To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Tuesday, March 8, 2011

جلد کا عام عارضہ: داد (Ringworm) 
ڈاکٹر ریحان انصاری
ٹیلویژن پر دکھائے جانیوالے اشتہارات کی وجہ سے مریضوں کو’داد‘ یعنی شرمگاہ اور اس کے آس پاس کے مقامات کی کھجلاہٹ کو سمجھانا قدرے آسان ہوگیا ہے۔ لوگ خود بھی اشتہار میں دکھائے جانیوالے مراہم کا استعمال کر لیتے ہیں۔ کچھ کو آرام بھی مل جاتا ہے لیکن بہت سے مزید پریشان ہو کر دواخانوں میں حاضر ہوتے ہیں۔
’داد‘ ایک طفیلی مرض ہے۔ اس میں شدید کھجلی اور بے چینی ہوتی ہے۔ اس کا سبب کچھ پھپھوند (Fungus) ہیں۔ انھیں عام طور سے ’رِنگ ورم‘ (Ringworm)کہتے ہیں۔ یہ ایک غلط نام ضرور ہے کیونکہ اس میں کسی کیڑے کا کوئی عمل نہیں ہے؛ لیکن دورِ قدیم میں ایسا تسلیم کیا جاتا تھا کہ یہ کسی کیڑے کے کاٹنے سے لاحق ہوتا ہے اور دائرے کی شکل میں پھیلتا ہے۔ اس لیے یہ نام پڑگیا تھا۔ آج بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ مگر بعد کے زمانوں میں تحقیقات سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس کا سبب جلد پر اُگنے والی پھپھوند (Dermatophytes) یعنی جِلدی پھپھوند ہیں۔ علاوہ ازیں یہ صرف دائرے کی شکل میں نہیں پھیلتا بلکہ منحنی شکلوں میں بھی پھیلتا ہے۔ 
داد کا مرض جلد کی اوپری (بیرونی) سطح پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے معاون اسباب میں ’’گرمی (حرارت) اور نمی‘‘ والے علاقے ہیں یعنی جہاں پسینہ یا کوئی اور رطوبت (جیسے منہ، ناک اور کان کی رطوبتیں) کا اخراج ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں اس کے سبب کھجلی، چھلکے اور پرت کی پیدائش اور سر، ڈاڑھی وغیرہ پر گنج بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ مرض ایک سے دوسرے فرد میں تیزی سے منتقل ہوتا ہے؛ خواہ راست تعلق سے یا پھر تولیہ، کنگھیاں، کپڑے یا زیر جامے اور حتیٰ کہ سوئمنگ پول یا باتھ روم (ٹب) کے مشترکہ استعمال سے بھی یہ مرض ایک سے دوسرے میں منتقل ہو جاتا ہے۔ کچھ پالتو جانور جیسے بلی، کتے، خرگوش وغیرہ بھی اس مرض سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ اپنے نگراں یا مالک کو بھی متاثر  کرتے ہیں۔
یہ پھپھوند انسانی جلد کے اوپر ہی پلتی ہے۔ بالوں اور ناخنوں میں بھی ملتی ہے۔ پالتو جانوروں کی جلد میں بھی پناہ لیتی ہے اور مٹی میں بھی شامل رہتی ہے۔ اس لیے کس فرد کو کہاں سے پھپھوند نے متاثر کیا ہے اس کی تحقیق تقریباً ناممکن ہے۔ اس کی افزائش کے لیے بتایا جا چکا ہے کہ ’’گرمی اور نمی‘‘ کی موجودگی لازم ہے۔ایسے علاقے جہاں دو مقامات کی جلدیں آپس میں ملتی ہیں وہاں ’’گرمی اور نمی‘‘ بھی پائی جاتی ہے اس لیے وہاں اس مرض کے پیدا ہونے کا امکان زیادہ رہتا ہے جیسے کنجران (جانگھوں کی بغل)، بغل، انگلیوں کے درمیان، گردن وغیرہ۔
حالانکہ مرض ایک ہی ہے، یعنی ’’داد‘‘، علامات و علاج بھی تقریباً یکساں ہوتے ہیں لیکن (برائے علاج) جسم کے حصوں سے منسوب کر کے اس کے مخصوص نام دئیے گئے ہیں جیسے:
٭ Tinea barbae (یعنی ڈاڑھی کی پھپھوند) یہ عام طور سے نائی کے یہاں سے برآمد ہوتی ہے۔ ٭inea capitis (سر کی پھپھوند) مدرسوں اور اسکولی بچوں میں عام ہے۔ ٭ Tinea corporis (جسمانی جلد کی پھپھوند) اس میں داد کے امتیازی اور مخصوص چکتّے (چٹّے) ظاہر ہوتے ہیں۔ ٭inea cruris (کنجران کی پھپھوند) یہ شرمگاہ کے آس پاس رانوں کے بغلی علاقوں اور کبھی اعضائے مخصوصہ مردانہ و زنانہ کی جلد پر بھی شدید خارش اور چٹے پیدا کرتی ہے۔ ٭inea faciei (چہرے کی پھپھوند) ڈاڑھی کے علاقوں سے ہٹ کر پیدا ہونے والے یہ بھی بے حد عام اور مخرش چٹے ہیں۔ ٭inea manus (ہتھیلیوں کی پھپھوند) یہ انگلیوں کے درمیانی حصوں کی پھپھوند کے ساتھ واقع ہوتی ہیں اور ہاتھوں کے اگلے یا پچھلے حصوں پر پھیلتی ہے۔ باورچی خانوں اور بیکری وغیرہ کے ملازمین یا پانی کے کام کرنے والوں میں عام ہے۔ ٭inea pedis (پیروں کی انگلیوں کی پھپھوند) عام طور سے کھلاڑیوں، دھوبی، کنسٹرکشن ورکرس وغیرہ کو متاثر کرتی ہے۔داد کی تمام اقسام میں اس کا علاج سب سے مشکل ہوتا ہے اور عام طور سے مریض کو دوبارہ بھی گھیر سکتا ہے۔ ٭inea unguium (ناخنوں کی پھپھوند) اسے Onychomycosis بھی کہا جاتا ہے۔ 
علامات:
علامات تمام صورتوں کی یکساں ہیں یعنی شدید خارش (خصوصاً رات کے وقت)، اکثر سوزش، چھلکے یا پرت جھڑنا۔
اسبابِ معاونہ:
ذاتی صاف صفائی کی کمی،پسینہ کا زیادہ اخراج، بعض دوائیں جیسے اینٹی بایوٹک دواؤں کا زیادہ عرصہ تک استعمال اور اسی طرح اسٹیرائیڈ کا بھی طویل مدت تک استعمال، ہاتھوں اور پیروں کا مسلسل نم رہنا، مصنوعی ریشوں (جرسی jersey) سے بنے زیر جامے اور بنیان و موزوں کا استعمال، وغیرہ۔
علاج میں غفلت:
یہ بالکل عام بات ہے کہ علاج شروع کرنے سے چند دنوں میں ہی علامات جاتی رہتی ہیں۔ اور مریض محسوس کرتا ہے کہ اسے داد سے چھٹکارا مل گیا ہے۔ اس کے بعد وہ علاج میں غفلت برتنا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ محض دو یا چار دنوں کے علاج سے پھپھوند یا فنگس پوری طرح سے ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اسے تقریباً تین یا چار ہفتے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مریض ڈاکٹروں سے آکر یہ شکایت کرتے ہیں کہ مجھے علاج سے راحت مل جاتی ہے لیکن تمام تکالیف بار بار پلٹتی رہتی ہیں۔ اس لیے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ محض دو یا تین دنوں کے علاج سے آپ اس مرض سے چھٹکارا نہیں پاسکتے بلکہ کم از کم تین تا چار ہفتے مسلسل علاج کرتے رہنا ضروری ہے۔
علاج:
مختلف طریقہائے علاج میں مختلف انداز اختیار کیے جاتے ہیں۔طبِ یونانی میں خلطِ صفراء و بلغم کے مسہلات اور مصفیاتِ خون ادویہ کے علاوہ مقامی طور پر گندھک کے مراہم، کافور اور روغنِ گلاب میں تیار کردہ لوشن مسکنات کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ راحت طبِ جدید کی دواؤں سے ہی حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہ پھپھوند اور اس کے بذروں (Spores)کو ختم کردینے والی ہوتی ہیں۔ ان ادویہ میں مقامی طور پر لگانے کے لیے کریم، لوشن، مراہم اور پاؤڈر دستیاب ہیں۔بار بار ہونے والے پھپھوندی مرض کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ جلد کی بیرونی سطح سے کچھ اندر بھی سرایت کر جاتی ہے خصوصاً سر اور ناخن کے؛ اس لیے اندرونی طور پر کھلانے والی چند گولیاں اور کیپسول بھی اب بازار میں دستیاب ہیں۔ مقامی طور پر لگانے کے لیے Terbinafine, Clotrimazole, Miconazole, Ketoconazoleجیسی کارگر دوائیں ملتی ہیں۔ اندرونی استعمال کے لیے Terbinafine, Griseofulvin, Fluconazole, Itraconazole دستیاب ہیں۔
احتیاط:
درجِ بالا تمام ادویہ کا استعمال اپنے معالج کی نگرانی میں ہی اور اس کی ہدایت کے مطابق کرنا چاہیے۔ ابتدائے مرض میں ہی علاج شروع کردیا جائے تو مرض شدت بھی اختیار نہیں کرتا اور مکمل چھٹکارے کے امکانات بہت روشن ہوتے ہیں۔ بدن پر گیلے کپڑے (خصوصاً برسات میں) ہوں تو انھیں جلد سے جلد تبدیل کر لیا جائے۔ پانی کے کام کے بعد ہاتھوں اور پیروں کے علاوہ ناخنوں پر موجود پانی کو فی الفور سکھا لینا چاہیے

No comments: