To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, July 30, 2011

Muhammad Rafi: The multifaceted voiceA Tribute to the legendary SingerDr. Rehan Ansari
۳۱؍ جولائی ۱۹۸۰ء کو محمد رفیع جسمانی طور سے ہم سے جدا ہو گئے تھے، مگر ان کی آواز ہنوز گونج رہی ہے۔ کبھی ریڈیو سے، کبھی ٹیلیویژن پر، کبھی انٹرنیٹ سے تو کبھی مختلف ثقافتی یا ملکی و قومی تیوہاروں پر گونجاروں(لاؤڈاسپیکر) سے۔ اور جب یہ سبھی میڈیا خاموش رہتے ہیں تو ذہن و دماغ میں یادوں کی خاموش وادیوں میں محمد رفیع کی آواز فرحت دیتی ہے اور ہمارے لب ان کے ساتھ کسی قدر حرکت کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس آواز کا حامل شخص ۳۱؍برسوں پہلے ہم سے رخصت لے چکا ہے۔ حق مغفرت کرے۔


بچپن میں ہی لاہور کی گلیوں کے ایک درویش کی صدائے التجا ان کی روح میں ایسی جا سمائی کہ ان کی اپنی آواز سحر انگیز ہو گئی؛ پھر دنیا کو ایک ایسی آواز میں نغماتِ زندگی سننے کو ملے کہ جس کے لیے نقرئی اور طلائی جیسے استعارے بھی ناکافی ہیں۔ ۴؍دہائیوں تک پھر اس شخص کی آواز نے سب کے کانوں میں رس گھولے۔ وہ شخص تو گم ہوگیا مگر اس کی آواز کی لہریں ہنوز فضاؤں کو مرتعش کر دیتی ہیں اور یہ تموج دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔


Two great legends: Naushad and M. Rafi
محمد رفیع ۱۹۴۴ء میں ممبئی چلے آئے تھے۔ انھوں نے کوئی باضابطہ تربیت نہیں حاصل کی تھی مگر بعد میں پیشہ ورانہ ضرورت کے پیشِ نظر استاد بڑے غلام علی خان، استاد عبدلواحد خان، پنڈت جیون لال مٹّو اور فیروز نظامی سے ہندوستانی کلاسیکل سنگیت کے درس لیے تھے۔ مگر ان کی جملہ صلاحیتیں ودیعتِ الٰہی ہی تھیں۔ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے آئینے میں آپ ان کی نجی زندگی دیکھیں تو یقین نہیں آتا کہ جس آواز سے ہماری تقریباً روزانہ کی ہی ملاقات ہے، وہ اسی شریف اور منکسرمزاج شخص کی ہے۔ ان کے چہرے پر ایک جانی پہچانی مسکراہٹ کا ہمیشہ ڈیرہ رہتا تھا۔ حتیٰ کہ گاتے وقت بھی ان کے چہرے کو یہ مسکراہٹ تنہا چھوڑتی تھی اور نہ کسی دوسرے تاثر کے لیے جگہ خالی کرتی تھی۔
محمد رفیع کا پہلا پلے بیک نغمہ ۱۹۴۴ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’گل بلوچ‘ میں تھا۔ اس میں انہوں نے زینت بیگم کے ہم آواز ’سونیے نی۔۔۔ ہیریئے نی‘ گایا تھا۔ ممبئی آنے کے بعد موسیقار شیام سندر نے فلم ’گاؤں کی گوری‘ کے لیے انہیں گانے کا موقع دیا اور انہوں نے جی ایم دُرّانی کے ہمراہ پہلا گانا گایا ’اجی دل ہو قابو میں تو دلدار کی ایسی تیسی‘۔اس کے بعد نوشاد، شیام سندر، حسن لال بھگت رام، راجندرکرشن اور دوسرے موسیقاروں کے ساتھ انہوں نے یادگار نغمے گائے۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد انہوں نے جو نغمہ گایا تھا ’سنو سنو اے دنیا والو باپوجی کی امرکہانی‘ تو اسے سننے کے لیے وزیرِ اعظم ہند نہرو نے محمد رفیع کو اپنے دولت کدے پر بلوایا اور چاندی کے تمغے سے نوازا تھا۔ لیکن یہ تو پہلا پڑاؤ تھا محمد رفیع کی کامیابی کی منزلوں کا۔اس کے بعد مسلسل ۴؍دہائیوں تک پوری دنیا اس کی میٹھی اور فرحت بخش آواز کے زیر و بم سے سرور پاتی رہی۔


