سے تین ہفتوں تک علاج کرنا چاہیے۔ثانوی انفیکشن (Secondary infection)بھی ممکن ہوتا ہے جو مرض کو پیچیدہ کر دیتا ہے۔اس لیے ضروری اینٹی بایوٹک دوائیں بھی استعمال کرنا چاہیے۔٭ مرض کے بار بار حملے سے بچاؤ کے لیے کان میں پانی پڑنے نہ دیں۔ (کانوں کی صفائی کا نظام فطرت نے رکھا ہے)۔ ٭ کانوں میں کسی بھی سبب تیل یا تمباکو وغیرہ نہ ڈالیں کہ یہ بھی پھپھوند کی خوراک ہیں۔ ٭ کانوں کو ناصاف چیزوں سے کریدنا نہیں چاہیے۔٭علامات میں تخفیف کے بعد درمیان میں ہی ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر دوائیں روکنا مرض کو دوبارہ دعوت دینے کے مترادف ہے



Tuesday, June 14, 2011

When will Urdu get it's right
in Maharashtra as a second language
 اردو دنیا کی شیریں ترین زبان ہے ۔جب یہ صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کی جاتی ہے تو مقابل کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتی ۔ایوانوں میں جب کسی کو اپنی بات منوانی ہوتی ہے یا کسی کو متاثر کرنا ہوتا ہے یا پھر کسی مشکل صورت حال سے باہر نکلنے کے لئے کوئی راستہ نظر نہیں آتایعنی جب صورت حال ’راستے بند ہیں سب ،کوچۂ قاتل کے سوا‘کے مصداق ہوجاتی ہے تو اسی پیاری اردو کے اشعار دریا کو کوزہ میں بند کرکے چند ہی ساعتوں میں پوری کیفیت بیان کردیتے ہیں اور مصیبت میں گھرے افراد بھی اردو کے ان اشعار کے سبب نہ صرف راحت محسوس کرتے ہیں بلکہ داد و تحسین   بھی بٹورتے ہیں۔یعنی اردو کو اپنے مقاصد کے لئے تو پورے ملک میں نہ صرف استعمال کیا جارہا ہے بلکہ اردو کے نام پر طفلی تسلیاں دے کر ہمدردان اردو کا استحصال بھی کیا جارہا ہے۔سخت جان اردو تمام صعوبتوں ،مکاریوں اور دغابازیوں کے باوجود مسکرا دیتی ہے اور اپنے ماتھے پر شکن تک نہیں آنے دیتی۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اردو سے محبت کرنے والے اور اس کی محافظت کرنے والے صرف مسلمان ہی ہیں بلکہ اردو کے چاہنے والوں ،اس کی ترویج و اشاعت و فروغ کو یقینی بنانے والوں میں بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے ۔جس کی تازہ مثال مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کا وہ اعلان ہے جس میں انھوں نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے دیا ہے ۔
Mamta Banerjee

ممتا بنرجی نے مغربی بنگال کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں سے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا وعدہ کیا تھا ۔جو انھوں نے مسند وزارت اعلیٰ سنبھالتے ہی پورا کردیا۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بنگال میں اب اردو کا جادو سر چڑھ کر فوری طور پر بولنے لگے گا اور اردو کے تمام مسائل حل ہوجاینگے بلکہ ایک ماں کے تئیں یہ ممتا کا صرف ایک اعلان ہے ۔ بنگال میں اردو کو اس کا حق موصول ہونے کے لئے کتنا وقت لگے گا وثوق سے نہیں کہا جاسکتا ۔تاہم اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ سی پی ایم نے اپنے۳۴ سالہ دور اقتدار میں جو اعلان نہیں کیا وہ محض چند دنوں میں ممتا بنر جی نے کردیا۔ ۲۰۰۱ کی مردم شماری کے مطابق مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آبادی ایک کروڑ تین لاکھ کے قریب تھی ۔جبکہ گورنمنٹ آف انڈیا کی ویب سائٹ کے مطابق اس میں سے ۶۲ فیصد آبادی اردو جاننے والوں کی ہے ۔یعنی ۲۰۰۱ میں کم و بیش ۶۴ لاکھ افراد اردو داں تھے ۔اب چونکہ دس برس کا عرصہ گزر چکا ہے تو ۲۵ فیصد اضافہ کے ساتھ یہ ہندسہ ۸۰لاکھ تک پہنچ جاتا ہے ۔اس کے علاوہ ہزاروں افراد یقینی طور پر ایسے بھی ہوں گے جنھوں نے مردم شماری کے فارم پر اپنی ’انتہائی مصروفیت‘کے سبب صرف دستخط کرکے اپنا پلہ جھاڑ لیا ہوگا اور باقی تمام ذمہ داریاں انومریتر پر چھوڑ دی ہوگی۔ یہ بات ہم اس لئے تحریر کر رہے ہیں کہ ہمارے علم میں  یہ بات لائی گئی کہ ایک انومرےٹر نے مردم شماری فارم پر محض دستخط لئے تھے اور مادری زبان کے خانہ میں اس نے اردو کو چھوڑ کر کسی اور زبان کا نام تحریر کر دیا تھا ۔بعد میں جب اسے کچھ ذمہ داران نے سمجھایا تو وہ’سمجھ ‘ گیا۔ جب اتنی بڑی آبادی مہاراشٹر میں اردو بولنے والوں کی ہے تو پھر کیوں مہاراشٹر میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا جانا چاہئے؟
چند ہفتوں قبل اورنگ آباد میں صحافت پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔اس سیمینار میں اپنے کلیدی خطبہ کے دوران ایڈیشنل کلکٹر و چیرمن ڈویزنل کاسٹ ویریفیکیشن  کمیٹی ایس ایم این قادری نے حکومت سے اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے کا مطالبہ کر ڈالا۔ اعلیٰ سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے کسی مسلم افسر کا اردو کے حق میں اس طرح کا بیان دینا کسی جرأت رندانہ سے کم نہیں ہے ۔آخر وہ کون سے اعداد و شمار ہیں جن کے سبب ایک اعلیٰ مسلم افسر نے اتنا اہم اور اُتنا ہی’ پر خطر‘ بیان دے دیا۔ در اصل پورے مہاراشٹر میں سرکاری و نجی اردو پرائمری اسکولوں کی تعداد ۳۰۰۰ کے آس پاس ہے۔جبکہ اردو ہائی اسکولوں کی تعداد کم و بیش ۱۱۰۰ ہے۔اس کے علاوہ اردو اداروں کے پورے صوبے میں کم از کم ۲۳۰ جونیر کالج چل رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اردو داں طبقے کے ۱۰ لاکھ سے زیادہ بچے ہر سال  اردوپرائمری اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار کسی بھی ذی فہم شخص سے پوشیدہ نہیں ہیں تو قادری صاحب سے کیا رہتے !

