زعفرانی اور سبز کے سنگم کی ایک اور مثال
مگر ہمارا (کلر بلائنڈ) میڈیا اچانک خاموش کیوں ہو گیا؟
ڈاکٹر ریحان انصاری
ممکن ہے کہ یہ خبر آپ نے پڑھی بھی ہو اور نہ بھی پڑھی ہو. ایک مہینہ قبل جمعرات ٣ فروری کے اخبارات میں یہ شامل تھی. پونہ کی پولیس نے ایک ٢٤ سالہ نوجوان کو ایسے وقت گرفتار کر لیا جب وہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی ISI کے لیے جاسوسی کر رہا تھا. اور ہندوستانی فوج کی جنوبی کمان سے متعلق کچھ اہم معلومات اپنے پاکستانی آقاؤں کو فراہم کرنے کے درپے تھا.اس نوجوان کا نام ہے وشمبر تاراچند اگروال اور اسکا آبائی وطن ہے ہریانہ. پونہ کی ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کا ملازم ہے. اسے جنوبی کمان کی بارے میں اور اس کے اعلی افسران کی بابت اہم معلومات ایک فوجی جوان برجیش سنگھ کے ذریعہ حاصل ہوئی تھی. وشمبر کو پونہ ریلوے اسٹیشن سے قریب النکار سنیما کے پاس پکڑا گیا تھا جب وہ ایک اجنبی شخص کو دستیاب معلومات سونپنے جا رہا تھا. برجیش سنگھ سے بھی فوجی افسران تفتیش کر رہے ہیں.
اگروال کے پاس سے برآمدکردہ اشیا میں فوج کی جنوبی کمان کے اہم افسران کے فون نمبر اور دیگر نجی معلومات کے علاوہ ہاتھ سے اسکیچ کیا ہوا پونہ میں قایم فوجی ہیڈ کوارٹر کا نقشہ موجود تھا. اور ایک سی ڈی بھی جس میں بیحد اہم معلومات محفوظ تھی. پولیس اور فوج دونوں نے مشترکہ تفتیش شروع کی تھی.
اس خبر کو پڑھ کر قدرے مسرّت بھی ہوئی تھی اور روایت کے برخلاف ہونے پر کچھ حیرت بھی. اس کا خوشگوار پہلو یہ ہے کہ پاکستانی جاسوسی ادارے کے اصلی خادموں کے چہرے سے اب رفتہ رفتہ نقاب اٹھنے لگی ہے. اور قانون کے رکھوالے بھی اب صحیح سمتوں میں پیش قدمی کر رہے ہیں. ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں کہ زعفرانی دہشت پسندوں یا دہشت گردوں کے تعلّق سے یہ بات خبروں کا حصّہ بنی تھی کہ وہ آئ ایس آئ کے لئے بھی خدمات انجام دیتے ہیں تو اسکی تردید کی گئی تھی. بالکل اسی طرح جیسے زعفرانی دہشت گردی کے تعلّق سے ابتدائی خبریں آنے لگی تھیں تو پورا بھگوا کیمپ اور نام نہاد ہندوتووادی شرانگیزوں نے کچھ ایسی باتیں کی تھیں کہ گنگاجل سے اشنان کی ہوئی سادھوی اور کرنل ہی کیا کسی عام ہندو کے DNA (سرشت) میں بھی دہشت گردی نہیں ہوتی! یہ دعوا بھی وہ افراد کرتے رہے ہیں جن کا پورا دورسیاست ہی اسی دہشت پسندی کے گھناونے روپ کا مظہر ہے.
بہرحال، اس گرفتارشدہ شخص کے پاس سے کوئی بھی مسلم شناخت (بہروپ) بھی دستیاب نہیں ہوئی. یعنی نہ داڑھی نہ ٹوپی، نہ ہی اردو میں لکھا کوئی خط یا پرچہ!... دوسری اہم بات یہ کہ خبر کے مطابق اسے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا. یعنی نقشہ اور سی ڈی یا ڈی وی ڈی موقعہ واردات سے ہی برآمد کی گئی ہے (نہ کو اس کے گھر و دکان یا آفس وغیرہ سے جیسا کہ گزشتہ روایات رہی ہیں). ہم یقیناً اس مستحسن اقدام کی ستائش کرتے ہیں بلکہ وطن دوست اقدام پر پولیس کو تہنیت بھی پیش کرتے ہیں.
کچھ برسوں سے تو ہمارا یہ حال تھا کہ اپنے معروضات بھی پِش کرنے کے لئے ہمیں حیلے تلاش کرنے پڑتے تھے مگر اب جبکہ دھند چھٹ رہی ہے تو صاف نظر آنے لگا ہے کہ:
کئی ذہن رسا پردے کے پیچھے کام کرتے ہیں
وہی قاتل نہیں جو لے کے خنجر سامنے آئے
یہاں سب سے زیادہ حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ ہمارا نام نہاد قوم پرست میڈیا پونہ کی ہی جرمن بیکری دھماکہ کیس میں غیر ثابت شدہ رہنے کے باوجود رہ رہ کر کسی انڈین مجاھدین نام کی تنظیم (جس کی بارے میں میڈیا یا اس کے حواری ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ یہ کہاں کی تنظیم ہے؟) کے نام کا راگ الاپنے لگتے ہیں؛ اس نام نہاد تنظیم کے کاندھے پر اسلحہ رکھ کر کیسے کیسے نشانے لگے جاتے ہیں، وہی میڈیا اگروال اور سنگھ کے ساتھ نہ صرف نرم ہے بلکہ مجرمانہ طور سے خاموشی اختیار کر چکا ہے. کیا اس کا کچھ بھی مطلب نہیں لینے کی ضرورت ہے؟
1 comment:
jazakallah
Post a Comment