Two most famous JAWS
Mohd Rafi with Mohd. Ali
محمد رفیع کی زندگی کئی ابواب پر مشتمل ہے اور گزشتہ ۳۰؍برسوں سے ہی نہیں اس سے قبل سے بھی اس پر مسلسل روشنی ڈالی جاتی رہی ہے۔ اسی سبب کچھ نیا لکھنے کے امکانات بھی کم سے کم ہو چکے ہیں۔ البتہ جو بات سب سے زیادہ قابلِ ذکر ہوا کرتی ہے وہ یہ کہ محمد رفیع ایک ہمہ جہت یعنی وَرسٹائل مغنی تھے۔ زندگی کا کوئی بھی روپ ہو، کیسے ہی حالات اور موسم کی بات ہو، ان سب کو محمد رفیع نے اپنی آواز میں خوب نبھایا ہے۔ کسی فقیر کی صدائے احتیاج ہو یا کسی راجہ اور بادشاہ کے احکام یا رومان ہوں، کسی معمولی سے کاروبار سے متعلق فرد کی بات ہو یا محاذِ جنگ اور سیاست کی گرمیاں ہوں، ہر جگہ صرف محمد رفیع نے ہی انصاف کیا ہے۔ کوئی دوسرا گلوکار اتنے رنگ و روپ سے مزین نہیں ملتا۔
محمد رفیع نے ہزاروں نغمے گائے۔ ان میں کلاسیکل بھی ہیں، حب الوطنی کے گیت بھی ہیں، ہجر و یاسیت کے نالے بھی ہیں اور شرارت بھری کھلنڈری رومانی چھیڑچھاڑ بھی،حمد و نعت و منقبت بھی سنائی دیتی ہیں تو بھجن اور قوالیوں کی ترنگ بھی،معمولی اور عام سے ساز پر بھی ترانے ملتے ہیں اور ڈسکو اور پاپ میوزک کے پرشور ماحول کے گانے بھی ہیں، غرض زندگی کے کسی بھی گوشے کا نغمہ نہیں بچا ہے جسے محمد رفیع نے زیورِ ترنم نہ دیا ہو۔ اسی طرح ہم یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک کثیرمذہبی ملک ہی نہیں ہے بلکہ کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی ملک بھی ہے، اس لیے محمد رفیع نے پورے ملک کے عوام کو بھی اپنی آواز سے یوں نوازا ہے کہ انہوں نے اُردو اور ہندی کے علاوہ کوکنی، مراٹھی، بھوجپوری، اُڑیہ، پنجابی، بنگالی، گجراتی، سندھی، کنّڑ، تیلگو، ماگھی، میتھلی، آسامی، انگریزی، فارسی، اسپینی اور ڈچ زبانوں میں بھی دنیا کو نغمے سنائے ہیں۔ گزشتہ برس ایک مبصر نے ان کے انداز پر ایک رائے یوں دی تھی کہ ’’مجھے تم سے محبت ہے، کہنے کے سیکڑوں رنگ بھی ہو جائیں، تو ان سب کا حسنِ ادائیگی صرف محمد رفیع سے ہی ممکن تھا!‘‘
لیکن مختلف قومی اور فنکارانہ اعزازات پانے والے پدم شری محمد رفیع کو اس ملک میں پوری راحت بھری زندگی ملی ہو ایسا بھی نہیں رہا ہے۔ ہم نے اپنی نوعمری میں (اور بیشتر نے) وہ دور بھی دیکھا تھا کہ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ بعد میں ہوا تھا مگر اس سے پہلے محمد رفیع کو ناانصافی کا شکار بنا کر ان کے نغموں پر ایمرجنسی لگا دی گئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ’آرادھنا‘کے چند گیتوں کی ریکارڈنگ کے بعد اس فلم کے موسیقار ایس ڈی برمن کو بیماری کے سبب اسپتال داخل کیا گیا، جس کے سبب بقیہ گیتوں کی ریکارڈنگ اُن کے صاحبزادے آر ڈی برمن(جو ’آرادھنا‘ میں اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر تھے) نے اُس طرز پر نہیں کی، جو طرز ایس ڈی نے تیار کر رکھی تھی۔ آر ڈی نے کشور کمار کے ساتھ بقیہ نغمے ریکارڈ کیے ، جو زبردست ہٹ ہوئے۔ مگر یہاں سے ایس ڈی اور آر ڈی کے اختلاف نے شدّت اختیار کر لی ، جس کے نتیجے میں آر ڈی برمن نے آزادانہ طور پر موسیقی ترتیب دینا شروع کر دی۔ اُس وقت راجیش کھنّہ اپنے فلمی کریئر کے عروج پر تھے۔ ان کی ہر فلم کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی تھی  اسی کے ساتھ کشور کمار کا بھی بول بولا ہوگیا اور انہوں نے فلمی گلوکاروں میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی، ساتھ ہی ساتھ  رائلٹی کے سلسلے میں لتا منگیشکر سے بھی رفیع صاحب کی اَن بن ہو گئی تھی، یہ کافی رسوخ رکھتی تھیں جس کے سبب ہر کوئی بُلبُلِ ہند کی ناراضگی سے اپنا دامن بچانا چاہتا تھا؛ مگر وہ شریف آدمی جس کا نام محمدرفیع تھا ، کسی بھی قسم کی بری عادتوں سے محفوظ ایک نیکوکار کی مانند زندگی گزار رہا تھا، اس عرصہ میں صرف اپنے رب پر بھروسہ کیے رہا کہ وہ اسے اور اس کی صلاحیتوں کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔۔۔ اور ایسا ہی ہوا۔ جب بدنصیبی کے یہ بادل چھٹ گئے تو اس کے بعد محمد رفیع نے اخیر عمر تک ایسے ایسے نغمے دیے کہ چھوٹی عمر کے بچے ہوں یا شباب سے دوچار ہونے والی جنریشن، مائیں ہوں یا باپ اور دادا، سب مسلسل نہال ہوتے رہتے ہیں۔ آخری برسوں میں محمد رفیع کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ روزانہ ۵؍گیت کے اوسط سے ریکارڈنگ کرایا کرتے تھے اور اُن کے ایک گیت کا معاوضہ ۱۸؍تا ۲۰؍ہزار روپئے تھا کہ جب کہ کشور کمار کے ایک گیت کا معاوضہ ۵؍ہزار روپئے تھا۔ اس کے باوجود اس شریف گلوکار کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی گیت انہیں بہت زیادہ پسند آ جاتا تھا تو اُسے مفت میں بھی گا دیتے یا برائے نام معاوضہ لے لیا کرتے تھے۔ہمیں تو نہیں لگتا کہ گلوکاری جیسے میدان میں کہ جہاں معمولی معمولی کمزوریوں کو بھی بڑی بڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بہت تیزی کے ساتھ ناموں اور کاموں کو فراموش کر دیا جاتا ہے، وہاں پر محمد رفیع کے نام پر ہلکی سی دھول بھی جم پائی ہے۔



