To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, November 10, 2011

Maulana Azad has been
arrested virtually

Dr. Rehan Ansari
گیارہ، گیارہ، گیارہ (11.11.11)کی تاریخ کسی اور وجہ سے یادگار بنے یا نہ بنے لیکن اس حیثیت سے ضرور یادگار بن گئی ہے کہ ملک کے پہلے وزیرِ تعلیم مولانا ابوالکلام آزادؒ کو آج گرفتار کرلیا گیا۔ وہ بھی پس از مرگ!۔ ان کی ورچوئل گرفتاری Virtual arrest ان معنوں میں یادگار ہے کہ ان کی تاریخ پیدائش کانگریسی حکام اور سرکاری اہلکاروں کو اچانک یاد آئی۔ Oh sorry!، وہ نہیں یاد آئے بلکہ یہ پلاننگ یاد آئی کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے ووٹ کس کس طرح کانگریس کی جھولی میں ڈالے جاسکتے ہیں اور کن کن پانسوں کے ساتھ اس اقلیت نما اکثریت کو لبھایا جاسکتا ہے اسے آزمانا چاہیے۔ اسی کے تحت انھیں یاد آگیا کہ مولانا محی الدین خیرالدین ابوالکلام آزاد آج ہی کی تاریخ کو 1888کو پیدا ہوئے تھے۔یعنی اگر وہ بقیدِ حیات ہوتے تو آج ان کی عمر 123 سال کی ہوتی۔ یعنی ایک دو تین! کیا حسنِ اتفاق ہے کہ کانگریس کو ان کی عمر کے ایک دو تین ہونے کے وقت ان کی سالگرہ منانے کا خیال آیا۔مگر اب سے 53سال پہلے (جسے الٹے ہندسوں میں پڑھیں تو تین پانچ سال) 22.2 (۲۲فروری) 1958 کو انھوں نے عالمِ جاودانی میں سکونت لے لی تھی۔ مولانا آزاد جیسی عبقری شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں


Maulana Azad: The strong icon
of Hindu-Muslim-Unity
مولانا آزاد دورِ غلامی میں بھی اور آزادی کے بعد بھی ہندوستان میں قومی یکجہتی کے صفِ اوّل کے علمبردار تھے۔ انھوں نے ہندومسلم ایکتا کے لیے اپنی آخری سانس تک جدوجہد کی۔ انھوں نے ہندوستان کی تقسیم کی جم کر مخالفت کی لیکن اس جذباتی قوم نے ان کی ایک نہ سنی۔انجام سب کے سامنے ہے کہ وہ ایک دوراندیش مسلم لیڈر تھے اور انھوں نے آزادی سے قبل اور پاکستان کی پیدائش سے قبل ہی اس نوساختہ ملک کے مستقبل کے تعلق سے جیسی پیش قیاسیاں کی تھیں وہ سچ ثابت ہوئیں اور اس کے نتائج سرحد کے دونوں جانب بسنے والی مسلم قوم کو کس قدر سرگراں کیے ہوئے ہیں۔ پوری قوم سربہ گریباں ہے۔ دونوں جانب اپنے اور پرائے اس قوم کا جذباتی سطحوں پر مسلسل اور مستقل استحصال کر رہے ہیں۔ خیر یہ باتیں تو جملۂ معترضہ کے طور پر سامنے آگئیں۔ ہم بات کررہے تھے کہ کانگریس حکومت کو، خصوصاً مہاراشٹر کی مخلوط کانگریس حکومت کو، مولانا آزاد صرف تین روز قبل اس طرح یاد ئے کہ جیسے کوئی نیند سے ہڑبڑا کر اٹھے اور اپنے کسی عزیز کو یاد کرکے دہاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ پورا سرکاری عملہ جو دیوالی اور دیوالے کے مزے لے رہا تھا فی الفور حرکت میں آگیا۔ سرکولر اور نوٹسیں جاری کردیں کہ اسکولوں کی سرمائی تعطیلات کو تین دن مختصر کردیا جائے اور انھیں 11.11.11 کو دوبارہ شروع کردیا جائے اور اس دن بھلے ہی کوئی تعلیمی کام انجام نہ دیں لیکن ملک کے اوّلین وزیرِ تعلیم مولانا آزاد کی یاد میں ’یومِ تعلیم‘ منائیں۔ ان تقریبات کی تیاری کا کوئی اور مٹیریل یا پیش کشیں تو اتنے کم عرصہ میں ممکن نہیں ہیں اس لیے وزیرِ اعظم ہند کی ایک دو صفحاتی (ڈرافٹ شدہ) تقریر پڑھ کر طلبہ و اساتذہ کو سنائی جائیں۔ حالانکہ یہ تقریر خود وزیرِ اعظم الیکٹرانی اور پرنٹ میڈیا سے گھر گھر تک پہنچا سکتے تھے۔ لیکن خانہ پری کے علاوہ مسلمانوں کو متاثر کرنے کا کام بھلا ایسے کہاں ممکن ہوتا؟
مولانا آزاد کی حیات و خدمات دوصفحات میں قید کرنے والی تفصیل نہیں ہے۔
خیر اس کا ایک ہی روشن پہلو یہ ہے کہ اس طرح کم از کم غیر اردو میڈیم اسکولوں میں طلبہ کی نئی جنریشن کے سامنے مولانا آزاد ( علامتی مسلمان پڑھیں) کے ملک کی آزادی یا تعلیمی ترقی میں کنٹری بیوشن کا کچھ تو بیان ہو جائے گا جس کی ہمیں ایک مدت سے تشنگی محسوس ہوتی رہی ہے۔ آگے مزید سرے یہ جنریشن تلاش کر لے گی۔ باقی باتیں اسی کی مانند ہیں جو اردو کے اس مشہور شعر میں درج ہیں کہ:
ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے