Let's Propagate the Message of Hajj Sermon 1433 H Dr. Rehan Ansari |
بہرکیف ہمیں اس جانب آئندہ بھی کوئی خوش فہمی نہیں ہے کہ سب صحیح ہوجائے گا، مگر جائے شکایت پیدا ہوئی ہے تو اس سے مفر کرنا غیرذمہ داری ہے، اس لیے یہ معترضہ سطور ہم نے لکھی ہیں۔
اردو اخبارات ایجنسیوں سے موصولہ اقتباسات شائع تو کرتے ہیں مگر کبھی ان پر تبصراتی و تجزیاتی گفتگو نہیں کرتے۔ ہم مسلمانوں کی معاشرت بھی ایسی ہوئی ہے کہ مرکزِ اسلام سے آنے والے اس پیغام کا تصور بھی ہم ایک رسم سے زیادہ نہیں کرتے۔ یوں بھی یوم الحج کو ہمارے یہاں عیدِ قرباں کی تیاریوں کی ہماہمی ہوتی ہے۔ اس لیے لوگ باگ حج کی خبریں حاصل کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ امامِ حج کا خطبہ بات چیت کا موضوع نہیں بن پاتا۔ گویا ہم بھی اپنی اپنی سطح پر اس جانب تساہلی برتنے کے عادی ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے یہاں طویل عرصہ سے منفی انداز سے پروپیگنڈہ حاصل کرتی ہے کہ امامِ حرم یا امامِ حج جو بھی خطبہ دیتے ہیں وہ سعودی حکام کی ایما پر تحریر کردہ ہوتا ہے۔ اس میں کتنا سچ ہے یا دروغ ہمیں نہیں پتہ! البتہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دوسرے دن بھی اﷲ کے اُن بندگان سے ہماری ملاقات نہیں ہو پاتی جو خطبہ کے اہم نکات پر کوئی رائے یا خیال ظاہر کرتے! جبکہ ہماری ناچیز رائے یہ ہے کہ ہمیں اس پیغام کو محض عرفات کی حدود سے متعلق نہ سمجھتے ہوئے جمیع مسلمینِ عالم کو اس کے اہم اور بنیادی و رہنما نکات کا ابلاغ کرنا چاہیے۔
آئیے ہم ان پیغامات کا ابلاغ کریں جو امامِ حج نے اپنے خطبہ میں دیئے ہیں۔ اتفاق سے یہ پیغامات اہلِ دوَل و اہلِ ثروت لوگوں کے لیے مخصوص بھی ہیں۔ اس لیے بھی کہ حج کی فرضیت صاحبِ استطاعت پر ہی ہے۔ مگر یہ پیغام جملہ عالمِ اسلام کو دیا جاتا ہے۔ اس پیغام کو ملت کے ان تمام دولتمندوں تک بھی پہنچنا چاہیے اور متاثر بھی کرنا چاہیے جو میدانِ عرفات میں حاضر نہیں تھے۔ ان لوگوں تک بھی پہنچنا چاہیے جو آج زمرۂ مستحقین میں ہیں مگر کل جب دن پلٹیں گے تو صاحبِ استطاعت ہو سکتے ہیں۔ اس حکیمانہ پیغام میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
’’دہشت گردی اور ظلم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اظہارِ رائے اور جمہوریت کے نام پر اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے،مسلمان اپنے مال کو علم کی ترویج کے لیے خرچ کریں، مسلم امت کو ترقی کرنی ہے تو ٹیکنالوجی کی طرف جائیں، مسلمان معاشرے کا مفید فرد ہوتا ہے، اسلام میں جبر اور ظلم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، مسلمان باہر کے ملکوں سے اپنی دولت نکال کر اپنے معاشروں میں لائیں، مسلمانوں کو اپنی مشکلات اپنے وسائل سے حل کرنا ہوں گی، وسائل کو مسلمانوں کی ترقی اور بہبود پر خرچ کرنا چاہیے، مسلمانوں کو پورے وسائل سے استفادہ اور ان میں اضافہ بھی کرنا چاہیے،مال حلال ذریعہ سے کمایا جائے اور ایسے خرچ کیا جائے جیسے ہمیں حکم دیا گیا ہے، مسلمانوں کو باہمی نفرتوں سے بچنا ہوگا، مسلمانوں کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ بھی نیکی کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کرتے ہیں، نبی کریمؐ کی بعثت تمام انسانیت کے لیے ہے، اس دین میں نہ کوئی (نجی) فیصلہ ہے نہ کوئی خاندان ہے نہ حسب نسب کا (مقام) ہے، یہ ایک ایسا دین ہے جو تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے، جس شخص کے پاس جتنا تقویٰ ہے اتنا ہی وہ زیادہ عظیم ہے، اس امت میں صحت کے مسائل ہیں، اس امت میں باہمی اتحاد کے بھی مسائل ہیں،یہ امت باہمی اتحاد سے ہی طاقت اور تقویت حاصل کر سکتی ہے، دنیا میں شر کا غلبہ ہے، خیر کو فروغ دینے کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا،مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دائرے سے سود کو ہٹادیں اور تجارت کو فروغ دیں‘‘۔