To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, June 9, 2011


Diabetic Ulcers & Gangrene
ذیابیطس کے جن مریضوں کے علاج میں کوتاہی ہوتی ہے یا علاج اثر انداز نہیں ہوتا ان میں ایک سنگین پیچیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ یعنی ایسا زخم پیدا ہو جاتا ہے جو باوجود علاج اور کوششوں کے آسانی کے ساتھ مندمل نہیں ہوتا۔ بڑھی ہوئی صورتوں میں تو یہ مریض اور اس کے متعلقین کے لیے تشویش اور ذہنی تناؤ کا باعث بن جاتا ہے اور مریض کے زخم سے اٹھنے والی عفونتی بو کے سبب ملنے جلنے والے بھی کترانے لگتے ہیں۔ گھن کرتے ہیں۔ آئیے اس زخم کی پیدائش کے اسباب اور علتوں پر معلومات حاصل کریں۔
Gangrene
اسباب و علامات
ذیابیطس کے زخم کی پیدائش کے اسباب بڑے مختلف قسم کے ہیں، لیکن ایک مجموعی سبب اس طرح بنتا ہے: پیروں کی ہڈیوں کی ساخت میں کمزوری پیدا ہوجانا، بیرونی سرے کے عصبی ریشوں کی تباہی، اسی طرح بیرونی حصے کی شریانوں کی ساختوں میں خرابی کی پیدائش؛ یہ زخم عام طور پر پیروں کو متاثر کرتے ہیں۔ عضلات کے رباطات (Ligaments) میں غیر منہضم شکر سرایت کر جانے سے ان میں سختی پیدا ہو جاتی ہے، عصبی ریشوں کی تباہی کی وجہ سے کسی بھی قسم کے مسلسل دباؤ جیسے تنگ موزے یا جوتے وغیرہ، خراش یا ضرب کے لگنے، موسم کی شدت یعنی گرمی یا سردی کا احساس مریض کو نہیں ہو پاتا، پھر پیروں میں آبلے پڑتے ہیں اور ان میں انفیکشن ہو جانے کی وجہ سے زخم پھیلنے لگتا ہے۔
شریانوں کی سختی یعنی تصلّب (Atherosclerosis)یوں تو دیگر مریضوں میں بھی پائی جاسکتی ہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں میں یہ نسبتاً تیزی سے پیدا ہوتی ہے؛ خصوصاً پیروں میں گھٹنوں سے نیچے کی جانب (infrapopliteal segments)۔ اسی وجہ سے اس مقام کی خون کی پرورش متاثر ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً زخم پیدا ہوتا ہے اور علاج و دواؤں کے باوجود وہ مندمل ہونے میں بہت زیادہ وقت لیتا ہے۔ اگر بروقت دھیان دے کر علاج نہیں کیا گیا تو وہ گینگرین (غانغرانہ/ Gangrene) کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
 گینگرین کے معنی ہیں زندہ جسم کے کسی حصہ کا مردہ ہو جانا یا فوت ہو جانا۔ پھر یہ حصہ سڑنے لگتا ہے۔ زخم کو اس حالت تک پہنچانے والے بہت سے معاون عوامل بھی ہیں جو شکر (گلوکوز) کے ہضم و استحالہ سے عنوان ہیں اور اس پر بڑی تحقیقات ہوئی ہیں۔

