دنیا نے سگار (Cigar) کو چھوٹا کیا سگریٹ (Cigar-ette) بنا دیا۔ سگار چھوٹا ہوگیا خطرہ بڑھا دیا۔ سب کی پہنچ میں آگیا۔ بیشتر کو سگریٹ باز بنا دیا۔ دنیا میں سگریٹ کے کش پر کش لیتے ہوئے نہ جانے کتنے لوگ زندگی گذار (اصل میں بگاڑ) رہے ہیں۔ سگریٹ کا دھواں صرف کھینچنے کے لیے ہی اہم نہیں ہے بلکہ فنکار لوگوں نے اسے فضا میں خارج کرتے ہوئے دیدہ زیب مرغولوں کا تفریحی منظر بھی پیش کیا ہے۔ اس پر گیت و نغمے بھی گنگنائے گئے ہیں لیکن ساحر لدھیانوی کے شعر کی حقیقت پسندانہ تضمین کی جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ:
’’ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا‘‘
اور اپنی ہی صحت کو گنواتا چلا گیا
ایک تا ڈیڑھ صدی کے عرصے میں سگریٹ نوشی زیادہ عام ہوئی ہے۔ اور صرف گذشتہ نصف صدی میں سگریٹ نوشوں کی تعداد دوگنی ہو چکی ہے۔ ذہنی تناؤ، کام کے بوجھ کی فکر اور تکان دور کرنے کے حیلے اور ذہنی و شعوری دریچے وا کرنے کے بہانے یہ فیشن کے طور پر رائج ہے۔
تمباکو کے استعمال نے ہر دور میں ایک مختلف انداز میں ترقی کی ہے۔چبانے، سڑکنے، دانتوں پر ملنے، منہ میں دبانے، حقہ سڑکنے ، بیڑی، سگار، پائپ اور سگریٹ کے ذریعہ تدخین (Smoking) کی صورت میں؛ غرض نت نئے انداز سے تمباکو کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تمباکو نوشی کی جدید ترین شکل سگریٹ ہے۔ اس کی صورت بھی دورِترقی کے ساتھ تبدیل ہوتی رہی ہے۔
غور کیا جائے تو تمباکو کے استعمال سے بدن کو فائدہ پہنچنے کی بجائے ہمیشہ نقصان ہی پہنچتا ہے۔ جیسے ایک معمولی سی بوند پتھر کو راست طور سے کوئی نقصان نہیں پہنچاتی لیکن تواتر کے ساتھ ایک ہی مقام پر بوندوں کے بعد بوندیں گرتی رہیں تو پتھر کی طبعی ہیئت خراب ہو جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح تمباکو کا ہر کش پھیپھڑے اور دل کے نظام کی دائمی تباہی کی جانب بڑھتا ہوا قدم ہوتا ہے۔ اس کے خطرات بہت طویل فاصلہ طے کر کے آتے ہیں اور پھر اس سرائے کے مستقل مکین بن جاتے ہیں۔
تمباکو کے پیکٹ پر چھپا ہوا یہ طبی انتباہ بھی تمباکو نوشوں کو کماحقہ متوجہ نہیں کرتا کہ ’’سگریٹ نوشی صحت کے لیے مضر ہے۔‘‘ اس انتباہ کے الفاظ و بیان یہاں تک تبدیل ہوئے ہیں کہ ’’تمباکو نوشی کو اپنائیے یا صحت کو... فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ مگر ہنوز حال یہ ہے کہ مطبوعہ تنبیہ محض پیکٹ کی ڈیزائن کا حصہ بن گیا ہے۔ اور سگریٹ نوش پر یا سگریٹ فروش پر یا سگریٹ خریدنے کے لیے بھیجے گئے بچے پر اس تنبیہ کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
تمباکو نوشی کے اثرات ہی نہیں بلکہ اس کے مبینہ خطرات بھی صرف تین یا چار نسلوں میں ہی زیادہ ظاہر ہوئے ہیں۔ خصوصاً طبقۂ امراء میں۔ سگریٹ نوشی کا ایک بڑا ضرر یہ بھی ہے کہ اکثر سگریٹ نوش نئے نشوں کو تلاش کرنے لگتے ہیں۔ سگریٹ کے ساتھ ہی شراب، چرس، ماریجوانا اور گانجے وغیرہ کا استعمال بھی شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح نشہ آور ادویات کے استعمال کو فروغ ملتا ہے۔ گویا سگریٹ نوشی نشے کی عادت اپنانے کے لیے پہلی سیڑھی ثابت ہوتی ہے۔ معاشرے میں نوجوان ایک اسٹائلش زندگی کے تصور کے ساتھ سگریٹ نوشی کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ عموماً سگریٹ نوشی کی ابتداء دوستوں کی صحبت یا گھر کے بڑوں کی تقلید میں ہوتی ہے؛ جبکہ ساتھیوں یا معاشرے میں اکثریت تمباکو نوشوں کی ہو، جہاں تمباکو نوشی کو برائی نہیں سمجھا جاتا اور اسے ایک سماجی قدر یا التزام کا مقام حاصل ہو، جہاں یہ مطالبہ ہو کہ ہمارے ساتھ رہنا ہے تو ہم جیسا بننا ہوگا۔ کثیر تعداد کے لیے سگریٹ نوشی ایک اسٹیٹس سمبل (علامتِ منصبی)، پُر اعتمادی، پختہ شعوری جیسی خوش کُن باتوں کا اظہار ہے!!
دنیا میں جتنی اشیاء پائی جاتی ہیں ان میں تمباکو سب سے ارزاں اور سہل الحصول ہے۔ اس میں پایا جانے والا جز ’نکوٹین‘ (Nicotine) سب سے زیادہ عادی بنانے والی منشّی (Addictive) دوا ہے۔ اس کی عادت اتنی تیزی کے ساتھ پختگی حاصل کر لیتی ہے کہ افیون، چرس، گانجہ یا ماریجوانا بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ گو کہ نکوٹین خود اتنا زیادہ عضوی ضرر پہنچانے والا کیمیائی مادّہ نہیں ہے جتنا کہ سگریٹ نوشی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا دھواں اور گیسیں ہیں۔ یہ دھواں اور گیسیں اعضائے تنفس اور نظامِ دورانِ خون کو دائمی، غیر رجعی اور مہلک نقصان پہنچاتی ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ اثر صرف سگریٹ نوش پر ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھی اور اہلِ خانہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اسے منفعل (Passive) سگریٹ نوشی کہتے ہیں۔ چنانچہ سگریٹ نوشی ایک ’’مستقل وبائی مرض‘‘ کی طرح پھیلتا رہتا ہے۔ یہ وبا متعدی نہیں ہے بلکہ اختیاری ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس سے آدمی خواہشمندی کے ساتھ بچ سکتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنے عوام کے لیے نقصِ تغذیہ (Mal-nutrition) اور متعدی امراض کے علاوہ تمباکو نوشی سے بھی طبی محاذ پر سامنا ہے۔
اب اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ سگریٹ نوشی سے پچیس فیصدی قلبی امراض، پچہتّر فیصدی تنفسی امراض اور نوّے فیصدی پھیپھڑے کے کینسر ظاہر ہوتے ہیں۔ اور ایک بڑی تعداد میں بدن کی قوتِ مدافعت (Immunity) کمزور ہو جاتی ہے۔خواتین میں تمباکو نوشی سے خود انھیں بھی نقصان ہوا کرتا ہے اور اگر وہ حاملہ ہوں رحم میں پرورش پانے والے بچے کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔
سگریٹ کی عادت کا اصلی سبب:
کسی کو بھی سگریٹ نوشی کی عادت کیوں پڑ جاتی ہے۔ اس کی تحقیق کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ سگریٹ کے دھوئیں میں ایک نامعلوم جز کی وجہ سے دماغ میں پیدا ہونے والا ایک اہم انزائم ’’مونوامائین آکسیڈیز B‘‘ (Monoamaine Oxidase B) تباہ ہو جاتا ہے۔ یہ انزائم ڈوپامین (Dopamine)نامی کیمیائی مادے کے اثرات کو زائل کرنے کا کام انجام دیتا ہے جبکہ ڈوپامین عصبی ریشوں کے سروں پر لذت کی خواہش بڑھانے والا مادّہ ہے۔ گویا ’مونوامائین آکسیڈیز بی‘ خواہشات کے دروازے پرگورکھا کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ تمباکو نوشوں میں اس کی مقدار ڈوپامین کی مقدار کے تناسب میں بہت کم ہو جاتی ہے اس لیے ڈوپامین کی زیادتی بار بار انھیں حصولِ لذت کی خواہش میں مزید سگریٹ نوشی پر اکساتی رہتی ہے۔