M. Rafi and Naushad rehearsing at latter's home

Friday, July 29, 2011

Moonsighting and We MuslimsDr. Rehan Ansari
ماہِ رمضان محض چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ گوکہ اسلامی مہینوں کو قمری مہینے کہا جاتا ہے مگر جمیع مسلمانوں کو دو چاندوں سے رغبت زیادہ ہے یعنی رمضان اور شوّال کے، اور دس چاند بلا نوید کوئی دیکھتا ہے کوئی نہیں۔ امسال بھی اﷲ خیر کا معاملہ فرمائے اور ہلالِ صیام کی ہویدگی آسان و اظہر فرمائے۔ ایں دعا است (آمین)۔
رمضان اور شوال کے چاند کی دید اور رویت پر چاند ماری برصغیر میں ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکا ہے۔بردارانِ ملت کے مزاجوں میں مدوجزر پیدا ہو جاتا ہے۔ ہم نے سدا دیکھا ہے کہ پورے مسلم معاشرے میں قابلِ قدر و تعظیم علما سے زیادہ اہمیت پیشہ ور مولویوں کو حاصل ہو گئی ہے جو تقریباً ہر جماعت و مکتبِ فکر میں موجود ہیں۔انہی کے سبب مسلمان طبقاتی طور پر تقسیم بھی ہیں اور جماعتوں میں بھی گروہ بندیاں ملتی ہیں۔ رویتِ چاند کی ٹھیکیداری بھی اب تقسیم کرلی گئی ہے۔
'ان ایام میں ہمارے مزاجوں کی گرمی کا جو مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ اس ٹمپریچر کو ناپنے کے لیے کوئی تھرمامیٹر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہم اس حقیقت کو مانتے ہیں کہ کوئی بھی خلافِ مزاج خبر مزاجوں کو بگاڑ دیتی ہے مگر چاند کے ہویدا ہونے کی خبر تو متوقع خبروں کے زمرے میں آتی ہے، اس کا تو شدید انتظار رہتا ہے، خوش دلی کے ساتھ استقبال کرنا چاہیے، لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے یعنی قریبِ نصف شب کو کہیں سے خبر آئے تو بلا تاخیر پارہ چڑھ جاتا ہے۔ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ آپ تحقیق نہ کریں اور آنکھیں موند کر خبر پر یقین کرلیں۔ بے شک آپ کا حق ہے کہ تمام ضروری تصدیق اور استناد حاصل کرلیں اور پھر مانیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ چھوٹتے ہی غصے کا اظہار کرنے لگتے ہیں اور کچھ تو گالیاں بھی بکنے لگتے ہیں۔ نعوذ باﷲ من ذٰلک۔ ایک انتشار ، ایک اضطراب، ہجومِ بیکراں، مختلف شرائطِ شہادت پر تکرار، بحث و مباحثہ، گرماگرمی اور کبھی کبھار ہاتھا پائی بھی!... اصل میں چاند دِکھنے کے ساتھ کریڈٹ بھی دکھائی دینی چاہیے نا!... یہ سب باتیں گروہی اور جماعتی مخاصمت کا کھلا مظہر ہیں۔ مذہب ایک طرف ہوگیا ہے اور گروہ بندی کو کچھ زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔خالص دینی مسائل پر بھی فروعی مسلکی اختلافات کا غلبہ ہونے لگا ہے۔عام مسلمان بھی علمائے کرام و عظام سے زیادہ پارٹ ٹائم مولویوں کی آئیڈیالوجی سے سحرزدہ ہیں۔ چاند کی آنکھ مچولی والے ابرآلود ایام میں شاہدینِ ہلال کو ذلیل و رسوا کرنے اور سرِعام بے عزت و مطعون کرنے کے تمام ممکنہ حربے آزمائے جاتے ہیں۔ ہم اپنے دل میں سوچتے رہتے ہیں کہ اگر یہی معاملہ رہا تو کوئی شریف اور بھلا مسلمان آئندہ کیا چاند کی شہادت دینے کا حوصلہ بھی رکھ سکے گا؟ مذہبِ امن وسلامتی کو ماننے والے ایک ’’اچھی بات‘‘ پر اس قدر مشتعل ہوجائیں گے یہ ہمارے گمان سے اونچی بات ہے۔
ہمارے یہاں بعض مولوی گروہ شرعی گواہی کے لیے ’’مشرع‘‘ مسلمان ہونے کی شرط لگاتے ہیں اور ان کی نظر میں مشرع ہونے کے لیے سب سے پہلی شرط داڑھی ہے، وہ بھی ان کی پیمائش کے لحاظ کی! (عورتوں کو اب چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی)۔ پھر یہ بھی ہورہا ہے کہ شاہدِ ہلال کی کھال پر مسلک کی چھاپ بھی تلاش کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ہمیں ماضی کا ایک سچا واقعہ یاد آگیا جو ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا۔ ہمارے شہر کے انتہائی معروف و معتبر شاعر و حکیم مرحوم عبدالحئی ظریف نظامپوری ایک دوسرے صاحب کی معیت میں جامع مسجد (ممبئی) میں چاند کی رویت کی شہادت دینے کے لیے پہنچے تھے۔ وہاں شہادت لینے والے صاحبان نے کہا تھا کہ آپ کی شہادت قابلِ قبول نہیں ہے اس لیے کہ آپ کے داڑھی نہیں ہے۔ تو انھوں نے برجستہ یہ کہا اور لوٹ آئے کہ ’’چاند دیکھنے کا تعلق آنکھ سے ہے داڑھی سے نہیں‘‘۔


