To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, April 21, 2011

The Coloured Chicks
(بچوں کے لئے ایک تفریحی نظم )
   چوزے  والا    چوزے    لایا        رنگ   برنگے   چوزے    لایا
   ننھی     ننھی     آنکھیں    ہیں        نازک   نازک   ٹانگیں    ہیں
   تن  پر  جیسے    لپٹی   کپاس         اُجلے  اُجلے   بے بُو  و   باس
   گالوں  سے  تم   انھیں    لگاؤ         گدگدی   کا   احساس    جگاؤ
   پھُدک  پھُدک  کر  چلتے  ہیں         دانے    دُنکے    چگتے     ہیں
   ماں  کو  پاس  نہ  پاکر  سب         مل  کر   شور  مچاتے    ہیں
   گالوں پر  یہ  ٹھونگیں  ماریں         ہاتھوں پر  یہ  گھومیں  ناچیں
   کاندھوں کے اُوپر جو چڑھائیں       پنجوں  کے  ناخن  کو  گڑائیں
   پانچ روپے میں دو  دو  چوزے       کھیل کھلونے بن گئے چوزے


Tuesday, April 19, 2011

Aji.no.moto the Controversial Salt
[کئی مرتبہ ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی رہی کہ جو چائنیز کھانوں میں استعمال ہونے والے نمک کے تعلق سے دریافت کرتے رہے اور اس کے تعلق سے شکوک و شبہات تو بالکل عام ہیں؛ خصوصاً مسلمانوں میں۔ اس کی حلّت یا حرمت کے تعلق سے ذہنوں میں ہمیشہ اشکال اور بحث کا ایک بازار گرم رہتا ہے۔ اس نمک کو ایجی نوموٹو کے نام سے فروخت اور استعمال کیا جاتا ہے۔ ناچیز نے بھی اس بابت تجسس کے ساتھ تحقیق کرنا شروع کیا اور انٹرنیٹ پر دستیاب تفصیلات اور اخباروں کی مدد سے عام رہنمائی کے لیے ایک مضمون سپردِ قلم کرنا ضروری سمجھا۔یہ مضمون اسی محنت کے نتیجہ میں تیار ہوا ہے۔ امید ہے کہ کسی صاحب کے پاس ان کے علاوہ کچھ معلومات (مع حوالہ) موجود ہو تو مہیّا کر کے اس کم علم کی معلومات میں بھی اضافہ فرمائیں گے]
اب سے پورے ایک سو چار برس قبل یعنی ۱۹۰۷ء میں پہلی مرتبہ ایجی نو موٹو (Ajinomoto) کے نام سے جانے جانے والے مشہور یا بدنامِ زمانہ نمک کی دریافت ہوئی تھی۔ اس نمک کا کیمیائی نام ہے ’’مونوسوڈیم گلوٹامیٹ‘‘ Monosodium glutamateجسے تخفیف کر کے MSGلکھا جاتا ہے۔ ایجینو موٹو دراصل اس جاپانی کمپنی کا نام ہے جو کھانوں کی لذت بڑھانے کے لوازمات کے علاوہ خوردنی تیل اور دوائیں بھی تیار کرتی ہے۔ اسی نے سب سے پہلے (۱۹۰۹ء میں) ایم ایس جی کی فروخت شروع کی اور پیٹنٹ کر لیا؛ بعد میں ’ایم ایس جی‘ اسی کے نام سے مشہور ہو گیا۔ فی الحال ایم ایس جی کی دنیا بھر میں ۳۳ فیصدی پیداوار ایجینوموٹو کمپنی کرتی ہے۔ ایجی نوموٹو جاپانی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’’ستِ ذائقہ‘‘۔ اس طرح ایک صدی سے لذتِ کام و دہن بڑھانے والا یہ ست ہر دور میں ایک تنازعہ کا شکار رہا ہے۔ اس سے قبل دنیا کا کوئی اور نمک اتنا زیرِبحث یا متنازعہ کبھی نہیں رہا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ایجی نوموٹو عام طور سے گھروں میں کھانا بنانے کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ اس کی متنازعہ حیثیت پر ہم اخیر میں گفتگو کریں گے۔ پہلے ہم اس کی دریافت اور خصوصیات کے تعلق سے لکھیں گے۔