Hamid Iqbal Siddiqui
"اردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کا مطالبہ جذباتی نہیں بلکہ بنیادی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حامد اقبال صدیقی جیسا اردو کا مخلص و بے لوث سپاہی بھی اردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کا مطالبہ نہ صرف ایس ایم ایس اور ای میل کے ذریعہ کررہا ہے بلکہ ایسا کرنے کی اپنے ساتھیوں کو ترغیب بھی دے رہا ہے ۔اگر مہاراشٹر میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنا دیا گیا تو گمان ہے کہ سرکاری دفاتر میں  ہزاروں مترجمین کی اسامیاں درکار ہوں گی۔ نیم سرکاری اداروں میں بھی اردو مترجمین کی ضرورت پڑے گی  اور ایسے نجی اداروں میں بھی جو سرکار سے امداد حاصل کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر مہاراشٹر نے اردو کو اپنی دوسری بیٹی بنا لیا تو اس کا حال کم ازکم اترپردیش اور بہار کی طرح نہیں ہوگا۔کیوں کہ مہاراشٹر بہرحال ایک ترقی پذیر صوبہ ہے جس نے گیسوئے اردو کو سنوارنے کی مٹھی بھر کوشش تو ضرور کی ہے ۔تاہم ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ جتنی سنجیدگی سے اردو کو اس کا حق دلانے کے لئے آواز اٹھائی جانی چاہئےتھی وہ نہیں اٹھائی جارہی ہے۔ہمارے رہنما شاید اس مطالبہ کو’سنگین مطالبہ‘ تصور کرتے ہیں۔بہر حال اس ضمن میں اپوزیشن لیڈر ایکناتھ کھڑسے (بی جے پی)کی تعریف کی جانی چاہئے کہ انھوں نے گزشتہ دنوں اردو صحافیوں سے گفتگو کے دوران اردو کے تئیں مثبت رویہ کا اظہار کیا۔ان کے اس رویہ میں  سیاست کی آمیزش سے ہم انکار نہیں کرتے۔ اب عوام میں یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ اگر انھیں اردو کے حق میں  بیان دینا  ہی ہے تو وہ اپنی پارٹی کی طرف سے ایوان میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کی تجویز رکھیں۔جس دن وہ ایسا کرینگے اس دن اردو کے سپوتوں اور کپوتوں کے چہرے بے نقاب ہوجائیں گے۔ اردو کی ملک میں موجودہ ایسی ہی صورتحال کے لئے سول جج اور شاعر منظور ندیم بالاپوری نے یہ قطعہ تحریر کیا ہے۔   ؎ 
حکام کے دلوں پہ ہے برسوں سے ترا راج
حق آج تک ملا ہے مگر تیرا کیوں نہیں 
خوشبو سے تری لوک سبھا تک ہے فیضیاب
سرکاری دفتروں میں گزر تیرا کیوں نہیں
بہر حال اردو کو اس کا حق دلانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کرناہمارا فرض ہے ۔یہ مادری زبان کا ہم پر حق ہے۔
Mushtaque Kareemi