To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Monday, October 29, 2012

Let's Propagate the Message of
Hajj Sermon 1433 H

Dr. Rehan Ansari
امسال یوم العرفہ یعنی یومِ حج Hajj Day 2012  کو مفتئ اعظم سعودی عربیہ شیخ عبدالعزیز بن عبداﷲ آل الشیخ صاحب کے خطبۂ حج کو آپ نے ملاحظہ کیا؟ ہم اس کے چند جملے یا اقتباسات کو یہاں نقل کریں گے مگر یہ انتخاب محض اپنی تحریری ضرورت کے لیے ہے؛ وگرنہ پورا خطبہ اپنے موضوع پر محیط، بے حد جامع اور کسا ہوا ہے۔ اسے ضرور ملاحظہ کرنا چاہیے۔اس میں دئیے گئے پیغام کا ابلاغ عام کرنا چاہیے۔ 
ہم کچھ لکھنے سے قبل یہ بھی تحریر کرنا چاہیں گے (جو رفتہ رفتہ ایک رسم کی صورت بن گئی ہے) کہ دنیا کا دیگر میڈیا مسلمانوں کے مرکز سے جاری ہونے والے بیش و کم ایک گھنٹہ طویل اس اہم فرمان کی چند سطریں بھی دینا مناسب خیال نہیں کرتا۔ ہم اس رویہ کو ’کتنی عجیب بات ہے‘ جیسے بے معنی مکالمہ کی نذر بھی نہیں کرنا چاہتے۔بلکہ اسے ’نرا تعصب‘ Open bias  کہتے ہیں۔ کیونکہ اس خطبۂ حج میں ہر سال ہمارا بین الاقوامی مقدمہ بھی پیش کیا جاتا ہے، اصلاح و تعمیر کی باتیں بھی ہوتی ہیں، احادیثِ نبویؐ کے درس کی روشنی میں پند و نصائح بھی کیے جاتے ہیں، رواداری کی تعلیم بھی دی جاتی ہے، مظلوم قوموں اور ممالک کی آہ و بکا اور استحصال کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے، ان کے حقوق کی پامالی اور سلبی کا بیان بھی ہوتا ہے، اقوامِ عالم کے لیے امن و سلامتی اور ہدایت کی دعائیں بھی مانگی جاتی ہیں، دشمنانِ انسانیت سے پناہ اور ان کی تباہی نیز جملہ انسانوں کے تحفظ و بقا کے لیے مناجات کی جاتی ہیں۔اور بھی بہت کچھ احسن اس میں شامل رہتا ہے مگر دنیا کا دُھرندر میڈیا اپنے بایوسکوپ میں اس جھانکی کو شامل نہیں کرتا، وہ سبھی انسانوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتا ہے اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس دیتا ہے کہ اس بامقصد پیغامی و دعائیہ اجتماع کو وہ دیکھ اور سن نہ سکیں۔
بہرکیف ہمیں اس جانب آئندہ بھی کوئی خوش فہمی نہیں ہے کہ سب صحیح ہوجائے گا، مگر جائے شکایت پیدا ہوئی ہے تو اس سے مفر کرنا غیرذمہ داری ہے، اس لیے یہ معترضہ سطور ہم نے لکھی ہیں۔
اردو اخبارات ایجنسیوں سے موصولہ اقتباسات شائع تو کرتے ہیں مگر کبھی ان پر تبصراتی و تجزیاتی گفتگو نہیں کرتے۔ ہم مسلمانوں کی معاشرت بھی ایسی ہوئی ہے کہ مرکزِ اسلام سے آنے والے اس پیغام کا تصور بھی ہم ایک رسم سے زیادہ نہیں کرتے۔ یوں بھی یوم الحج کو ہمارے یہاں عیدِ قرباں کی تیاریوں کی ہماہمی ہوتی ہے۔ اس لیے لوگ باگ حج کی خبریں حاصل کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ امامِ حج کا خطبہ بات چیت کا موضوع نہیں بن پاتا۔ گویا ہم بھی اپنی اپنی سطح پر اس جانب تساہلی برتنے کے عادی ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے یہاں طویل عرصہ سے منفی انداز سے پروپیگنڈہ حاصل کرتی ہے کہ امامِ حرم یا امامِ حج جو بھی خطبہ دیتے ہیں وہ سعودی حکام کی ایما پر تحریر کردہ ہوتا ہے۔ اس میں کتنا سچ ہے یا دروغ ہمیں نہیں پتہ! البتہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دوسرے دن بھی اﷲ کے اُن بندگان سے ہماری ملاقات نہیں ہو پاتی جو خطبہ کے اہم نکات پر کوئی رائے یا خیال ظاہر کرتے! جبکہ ہماری ناچیز رائے یہ ہے کہ ہمیں اس پیغام کو محض عرفات کی حدود سے متعلق نہ سمجھتے ہوئے جمیع مسلمینِ عالم کو اس کے اہم اور بنیادی و رہنما نکات کا ابلاغ کرنا چاہیے۔
آئیے ہم ان پیغامات کا ابلاغ کریں جو امامِ حج نے اپنے خطبہ میں دیئے ہیں۔ اتفاق سے یہ پیغامات اہلِ دوَل و اہلِ ثروت لوگوں کے لیے مخصوص بھی ہیں۔ اس لیے بھی کہ حج کی فرضیت صاحبِ استطاعت پر ہی ہے۔ مگر یہ پیغام جملہ عالمِ اسلام کو دیا جاتا ہے۔ اس پیغام کو ملت کے ان تمام دولتمندوں تک بھی پہنچنا چاہیے اور متاثر بھی کرنا چاہیے جو میدانِ عرفات میں حاضر نہیں تھے۔ ان لوگوں تک بھی پہنچنا چاہیے جو آج زمرۂ مستحقین میں ہیں مگر کل جب دن پلٹیں گے تو صاحبِ استطاعت ہو سکتے ہیں۔ اس حکیمانہ پیغام میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
’’دہشت گردی اور ظلم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اظہارِ رائے اور جمہوریت کے نام پر اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے،مسلمان اپنے مال کو علم کی ترویج کے لیے خرچ کریں، مسلم امت کو ترقی کرنی ہے تو ٹیکنالوجی کی طرف جائیں، مسلمان معاشرے کا مفید فرد ہوتا ہے، اسلام میں جبر اور ظلم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مسلمان باہر کے ملکوں سے اپنی دولت نکال کر اپنے معاشروں میں لائیں، مسلمانوں کو اپنی مشکلات اپنے وسائل سے حل کرنا ہوں گی، وسائل کو مسلمانوں کی ترقی اور بہبود پر خرچ کرنا چاہیے، مسلمانوں کو پورے وسائل سے استفادہ اور ان میں اضافہ بھی کرنا چاہیے،مال حلال ذریعہ سے کمایا جائے اور ایسے خرچ کیا جائے جیسے ہمیں حکم دیا گیا ہے، مسلمانوں کو باہمی نفرتوں سے بچنا ہوگا، مسلمانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ بھی نیکی کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کرتے ہیں، نبی کریمؐ کی بعثت تمام انسانیت کے لیے ہے، اس دین میں نہ کوئی (نجی) فیصلہ ہے نہ کوئی خاندان ہے نہ حسب نسب کا (مقام) ہے، یہ ایک ایسا دین ہے جو تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، جس شخص کے پاس جتنا تقویٰ ہے اتنا ہی وہ زیادہ عظیم ہے، اس امت میں صحت کے مسائل ہیں، اس امت میں باہمی اتحاد کے بھی مسائل ہیں،یہ امت باہمی اتحاد سے ہی طاقت اور تقویت حاصل کر سکتی ہے، دنیا میں شر کا غلبہ ہے، خیر کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا،مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دائرے سے سود کو ہٹادیں اور تجارت کو فروغ دیں
۔