To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, October 24, 2015




سنگھ پریوار کا مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کےلیے نیا پینترا


از: ڈاکٹر ریحان انصاری
کہنے کو تو ہمارا ملک آزاد ہے، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہبی امور کی ادائیگی کی دستوری آزادی اور حق حاصل ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ مختلف موقعوں کی مناسبت سے ملک کے مسلمانوں کو یہ دستوری حقوق حاصل نہیں ہوتے یا دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے جذبات کے احترام میں انهیں باز رہنا پڑتا ہے۔ غلامی کے دور سے لے کر آزاد ہندوستان تک کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے مذہبی رواداری کے لیے ہمیشہ اپنے برادرانِ وطن کے جذبات کو ملحوظ رکھا۔ دوسری جانب برادرانِ وطن کی اکثریت نے بھی سدا رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے ماضی میں عیدِ قرباں کے موقعوں پر مذہبی امور کی ادائیگی میں معاونت برتی تھی۔ آج بھی ہمارے غیرمسلم بھائیوں میں ایسے افراد کی اکثریت ہی ہے۔ لیکن آزادیٔ وطن سے ربع صدی پہلے وجود میں آئے ہوئے سنگھ پریوار کی (ابھی ابھی) لگام ڈھیلی ہوتے ہی اس کے پنجے اور شکنجے خونخوار ہو گئے۔ خود کو سبزی خور مشہور کرنے والوں نے رہ رہ کر مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی ہے۔ نفرت و تعصب کی آگ پھیلانے اور اس ملک پر بلاشرکتِ غیرے راج کرنے کے لیے یہ پریواری جس موقع کی تلاش میں تھے وہ انھیں تقریباً ایک صدی کا انتظار کرنے کے بعد ہاتھ لگا ہے۔ مگر انھیں یہ غلط فہمی بھی ہے کہ انھیں اب اپنا ایجنڈا زیرِعمل لانے سے کوئی نہیں روک سکے گا! یقیناً اقتدار پر قبضہ ان کے لیے کچھ من مانیاں کرنے کی آسانی ضرور پیدا کررہا ہے اور وہ بھی پوری طرح سے اس موقع کا استعمال حسبِ ارادہ کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع کرنا نہیں چاہتے، لیکن؛ ... لیکن انھیں انسانی مزاج اور تاریخ کا یا تو علم نہیں ہے یا پھر خوش فہمی اور تجاہلِ عارفانہ میں مبتلا ہیں کہ اب اقتدار کسی دوسرے کے ہاتھ منتقل نہیں ہوگا! انسانی تاریخ میں عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد من مانی کرنے والوں نے ہمیشہ منہ کی کھائی ہے اور تاریخ کے سیاہ ابواب میں ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ ہم حالیہ قتل (دادری سانحہ)، وارداتوں اور خبروں کا اعادہ اور ان پر تبصرہ نہ کرتے ہوئے وقت اور جگہ بچانا چاہتے۔ البتہ ان کے حوالوں سے کچھ نتائج نکال کر ایک فکر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریسی دورِ اقتدار رہا ہو یا درمیان میں این ڈی اے کے روپ میں (کسی قدر مجبور) سنگھ پریوار کا راج رہا ہو؛ آزادیٔ وطن کے فوراً بعد گاندھی جی کے قتل کی سازش سے لے کر آج اخلاق کے قتل تک، سنگھ پریوار کا اکلوتا ایجنڈا یہی رہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں چین و سکون سے رہنے نہیں دینا ہے۔ اس کی نظر میں دیگر تمام مذاہب کے ماننے والے کم و بیش ’’چل جائیں گے‘‘ لیکن کسی ایک مسلمان کا چہرہ دیکھنا تک انھیں کبھی گوارا نہیں ہوتا۔ یہ عیار و چالاک ٹولہ ابتدا سے ہی موقع شناس ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور مذہبی انفرادیت کا دشمن یوں بنا رہا کہ بیوروکریسی کی ہر اہم کرسی پر اسی کے گُرگے اور اسی کی بساط کے پیادے، گھوڑے، اونٹ، ہاتھی اور وزیر مقرر رہتے رہے ہیں۔ ان کی کینچلی اس وقت اترتی ہے جب وہ ریٹائر منٹ کے بعد خاکی نیکر سے اپنی وفاداری کی تجدید کا اعلان کرتے ہیں۔ اپنے پورے دورِ ملازمت میں وہ مسلمانوں، مسلم اداروں، مسلم نمائندگیوں اور مسلم نوجوانوں کی ہر بہبود کی راہ میں روڑے اٹکانے اور ان کی کوششوں کو ناکام بنانے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں۔ کبھی کبھار ہی ناکام ہوتے ہیں لیکن اکثر اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اب اسی بات کو لے لیجیے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد جب مسلمان تعلیمی پیش رفتیاں کرنے لگے تو ان کے باصلاحیت اور باعزم و باحوصلہ نوجوانوں کو بم دھماکوں کے الزام میں سلسلہ وار گرفتار کرکے جیلوں میں سڑایا جانے لگا۔ ہیمنت کرکرے جی کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ انھوں نے ان سازشیوں کو برسرِعام بے نقاب کردیا۔ انجام کار ایکسپرٹ بھگوا دہشت گرد قانون کے شکنجوں میں بری طرح پھنس گئے۔ جو اِدھر اُدھر دبکے بیٹھے تھے ان سے دھماکہ خیز مادے سنبھالے نہیںجارہے تھے تو ان کے مکانات یا فیکٹریوں میں ہی وہ پھٹنے لگے۔ سنگھ پریوار نے (مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے بعد ) یہ حربہ بھی ناکام ہوتا دیکھا تو اس نے پینترا بدلا۔ نصیب سے ڈیڑھ برس قبل اسے اقتدار ہاتھ آگیا۔ اس کا استعمال کرتے ہوئے اس نے اپنے تمام شرپسندوں کو کھلا چھوڑ دیا۔یہ ٹولہ ’’فلاں فلاں جہاد‘‘ ’’گھرواپسی‘‘ وغیرہ کے بعد اب ’’مقدس گائے‘‘ کا حیلہ اپنا کر مسلمانوں کو وسیع تر اور منظم فسادات کرکے پریشان و تباہ کرنے کے درپے ہے۔ میڈیا اور انتظامیہ کامعاملہ بھی پوری طرح مشکوک رہتا ہے۔ کیا ہندوستان میں امن و سکون اور سلامتی کی اس طرح ضمانت دی جاسکتی ہے کہ ایک دوسری بڑی اکثریت کو آپ اذیتوں اور پریشانیوں میں مبتلا رکھیں؟ کیا اس قسم کے حالات باقی رکھے جاتے رہے تو ملک کی ترقی کے کبھی امکانات پیدا ہوسکتے ہیں؟ کیا ہم اس طرح کسی بہتر مستقبل کا خواب بن سکیں گے؟ اگر ملک سے وفاداری کا دعویٰ ہے تو ہر مذہب کے ماننے والوں کو بھی آزادی سے جینے کا حق دینا ہوگا۔