Mazr-e-Sharif Incidence A Condemnable Act Dr. Rehan Ansari |
جانے یہ کون سے مسلمان ہیں، اگر عقیدوں کے اختلافات کا علاج ایک دوسرے کو قتل کردینے میں مضمر ہے تو دنیا انسانوں سے خالی ہو جائے گی؛ پھر بھی یہ اختلافات موجود ہی رہیں گے۔
کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو عقیدے کے اختلاف کی وجہ سے جان سے مار دیتا ہے۔ محرم الحرام کے مہینے کی حرمت کا بھی پاس و لحاظ نہیں رکھتا۔ ماضی میں بھی متعدد مرتبہ ایسا ہوا ہے۔ امسال تو امن رہا ورنہ پاکستان میں تو یہ گویا سالانہ رسم کی مانند انجام دیا جانے والا کام ہوگیا ہے۔ درمیان سال میں بھی مساجد میں مصلیان پر گولیاں برسانا اور ان کی جانوں سے کھیلنا کچھ لوگ مشغلہ کی مانند انجام دیتے ہیں۔ یومِ عاشورہ عقائد کے اختلاف کے باوجود ایک کربِ مشترک کی یاد بھی دلاتا ہے۔ عراق اس کرب کا مرکز ہے۔ اس حرمت والے مہینے کے ابتدائی دس دنوں میں شیعہ مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھنا بھی لازم ہے کہ یہ انسانوں کے لطیف ترین احساسات میں مدوجزر سے معنون ہے۔
اصل میں تمام ہی مدارسِ اسلامیہ میں تعلیمات اب جس انداز میں دی جاتی ہیں ان میں فرقہ واریت بین المسلمین کا درس غیرمحسوس طور سے شاملِ نصاب رہتا ہے۔ ظاہری کریکولم curriculum میں یہ موجود نہیں رہتا۔ اسی وجہ سے جب مدرسہ کے فارغین سے کسی معاملہ پر گفتگو کیجیے تو ہر مکتبِ فکر اور ہر فرقہ کے افراد کے خیالات اور افکار میں اختلافات پوری طرح کھل کر سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اختلافات اب مدرسہ کی چہاردیواری سے نکل کر عوام الناس کے دلوں میں جاگزیں ہونے لگے ہیں۔ انھیں عقائد کا لبھاؤنا نام دیا جاتا ہے۔ اور سبھی کا یہ عقیدہ ہے کہ انھی کے مخصوص عقائد انھیں جنت میں لے جانے والے ہیں۔ واﷲ اعلم۔ ان کا کوئی لٹمس ٹیسٹ بھی موجود نہیں ہے۔ علما کے بیانات میں اس نعرہ کی بھرپور انداز سے تبلیغ ملتی ہے کہ وہ ’اتحاد بین المسلمین‘ کے لیے جی اور مر سکتے ہیں۔ مگر انھیں جینے اور مرنے کا موقع تو کب ملتا ہے ان کے پیروکار ایک دوسرے کو مارنے پر ضرور اُتارو ہوجاتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ رہ رہ کر دنیا دیکھتی ہے۔
ہم نے وہ جلسے اور مورچے بھی اٹینڈ کیے ہیں جن میں ’’لا سُنّیہ و لا شیعیہ... اسلامیّہ اسلامیّہ!‘‘ اور ’’لاشرقیّہ و لاغربیّہ... اسلامیّہ اسلامیّہ‘‘ جیسے جذبات انگیز نعرے بھی لگائے جاتے ہیں، لیکن ہم نے دیکھا کہ یہ نعرے بھی ان مظاہروں کے گھیرے سے آگے گھروں اور مدرسوں میں داخل نہیں ہوپاتے۔ دلوں کی بات تو دیگر ہے۔
مسلمان یوں تو بہت سے فرقوں میں تقسیم ہیں۔ لیکن بنیادی طور سے یہ سنی ہیں یا پھر شیعہ۔ ذیلی فرقے دونوں میں بے گنتی ہیں۔ ہم نے بے گنتی اس لیے لکھا ہے کہ ہم نے آج تک کوئی مرتبہ فہرست نہیں دیکھی۔ لوگوں سے سنا ہے کہ کل تہتر (73) فرقے ہیں۔ سنی اور شیعہ کی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے اور امتِ مسلمہ کو ایک ہی بنانے میں اصل میں مسلمانوں کو ہی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اور یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہے گا۔ کیونکہ ہر دوجانب یہی ارادہ رکھے ہوئے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے۔ سب کی اپنی اپنی تاویلیں ہیں۔ گویا اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔ اس تقسیم کو چودہ سو برس بیت گئے ہیں۔ اس عرصہ میں ہر ایک کے عقیدہ میں راسخی اور پختگی پیدا ہوئی ہے۔
فرقہ واریت بین المسلمین کے تحت تشدد کےواقعات کی مجموعی تعداد دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے جذباتی سنی مسلمان زیادہ حملہ آور ہوئے ہیں۔ پہلے پہل علاقائی جھڑپیں اور خونیں تصادم ہوتے تھے مگر اب اس نے بمباری تک ترقی کرلی ہے۔ یہ بے حد افسوسناک ہے۔ نفرت کے بیجوں کی آبیاری کرنے والوں کی ہم ہر درجہ میں مذمت کرتے ہیں۔