America and France to Engulf Libya and Dethrone Qaddhafi
افغانستان اور عراق کے بعد امریکی اور یورپی حکومتوں نے بالآخر لیبیا پر حملے کا بہانہ تراش لیا... نہیں... شاید ہم غلط سوچ رہے ہیں... صحیح بات یہ ہے کہ حملہ کردیا گیا مگر اب بہانہ (حملہ کا جواز) تلاش کیا جارہا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ قذافی کے جابرانہ عہد سے عوام کو نجات دلانے کے لیے لیبیا پر حملہ کیا گیا؛ لیکن قذافی نے عوام پر کبھی ایسا جبر کیا ہو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ دوسرا بہانہ یہ کہ باغی عوام کا ساتھ دینے اور انھیں قذافی کی فوج سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ حملہ کیا گیا؛ ہاں کسی قدر یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن اس کا ثبوت نہیں ہے کہ باغیوں نے اتحادی فوجوں کو پکارا ہو یا بلایا ہو۔ ان باغیوں نے تو ابھی تک یہ بھی نہیں بتلایا ہے کہ وہ بغاوت پر کن وجوہ سے آمادہ ہوئے ہیں اور قذافی سے ان کے کیا مطالبات تھے اس کی فہرست بھی نہیں ملتی۔ ماننا یا نہ ماننا تو بہت بعد کی بات ہے۔ (بحرین جیسے ملک میں یہ پورا معاملہ بالکل معکوس ہے۔ وہاں عوام کی بجائے امریکہ کے ذریعہ خلیفہ کی امداد جاری ہے)۔ تیسری اور بیّن وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ لیبیا کے تیل کے ذخائر پر امریکہ اور یورپ کی لالچی نگاہیں ہیں اور وہاں قذافی کی جگہ اپنے کسی پٹھو کو کرسئ اقتدار سونپنا چاہتے ہیں۔ ہم تو یہی دیکھ رہے ہیں کہ بڑی مچھلی کی بھوک پھر جاگی ہے اور چھوٹی مچھلیاں دہشت زدہ ہیں۔
قذافی کی اپنی حیثیت لیبیا میں کیا ہے اس کا بھی کوئی ذکر نہیں ہوتا۔ وہ سربراہِ مملکت ہیں، آمر (Dictator) ہیں؟ کچھ صاف نہیں ہے۔ البتہ گذشتہ بیالیس برسوں سے پے بہ پے وہ مختلف عہدوں پر متمکن رہتے ہوئے آج بے تاج بادشاہ ضرور ہیں۔ ان کے پورے دورِ اقتدار میں لیبیا میں اندرونی طور پر کبھی شورش نہیں رہی۔ شاید یہی بات دنیا کے چودھریوں کو کھٹکتی رہی۔ اسی لیے اس پر مختلف طریقوں سے پابندیاں اور عتاب نازل کیے جاتے رہے۔ الزامات لگائے جاتے رہے۔ مگر لیبیا کی آبادی نے اپنے اس قائد کے خلاف کبھی بے اطمینانی نہیں ظاہر کی۔ پورے ملک کی آبادی محض پینسٹھ تا ستر لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس ملک میں غربت نہیں پائی جاتی۔ عوام کو ایک آسودہ زندگی میسر ہے۔ صحتِ عامہ کی نگرانی کا خاطر خواہ نظم ہے۔تعلیم عام اور لازمی ہے۔ملک میں داخلی آزادی ہے جسے قذافی کی زبان میں ’’الجماہیریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ دوسروں کی آنکھ میں چبھنے والی ’’بنیادی اسلام پسندی‘‘ (بنیادپرستی) بھی نہیں ہے۔قذافی کی عوامی انداز کی سفاکیت بھی کبھی دیکھنے یا سننے کو نہیں ملی۔ بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں کے مسلمانوں میں بھی قذافی کسی دوسرے عرب رہنما کے مقابلے میں زیادہ پہچانے اور پسند کیے جاتے رہے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی اور اعلیٰ ظرفی کا ہمیشہ اعتراف پڑھنے اور دیکھنے کو ملا۔
اس قائد کو دنیا بھر میں میڈیا پر قابض لابی نے ہمیشہ مضحکہ خیز کردار بنا کر پیش کیا۔ اس کے ہتک آمیز کارٹون شائع کیے جاتے رہے۔ اس کے بیانات کو توڑمروڑ کر اس طرح پیش کیا جاتا رہا کہ وہ کسی ملک کا سربراہ نہیں بلکہ سیاسی طور سے ایک غیربالیدہ انسان ہے۔ وہ دنیا میں دہشت پروری کا گنہگار ہے۔ جبکہ یورپ اور امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک سے (تیل کی تجارت سے متعلق اور اس کے عوض بھی) اپنے مطالبات کو منوا لینے کی صلاحیت جتنی قذافی میں رہی ہے وہ دیگر عرب ملکوں کے سربراہوں میں نہیں دکھائی دی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ سب کی آنکھوں میں تنکے کی مانند کھٹکتے رہے۔ خود عرب ملکوں کے سربراہوں نے انھیں جب جب وقت ملا عربی نہیں بلکہ افریقی ہی سمجھا۔اس کے باوجود لیبیا اور برّاعظم افریقہ میں کثیرآبادی ان کی قیادت پر اعتماد کرتی رہی۔ بیالیس برس جیسے طویل عرصہ کے لیے کسی سفاکیت اور بربریت کے سہارے اقتدار پر آج تک دنیا میں کوئی آمر قائم نہیں رہ سکا ہے۔
Libya Oil Fields Map |
آخر لیبیا میں یہ سب ہوا کیسے۔ قارئین کو شاید یاد نہ ہو اس لیے ذکر کر دیں کہ ماہ فروری کے آخری ہفتے سے یہ شورش برپا ہوئی جب شہر بن غازی سے مصطفی عبدالجلیل نامی قذافی کے سابق معتمد نے یہ الزام لگایا کہ حکومت اپنے قیدیوں کے ساتھ انتہائی وحشیانہ سلوک کرتی ہے۔ یہ اندر کی بات تھی۔ جس پر احتجاج ہوا لیکن احتجاجیوں نے صاف کہا تھا کہ وہ بن غازی کی مقامی کارپوریشن کے خلاف ہیں، قذافی کے نہیں۔ البتہ شورش بڑھائی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ قذافی کے حامیوں اور باغیوں میں جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ اور یہ بنیادی وجہ فراموش کر دی گئی۔
Libya No-Fly Zone Map |
Lib
دیکھا جائے تو یہ معاملہ کس قدر طول پکڑتا... بیچ بچاؤ کی صورت پیش آتی اور معاملہ سلجھ سکتا تھا۔ لیکن یورپ اور امریکہ کو موقع ہاتھ آگیا اور انھوں نے اپنے پٹھووں کو اسلحہ تک فراہم کر دیا جس کی وجہ سے مسلح جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ قذافی حکومت کے لیے باغیوں کے پاس اسلحوں کی موجودگی ایک چیلنج کی صورت بن گئی۔ قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے نوجوانی کے جوش میں اس چیلنج کو للکار دیا؛ بات پھر مسلسل بگڑتی چلی گئی اور یہاں تک پہنچی۔ یورپی طاقتوں نے امریکہ کے اشارے پر فرانس کی قیادت میں الائیڈ فورس بنا لی اور حملہ کر دیا۔ یہ حملہ صرف اسلحوں اور ہوائی جہازوں سے نہیں کیا گیا بلکہ میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا میں قذافی اور اس کے بیٹوں کو عیاش، بدقماش، فضول خرچ، سنکی اور جانے کیا کیا الزامات کے ساتھ پیش کیا گیا۔ ہم بھی آپ کی مانند حقیقت نہیں جانتے لیکن یورپی اور امریکی میڈیا کی مبیّنہ عادتوں کے سبب ہم ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے۔ اس میڈیا نے پورے معاملہ میں حسبِ عادت ماریہ کیری (Mariah Carey)جیسی انٹرنیشنل فاحشہ (جسے اردو زبان میں پہلے ’’چھنال‘‘ جیسے مکروہ و متروک لفظ سے لکھا جاتا تھا اور ہم انتہائی معذرت کے ساتھ اسے یہاں دوہرانا چاہتے ہیں کہ وہ ماریہ کیری جیسی عورتوں کے لیے بے پناہ موزوں ہے)، کے حوالے سے پوری دنیا میں یہ عام کیا کہ اس کا ایک گانا سننے کے لیے سیف الاسلام نے دس لاکھ ڈالر انعام دئیے تھے! اور مزے کی بات یہ ہے کہ ماریہ کیری یہ خطیر رقم دینے والے کو پہچانتی بھی نہیں تھی اور جب پہچانا تو اسے گھن آئی اور اس نے یہ رقم چیریٹی میں دے دی! نیز اس کا نغمہ سننے کے لیے خود معمر قذافی بھی محفل میں حاضر تھے علاوہ اس کے بھی غیر ضروری تفصیلات ہیں؛ (یہ انگریزی اخبار میں چھپنے والی ’چٹ پٹی‘ خبروں کے ذریعہ معلوم ہوا ہے)۔
بات اسلحوں اور اخراجات کی چل رہی تھی اور ہم حیران تھے کہ مصطفی عبدالجلیل اور ان کے ساتھیوں کے پاس اچانک چند دنوں کے اندر اتنا اسلحہ اور سرمایہ کہاں سے آگیا کہ وہ قذافی جیسے ’’آمر‘‘ کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر ان کے یہ ساتھی کیسے تھے کہ جنھوں نے ملک بھر میں ایک تربیت یافتہ فوج کے ساتھ دودو ہاتھ کیے۔ پھر اچانک ان کا یہ لیڈر مصطفی عبدالجلیل بھی نہ کوئی بیان دیتے ملا اور نہ اس کی کوئی تصویر وغیرہ ہی چھپی، کہاں چلا گیا وہ؟۔ آخر باغیوںکو ہدایات کہاں سے ملتی رہیں؟ انھیں سامانِ حرب و خوراک کون اور کس راہ سے سپلائی کرتا رہا؟ کہیں یہ پالتو اور گھس پیٹھیے تو نہیں ہیں؟ جب یہ سب شکست کھانے لگے تو خود بہانہ لے کر فضائی حملے کرنے چلے آئے۔
امریکہ نے بھی ’ناٹو‘ کا سہارا لے کر فرانس کے کاندھے کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا۔اور اسے Operation Odyssey Dawn (معرکۃ الآرا صبح مہم) کا مسحورکن نام دیا گیا۔ جبکہ یہ کسی ملک کے داخلی معاملات میں راست مداخلت ہے۔ کیا اس جنگی مہم میں شامل ممالک اس سوال کا جواب دیں گے کہ ’’وہ اپنے ملک میں پیدا ہونے والے باغیوں اور غداروں سے کس طرح سلوک و مقابلہ کریں گے؟‘‘... تصور میں تو اس سے کہیں بھیانک مناظر آتے ہیں جتنے قذافی سے منسوب ہیں۔ خود امریکی و فرانسیسی جیلوں اور گوانتاناموبے کی جیلوں کے حقائق بطور حوالہ لیے جاسکتے ہیں۔ وہاں کوئی مصطفی عبدالجلیل کیوں نہیں ملتا؟ کیا اتنی سی بات کے لیے اتحادی فوجوں کا حملہ لازمی ہے۔ فرانس کو اس لیے بھی آگے کیا گیا ہوگا کہ فوجی طیاروں کو ایندھن کی سپلائی کے لیے دوسرا آپشن آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا۔
دنیا کے سیاسی حالات جس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور امریکہ و فرانس کی حکومتیں جس طرح اپنی عوام کی ناآسودگی کا مداوا کرنے کی بجائے دوسرے ممالک میں شورش برپا کرکے انھیں منفی طور سے منانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں اس کا انجام کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ امریکی صدر اوبامہ کے قول و فعل میں بلا کا تضاد سامنے آیا ہے۔ وہ اپنے ’’نوبیل امن انعام‘‘ کو انتہائی حد تک رسوا کر رہے ہیں۔ اگر یہی چلتا رہا تو کل کوئی بھی اصلی امن پسند ایسا انعام لینے میں شرمندگی محسوس کرے گا کہ جس صف میں اوبامہ کھڑے ہوں اسی میں اس کا بھی شمار کیا جائے گا.