Mushayere, Street Cricket or other like games and Muslim Youngsters Dr. Rehan Ansari |
دیکھا جائے تو ان تمہیدی سطور میں ہی ہماری بات بھی مکمل ہو جاتی ہے لیکن ضروری ہے کہ عمومی ترسیل کے لیے کچھ باتیں مزید کھل کر کی جائیں۔
ان تمام بیماریوں یا ان کے جراثیم کو پھیلانے میں جو افراد چوبیسوں گھنٹے منہمک ہیں وہ چالاک قسم کے خودساختہ سوشل ورکر ان کے مقامی یا محلے دار آقا ہیں۔ ہر جگہ کے ’مقامی آقا‘ کو اب لوگ ’’صاحب (یا، بھائی)‘‘ جیسے منفرد اور ’بامعنی‘ لقب سے پکارنے لگے ہیں۔ اور مذکورہ بالا عوامی رابطہ کار سوشل ورکر ان کا ’’خاص‘‘ ہوتا ہے! یہ ’خاص‘ کبھی کبھی کئی افراد پر مشتمل ایک گروہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہ ’صاحب‘ بھی کسی قومی یا علاقائی پارٹی سے متعلق کوئی شخص ہوا کرتا ہے۔
جو بیماریاں پھیلائی جارہی ہیں ان کی فہرست کچھ یوں ہے ’’مشاعرہ (خصوصاً آل انڈیا)، کرکٹ (گلی کرکٹ اور اَنڈرآرم کرکٹ)، ٹینس بال ٹورنامنٹی کرکٹ، والی بال، فٹ بال، کبڈی، کیرم، (سبھی کھیل مقامی چینل پر ڈائرکٹ ریلے کے ساتھ، تاکہ حصہ لینے والے مزید سیلیبریٹک نشے میں مبتلا رہیں)، ان میں موٹربائک وغیرہ کے انعامات، ڈھابوں پر دیررات کی ڈنر پارٹیاں، تفریحی مقامات کی گروہی سیر یا پکنک وغیرہ‘‘۔
ہمارے ان نوجوانوں کی اکثریت پتہ نہیںکس افیمی دوا کے زیرِ اثر ہے کہ اسے کوئی اچھی یا نصیحت آموز بات اب لطیفہ سے بھی گئی گذری سی کوئی چیز محسوس ہونے لگی ہے؛ جسے ایک کان سے سننا تو درکنار اس پر کان دھرنے کی بھی فرصت نہیں ہے اور جیسے وہ اس ’’ناوقت شور‘‘ پر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں۔ ان کی مخفی اور فائدہ بخش صلاحیتوں کا استعمال یہ صاحب لوگ اور ان کے خاص کبھی نہیں کرتے ( بلکہ ان سے وہ واقف بھی نہیں ہوتے!)؛ البتہ اپنی ڈائرکشن پر ان کرداروں کو سماجی اسٹیج پر کچھ اس طرح بھانڈ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ غیرمسلم سماج کے نزدیک ہم سب اپنے ملک و قوم کے لیے ایک لائیبلیٹی بن چکے ہیں!
شہر کا کوئی نکڑ یا چوراہا ایسا نہیں ملتا کہ جہاں ہفتے یا مہینے بھر میں کسی کرکٹ، کبڈی یا اسی قبیل کے مقابلوں اور تفریحات کے رنگین بینروں سے اَٹا نہیں دیکھا جاسکتا۔ ان بینروں پر بیک گراؤنڈ میں پارٹی فلیگ کے رنگوں کے ساتھ ’صاحب‘، ’صاحب کے (نیشنل یا اسٹیٹ لیول) صاحب یا میڈم‘ اور ان کے حواریوں مواریوں کی ہنستی مسکراتی تصویریں ہوتی ہیں۔ انعامی موٹربائک کو بھی خوب نمایاں کرکے دکھایا جاتا ہے۔ یہ بھی بس ’اپنے محلوّں کی بات ہے!‘
ٹورنامنٹ اور مشاعرے تو آئے دن کا روگ بن چکے ہیں۔ ان ٹورنامنٹوں میں بھی کسی اعلیٰ صلاحیت اور پیمانے سے نہیں بلکہ محض ’تفریح یا مزہ‘ سے سروکار ہوتا ہے۔ انعام وِنعام تو بس شکست خوردہ ٹیم کے خلاف چھیڑخانی کے ہتھیار ہیں۔ اور مشاعرے... ارے توبہ!... زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا... ان مشاعروں کو اب اس اِملے کے ساتھ لکھنا چاہیے ’’متشاعرے‘‘... یہی صحیح ہے۔ کیوں کہ اس میں شعرگوئی کے علاوہ شاعری کے نام پر سب کچھ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بھانڈگیری بھی۔ لپ اسٹک، ساڑی اور خوش لباسی کے ساتھ فقرے بھی اس کا لازمی جز بن چکے ہیں۔خوب پیسے لٹائے جاتے ہیں۔ اردو کا مذاق بنادیا جاتا ہے۔