مونوسوڈیم گلوٹامیٹ (ایم ایس جی) MSG
یہ سفید قلمی سفوف ہے جو پانی (اور لعابِ دہن) میں آسانی کے ساتھ حل ہو جاتا ہے اور اس کا نقطۂ پگھلاؤ ۲۲۵ درجہ سینٹی گریڈ ہے۔ اسے مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کے علاوہ سوڈیم گلوٹامیٹ اور فلیور اِنہانسر 621 (کوڈ: E621) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ ایجی نوموٹو، ایم ایس جی، etsin اور accent کے ناموں سے بھی معروف ہے۔ جب یہ پانی یا لعاب میں حل ہوتا ہے تو سوڈیم اور گلوٹامیٹ آینوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور گلوٹامیٹ طبعی طور پر پائے جانے والے اَمائنی ترشہ گلوٹامک ایسیڈ کی آینی شکل ہے۔ اس کے کیمیاوی خواص اس طرح بیان کیے جاتے ہیں کہ حرارت اور دباؤ کی معیاری حالت میں یہ عام طور پر مستحکم (stable)مرکب ہے۔ مگر جب اسے جلایا جاتا ہے تو کاربن مونو آکسائیڈ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، اور نائٹروجن آکسائیڈ خارج ہوتے ہیں۔
لحمی ذائقہ: ایم ایس جی ہماری زبان پر موجود ذائقہ کا ادراک کرنے والی مخصوص ساختوں (کلیوں) کے اعصابی سروں کو تحریک دے کر ایک لحمی (umami) ذائقہ پیدا کرتا ہے اور یہی اس کا مخصوص عمل ہے جس کے لیے اسے استعمال کیا جاتا ہے۔
دریافت: گلوٹامیٹ کم و بیش مقدار میں قدرتی طور پر کھانے کی کئی اشیاء میں پایا جاتا ہے لیکن اسے قلمی سفوف کی شکل میں حاصل کرنے کا سہرا جاپانی محقق کیکونی ایکیڈا (Kikunae Ikeda)کے سر بندھتا ہے جس نے ۱۹۰۷ء میں ایک سمندری سبزی کی یخنی کے ابلتے ابلتے سوکھ جانے اور تخمیر (fermentation) کے بعد تہہ نشین ہو جانے والی بھورے رنگ کی قلموں کو دیکھا اور بتلایا کہ یہ گلوٹامک ایسیڈ کی قلمیں ہیں جو دل خوش کن ذائقہ کی ذمہ دار ہیں، خصوصاً سمندری سبزیوں کے پکوان میں۔ پھر اسے دوسری کئی غذاؤں میں آزمایا گیا اور پروفیسر ایکیڈا نے اس ذائقہ کو umamiنام دیا جو جاپانی زبان میں لحمی کا مترادف ہے۔ پھر انھوں نے ہی اس کی وسیع پیمانے پر پیداوار کا نظم کیا۔
ایجینوموٹو کمپنی نے ۱۹۰۹ء میں اس کی کمرشیل پیمانے پر پیداوار شروع کی اور رفتہ رفتہ ۱۹۴۷ء میں امریکہ میں ’ایکسینٹ فلیور انہانسر‘ کے نام سے اسے متعارف کرایا گیا۔
پہلے پہل ایم ایس جی کو سمندری سبزیوں سے حاصل کیا جاتا تھا مگر بعد میں جب وسیع کمرشیل بنیادوں پر پیداوار کا معاملہ آیا تو اسٹارچ، شکرقند اور گنّے کے علاوہ شکر کی تیاری کے بعد بچ رہنے والے گاڑھے مادّہ (رسوب) کی تخمیر سے اسے حاصل کیا جانے لگا۔ ایم ایس جی کو مخصوص ذائقہ کی پیدائش کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں اسے چائنیز کھانوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا تھا مگر اس کی مرغوبیت کے سبب اب امریکہ میں اکثر نمکین کھانوں اور ناشتوں کا لازمی جز بن چکا ہے۔ امریکہ کی خوردنی صنعتی اشیاء جیسے کیمپبل (Campbell) کمپنی کے ڈبہ بند سوپ (یخنی)، سوانسن (Swanson) کے بیف اور چکن اسٹاکس، پوٹیٹو چِپس، سبھی طرح کے اسنیکس، برفائے (فروژن Frozen,) کھانے، امریکہ کی تقریباً سبھی فاسٹ فوڈس، اِنسٹنٹ نوڈلس وغیرہ میں ایم ایس جی شامل ہوتا ہے۔ تخمیری اشیاء جیسے سویا سآس (Sauce)، اسٹیک سآس اور وَرسیسٹرشائر سآس میں بھی ایم ایس جی کافی مقدارمیں رہتا ہے۔
گلوٹامیٹ کے ماخذ
قدرتی طور پر گلاٹامیٹ ایک امائنی ترشہ (امینوایسیڈ) ہے جو لحمی مادّہ ہے۔ یہ انسانی جسم میں بھی کافی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں گوشت (لحم) اور پروٹین والی غذاؤں میں پایا جاتا ہے جیسے مشروم، سمندری سبزیاں، ٹماٹر، تلہن، پھلیاں، مختلف گوشت اور ڈیری کی اشیاء میں بھی پایا جاتا ہے۔ مگر ذائقہ کی پیدائش اس گلوٹامیٹ کی وجہ سے ہوتی ہے جو آزاد مالیکیول ہوتا ہے اور یہ بہت تھوڑا سا ہوتا ہے۔ ٹماٹر پیسٹ، سویا پیسٹ اور دوسرے خمیری سآس، پنیر وغیرہ میں لحمی ذائقہ کا ذمہ دار گلوٹامیٹ ہے۔
ایجی نوموٹو جیسے صنعتکار ادارے گلوٹامیٹ کی پیدائش کے لیے ایک تخمیری جراثیم (بیکٹیریا) بنام Micrococcus glutamicus کی مدد لیتے ہیں جس کی پیدائش کے لیے وہ مختلف غذاؤں اور تخمیری وسائل کا سہارا لیتے ہیں۔ یہی بیکٹیریا ہیں جو گلوٹامک ایسیڈ پیدا کرتے ہیں سے علیحدہ کر کے خالص کر لیتے ہیں پھر اسے سوڈیم کے ساتھ مرکب کر لیتے ہیں۔ اس طرح ایم ایس جی بن جاتا ہے۔
تنازعات
یہ اور بات ہے کہ ۲۰۰۱ء میں اسلامی دنیا میں اٹھا ہوا تنازعہ زیادہ مشہور ہوا مگر سچ تو یہ ہے کہ ایم ایس جی کی دریافت کے پچاس برس بعد سے ہی یہ مرکب تنازعہ کا شکار ہوا ہے جبکہ عوامی اعتراضات کے پیشِ نظر ۱۹۵۹ء میں امریکی ایف ڈی اے نے اسے ’’عمومی طور پر بے ضررتصور کیا جانے والا‘‘ سفوف قرار دیا تھا۔مگر خود ایف ڈی اے ۱۹۷۰ء سے مسلسل تحقیقی اداروں کے ذریعہ ایم ایس جی کے مضر اثرات سے مبرّا ہونے کے شواہد کی تلاش کرواتا رہا ہے۔ایسے ہی ایک ادارے فیڈریشن آف امیریکن سوسائٹیز فار ایکسپریمینٹل بایولوجی (FASEB) نے ۱۹۸۰ء میں یہ نتیجہ پیش کیا کہ ’’ایم ایس جی موجودہ مقدار میں تو کوئی واضح مضر اثر نہیں ڈالتا لیکن اس کی زائد مقدار کے استعمال کے تعلق سے مزید تحقیق ہونی چاہیے۔ یہاں یہ بات واضح کر دیں کہ مذکورہ کمیٹی نے ’’موجودہ مقدار‘‘ کا صحیح تعین نہیں کیا ہے اور کون سی مقدار زیادہ ہو گی اس کی بھی وضاحت نہیں ہے۔ اس کے بعد مختلف کمیٹیوں اور اداروں نے ۱۹۸۷ء، ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۲ء میں ایم ایس جی کے محفوظ استعمال کی وکالت کی لیکن ۱۹۹۵ء میں ایف ڈی اے یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گیا کہ آبادی کا ایک مخصوص حصہ اس سفوف کے مضر اثرات کا شکار ہوتا رہتا ہے اور ان اثرات کو اس نے ’’ایم ایس جی سمٹم کمپلیکس‘‘ کا نام دیا ہے۔ ان پیچیدہ علامات میں ٭گردن کے پچھلے حصہ میں اور کہنی سے آگے بازوؤں میں نیز سینے کے اوپر جلن جیسا احساس ٭گردن کے پچھلے حصے سے لے کر بازوؤں اور پیٹھ تک سُن پن کا احساس ٭چہرہ، پیشانی، گردن، پیٹھ کے اوپری حصہ میں اوربازوؤں میں کسی قدر جھنجھناہٹ، گرمی اور کمزوری کا احساس ٭ چہرے پر دباؤ اور کھنچاؤ کا احساس ٭ سینہ میں درد، سردرد، متلی، خفقان اور دل کی بڑھی ہوئی دھڑکن، تنفس کی تنگی، غنودگی اور عمومی کمزوری کا احساس پایا جاتا ہے۔
٭۲۰۰۲ء میں جاپان کی ’ھیروساکی یونیورسٹی‘ کے محققین نے بتلایا کہ ایم ایس جی کے زیادہ استعمال سے تجربہ گاہ کے چوہوں کی آنکھیں خراب ہو گئیں۔اس ٹیم کے سربراہ ھیروشی اوہگو رو نے یہ تجزیہ پیش کیا کہ اس تجربہ سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مشرقی ایشیا کے باشندوں کو ’’نارمل ٹینشن گلاکوما‘‘ کیوں ہو جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایم ایس جی کے مضر اثرات ظاہر کرنے والی رپورٹوں کے مقابلے میں ایسی (غیرمصدقہ) رپورٹس کی بھی کثرت ہے جو اس سفوف کو غیر مضر بتلاتی ہیں۔ اس طرح پورا معاملہ تجارتی چالاکیوں کا عنوان بن جاتا ہے۔
اپریل ۱۹۶۸ء میں ڈاکٹر ہومین کوک نے ’دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین‘ میں ایک مضمون رقم کیا تھا جس میں انھوں نے چائنیز فوڈ کے تعلق سے اپنے تجربات لکھے تھے اور کہا تھا کہ جب کبھی میں نے چائنیز ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا تو عجیب قسم کی علامات پیدا ہوئیں۔ یہ علامات کھانے کے پندرہ سے بیس منٹوں میں شروع ہو کر تقریباً دو گھنٹوں تک رہتی تھیں اور بعد میں ختم بھی ہو جاتی تھیں۔ ان علامات میں گردن کے پچھلے حصے سے لے کر بازوؤں تک اور پیٹھ میں سُن ہو جانا اور پھر کمزوری اور خفقان کا احساس ہوتا تھا۔‘‘ اس رائے کے منظرِ عام پر آتے ہی ایک شور سا پوری دنیا میں اٹھا اور ’’چائنیز ریسٹورنٹ سنڈروم‘‘ Chinese Restaurant Syndrome کی اصطلاح وجود میں آئی۔ پھر ایم ایس جی سے لوگوں نے احتیاط برتنی شروع کر دی۔ بعد ازیں تحقیقات سے یہ ثابت کرنا پڑا کہ یہ سنڈروم ایم ایس جی سے نہیں لاحق ہوتا بلکہ اس کی وجوہات دوسری ہیں۔ لیکن مزید تحقیقات سے یہ ضرور سامنے آتا ہے کہ اعصاب اور دماغ پر گلوٹامیٹ بہت جلد اثرانداز ہوتا ہے اور اسی لیے عصبی علامات سب سے نمایاں ہوتی ہیں۔
