Letter to the Educated Daughter Dr. Rehan Ansari |
تمھاری اعلیٰ تعلیم جلد ہی مکمل ہوجائے گی۔ مستقبل کی پربہار اور جاں فزا زندگی چند قدم پر تمھاری منتظر رہے گی۔اس آنے والی زندگی میں برتنے کی باتیں اور چلنے کے کچھ بافیض اصول ہیں۔ ان اصولوں کو دینِ فطرت نے اکمل طور سے پیش بھی کیا ہے اور پوری رہنمائی بھی فرمائی ہے۔ مگر ہماری دنیا تو نئی دنیا ہے نا، نت نئی بدلتی دنیا، حد سے بیحد مصروف دنیا، جدید تعلیم پانے کی دُھن میں ہمیں فرصت ہی کہاں ملی کبھی کہ اپنے دین کی جانب سوالات لے کر دیکھتے!
بیٹی، پیاری بیٹی، آؤ ذرا پہلے اپنے کیمپس کی سیر کرلیں۔ وہی کیمپس جن میں ہم نے بھی کبھی کئی برس گذارے ہیں اور اب تم ہو وہاں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تاریخ و جغرافیہ خواہ کتنے ہی مختلف ہوں لیکن ان کا اندرونی کیمپس تقریباً یکساں ہوتا ہے۔ درودیوار اور دریچہ و بام ہوتے ہیں۔ کتب خانے اور باغات ہوتے ہیں۔ رہداریاں اور دالان ہوتے ہیں۔ آڈیٹوریم، کھیلوں کے میدان یا انڈور اسٹیڈیم ہوتے ہیں اور اسی طرح کی دوسری جگہیں۔ پھر ایک اور شئے جو قیام گاہ یا ہوسٹل کہلاتی ہے۔ یہ ایک سحر آگیں ماحول ہوتا ہے۔نئے ذہنوں کی یہاں آبیاری ہوتی ہے۔ ایک طالبعلم لازمی طور پر ان سب سے گذرتا ہے۔ ان تمام جگہوں پر کئی کہانیاں اور حکایات رقم ہوتی ہیں۔ ان تمام حکایات میں بھی ایک مشترک پہلو ہوتا ہے کہ یہیں پر ہمارے وطنِ عزیز کے برادران و دُختران سے بھی ہمارا ایک طویل سابقہ پڑا کرتا ہے۔ اداروں میں ان کی اکثریت پائی جاتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں وہ لوگ منصوبہ بند بھی ہوتے ہیں اور ہم سے بہت زیادہ سنجیدہ بھی۔ یہ ایک بڑی خوبی ہے ان کی۔ ایک عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ یہ برادران و دخترانِ وطن ہم سے اکثر ہمارے دین سے متعلق (کبھی سنجیدہ اور کبھی تمسخر آمیز) سوالات بھی کیا کرتے ہیں اور ہم لوگ بیشتر کم علمی یا لاعلمی کی بنا پر ان کے شکوک و شبہات کو ہی تقویت نہیں دیتے بلکہ خود بھی شک و شبہ میں مبتلا ہوکر ان سے متاثر ہو جایا کرتے ہیں۔ان کے یہاں لہوو لعب اور رسم و رواج عبادتیں ہیں اور ہمارے یہاں عبادتوں کو رواج دیئے جانے کی تنبیہ۔ اللہ تمھیں اور جملہ مسلمین کو خرافات سے محفوظ رکھے۔
عزیزم، یہ عمر شباب کا وہ دور بھی ہوتا ہے کہ جب دلوں میں ارمانوں کا حسین محل تعمیر ہوتا رہتا ہے۔ ہر نیا دن ایک میلوڈی سناتا ہے۔ اجنبی اچھے لگتے ہیں اور اپنوں سے گریزاں رہنے کی طبیعت ہوتی ہے۔اپنے گلی محلوں اور شہر سے دور بسنے والوں سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ اجنبیت رفتہ رفتہ زائل ہوکر رفاقت میں ڈھل جاتی ہے۔دوسروں کے گھریلو یا سماجی کلچر کا اختلاف نیاپن محسوس ہوتا ہے۔ جب کوئی اجنبی زیادہ پسندیدہ ہوجاتا ہے تو اپنا سماج اچانک دشمن محسوس ہونے لگتا ہے۔ خوفناک اور کریہہ دشمن۔ذہن کو بغاوت کے ٹینٹیکلس یعنی گیرہ (Tentacles) اپنے شکنجے میں لینے لگتے ہیں۔اور بیشتر لوگ غلطیاں کربیٹھتے ہیں۔ان کے انجاموں کی داستانیں بھی کم نہیں ہیں۔ سب کی سب عمربھر کی چھوٹی یا بڑی ناکامیوں سے عبارت ہیں۔
فراغتِ تعلیم کے بعد کچھ طلبا کیمپس کے اس ماحول سے سرخرو ہوکر لوٹتے ہیں تو کچھ اس کی تہذیب کا شکار ہوجایا کرتے ہیں۔ جو لوگ کیمپس کی تہذیب کا شکار ہو جاتے ہیں وہ ہماری (بیچاری) قوم سے خود کو الگ (نئی لنگو میں ’ہٹ کر‘) محسوس کرنے لگتے ہیں اور بجائے اس قوم کی پسماندگی کا علاج و سد باب کرنے کے اسے تنہا چھوڑ کر اپنی ایک الگ دنیا میں مست و مگن ہوجاتے ہیں۔ حق حاصل ہے ہر کسی کو کہ اپنی دنیا اور مستقبل بنائے اور سجائے۔ لیکن یہ نصیحت بھی یاد رکھنا چاہیے کہ:
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
خیر یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن زیرِ گفتگو نفسیات کا حصہ ہونے وجہ سے ضمناً چلایا آیا ہے۔میری بیٹی، درج بالا اشارہ کردہ انجاموں میں ٹیلیویژن کا بھی بہت بڑا رول ہے۔ ٹیلیویژن نے ڈراموں کو حقیقی دنیا اور حقیقی دنیا کو ڈرامہ ثابت کرنے میں اپنا ایک ایک سیکنڈ مختص کیا ہوا ہے۔ آؤ تمھیں اس کا ایک ایپی سوڈ دکھلاؤں۔ اس ٹی وی بینی نے ہمارے مخلوط ہندوستانی سماجی ڈھانچہ کے سب سے مقدس پہلو یعنی بیاہی زندگی کی اہمیت و تقدس کو جنسی انارکی(Sexual anarchy) سے ملادیا ہے۔ کسی سیریل کو بھی دیکھیں۔ تمام کردار ایک نفسانی ہیجان اور بے کیفی میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ گھریلو سیریل کے نام پر جو پیشکشیں ہوتی ہیں ان میں گھر کا سب سے بڑا فرد بھی شک کے گھیرے میں رہتا ہے اور اس گھر کا سب سے چھوٹا ممبر بھی۔ وجہیں اکثر صرف دو ہی نظر آئیں گی۔ زر اور زن۔ نہ دین و مذہب کی قیود کی کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ کسی طرح کی اخلاقیات کا پاس ہوتا ہے۔ کہانیاں تو رذالت کی اس انتہا کو بھی چھوتی ملیں گی کہ پوتا دادی یا دادا کے کردار پر شک کرتا نظر آئے گا!... اور میری بیٹی،... یہ نہ سمجھو کہ یہ بات یا عکس صرف اِڈیٹ باکس کے پردے پر ہی روشنی کے بند ہونے کے بعد مٹ جاتا ہے۔ یہ سارے عکس تو ناظرین کے تحت الشعور کے پردے پر نقش و مرتسم ہوجاتے ہیں۔ یہیں سے وہ تقدس ختم ہوجاتا ہے جو بیاہی یا بے بیاہی زندگی کا اعلیٰ ترین انسانی وصف ہے۔ ہمارے ہندوستانی سماج میں اسی اِڈیٹ باکس اور دوسرے مغرب زدہ میڈیا نے بالغوں میں ایک گھناؤنا سلسلہ بھی جاری کردیا ہے یعنی ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ Live in relationship جسے ’’ہرجائی ہم جائی‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ بے بیاہی زندگی گذارتے ہوئے دن میں ایک دوسرے سے آزاد رہ سکتے ہیں اور رات ایک ہی کمرے میں بسر کرتے ہیں۔نہ اپنے گھرپر رہنا ہے، نہ گھربسانا ہے نہ ذمہ داریاں اٹھانا ہے۔ یہاں بس عیش ہی ایک عنوان ہوتا ہے۔ یہ سارے خاندانی و سماجی تعلقات کا قاتل ہے۔
میری عزیز بیٹی، شادی یا بیاہ ایک ادارہ ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کے گہوارے میں آدمی انسان بنتا ہے۔ اسی کے گہوارے میں تہذیب و تمدن کے علاوہ انسانی ہمدردی و غمگساری پیدا ہوتی اور پنپتی ہے۔ ہمارے یہاں تو نکاح حکم اور سنتِ پیمبرﷺ ہے۔ نکاح انسان کو سماج سے جوڑتا ہے، خاندانوں سے جوڑتا ہے، اس کی عزت و احترام میں اضافہ کرتا ہے۔اپنی مرضی سے شادی کرلینے والوں کو سماج پسند نہیں کرتا۔ اس کا اثر ان کی پوری زندگی پر پڑا رہتا ہے۔ سماج ظالم نہیں ہے بلکہ یہ انھیں ایک آنریبل سماجی زندگی دینا چاہتا ہے اور خوشیوں میں شریک رہنا اور کرنا چاہتا ہے۔ رفیقِ زندگی کا انتخاب دونوں طرح سے ہوتا آیا ہے یعنی بزرگوں کے ذریعہ بھی اور نجی بھی۔ جو اپنی پسند رکھتے ہیں ان کو حق ہے کہ وہ اس کا باعزت اظہار بھی کریں۔ اس کا تو ہمارے دین میں حکم بھی ہے کہ جسے پیغام بھیجا جائے اس کی بابت خوب اطمینان کرلو۔
پیاری بیٹی، تم تھوڑا سا آنکھیں کشادہ کرکے دیکھوگی تو نظر آجائے گا کہ پوری دنیا کے تمام کاروبار احسن انداز سے جو چل رہے ہیں ان پر نوجوان قابض نہیں ہیں بلکہ جہاندیدہ بزرگ ان کے نگراں ہیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ نوجوان عجلت پسند اور جذباتی زیادہ ہوتے ہیں جبکہ بزرگ نتائج کے لیے پیش بین اور دوربین ہوتے ہیں۔ ایک دنیا گھر کی بھی ہوتی ہے۔ اس میں چھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بڑے بھی۔ بچے بھی ہوتے ہیں اور بزرگ بھی۔ مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔ یہاں ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے اپنا اپنا انفرادی مزاج و طبیعت رکھتے ہیں۔ پسند و ناپسند رکھتے ہیں۔ تمھیں شاید پتہ ہو کہ بیاہ کے بعد لڑکی نے ایک گھر یعنی اپنے شوہر کے گھر سے رشتے استوار کرلیے تو اس کے لیے دنیا میں ہی جنت مثال گھر مل جاتا ہے اور اسی واسطے سے جنت میں گھر بن جاتا ہے۔ اس گھر میں قدم رکھنے سے قبل یہ پورا گھر اجنبی ہوتا ہے۔ اس میں بسنے والوں کی طبیعتیں اجنبی ہوتی ہیں۔ پہلے سے قریبی رشتہ داریاں ہوں تب بھی دیواروں کے اندر کی دنیا کی مکمل خبر کسی کو کسی کی نہیں ہوا کرتی۔ ایسے ماحول میں کئی مسائل پیدا ہوجایا کرتے ہیں۔ کبھی تصورات کا محل پاش پاش بھی ہوجاتا ہے۔ کئی تہذیبی فرق بھی ہوتے ہیں۔ لیکن جس دلہن نے اپنی طبیعت میں انکساری اور تواضع رکھا وہ کامیاب ہوجاتی ہے۔ نئے گھر کو اپنا اصلی گھر سمجھا توگھر کے اندر اٹھنے والی طرح طرح کی لہریں محض ابتدائی دو سے تین برسوں میں کسی اور جانب نکل جاتی ہیں۔ یہ مدوجزر سب کی زندگیوں میں آتے ہیں۔ اس لیے ہر لڑکی کو ان کے لیے ذہنی و نفسیاتی طور سے تیار رہنا چاہیے۔اور اس درمیان اپنے نئے گھر کے افراد کے ساتھ رشتوں کو حسنِ تدبیر سے استوار کر لینا چاہیے۔