عام مسلمان، حتیٰ کہ تعلیم یافتہ مسلمان بھی دینی معاملات میں (بربنائے خوفِ بے جا) تدبر کرنا اپنی ذمہ داری قطعی نہیں سمجھتا، بلکہ وہ صرف مولوی پر (وہ بھی اپنے ہی مسلک کے) بھروسہ کرنا پسند کرتا ہے۔ جبکہ معتبر و مستند علما کی دینی کتب پوری طرح رہنمائی کے لیے موجود ہیں جو دیانتدارانہ تدبر میں معاون بن سکتی ہیں۔ مگر اب تو مسلکی عصبیت کی عینک کے بغیر آنکھیں بھی کچھ دیکھنے سے ہی قاصر ہوگئی ہیں۔
تلخ نوائی معاف، بارانِ رحمت کا مہینہ رمضان ہمارے لیے کسی ’’سالانہ فیسٹیول‘‘ کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے، اور روزِ عید اسی فیسٹیول کا آخری دن.

Tuesday, July 26, 2011

Ibne-Safi: The One Man Army Who
Saved The Society From Obscene Literature
Dr. Rehan Ansari
اسرار احمدناروی اپنے والد سے منسوب کنیت ابنِ صفی کے نام سے معروف زیادہ ہیں۔ آپ کے والد کا نام ’صفی اﷲ‘ تھا اور والدہ محترمہ کا نام ’نذیرن بی بی‘ تھا۔ ننہال کا تعلق حضرت نوح ناروی کے خانوادے سے تھا۔ ۲۶ جولائی ۱۹۲۸ء کو الٰہ آباد کے علاقے ’نارا‘  (اترپردیش، ہند) میں پیدا ہوئے تھے اور باون (۵۲) برس کی عمر میں ۲۶ جولائی کو ہی ۱۹۸۰ء میں کراچی (پاکستان) کے پاپوش نگر قبرستان سے خلدآشیاں ہوئے۔ (یہاں ایک عجب نکتہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ یومِ پیدائش کے چھبیس اور یومِ وفات کے چھبیس کا مجموعی عدد باون ہوتا ہے جو عمر کے سال ہیں)۔ آپ نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا تھا اور خدمتِ تدریس سے وابستہ ہو گئے تھے۔ آپ نے اپنے نام یعنی اسرار احمد ناروی سے شاعری کی خدمت کی۔ ان کے علاوہ ’سنکی سولجر‘ اور ’طغرل فرغان‘ کا قلمی نام بھی اختیار کر رکھا تھا۔ اگست ۱۹۵۲ء میں (جب ہندی کو بڑھاوا دینے اور اردو کے تئیں سرکاری تعصب سامنے آنے لگا تو) پاکستان ہجرت کرگئے اور وہیں ’اُم سلمہ خاتون‘ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ آپ کو اخیر عمر میں لبلبے کا سرطان لاحق ہو گیا تھا۔


