To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, November 19, 2011

Appetite is a Physiological Desire
in Humans and Animals too

Dr. Rehan Ansari
ہمارے جسم اور اعضاء سے ہمیں جو فائدے ملتے ہیں اس کے مطالعے کی شاخ کو فزیالوجی Physiology کہتے ہیں۔ اسی فزیالوجی کے تحت غور کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ بھوک کی پیدائش اور کھانا دراصل جسم کے حیوانی تقاضے ہیں۔ زندہ بچے رہنے کے لیے۔ لیکن پوری دنیا انھیں ہی پورا کرنے کے لیے روز مری جارہی ہے۔ان تقاضوں سے کچھ فرصت نکالی جائے تو روحانی یا انسانی ضروریات اور تزکیۂ نفس کے لیے کوئی راستہ نکلتا ہے۔ پورے جسم کی اصل کنٹرولر تو روح ہے جسے ہم محسوس نہیں کر پاتے۔ اسی لیے اس کی تربیت اور اصلاح کی جانب سے بھی حد درجہ غافل رہا کرتے ہیں۔
یہ بات ضرور ہے کہ دنیا کے بعض اَدیان میں روحانی تربیت کے لیے روزہ رکھنے جیسی تعلیم بھی دی گئی ہے لیکن اس کا نتیجہ بھی یہی سمجھایا گیا ہے کہ اس سے جسم کی صحت اچھی رہتی ہے،فاسد  خیالات دل میں نہیں اٹھتے، برداشت کی قوت جنم لیتی ہے وغیرہ۔ غور کیجیے تو یہاں بھی محض جسمانی اور نفسانی صحت پر ہی ساری توجہ مرکوز ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ ایسا روزہ رکھنا بھی خود غرضی سے زیادہ کچھ نہیں ہے!
اسلامی روزہ کا حاصل خود خالقِ کائنات نے یہ بتلایا ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو گا۔ تقویٰ ایک ایسا عنوان ہے جو راست طور پر انسانیت سے چسپاں ہے، روحانیت سے متعلق ہے، اپنی ذات سے بالا ہو کر پوری انسانی اور حیوانی دنیا سے برتاؤ کا معاملہ ہے۔ اتنا بڑا معاملہ کیا بلا تربیت کوئی آسانی کے ساتھ نمٹا سکتا ہے۔ اس پر ایک نہیں کئی سوالیہ نشان لگانا پڑے گا تب جا کر جواب قسطوں میں مل پائے گا۔خیر ہمارا موضوع اس ضمن میں محض ایک مختصر سی بات کا احاطہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے ہم کوشش کریں گے کہ اسے سمجھا دیا جائے۔
بھوک اور بدن
بھوک ایک لازمی فطری تقاضہ ہے۔دماغ کے مخصوص مراکز اس پر کنٹرول رکھتے ہیں۔بھوک کی پیدائش دماغ میں ہوتی ہے لیکن احساس نظامِ ہضم و انہضام میں ہوتا ہے۔ اس لیے نظامِ اعصاب اور نظامِ ہضم دونوں ہی بھوک کے احساس اور کھانا ہضم کرنے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں میں سے کسی کی کمزوری اس عمل پر اثر انداز ہوتی ہے۔
پورا نظامِ ہضم ایک پائپ (ٹیوب) نما راستہ ہے، کئی منزلوں اور مرحلوں والا راستہ۔ کھائی ہوئی غذا ہضم کے متعدد مراحل سے گذرتی ہوئی قابلِ اخراج باقیات (فضلہ) میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس پورے راستے میں غذا کہیں چبائی جاتی ہے، کہیں پیسی جاتی ہے، کہیں گھولی جاتی ہے، اور کہیں جذب ہوتی ہے۔ اس میں جگہ جگہ مختلف رطوبتیں، اِنزائم (خامرے)، ہارمون وغیرہ شامل ہوتے رہتے ہیں اور یہ ایک آمیزے کی صورت میں آگے کھسکتی رہتی ہے۔یہاں یہ بات واضح ہو جائے کہ غذا کے آگے بڑھنے کے بعد ہی اس کے لیے لازمی رطوبت یا اِنزائم وغیرہ خارج ہوتے ہیں یا اگر دل میں کسی غذا کی شدید خواہش جاگے تو!۔ جب راستہ کو نسبتاً خالی رکھا جائے گا یا غذا کی خواہش کودبایا جائے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ رطوبات کااخراج بھی مقدار میں کم رہے گا۔
بہت سی رطوبتوں کا اخراج اور غذا کا ہضم و انجذاب بھی کس طرح عمل میں آتا ہے اس کا طریق میڈیکل سائنس کی روز افزوں ترقی کے باوجود ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔


غذا کی ضرورت
جسم کو توانائی ملنے کے لیے غذا کی ضرورت ہے۔ ہمارا جسم ایک مخصوص و محدود توانائی کے ساتھ اپنے تمام افعال انجام دیتا ہے۔جب بھوک جاگتی ہے تو آدمی کھانا کھاتا ہے۔ کھانا بدن میں داخل ہونے کے بعد ایک معتدل اور دھیمی رفتار کے ساتھ غذائی نالی میں آگے بڑھتا جاتا ہے، معدہ اور چھوٹی اور بڑی آنتوں سے گذرتا ہوا ہضم ہوتا ہے۔اس کے جواہر کو جذب کے قابل بنانے میں رطوبات، انزائم اور خامرے اس پر عمل کرتے ہیں اور ہر ٹھوس اور سیال و نیم سیال غذا کو گلا کر ایک پتلے گھول میں تبدیل کر دیتے ہیں جسے آنتوں میں موجود ساختیں جذب کر کے خون میں شامل کر دیتی ہیں اور یہاں سے اسے جگر میں لے جایا جاتا ہے۔ جگر بدن کا سب سے بڑا غدود ہے اور ایک پروسیسنگ فیکٹری کی طرح غذا کے جذب شدہ حصوں پر عمل کرتا ہے پھر انھیں بالکل سادہ توانائی کے ذرائع میں بدل دیتا ہے۔
بھوک کی ایک مقدار مخصوص ہوتی ہے۔ جسم کو جتنی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی غذا اسے درکار ہوتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ کھائی ہوئی غذائیں جسم میں ذخیرہ ہو جاتی ہیں اور آدمی کا وزن بڑھنے لگتا ہے۔ یہ بات ہماری سوسائٹی میں بے حد عام ہے اور گذرتے دور کے ساتھ طرزِ زندگی میں تبدیلی نیز آسودگی کی وجہ سے لوگ کم و بیش موٹاپے کا شکار ہیں۔ غذائیں ذخیرہ ہو کر بدن میں مختلف امراض کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہیں۔
نظامِ ہضم کے راستے میں اکثر رطوبات، ہارمون اور انزائم اسی وقت خارج ہوتے ہیں جبکہ معدہ میں غذا اترتی ہے اور پھر جن جن مقامات سے گذرتی ہے تو تحریک کے نتیجے میں ہی رطوبتوں کا اخراج ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک مقام کا عمل مکمل ہونے کے بعد جب غذا دوسرے مقام پر پہنچتی ہے تو پہلے مقام پر رطوبتوں اور تحریک کا عمل فطری طور پر آرام پا جاتا ہے۔ غذا کے ہضم کا پہلا بڑا مرحلہ چھوٹی آنتوں میں انجام پاتا ہے اس لیے یہاں غذا کھانے کے کئی گھنٹے بعد تک رکی رہتی ہے۔ مطالعہ نے یہ واضح کیا ہے کہ جب تک چھوٹی آنتوں میں غذا موجود ہوتی ہے معدہ میں بھوک کی تحریک یا سکیڑ اور درد نہیں پیدا ہوتا نیز معدہ کی رطوبات اور تیزاب کی پیدائش بھی نہیں ہوتی۔ البتہ بارہ گھنٹوں سے زیادہ معدہ مکمل خالی رہ گیا تو پیٹ میں درد کا احساس ہونے لگتا ہے جو طبیعت کو بگاڑ سکتا ہے، کمزوری کا سبب بن سکتا ہے۔ اس ضمن میں ہم حکمتِ حکمِ سحری کا اندازہ آسانی کے ساتھ لگا سکتے ہیں۔ جب معدہ خالی ہوتا ہے تو بھی کچھ رطوبات ضرور خارج ہوتی ہیں لیکن یہ عموماً بے ضرر ہوا کرتی ہیں اور زیادہ تر چکناہٹ (میوکس) اور پیپسِن نامی ہارمون پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس میں تیزابیت بہت معمولی سی یا نہیں ہوتی ہے۔
بھوک کے اثرات
جب جسم کو بھوک لگتی ہے تو پیٹ میں ایک مخصوص قسم کا مروڑ او درد پیدا ہوتا ہے۔ نوجوانوں میں یہ عمل تیز ہوتا ہے۔ جسمانی حرکات سست پڑنے لگتی ہیں۔ عضلات میں تکان بھرنے لگتی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ سوڈیم نامی عنصر خرچ ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ عنصر ہمیں کثیر طور پر نمک کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے وقت میں نمک آمیز غذائیں ہی اچھی لگتی ہیں۔یہ صرف انسانی وصف ہے کہ ہم نمک حاصل کرکے اسے بلاضرورت بھی محض چٹخارا لینے کے لیے زائد مقدار میں لیتے ہیں، طرح طرح سے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ چوپایوں اور دیگر حیوانات میں یہ تقاضہ فطری طور پر محض سبزیوں یا دیگر غذائی اشیاء سے ہی مل پاتا ہے وہ بھی بہت کم مقدار میں۔ اسی لیے انھیں ہم سے زیادہ اور بار بار بھوک محسوس ہوتی ہے۔
ہم سب کو اگر یہ احساس کماحقہ ہو جائے کہ بدن کو اصل میں کتنی غذا ضروری یا درکار ہے تو ممکن ہے ہمیں اپنی روحانی ضرورت یا تقویٰ کے حصول میں اور اس کی پرورش میں بڑی آسانی ہو جائے گی۔ لیکن معاملہ عالمی پیمانے پر کچھ یوں ہو چکا ہے کہ مسلمان افطار کے وقت بڑی توجیہات و ترجیحات کے ساتھ اچھی سے اچھی اور زائد کیلوری والی غذاؤں کا استعمال کرنے لگا ہے۔ ہمیں ضروری ہوگیا ہے کہ افطار کے وقت مانگی جانے والی دعاؤں میں تقویٰ والی زندگی کی عطا کے لیے بلا ناغہ دعا کریں تاکہ روزہ کا مقصد بھی حاصل ہو جائے اور صحتِ جسمانی کا بھی لحاظ ہوجائے
۔