شریانوں کے تصلّب (ایتھیرو سکلیروسس) سے مراد یہ ہے کہ مہین شریانوں Capillaries (عروقِ شعریہ) کی اندرونی دیواروں پر چربی کی تہہ جمتی جاتی ہے اور ان کی ساختی لچک بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ مطالعے کی روشنی میں سامنے یہ بات آئی ہے کہ ذیابیطس کی دوسری پیچیدگیوں کے سبب مریضوں کو اسپتال میں اتنا نہیں داخل ہونا پڑتا جتنی بڑی تعداد میں مریض پیروں کے زخموں کے سبب اسپتال میں داخل کیے جاتے ہیں۔پندرہ فیصدی مریضوں کو پیروں میں یہ زخم ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کم و بیش بیس فیصدی مریضوں کے پیر (علاج میں تساہلی یا تاخیر کی وجہ سے) کاٹنے پڑتے ہیں اور وہ معذور ہو جاتے ہیں۔ کسی حادثے کے بغیر پیروں سے محروم کردینے والی یہ اکلوتی وجہ ہے۔
"جب عصبی احساسات مفقود ہو جاتے ہیں تو پیروں یا تلووں میں چپل یا جوتوں کے دباؤ کی وجہ سے زخم پیدا ہوتے ہیں، ہڈیاں اور جوڑ بھی متاثر ہو کر خراب ہوجاتے ہیں، اور مریض کو ان کا احساس نہیں ہو پاتا ۔ اسے شارکٹ (Charcot's Disease)کا مرض کہا جاتا ہے۔ جب عصبی علامات شروع ہوتی ہیں تو یہ بڑی متغیر قسم کی ہوتی ہیں۔ کسی کو زود حسّیت Hyperaesthesia گھیرتی ہے تو اسے احساسات بڑھ جاتے ہیں اور تیز ہوتے ہیں۔ کسی کو احساسات دھیمے ہو جاتے ہیں، یعنی سست Hypoaesthesia۔ کسی کو عجیب قسم کے غیر طبعی احساس ہوتے ہیں جیسے گرمی سردی کی مانند لگتی ہے اور سردی گرمی جیسیHeteroaesthesia
خون کی سپلائی (پرورش) متاثر ہوتی ہے تو پیروں میں پھٹن کا احساس ہوتا ہے، کبھی شدید درد ہوتا ہے تو کبھی مسلسل دھیما درد ہوتا رہتا ہے۔ پیروں میں اینٹھن سی ہوتی ہے۔ چلنے پر علامت شدید ہوتی جاتی ہے اور کچھ دیر تک بیٹھنے یا لیٹنے کے بعد اس علامت میں افاقہ ہو جاتا ہے۔

متاثر ہونے والے حصۂ بدن
جن حصوں پر بدن کا بوجھ پڑتا ہے وہی حصے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مثلاً ایڑی کا حصہ، تلووں کا اگلا حصہ، پیروں کی انگلیوں کے سرے اور انگوٹھے۔
پیروں کی شریانیں اور اعصاب بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ان کی بھی مخصوص علامات و نشانیاں سامنے آتی ہیں۔
تشخیص
ذیابیطس کی پیچیدگیوں اور پیروں میں زخم کی پیدائش کو قبل از وقت پرکھنے کے لیے تشخیصی ٹیسٹ لازمی ہوتے ہیں۔ خون کی جانچ کروانے سے اگر سفید ذرات کی تعداد میں واضح اضافہ نظر آئے Leucocytosis تو فوری طور پر مریض کا معائنہ بغور کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ خون میں شکر کی مقدار Blood Sugar، کرئیٹنین Creatinine لیول بھی جانچنا چاہیے۔ علاوہ ازیں بہت سارے نئے عکاسی (Imaging) ٹیسٹ بھی ہونے لگے ہیں جیسے MRI جن کی مدد سے پیروں کی ہڈیوں اور جوڑوں کی حالت اور شریانوں میں خون کے بہاؤ کی کیفیت اور مقدار وغیرہ کو بھی جانچا جا سکتا ہے، عصبی افعال Nerve conduction studies کی جانچ کے لیے بھی کئی قسم کے آلات اور مشینیں دستیاب ہو چکی ہیں۔
علاجی معاملات
ذیابیطس کے زخموں کا علاج بہت توجہ کے ساتھ کرنا اور کروانا چاہیے۔ ٭سب سے اوّل تو ذیابیطس کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش ہے۔اس طرح ہم موجودہ زخم سے بھی نجات حاصل کرنے کی پوزیشن میں رہیں گے اور نیا بھی کوئی زخم پیدا نہیں ہوگا۔ ٭دوسرا کوئی اور ساتھی مرض ہو جیسے ہائی بلڈپریشر، موٹاپا یا گردے کا کوئی مرض تو اس کا بھی خاطرخواہ علاج ساتھ میں ہونا چاہیے۔ ٭اگر زخم پیدا ہو گیا ہو تو مناسب اینٹی بایوٹک دواؤں کے ساتھ انفیکشن سے بچاؤ کرنا چاہیے۔ ٭زخم کے مقام پر کسی بھی قسم کا بوجھ یا دباؤ مٹانے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور مریض کے لیے خصوصی ڈیزائن کی چپلیں یا جوتے وغیرہ بنوائے جاتے ہیں۔ ٭کبھی کبھار سرجری کے بغیر زخم مندمل نہیں ہوپاتے۔ ٭جب لازمی ہو تو الگ الگ ماہرینِ امراض کا مجموعی علاج کرنا پڑتا ہے یعنی قلبی امراض کے ماہر، گردے کے امراض اور عصبی امراض کے ماہرین اور سرجن کا علاج یکجا کرنا پڑتا ہے۔
اس طرح سے دیکھا جائے تو ذیابیطس کے مریضوں کا خصوصی رول سامنے آتا ہے کہ اگر واقعی وہ کسی بھی پیچیدگی کی صورت سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو اپنے پیروں کی جانب روزانہ دھیان دیا کریں اور کسی بھی قسم کی غیرطبعی صورت کی پیدائش ہو تو اپنے معالج سے رجوع ہو کر اس کے مشورے پر عمل کریں۔ کیونکہ ذیابیطس کے مرض کا علاج یہی وظیفہ ہے کہ ’’کنٹرول... کنٹرول... کنٹرول... سدا کنٹرول!‘

Tuesday, June 7, 2011

Doctors should plan
Nice Life After 60
Dr. O. P. Kapoor

’نگاہِ لطف و کرم کے صدقے حضور محفل میں آپ آئے
بنا کے پلکوں کا شامیانہ نظر ہیں راہوں میں ہم بچھائے‘
بھیونڈی کے سینئر اسکول ٹیچر ملک مومن کے اس شعر کے ساتھ جب  ڈاکٹر سُپریہ اَرواری نے ممبئی کے سینئر موسٹ فزیشین ڈاکٹر او پی کپور (Dr. O P Kapoor) کا استقبال کیا تو تقریباً ڈھائی سو ڈاکٹروں کی پوری جمعیت نے تالیوں کی گھڑگھڑاہٹ میں کھڑے ہوکر ان کی تکریم کی۔

 Dr. OP Kapoor being presented the memento at the occasion
L to R: Dr. VB Joshi, Dr. OP Kapoor,
Dr. Ghiyasuddin Ansari, Dr. Manohar Arwari
اتوار (۵جون) کی صبح کو بھیونڈی میں ڈانڈیکرواڑی میں واقع ’حنا بینقوئٹ ہال‘ Hina Banquet Hall میں بھیونڈی کی انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (IMA) کی جانب سے ’ڈاکٹر لیلا جوشی میموریل اوریشن‘ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس یادگاری لیکچر کے لیے مشہور بین الاقوامی میڈیکل لیکچرر اور استاذالاساتذہ ڈاکٹر او پی کپور کو مدعو کیا تھا۔ ڈاکٹر او پی کپور اس وقت 80 (اسی) برس کے ہیں اور اپنے پورے تدریسی کریئر میں مقبول ترین اور طویل ترین عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دینے والے میڈیکل ٹیچر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا تدریسی کریئر پورے پچپن (۵۵) برسوں پر محیط ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ آپ نے اپنی مادرِ علمی ممبئی کے گرانٹ میڈیکل کالج میں تدریس شروع کی اور بلا توقف اسے پینتالیس برسوں تک انجام دیا۔ سبکدوشی کے بعد بامبے ہاسپٹل کے طبی جریدہ ’ بامبے ہاسپٹل جرنل‘ (BHJ) کی مدیری سے وابستہ ہونے کے بعد وہیں ’برلا ماتوشری آڈیٹوریم‘ میں ہر سال بلاناغہ ایم بی بی ایس کے فائنل ایئر کے طلبہ کے علاوہ فیملی فزیشین کی بڑی تعداد (1200) کو ہر اتوار کے روز ماہ جون تا اگست صبح کے چھ گھنٹے مسلسل تربیتی لیکچر، بلا معاوضہ، جدید ترین ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے، دیتے ہیں جو ہنوز اپنے اوّلین دنوں کی مانند مقبول ہیں اور میڈیکل اسٹوڈنٹس کے علاوہ طبی خدمات میں مصروف بیشتر فیملی ڈاکٹر بھی ان لیکچرس کے منتظر رہتے ہیں۔ خود ڈاکٹر او پی کپور صاحب کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے تجربات اور جدید و تازہ تر معلومات سے ڈاکٹروں کی بڑی تعداد بیک وقت استفادہ کرے اسی لیے وہ ہمیشہ ایک بڑی آڈینس کے متمنی ہوتے ہیں۔ انھوں نے فیملی ڈاکٹروں کی ہمہ وقت رہنمائی کے لیے مختلف لازمی موضوعات پر درجن بھر کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ اس حیثیت سے وہ طبی سماج میں ایک تاریخ ساز اور داستانی (legend) شخصیت بھی ہیں۔
بھیونڈی میں غالباً ڈاکٹر او پی کپور کا یہ پہلا لیکچر تھا۔ ان کی مقبولیت اور خواہش کے عین مطابق بھیونڈی کے مصروف ترین کنسلٹنٹ ڈاکٹروں کے علاوہ مصروف فیملی ڈاکٹرس بھی ’حنا ہال‘ پہنچ چکے تھے۔ معروف سرجن ڈاکٹر غیاث الدین انصاری کی سربراہی میں بھیونڈی آئی ایم اے کا یہ تاریخی لیکچر اپنے ٹھیک وقت پر شروع ہوا اور ڈاکٹر او پی کپور صاحب نے پیرانہ سالی کے باوجود نہ صرف یہ کہ تقریباً ایک گھنٹے کا سیرحاصل لیکچر دیا بلکہ اپنے مشغلہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے سولہ پرانے فلمی گیت پیش کرکے نغمہ و موسیقی کا سماں باندھ دیا تھا۔ جو لوگ ان کے اس مشغلہ سے واقف نہیں تھے ان پر حیرتوں کا ڈیرہ تھا اور جنھیں معلوم تھا وہ ’’ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا‘ کی گردان کرتے نظر آرہے تھے۔
Dr. OP Kapoor Addressing the Audience
داکٹر او پی کپور نے اپنے لیکچر کا عنوان بھی بڑا دلچسپ رکھا تھایعنی ’’ڈاکٹروں کو اپنی ساٹھ برس کے بعد کی زندگی کی اچھی منصوبہ بندی کرنا چاہیے‘‘۔ عنوان کے پس منظر میں انھوں نے موجود ڈاکٹروں کو بڑی وضاحت کے ساتھ بتایا کہ کتابی طبی معلومات ہر عمر کے لوگوں کے لیے یکساں نہیں ہوا کرتی اس لیے تمام عمروں میں واقع ہونے والی طبعی تبدیلیوں کو بھی سمجھنا اور ماننا چاہیے۔ عمر کے مطابق واقع ہونے والی تبدیلیاں بیماریاں نہیں ہوا کرتیں اس لیے ان کا علاج (بمعنی ازالہ) بھی پوری طرح ممکن نہیں ہے۔ ( اس وقت ہمیں اصولِ طب میں پڑھائے گئے اس عنوان کی اہمیت یاد آگئی جسے ہم نے اپنے دورِ طالبعلمی میں ہنسی میں اڑا دیا تھا یعنی ’مزاجِ اعمار‘ یا مختلف عمروں کا مزاج!)۔ انھوں نے ڈاکٹروں کو مشورہ دیا کہ اپنی زندگی میں سے روزانہ کچھ وقت اپنے گھرانے، کچھ وقت کھیل کود اور ورزش نیز کچھ کھیل و مشغلوں کے لیے نکالا کریں۔ یہ مجموعی صحت کے لیے بیحد ضروری ہے۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ کھیل یا ورزش کو مشغلہ نہ بنائیں نہ سمجھیں۔ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ ساٹھ سال کے بعد کی عمر میں سب سے زیادہ اس ہستی کا خیال کریں اور اس کے لیے وقت نکالیں جس نے تمھارے لیے اپنی زندگی کو کئی سطحوں پر قربان کیا ہے ، تمھارا گھر بنایا ہے، بچوں کی پرورش کی ہے اور قدم قدم تمھارے ہمقدم رہی ہے یعنی تمھاری شریک حیات۔ انھوں نے ڈاکٹروں سے یہ بھی کہا کہ اپنی پریکٹس میں امراض سے متعلق مختلف تشخیصی ٹیسٹ پر بہت زیادہ بھروسہ نہ کریں بلکہ اپنی تربیت اور اپنے معائنہ کو زیادہ اہم جانیں ورنہ ہو سکتا ہے کہ تشخیص میں بہک جائیں۔ اسی ذیل میں انھوں نے اُن لیباریٹری ٹیسٹ کی بابت بھی بتلایا کہ جو تشخیص میں بیحد اہمیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے بتلایا کہ جیسے جیسے عمر آگے بڑھتی ہے ڈاکٹروں کی نظر میں بھی میچوریٹی (بالیدگی) آنی چاہیے اور انھیں محسوس ہونا چاہیے کہ کہاں کہاں دیانتداری لازمی ہے۔
انھوں نے بڑے عاجزانہ انداز میں یہ بھی بتلایا کہ نئے زمانے میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلمی میڈیم کے لوگ پورے سماج کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہر سطح پر کھوکھلا کر رہے ہیں۔ اسی سماج کا ہم طبی لوگوں پر بہت زیادہ اعتماد ہے، بھروسہ ہے۔ اس لیے یہ خدمت بھی کریں کہ سماج سے برائیوں کو اپنی سطح سے ختم کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ مریض یا اس کے رشتہ دار اگر چاہتے ہیں کہ ان کو برائیوں، عادتوں اور لتوں سے چھٹکارا حاصل ہو تو کوشش کرکے ان کی ہر ممکن مدد اور علاج کریں۔ یہ لوگ ہماری باتیں سنتے ہیں اور مانتے ہیں۔
ڈاکٹر او پی کپور نے پروگرام کے اختتام پر ہر فلمی دور کے لحاظ سے یکے بعد دیگرے طلعت محمود، ہیمنت کمار، محمدرفیع، مکیش، منّاڈے، مہیندرکپور، کشورکمار اور جگجیت سنگھ کے منتخب نغمے سنا کر حاضرین کا دل جیت لیا۔سچ پوچھیے تو میڈیسین جیسے خشک موضوع کو لطائف، ڈرامے اور نغموں کی آمیزش کرکے دلچسپ بنانے میں آج بھی ڈاکٹر او پی کپور کا جواب ہمارے درمیان نہیں ہے۔ ہم ان کے پچپن برسوں پر محیط اس تدریسی تہدیہ (Dedication) کو سلام کرتے ہیں.

Monday, June 6, 2011


بابا سے بابی تک

Baba Ramdeo: "Baba  turns Babi" Transgender attire

بابا سے دو سوالات
یہ شلوار قمیص ریڈی میڈ منگوائی تھی یا آرڈر دے کر سلوائی تھی؟ خیر جو بھی ہوآپ  پر جچ تو رہا تھا سوٹ. کیا آپ اس کو اپنا مستقل اسٹائل بنا رہے ہیں؟ بارڈر پر "بھارت سوابھیمان" کی ڈیزائن بھی اچّھی لگ رہی ہے.