نکوٹین:
تمباکو کے کثیر استعمال کا اصل مقصد اس سے حاصل ہونے والے ہلکے نشے کا حصول ہوتا ہے۔ یہ ہلکا نشہ آدمی کو مزید متحرک بناتا ہے اور اس کا موڈ ٹھیک کرتا ہے۔ اس کیفیت کی پیدائش کا سبب تمباکو کا جز (الکلائیڈ، alkaloid) نکوٹین ہوتا ہے۔ تمباکو میں 0.5فیصدی سے 8 فیصدی تک نکوٹین موجود ہوتا ہے۔ لیکن یہاں یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ تمباکو کے پتوں (یہاں سگریٹ پڑھیں) میں تنہا نکوٹین ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی قسم کے دوسرے مضر اجزاء بھی شامل ہوا کرتے ہیں۔ (جن کے اشارے تصویر میں ملاحظہ کر سکتے ہیں)۔ ان کی موجودگی مختلف تکالیف ، امراض یا کینسر کی پیدائش کا سبب ہوا کرتی ہے۔ یہ مشہور اور مبینہ حقیقت ہے کہ تمباکو سے کینسر پیدا ہوتا ہے۔ لیجن تحقیقات اور مشاہدے اس بات کی مکمل تائید نہیں کرتے کہ تنہا نکوٹین ہی تمباکو سے پیدا ہونے والے کینسر کا ذمہ دار ہے۔ نکوٹین کے علاوہ تمباکو کے اندر پائریڈین (Pyridine)، فراری تیزاب (Volatile acid) ، ٹار (tar) کاربن مونو آکسائیڈ (CO) وغیرہ مضر اجزاء پائے جاتے ہیں۔ یہاں نکوٹین کو دیگر اجزاء کے مقابلے میں شک کا فائدہ حاصل ہے۔
سگریٹ نوشی سے کینسر پیدا کرنے والے اسباب میں سگریٹ کے دھوئیں کے ساتھ ایسبسٹاس (Asbestos) کے ذرّات، کرومیٹ (Chromate) نکل (Nickel) سنکھیا (Arsenic) اور کچھ تابکار مادّے (ریڈیو ایکٹیو مٹیریلس) بھی سینے میں پہنچتے ہیں۔ تمباکو کے دھوئیں میں یوں تو کینسر پیدا کرنے والے اجزا متعدد ہیں ، ان سب کی اس زاویے سے تحقیق ابھی تشنہ ہے۔ لیکن اس باب میں بینزاپائرین (Benzapyrine) کی تصدیق ہو چکی ہے۔
حقہ نوشی
عوام میں ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ حقہ نوشی تمباکو کے استعمال کی ایک بے ضرر یا کم ضرر قسم ہے۔ خصوصاً کالج اسٹوڈنٹس اور بڑی سوسائٹیوں میں تفریحاً یہ چلن ہو چلا ہے کہ حقہ پارلر میں جانا ایک مہذب فعل ہے۔ انھیں اپنے ہی تجربات کی روشنی میں یہ بات معلوم ہو جانی چاہیے کہ جو دھواں تمباکو کی خوشبو (Flavours) کو ان کے پھیپھڑوں اور نتھنوں تک لے جا سکتا ہے وہ تمباکو کے دوسرے اجزا کو پیچھے کیونکر چھوڑ ے گا۔ پانی سے گذرتے ہوئے یہ دھواں ایک نلکی جیسا راستہ بنا دیتا ہے جس میں تمباکو کے مضر اجزاء آسانی کے ساتھ پار ہو جاتے ہیں۔ پانی کا اثر صرف بلبلوں کی سطح پر ممکن ہوتا ہے۔ پانی بلبلے کے اندر کوئی اثر نہیں رکھتا۔ عالمی تنظیمِ صحت (WHO) ٢٠٠٥ کی ایک رپورٹ کے مطابق حقہ نوشی سگریٹ نوشی سے بھی زیادہ مضر ہے