ان دانوں کو چگنے کے بعد ہماری قوم کے چوزے ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے رنگ منچ جمنے لگتا ہے۔ ہر طرح کے تماشے ہونے لگتے ہیں۔ جو اپنے گھروں میں میونسپل کارپوریشن کے ذریعہ سپلائی کیا ہوا پانی منہ بنا کر پیتے ہیں انھیں بِسلیری اور دوسرے منرل واٹر کی بوتلیں بغل میں دبائے گھومتے دیکھا جاتا ہے۔ چائے کافی اور ٹھنڈا تو بس ایک آواز پر ہوٹل کا ’باہروالا‘ دوڑ کر خدمت میں پیش کردیتا ہے۔ کھانا وانا تو کسی بھی مشہور ہوٹل میں اتفاقِ رائے سے کھایا جاسکتا ہے یا پھر اپنی جگہ پیک کرکے منگوایا جاسکتا ہے۔یوں کچھ دنوں کی عیاشی کا سامان تو بہم ہو جاتا ہے۔ ’صاحب‘ کو تو بس کچھ مہینوں بعد ان چوزوں سے کام لینا ہے اور اتنا سستا سودا کرنے میں کسی طرح کی آناکانی کیسی؟
شہر کے شریف بیچارے اپنی بے بسی اور نوجوانوں کی سرکشی پر اپنا ماتھا پیٹتے رہتے ہیں مگر اپنے نوجوان اس طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتے تک نہیں۔نوجوانوں کے سامنے مستقبل کی کوئی تصویر ہوتی ہے نہ تصور۔ انھیں تو بس اپنے صاحب کی خوشنودی عزیز ہوتی ہے جو مالدار ہوتا ہے اور کسی قدر پولیسیا رسوخ بھی رکھتا ہے۔ اور یہ صاحب اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے مستقبل کے وارڈ یا اسمبلی الیکشن وغیرہ پر اپنی نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ اس میں وہ خود یا بدنصیبی سے ریزرویشن ہوگیا تو اپنی خانہ نشین اہلیہ کو یا بڑی توڑجوڑ کرنے کے لیے کودنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کا دوہرا فائدہ ملنے کی امید ہوتی ہے۔ پہلے سے موجود ڈھیروں دولت میں کچھ اضافہ اور کچھ خفیہ و غیرقانونی امور یا مدات میں کارپوریشن کے دفاتر کو نرم کرنا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ کام کچھ مخصوص راہوں پر چل کر ہی انجام دئیے جاسکتے ہیں اس لیے صاحب کو یہ سب بکھان پھیلانا ہی پڑتا ہے۔ اس میں وہ بظاہر ناکام رہ کر بھی کامیاب رہتا ہے۔ مقابل والے صاحب پر رعب بھی بنتا ہے اور سامنے خواہ کچھ بھی دکھائی دیں لیکن درپردہ ’’ہم سب بھائی بھائی‘‘ کا پیغام بھی پہنچ جاتا ہے۔
ہمیں صدمہ اس بات کا رہتا ہے کہ ان چالوں اور جالوں میں ہمارے اپنے بھائی برادر اور جھونپڑ پٹیوں کی پردہ دار خواتین تک پھنس جاتی ہیں۔ شہر کے محلّوں کے استعمال شدہ نوجوان انتخابات کے بعد کسی شماروقطار میں نہیں ملتے۔ صاحب کے گھر کی سیڑھیاں بھی اونچی ہو جاتی ہیں۔ ان پر سب کے قدم نہیں پڑ سکتے۔ آپ کے علاقے کے انتظامی مسائل تو ان کے لیے دودھ دینے والی گائے کی مانند ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ حل ہوجائیں تو ظاہر سی بات ہے کہ آمدنی کا یہ سوتا سوکھ جائے گا۔ اس کی بھنک تک وارڈ کے لوگوں کو نہیں ملتی کہ وہ ان کے مستقل مسائل سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چھوٹے موٹے احتجاج یا مورچے کی وجہ سے ایک آدھ کام کردینا محلے میں مزید دھاک بٹھانے کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے صاحب اس مزاج کا بڑا خیال رکھا کرتے ہیں۔ خیر، یہ داستان کسی ایک محلے، کسی ایک وارڈ، کسی ایک شہر یا کسی ایک علاقے کی نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں یہ وبا تمام مسلم اکثریتی علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے اور ہمارے نوجوانوں کی صلاحیتوں اور وقت کا استحصال کرنے والے الگ الگ روپ میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ہمیں ان سے شکایت کم ہے مگر اپنے نوجوانوں سے زیادہ ہے کہ وہ اس بات کو پہچانتے ہیں... صاحب کو پہچانتے ہیں... خاص آدمی کو پہچانتے ہیں... اور نہ ہی خود کو پہچانتے ہیں۔ وہ کسی افیمی نشے کا شکار ہیں۔ کاش وہ جلد بیدار ہوجائیں۔ ان مشاعروں، مقابلوں اور رتجگوں کے مرض سے انھیں جلد چھٹکارا حاصل ہوجائے۔شاعرِ مشرق نے کیا خوب کہا تھا کہ:
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا توبن!