Ibne-Safi with wife Umme-Salma Khatoon
ابنِ صفی وہ عبقری شخصیت تھی جس نے بیسویں صدی کے وسط میں اردو والوں کو فحش لٹریچر سے محفوظ رکھنے کا نیک کام انجام دیا اور ایک پوری جنریشن کی حفاظت کا ایک انوکھا اسلوب اختیار کیا تھا۔ انھوں نے اپنے زمانے کے مزاج سے ہم آہنگ ہو کر ’’سِرّی ادب‘‘ تخلیق کیا۔ اس کی ضرورت بھی بڑے فکر و خیال کے ساتھ سامنے آئی تھی۔ کیونکہ اس وقت پورے برّصغیر کا اردو معاشرہ ایک پرآشوب دور میں داخل ہوتا چلا جارہا تھا۔ لوگوں کی دلچسپی تعمیری اور اصلاحی ادب سے ختم ہوتی جارہی تھی اور اس جانب نئے لکھنے والے بھی کم سے کم ہوتے جارہے تھے۔ چنانچہ پڑھنے والوں کی اکثریت کی مارکیٹ پر فحش نگاروں نے چھاپہ مار کر گھٹیا، سستے اور بازاری قسم کی رنگین مزاجیوں سے بھری فحش تحریریں بھرنا شروع کردی تھی۔ حتیٰ کہ خاتون قلمکار (یا خاتون قلمکاروں کے نام سے لکھنے والے) بھی ایسے ناول اور (قسط وار) افسانے لکھ رہے تھے جو صرف جنسیات کا مرقع ثابت ہوتی تھیں اور بلا تخصیصِ عمر انھیں چھپ چھپا کر پڑھنے والے بڑھتے جا رہے تھے۔ ان کی وجہ سے اردوداں معاشرہ تہذیبی زوال و ابتذال کی جانب بڑھنے لگا تھا۔


