To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Sunday, March 20, 2011

لب سڑک  سے عقیدتیں،
 کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں!
Roadside Worship Places & Our Representatives
ڈاکٹر ریحان انصاری
ہم نے اس موضوع پر لکھنے کے لئے تھوڑی تاخیر سے ضرور قلم اٹھایا ہے مگر بات پھر بھی قابل غور ہے. گزشتہ ہفتے جب مہاراشٹر اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو ہم سب کو یہ امید تھی کہ مسلم اراکین اسمبلی مختلف کیسوں میں پھنسے  اور خصوصا مالیگاؤں بم دھماکوں کے الزام میں محروس بے گناہوں کی رہائی کے لئے پوری توانائی کے ساتھ آواز اٹھا یں  گے. لیکن صرف تین آوازیں اٹھیں جو دوسروں کے شور میں دب گئیں. یہ آوازیں تھیں عبدالرشید طاہر مومن، ابو عاصم اعظمی اور مفتی محمّد اسماعیل کی. یہ آوازیں بہرے کانوں پر پڑیں. جانتے ہیں آپ ایسا کیا ہوا تھا؟... جناب... وہاں شور تھا کہ... سڑکوں کو چوڑا کرنے کے لئے لب سڑک بنی ہوئی چھوٹی یا بڑی (غیر قانونی) عبادت گاہیں منہدم کرنے کا حکم واپس لیا جائے. 
خبروں کے مطابق اس شور کو برپا کیا تھا بابا صدیقی نامی باندرہ کے کانگریسی ایم ایل اے نے. اگر ان کے نام کے ساتھ صدیقی نہ لگا ہوتا تو ہمیں ان کا مذہب سمجھنے میں دشواری ضرور ہوتی. کیونکہ ان کا ظاہر کچھ اور ہی ظاہر کرتا ہے. ہماری دانست میں بابا صدیقی نے پہلی مرتبہ کسی معاملے میں ایسی آواز اٹھائی اور مشہور بھی ہو گئے. بالکل متوقع طور پر انہیں زعفرانی پارٹیوں اور دوسروں کی بھی حمایت مل گئی... سیاست کا جادو اسی کو کہتے ہیں. اسمبلی میں خوب ہنگامہ ہوا. میونسپل کمشنر کے آرڈر پر اسٹے  دیا گیا. اور آیندہ کے لئے احتیاط کا حکم بھی صادر کیا گیا... منطق؟
منطق یہ کہ عبادت گاہوں سے لوگوں کی عقیدتیں اور شردھایں جڑی ہوئی ہیں. میونسپل کمشنر کو ان کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا حق نہیں ہے. زعفرانی پارٹیوں نے بابا صدیقی کی آڑ لے کر اپنا مقصد حاصل کیا. ممکن ہے کہ بابا صدیقی بھی اس کام کے لئے کچھ مشروط یا مجبور رہے ہوں. سیاست کی جادوگری سب پر چلتی ہے.
ہم نے دیکھا کہ بابا صدیقی کی تصویریں پہلی بار اردو اخبارات میں کسی مخصوص عنوان سے شایع ہوئیں. ہم سوچنے لگے کہ ایک بابا بزرگ ہونے کی حیثیت سے پکارا جاتا ہے اور دوسرا بابا کسی نادان بچے کو بلاتے ہیں. بابا صدیقی نے لازمی طور سے ایک بچکانہ نمایندگی کی ہے. کیا وہ نہیں جانتے کہ سڑکوں کے کنارے بنی گئی عبادتگاہیں ممبئی اور پورے مہاراشٹر بلکہ پورے ملک میں بھی، ان کے علاوہ سرکاری دفاتر کی حدود کے اندر بنائی گئی عبادتگاہیں کن مقاصد سے لوگ بناتے ہیں؟
Baba Siddiqui celebrating  his son's birthday

لب سڑک خواہ کسی نے مندر بنایا ہے یا مسجد، چرچ یا کراس قایم کیا ہے یا بدھ ویہار اور گردوارہ بنا دیا ہے. تعمیر کرنے والا کسی بھی مذہب کا پیرو ہو تو اسکا مقصد سبھی جانتے ہیں کہ  کیا ہوتا ہے. اس کی عقیدت یوں ہی لب سڑک نہیں آ لگتی. اسکے مقاصد بالکل مختلف ہوتے ہیں. وہ یا تو جگہ پر قبضہ کرنے کے پھیر میں ایسا کرتا ہے یا پھر غیرقانونی طور پر بناے ہوئے اپنے اسٹرکچر کو بچانے کی صورت پیدا کرنے کا چکر ہوتا ہے. اس بارے میں خود علاقے کے عوام اچھی طرح جانتے ہیں. اسی لئے وہ انہدام کے وقت بہت زیادہ ری ایکشن نہیں دکھلاتے. حالانکہ بنوانے والے برابر ان کے جذبات کو اکساتے رہتے ہیں. کچھ لوگ ان کے جھانسے میں آ بھی جاتے ہیں اور معمولی سی بدنظمی یا ہاتھاپائی بھی ہو جاتی ہے. لیکن تاریخ میں آج تک ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی غیرقانونی عبادتگاہ کو سرکاری کارندوں نے منہدم کیا ہو اور اسکی دوبارہ تعمیر کی جانی پڑی ہو. داداگیری کی سیاست کی ہم بات نہیں کر رہے ہیں. لیکن عوامی سطح پر آج تک وہی ہوا ہے جو ہم نے لکھا ہے. کیونکہ ہر مذہب کا مخلص پیرو یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ اس کی عبادت گاہ کسی بھی غلط طریقے سے تعمیر کی گئی ہو. وہ تو پوری شان اور وقار کے ساتھ عبادت کرنے کی خواہش رکھتا ہے. اور کبھی نہیں چاہے گا کہ اسکی عقیدت لب سڑک یا  اسمبلی کے ایوان میں اس طرح رسوا ہو.
گلیمر کی دنیا میں شب و روز گزارنے والے بابا صدیقی کو اچانک مذہب کا خیال آیا کیسے، وہ بھی اسمبلی کے ایوان میں، اس پر ہمیں حیرت ہے. کوئی !معشوق ہے اس  پردۂ  زنگاری میں! 

No comments: