Islam and Peace / Shanti |
دنیا میں جن مسلمانوں نے ظلم و ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کی یا وہ غیر مسلم مصلحین نے بھی جنھوں نے ایسا ہی کام کیا، انھیں دنیا کے اکثریتی سماج نے ہمیشہ ناپسند کیا، سزائیں دی، اور ہمیشہ فتنہ انگیز ٹھہرایا ہے۔
داعیانِ امنِ عالم کو مبارکباد دو
زیست رفتہ رفتہ مرگِ ناگہاں تک آگئی
اصل میں جس پریشانی و بے چینی کا ذکر میں نے ابتدا میں کیا ہے وہ یہی ہے کہ بہت مرتبہ کی گفتگو میں لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ اسلام امن کی دعوت دیتا ہے مگر مسلمانوں سے زیادہ مشتعل ہونے والی دنیا میں کوئی اور انسانی آبادی نہیں ہے۔ان محترم حضرات کو کبھی یہ محسوس و مشاہدہ کرنا چاہیے اور تاعمق کرنا چاہیے کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے؟Propagate Peace - A drawing by Razi Rehan Ansari |
میرے خیال میں اوپری سطروں میں میں نے جو کچھ تحریر کیا ہے وہ ان کی تحقیق کا اوّلین سرا ثابت ہوگا۔ اور جب وہ وسعتِ اسباب میں سفر کریں گے تو ان پر کئی گرہیں کھلنی شروع ہو جائیں گی۔ ہر اس انسانی سماج میں جہاں خوشنما ناموں اور نظاموں کے ساتھ ظلم و حق سلبی کا رواج ہے وہاں اسلامی جذبۂ اخوت و جذبۂ انسانی کو پنپتے ہوئے پائیں گے اور ہر استبداد سے لوہا لیتے دیکھیں گے۔ خواہ اس کی سطح پھر محض کسی کے پیڑ یا درخت سے ایک ٹہنی بھی ناجائز طور سے توڑ لینے کی بات تک آئے۔ مگر یہ جنگ برائے امن و آشتی ہوتی ہے، برائے تخریب و تاراجی نہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے اس حقیقت کا بیان کچھ یوں کیا ہے کہ:
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ بتلایا کہ پھر توپ سے پھیلا کیا ہے؟
ظلم یا حق سلبی کئی انداز اور ہر درجہ پر کی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ الٰہ العالمین تک پرانسان ظلم کرنے سے نہیں چوکتا۔ اسی لیے تو ارشادِ ربّانی ہے کہ ’’اِنّ الشّرک لظلم عظیم‘‘۔ کیونکہ معبودیت صرف اﷲ کو زیبا ہے۔ اسی کا حق ہے۔ اور انسان جب کسی اور کی عبادت کرتا ہے، دوسرے کو معبود مانتا ہے تو وہ ظلمِ عظیم کرتا ہے۔اسی سبب کوئی مومن جب کسی کو شرک میں مبتلا پاتا ہے تو دل کو مسوس کر رہ جاتا ہے۔ جس کسی کا بس چلتا ہے تو وہ انسانوں کو شرک کرنے سے روکتا ہے مگر اس کا متحمل ہر مومن نہیں ہوسکتا۔ اور جو متحمل ہیں خواہ تنہا یا مقتدرانہ؛ تو وہ دنیا میں دقیانوسی قرار دیئے جانے کے علاوہ اور نہ جانے کن کن الزامات کو برداشت کرتے ہیں۔ دعوۃ الی اﷲ تو ہر مومن کا فرض ہے۔اور اسے کما حقہ ادا کرنا چاہیے۔ مگر اس کے لیے پیغمبروں (علیہم السلام) کی حیاتِ مبارکہ سے روشنی لینا ضروری ہے۔ اپنے من مانے طریق سے اجتناب و گریز کرنا چاہیے۔ اُن پاک ذاتوں (علیہم السلام) نے جس طرح اپنی قوم میں مخالفین کا سامنا کیا اور اہلِ ایمان کا حوصلہ و اعتماد بڑھایا اس پر غور و تدبر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں یہ ہر زمانے کی داستان ہے اور تاقیامت جاری رہنے والا عمل ہے۔ہمیں بھی اﷲ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلّم کے بعد اسی مقصد کو زندگی میں اپنانے کے لیے اجاگر کیا ہے۔ بقول شبیر احمد راہی:
تجھی سے منشائے رب کی تکمیل ہوگی اس دورِ گمرہی میں
کوئی پیمبر نہ آئے گا اب، تو کس کے پھر انتظار میں ہے
اس لیے امن و شانتی جیسے انسان ساختہ نعروں اور نظریات سے بچتے ہوئے ہمیں بھی اصولی امن و شانتی کو اپنانے کی ضرورت ہے اور ہر تشدد سے بچنے کی بھی.