Ibne-Safi with Ali Abbas Husaini
ایسے میں عباس حسینی اور ابن صفی جیسے فکرمند ادیبوں نے سرجوڑ کر کچھ کرنے کی بابت سوچنا شروع کیا اور ابن صفی نے عباس حسینی کے ساتھ مل کر اردو نوجوانوں کو ایک ایسی تحریر سے واقف کرانے کی ٹھان لی جو ان کے ذوق و شوق کی بھی سیرابی کرے اور ان کی طبیعت کو اضمحلالی دور سے نکال دے۔اس طرح اردو میں باقاعدہ سری ادب کی داغ بیل ڈالی گئی۔ خدا کو بھی یہ منظور ہوا۔ اس کے بعد اردو دنیا کو ابن صفی کے قلم سے وہ ناول دستیاب ہوئے جنھیں معرکۃ الآرا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جنھوں نے اشاعت اور ایڈیشن کے سارے ریکارڈ اپنے نام کر ڈالے۔ ان دونوں اصحاب نے مل کر نوجوانوں کی سوچ کے دھارے کو کسی قدر مثبت موڑ دینے کی بھرپور اور کامیاب سعی کی۔
ابن صفی ہندوستان کے اس علاقے میں پیدا ہوئے جس نے اردو ادب کو لاثانی طنز و مزاح نگار شاعر اکبر الٰہ آبادی دیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ علاقائیت اور اکبر الٰہ آبادی کی مقبولیت کے سبب اسرار احمد ناروی ابن صفی کے مزاج و شخصیت پر بھی یہ حس پوری طرح حاوی ہونی ہی تھی۔ ان کے اس مزاج کا عکاس ان کے ناول ہیں جن میں معاون کرداروں کی زبان سے ایسے بیساختہ اور برمحل جملے اداکیے ہیں کہ قاری تنہائی میں بھی مسکراتا ہی نہیں بلکہ کھلکھلا پڑتا ہے۔ ان کے ناول تحیرخیزی، مہم جوئی، سسپنس، رومان اور مزاح سے مرصع ہوتے تھے اور منظرنامہ کی تیز تبدیلی سے قاری ایک ہی نشست میں پورا ناول پڑھے بغیر مطمئن نہیں ہوتا تھا۔
 اس اسلوب کو لے کر ایک بھرے پرے معاشرے نے نہ صرف لطف و حظ اٹھایا بلکہ خود اردو کی لسانی دنیا میں اپنے اسلوب کے تئیں ابنِ صفی ایک مثبت بحث کا عنوان بن گئے۔ یعنی ان کے اسلوب کو اردو ادب کا حصہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ کیا سِرّی ادب جسے جاسوسی ادب کے نام سے زیادہ جانا گیا ہے اس کی کوئی ادبی حیثیت و مقام ہے؟ کیا اسے بھی نثری اصنافِ ادب میں شامل کیا جانا چاہیے؟
علی عباس حسینی کا تعلق الہٰ آباد کے ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔ ان کا اپنا ایک حلقۂ دوستاں تھا۔اس میں قلمکار، شاعر اور دانشور تھے۔ اسی حلقے میں ایک مرتبہ زوردار مباحثہ ہوا کہ ’اردو کی اشاعتی دنیا اب فحش نگاری کے علاوہ کسی اور پر تکیہ نہیں کرسکتی‘ اور یہ واقعہ ہے کہ اس دور میں ’وہی وہانوی‘ جیسے فحش نگاروں نے پوری مارکیٹ کو گویا یرغمال بنا لیا تھا۔ اس مباحثہ میں ابن صفی نے چیلنج کیا کہ جرائم، جاسوسی اور مہم جوئی کے عنوانات پر ناول لکھے جائیں تو ان کی بھی مارکیٹ میں بڑی مانگ ہوگی۔ اکثر دوستوں نے ان سے اختلاف کیا مگر عباس حسینی نے ان کی ہامی بھری اور حامی ہوگئے۔ عباس حسینی کا اپنا ’پرنٹنگ پریس‘ بھی تھا۔ دونوں نے مل کر الٰہ آباد میں ’نکہت پبلی کیشنز‘ کی بنیاد ڈالی۔ پھر یہ سفر نئی منزلیں طے کرتے اور تاریخ مرتب کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ ’جاسوسی دنیا سیریز‘ کے تحت ایک سو پچیس ناول دیئے اور ’عمران سیریز‘ کے تحت ایک سو بیس ناول سامنے آئے۔ اکثر ناول ’پیپربیک‘ (غیرمجلد) ایڈیشن تھے۔ جاسوسی دنیا کے تحت انھوں نے پہلا ناول ۱۹۵۲ میں شائع کیا جس کا نام ’دلیر مجرم‘ تھا، اس کی قیمت ہندوستانی ’دس آنے‘ تھی۔ انسپکٹر نواب احمد کمال فریدی (کرنل فریدی) اور سرجنٹ ساجد حمید (کیپٹن حمید)، قاسم، انور، رشیدہ کے علاوہ ایک پوری ٹیم کے کرداروں کی تخلیق کی۔ عمران سیریز میں، علی عمران، جوزف، سلیمان، ایکس ٹو، جولیانا فٹزواٹر، سنگ ہی، فنچ، تھریسیا اور جانے ایسے کتنے یادگار کرداروں کی تخلیق کی تھی۔ ہر ناول سو سے ایک سو بیس صفحات پر مشتمل ہوتا تھا۔ یقینا انھوں نے معاصر انگریزی ناول ناگاروں کی تحریروں کو بھی سامنے رکھا تھا جن میں اگاتھا کرسٹی، ایان فلیمنگ، استانلے گارڈنر، مکی اسپلین اور متعدد دیگر۔ مگر انھوں نے اپنی تحریروں میں طبعزادیت برقرار رکھی۔ کہیں بھی سرقے کا شبہ نہیں ہوتا۔
ابن صفی کے قارئین کی بڑی تعداد متوسط طبقے میں پائی گئی یا اعلیٰ متوسط طبقے میں۔ مگر ان کے اسلوب کے حاسدین اردو کے جید طبقے میں رہے۔ ان کے ناولوں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ انپڑھ مزدوروں اور محنت کشوں کا طبقہ (گروپ میں) بھی مل بانٹ کر ہر ماہ ایک ناول خریدتا اور کسی پڑھنے والے کو ڈھونڈ کر اسے باآواز بلند پڑھنے کو کہتا اور سن کر لطف اندوز ہوتا۔