عزیزی بیٹی، ایک بڑا سماجی مسئلہ ہمارے یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کے لیے مناسب رشتوں اور جوڑ کی تلاش کا ابھر آیا ہے۔جہاں تک تعلیم کا معاملہ ہے وہ اب بلا تخصیص ہر ذہین بچہ یا بچی حاصل کرتی ہے۔ کوئی صدی نصف صدی قبل ایسا منظر نہیں تھا۔ سماجی نابرابری کا دور دورہ تھا۔ امیری غریبی کے علاوہ خاندان و برادری سے متعلق بھی باتیں رائج تھیں۔ ہمارے دین میں جو ’مسئلۂ کفو‘ یعنی ’ہمسری و برابری کا ‘ہے اسے بھی ہمارے اُس وقت کے علما و اکابر نے کافی الجھا کر پیش کیا اور محض برادری یا خاندانی کفو کی میرٹ پر زیادہ زور دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ہی خاندان و برادری کی پڑھی لکھی لڑکی کا نکاح اس برادری کے انپڑھ یا اُجڈ و گنوار لڑکے سے کردیا گیا یا پڑھے لکھے لڑکے کو اپنی برادری کی غیرتعلیمیافتہ یا سرپھری لڑکی کے ساتھ نباہ کے لیے مجبور کردیا گیا۔ جبکہ نبی کریمﷺ نے نکاح کے لیے جو کفو بیان کیا ہے اس میں ’’مال، کمال، جمال اور دینداری‘‘ کو بتلایا ہے۔ اس میں بھی اوّلیت اور سب سے زیادہ بابرکت دینداری کو بتلایا ہے۔ جو ظاہری نہ ہو۔ کچھ افراد میں اس کفو کی دو تین خصوصیات یکجا ہوتی ہیں تو کچھ میں چاروں جمع ہوجاتی ہیں۔ لیکن ایک خصوصیت کے حامل افراد کو ہم کفو کہہ سکتے ہیں۔ اس جانب دورِ حاضر کے بیشتر اور جید علما، جن پر اعتبار کیا جاتا ہے اورجن سے دینی امور میں رہنمائیاں لی جاتی ہیں، نے اب مسئلہ کفو کو سلجھانا شروع کردیا ہے اور مجھے بھی نجی ملاقاتوں میں ان سے ایسی آرا سے مستفیض ہونے کا موقع ملا ہے۔ اس میں برادری اور خاندانی قیود فسادات کا سبب بن جاتی ہیں۔ میں نے اس باب میں مضامین بھی پڑھے ہیں۔ چونکہ ہم لوگ ابھی تک تنگ نظری کا شکار ہیں اسی سبب معاشرے کی اعلیٰ تعلیمیافتہ لڑکیوں کے لیے رشتوں کا مسئلہ کافی گمبھیر ہو چلا ہے۔تھوڑا سا بیش و کم دیکھ کر اور برادری کے گھیروں کو توڑ کر اس طرف دھیان دیا جائے اور پورا سماج کسی قدر نرم دلی کا مظاہرہ کرے تو اس مسئلہ کو حل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ لیکن ابھی ہمارے سماج میں ایسی وسیع القلبی نہیں آئی ہے۔
عزیز بیٹی، خط کو ختم کرنے سے قبل میں تمھیں یہ نصیحت ضرور کروں گا کہ اپنی طبیعت میں انکساری اور تواضع کے خواص پیدا کرلو اور خوداحتسابی کرتے رہنے کے ساتھ تکبر سے ہمیشہ پرہیز کرنا۔ انشااﷲ راستی و پاکبازی کے ساتھ زندگی بسر ہونے کا پورا امکان ہوگا۔ اس دعا کے ساتھ میں تم سے وداع لیتا ہوں کہ ’’اﷲ تعالیٰ تمہاری زندگی کو خیر وبرکات سے سنوارا رکھے اور آخرت میں اس زندگی کو وسیلۂ نجات بنائے‘‘۔ (آمین)
تمھارے ابّو