Diabetic Ulcers & Gangrene |
Gangrene |
اسباب و علامات
ذیابیطس کے زخم کی پیدائش کے اسباب بڑے مختلف قسم کے ہیں، لیکن ایک مجموعی سبب اس طرح بنتا ہے: پیروں کی ہڈیوں کی ساخت میں کمزوری پیدا ہوجانا، بیرونی سرے کے عصبی ریشوں کی تباہی، اسی طرح بیرونی حصے کی شریانوں کی ساختوں میں خرابی کی پیدائش؛ یہ زخم عام طور پر پیروں کو متاثر کرتے ہیں۔ عضلات کے رباطات (Ligaments) میں غیر منہضم شکر سرایت کر جانے سے ان میں سختی پیدا ہو جاتی ہے، عصبی ریشوں کی تباہی کی وجہ سے کسی بھی قسم کے مسلسل دباؤ جیسے تنگ موزے یا جوتے وغیرہ، خراش یا ضرب کے لگنے، موسم کی شدت یعنی گرمی یا سردی کا احساس مریض کو نہیں ہو پاتا، پھر پیروں میں آبلے پڑتے ہیں اور ان میں انفیکشن ہو جانے کی وجہ سے زخم پھیلنے لگتا ہے۔شریانوں کی سختی یعنی تصلّب (Atherosclerosis)یوں تو دیگر مریضوں میں بھی پائی جاسکتی ہے لیکن ذیابیطس کے مریضوں میں یہ نسبتاً تیزی سے پیدا ہوتی ہے؛ خصوصاً پیروں میں گھٹنوں سے نیچے کی جانب (infrapopliteal segments)۔ اسی وجہ سے اس مقام کی خون کی پرورش متاثر ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً زخم پیدا ہوتا ہے اور علاج و دواؤں کے باوجود وہ مندمل ہونے میں بہت زیادہ وقت لیتا ہے۔ اگر بروقت دھیان دے کر علاج نہیں کیا گیا تو وہ گینگرین (غانغرانہ/ Gangrene) کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
گینگرین کے معنی ہیں زندہ جسم کے کسی حصہ کا مردہ ہو جانا یا فوت ہو جانا۔ پھر یہ حصہ سڑنے لگتا ہے۔ زخم کو اس حالت تک پہنچانے والے بہت سے معاون عوامل بھی ہیں جو شکر (گلوکوز) کے ہضم و استحالہ سے عنوان ہیں اور اس پر بڑی تحقیقات ہوئی ہیں۔
شریانوں کے تصلّب (ایتھیرو سکلیروسس) سے مراد یہ ہے کہ مہین شریانوں Capillaries (عروقِ شعریہ) کی اندرونی دیواروں پر چربی کی تہہ جمتی جاتی ہے اور ان کی ساختی لچک بھی کم ہوتی جاتی ہے۔ مطالعے کی روشنی میں سامنے یہ بات آئی ہے کہ ذیابیطس کی دوسری پیچیدگیوں کے سبب مریضوں کو اسپتال میں اتنا نہیں داخل ہونا پڑتا جتنی بڑی تعداد میں مریض پیروں کے زخموں کے سبب اسپتال میں داخل کیے جاتے ہیں۔پندرہ فیصدی مریضوں کو پیروں میں یہ زخم ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے کم و بیش بیس فیصدی مریضوں کے پیر (علاج میں تساہلی یا تاخیر کی وجہ سے) کاٹنے پڑتے ہیں اور وہ معذور ہو جاتے ہیں۔ کسی حادثے کے بغیر پیروں سے محروم کردینے والی یہ اکلوتی وجہ ہے۔
"جب عصبی احساسات مفقود ہو جاتے ہیں تو پیروں یا تلووں میں چپل یا جوتوں کے دباؤ کی وجہ سے زخم پیدا ہوتے ہیں، ہڈیاں اور جوڑ بھی متاثر ہو کر خراب ہوجاتے ہیں، اور مریض کو ان کا احساس نہیں ہو پاتا ۔ اسے شارکٹ (Charcot's Disease)کا مرض کہا جاتا ہے۔ جب عصبی علامات شروع ہوتی ہیں تو یہ بڑی متغیر قسم کی ہوتی ہیں۔ کسی کو زود حسّیت Hyperaesthesia گھیرتی ہے تو اسے احساسات بڑھ جاتے ہیں اور تیز ہوتے ہیں۔ کسی کو احساسات دھیمے ہو جاتے ہیں، یعنی سست Hypoaesthesia۔ کسی کو عجیب قسم کے غیر طبعی احساس ہوتے ہیں جیسے گرمی سردی کی مانند لگتی ہے اور سردی گرمی جیسیHeteroaesthesia
خون کی سپلائی (پرورش) متاثر ہوتی ہے تو پیروں میں پھٹن کا احساس ہوتا ہے، کبھی شدید درد ہوتا ہے تو کبھی مسلسل دھیما درد ہوتا رہتا ہے۔ پیروں میں اینٹھن سی ہوتی ہے۔ چلنے پر علامت شدید ہوتی جاتی ہے اور کچھ دیر تک بیٹھنے یا لیٹنے کے بعد اس علامت میں افاقہ ہو جاتا ہے۔
متاثر ہونے والے حصۂ بدن
جن حصوں پر بدن کا بوجھ پڑتا ہے وہی حصے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مثلاً ایڑی کا حصہ، تلووں کا اگلا حصہ، پیروں کی انگلیوں کے سرے اور انگوٹھے۔پیروں کی شریانیں اور اعصاب بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور ان کی بھی مخصوص علامات و نشانیاں سامنے آتی ہیں۔
تشخیص
ذیابیطس کی پیچیدگیوں اور پیروں میں زخم کی پیدائش کو قبل از وقت پرکھنے کے لیے تشخیصی ٹیسٹ لازمی ہوتے ہیں۔ خون کی جانچ کروانے سے اگر سفید ذرات کی تعداد میں واضح اضافہ نظر آئے Leucocytosis تو فوری طور پر مریض کا معائنہ بغور کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ خون میں شکر کی مقدار Blood Sugar، کرئیٹنین Creatinine لیول بھی جانچنا چاہیے۔ علاوہ ازیں بہت سارے نئے عکاسی (Imaging) ٹیسٹ بھی ہونے لگے ہیں جیسے MRI جن کی مدد سے پیروں کی ہڈیوں اور جوڑوں کی حالت اور شریانوں میں خون کے بہاؤ کی کیفیت اور مقدار وغیرہ کو بھی جانچا جا سکتا ہے، عصبی افعال Nerve conduction studies کی جانچ کے لیے بھی کئی قسم کے آلات اور مشینیں دستیاب ہو چکی ہیں۔علاجی معاملات
ذیابیطس کے زخموں کا علاج بہت توجہ کے ساتھ کرنا اور کروانا چاہیے۔ ٭سب سے اوّل تو ذیابیطس کو کنٹرول میں رکھنے کی کوشش ہے۔اس طرح ہم موجودہ زخم سے بھی نجات حاصل کرنے کی پوزیشن میں رہیں گے اور نیا بھی کوئی زخم پیدا نہیں ہوگا۔ ٭دوسرا کوئی اور ساتھی مرض ہو جیسے ہائی بلڈپریشر، موٹاپا یا گردے کا کوئی مرض تو اس کا بھی خاطرخواہ علاج ساتھ میں ہونا چاہیے۔ ٭اگر زخم پیدا ہو گیا ہو تو مناسب اینٹی بایوٹک دواؤں کے ساتھ انفیکشن سے بچاؤ کرنا چاہیے۔ ٭زخم کے مقام پر کسی بھی قسم کا بوجھ یا دباؤ مٹانے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور مریض کے لیے خصوصی ڈیزائن کی چپلیں یا جوتے وغیرہ بنوائے جاتے ہیں۔ ٭کبھی کبھار سرجری کے بغیر زخم مندمل نہیں ہوپاتے۔ ٭جب لازمی ہو تو الگ الگ ماہرینِ امراض کا مجموعی علاج کرنا پڑتا ہے یعنی قلبی امراض کے ماہر، گردے کے امراض اور عصبی امراض کے ماہرین اور سرجن کا علاج یکجا کرنا پڑتا ہے۔
اس طرح سے دیکھا جائے تو ذیابیطس کے مریضوں کا خصوصی رول سامنے آتا ہے کہ اگر واقعی وہ کسی بھی پیچیدگی کی صورت سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو اپنے پیروں کی جانب روزانہ دھیان دیا کریں اور کسی بھی قسم کی غیرطبعی صورت کی پیدائش ہو تو اپنے معالج سے رجوع ہو کر اس کے مشورے پر عمل کریں۔ کیونکہ ذیابیطس کے مرض کا علاج یہی وظیفہ ہے کہ ’’کنٹرول... کنٹرول... کنٹرول... سدا کنٹرول!‘