Asrar Ahmad Narwi
aka
IBNE-SAFI
ابن صفی کی مقبولیت اور ان کے ناولوں کی مانگ کا یہ عالم تھا کہ ان کے نام سے مشابہ کئی بوگس ناموں کے ساتھ سطحی قسم کے ناول بھی بازار میں بکنے لگے۔ کسی نے این صفی، کسی نے عین صفی کے نام سے لکھا۔  کانپور کے ایک پبلشر کی دیدہ دلیری یہ بھی تھی کہ ’ابن صفی‘ کے نام سے ہی بوگس ناول بازار میں چلاتے رہے۔ ابن صفی نے اس کی تردید بھی کی مگر مارکیٹ کے نقارخانے میں ان کی آواز کہاں سے سنی جاتی۔ ان کے تخلیق کردہ کرداروں کو لے کر بھی بیشتر نے دہلی وغیرہ سے ناول لکھ کر ان کی مارکیٹ میں سیندھ لگاتے رہے تھے۔ مگر جو شہرتِ جاوداں اور اعتبار ابن صفی کے حصے میں آیا سارقین ان کی پرچھائیں کو بھی نہیں پا سکے۔
ابن صفی ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ شاعری وہ اسرار ناروی کے نام سے کرتے تھے۔ ہم ان کے ایک قطعہ کے ساتھ اپنی بات کو ختم کرنے سے قبل ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تھا:
       ہم خود ہی کرتے رہتے ہیں فتنوں کی پرورش
        آتی نہیں ہے کوئی بلا ہم پہ ناگہاں
        جنگل میں بھیڑیوں سے سوا کون معتبر
        جس کے سپرد کیجیے اقلیمِ جسم و جاں

Sunday, July 24, 2011

Oslo Attack: Not a Terrorist AttackDr. Rehan Ansari
اوسلو کا حملہ آور دہشت گرد نہیں تھا بلکہ
 "مشتبہ، انتہا پسند اور نشہ کے زیراثر تھا"
رنگے ہاتھوں پکڑے جانے اور ہوش و حواس میں ساری باتیں کرنے کے باوجود اس حملہ آور کے تعلق سے یہ خیال ہے دنیا بھر کے میڈیا کا!
 ہم اسی میڈیا کی چند جھلکیاں پیش کرتے ہیں. یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ اگر بریوک Behring Breivik نامی یہ عیسائی نوجوان اتفاق سے مسلم نام کا ہوتا تو یہ میڈیا اپنی سرخیوں میں کیا لکھتا؟... ویسے ہم ہر ایسے حملے کی مذمت کرتے ہیں جس میں انسانی جانیں تلف ہوتی ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب کا پیرو کرے یا مذہب بیزار اور خدا بیزار کرے. وہ پوری انسانیت کا دشمن ہے ... ڈاکٹر ریحان انصاری




وغیرہ وغیرہ......