٭ایم ایس جی کے تعلق سے یہ بھی واضح ہو ا ہے کہ اس سے موٹاپا لاحق ہوتا ہے۔
ان سب تنازعات کی وجہ سے امریکی ایف ڈی اے نے سبھی خوردنی مصنوعات بنانے والوں کے لیے لازمی قرار دیا ہے کہ اگر ان کی مصنوع میں ایم ایس جی شامل ہے تو اس کا اور اس کی مقدار کا ذکر پیکٹ پر ضرور کریں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے متعلقہ محکموں نے بھی اسی قسم کا حکم جاری کیا ہے کہ خوردنی اشیاء کے پیکٹ پر ایم ایس جی کی موجودگی کی اطلاع لکھیں یا پھر اس کا انٹرنیشنل نمبرنگ سسٹم کا کوڈ E621تحریر کریں۔
مسلم دنیا اور ایجینوموٹو کا تنازعہ
ایجی نوموٹو اور مسلم دنیا کے تعلق سے کچھ باتیں تنازعاتی پس منظر میں اور بھی کی جانی ضروری ہیں تاکہ وضاحت میں کوئی اشکال نہ رہ جائے اور ہر کوئی کسی مددگار کے بغیر اپنے طور پر بھی کوئی رائے قائم کر سکے۔
جیسا کہ گذشتہ سطور میں ایم ایس جی کی کمرشیل پیداوار کے طریقہ کے تعلق سے درج کیا گیا ہے کہ اسے ’’مائکروکوکس گلوٹامیکس‘‘ نامی ’’بیکٹیریا کا استعمال کر کے بنایا جاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا گلوٹامک ایسیڈ خارج کرتے ہیں۔ اس بیکٹیریا کی تخمیر کے ذریعہ کاشت و پیدائش‘‘ کے بعد ’’اس بیکٹیریا سے پیدا ہونے والے گلوٹامک ایسیڈ اور سوڈیم کے تعامل سے‘‘ ایم ایس جی تیار کیا جاتا ہے۔ بیکٹیریا کی کاشت کا عمل کسی خامرے (اِنزائم) کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔’’اسی انزائم کے حصول کے لیے مویشیوں کی چربی کا استعمال کیا جاتا ہے اور انزائم کی موجودگی میں بیکٹیریا کی پیدائش کا عمل تیز ہو جاتا ہے‘‘۔ اب یہاں کن جانوروں کی چربی استعمال کی جاتی ہے وہ تیارکنندہ کمپنی ہی بتا سکتی ہے۔
اس کی مثال یوں بھی لی جاسکتی ہے کہ جیسے شکر کی تیاری کے دوران شکر کو صاف کرنے اور سفید (بے رنگ) دانوں میں تبدیل کرنے کے لیے گنے یا شکرقند وغیرہ کے رس و رسوب کو ہڈیوں کے کوئلے (چارکول) پر سے گذارا جاتا ہے۔ یہ ہڈیاں مویشیوں اور دیگر چوپایوں کی ہوتی ہیں جنھیں جلا کر کوئلہ (چارکول) کر دیا جاتا ہے۔ اب کن کن جانوروں کی ہڈیاں جلائی جاتی ہیں یہ تو ان کا سپلائر ہی بتلا سکتا ہے۔ مگر شکر کے اندر خود یہ چارکول یا اس کا کوئی جز شامل نہیں ہوتا۔
اب آئیے ان حالات کی طرف جب ایم ایس جی کو رواج ملنے کے پورے ۹۴ برسوں کے بعد انڈونیشیا کی علما کونسل اور مسلم آبادی نے جنوری ۲۰۰۱ء میں ایجی نوموٹو کے خلاف جم کر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ایجی نوموٹو کمپنی کی آڈٹ رپورٹ (اکتوبر ۲۰۰۰) کے مطابق اس نے مبینہ و دانستہ طور پر مسلمانوں کے لیے حرام خنزیر کی چربی سے حاصل کردہ انزائم Bactosoytone کا استعمال بیکٹیریا کی پیدائش کے لیے کیا تھا اور احتجاج کے بعد اس نے اپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا تھا اور معذرت بھی چاہی تھی لیکن اپنے اقدام پر نادم نہیں ہوئی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ خنزیر کی چربی چونکہ اسے دوسرے مویشیوں کی چربی کے مقابلے کم داموں میں دستیاب تھی اس لیے اس نے ایسا کیا تھا اور یہ کہ چربی یا اس کا کوئی بھی جز سفوف کی تیاری میں شامل نہیں ہوتا بلکہ اسے صرف بیکٹیریا کی پیدائش کے لیے استعمال کیا گیا تھا؛ مگر آئندہ احتیاط کی جائے گی! اس کے بعد کمپنی نے مشکوک بیچ کو انڈونیشیا کے بازاروں سے خالی کروا دیا تھا۔ اس کے بعد Bactosoytoneکی جگہ سویابین سے حاصل کردہ Mamenotone ایم ایس جی کی تیاری کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ (بحوالہ کیوڈو نیوز، ایشین ایکونومک نیوز: ۸جنوری ۲۰۰۱)
’’ٹائم ایشیا‘‘ کی اشاعت ۲۲جنوری ۲۰۰۱ء، جلد ۱۵۷، شمارہ نمبر ۳ میں بھی ان کے مبصر ڈیفیڈ روڈرِک نے اسی قسم کی گفتگو کی ہے جیسی کیوڈو نیوز نے دی ہے اور لکھا ہے کہ کمپنی نے ۲۴نومبر کے بعد سے خنزیر کی چربی والا انزائم استعمال کرنا ترک کردیا ہے اور اس کی جگہ سویابین سے حاصل ہونے والا انزائم استعمال کر رہی ہے۔
خلاصۂ تحریر
 ایجی نوموٹو کمپنی (جاپان) کا مونوسوڈیم گلوٹامیٹ نامی سفید ذائقہ دار ست اکثر چائنیز اور دوسری فاسٹ فوڈز نیز ڈبہ اور پیکٹ بند خوردنی اشیاء میں شامل کیا جاتا ہے۔ خصوصاً امریکہ میں تیار کردہ تمام ایسی اشیاء میں یہ شامل ہوتا ہے۔ اس کا ذائقہ قدرے لحمی (Umami) ہوتا ہے اور دنیا بھر میں مرغوب ہے۔ ایک صدی سے ذائقہ کی دنیا پر بلا شرکتِ غیرے اس کی حکومت ہے۔ اس کی تیاری میں ایک بیکٹیریا سے مدد لی جاتی ہے۔ یہ بیکٹیریا مویشیوں سے حاصل کردہ انزائم کے ذریعہ کاشت کیا جاتا ہے۔ بیسویں صدی کے آخری برس میں انڈونیشیا میں جب یہ عقدہ کھلا کہ اس میں خنزیر کا انزائم شامل تھا تو مسلم دنیا میں بھرپور احتجاج سامنے آیا۔ جس کے نتیجے میں ایجی نوموٹو نے معذرت کے بعد اپنا طریقۂ تیاری تبدیل کیا اور سویابین سے حاصل شدہ انزائم کا استعمال کرنے لگی۔ البتہ نصف صدی سے ایم ایس جی کے انسانی جسم اور دماغ و اعصاب پر نقصان دہ اثرات کو بار بار دیکھا جا رہا ہے جو ہنوز پُر اسرار ہی ہیں اور اس میں کسی پیش رفت کے نہ ہونے کا سبب سوائے تجارتی اغراض و مقاصد کے حصول کے کچھ اور نہیں ہے۔ صرف ایک ذائقہ کے حصول کے لیے جسے اپنی دماغی و جسمانی صحت داؤ پر لگانے کا شوق ہو وہ ایجینوموٹو کا استعمال بہ اصرار کر سکتا ہے اور اس کی وسیع بازاری موجودگی کے سبب کسی نہ کسی درجہ میں غیر دانستہ طور پر تو ہر کوئی اس سے متاثر ہو کر رہے گا.