To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Friday, March 18, 2011



Urdu Uncared By Urdu Speaking People
جب کسی زبان کے بولنے والے تعداد میں کم ہو جاتے ہیں تو میڈیا کے لیے یہ خبر بنتی ہے۔ ایسی ہی ایک خبر گذشتہ دنوں نظر سے گذری۔ خبر پڑھ کر پہلے تو اچنبھا ہوا کہ وہ ایک ایسی زبان کی اطلاع ہے جو دنیائے لسانیات میں تازہ ترین دریافت ہے یعنی ’’کورو‘‘ جو اروناچل پردیش کے مشرقی کامینگ علاقے کی ایک قبائلی زبان ہے اور ساتھ ہی بعدالمشرقین کی مانند یہ بھی درج ہے کہ اس زبان کے بولنے والے افراد تعداد میں صرف بارہ سو رہ گئے ہیں اس لیے ایک دو نسلوں کے بعد اس کے ختم ہو جانے کا اندیشہ ہے کیونکہ ان کی نئی نسل اس سے مکمل نابلد تو نہیں لیکن چھوڑے ہوئے ضرور ہے۔ یا مظہرالعجائب۔ نومولود کی جان کو خطرہ کی خبر۔ بہر کیف اس خبر کے پس منظر میں ہم نے اردو کے حالات کا مطالعہ و مشاہدہ کرنے کی ضرورت محسوس کی تو کچھ ایسے احوال سامنے آئے جو فکر کا سبب بنتے ہیں۔
آج کل ہمارے اکثر دانشور حضرات انگریزی کی اہمیت کے قائل اور اس کی تبلیغ پر مائل ملتے ہیں۔ خواہ کوئی بھی تعلیمی تقریب ہو انگریزی کے تذکرے پر ان کی رال ٹپک ہی جاتی ہے۔ ہم انگریزی کی اہمیت و افادیت کے نہ منکر ہیں اور نہ اس کے مخالف؛ مگر یہ ضرور دیکھتے ہیں کہ انگریزی کے یہ مبلغین صر ف انگریزی کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان نہیں رہتے بلکہ اردو کے بدخواہ و مخالف بھی نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ شخصی ترقی (خصوصاً روزی روٹی کے لیے) اردو کو بڑا نقصاندہ سمجھتے اور سمجھاتے ہیں۔ (ہماری ناقص سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ کسی زبان کو جاننے میں نقصان بھی ہوتا ہے)۔ اپنے بچوں کے لیے اردومیڈیم اسکولوں کو غیرمناسب خیال کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ساتھ بات چیت ہو تو یہ محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نہیں ہم اردو کے خلاف نہیں ہیں؛ دیکھیے نا! ہم اپنے گھر میں تو بچوں کے لیے ’’اردو اور عربی (بہ معنی ناظرہ قرآن)‘‘ کی تعلیم کا نظم کرتے ہیں تاکہ وہ ’’مذہب‘‘ کی تعلیمات بھی حاصل کر سکیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے چند معترضہ جملے ملاحظہ فرمائیں۔ اوّل تو اردو اگر آپ کی زبان ہے تو یہ اختیاری نہیں ہے، مادری ہے۔ آپ انگریزی بھی سمجھنا چاہتے ہیں تو اسے اردو میں ہی سمجھ پائیں گے۔ دوسری بھی جتنی زبانیں آپ سیکھنا یا اپنانا چاہیں گے ان کے الفاظ کے معانی آپ کو سمجھنے کے لیے اردو میں ہی یاد کرنے پڑیں گے۔ اسی لیے آپ اردو کو جتنی کم اہمیت دیں گے اور جتنا کم جانیں گے انگریزی یا دوسری زبان بھی اتنی ہی کم سمجھ پائیں گے۔ ہم انگریزی زبان کے مخالف نہیں ہیں لیکن اردو کی قیمت پر انگریزی سیکھنے کے ضرور خلاف ہیں۔ اس کے انجام کے بطور ہمیں آدھاتیتر آدھابٹیر نما نسل میسر آئی ہے جو چند مستثنیات کے علاوہ ہمارے لیے باعثِ ندامت بنی ہوئی ہے۔جنکے شعور کی کونپلوں کو لے جا کر ہم نے بنجر زمین میں بو دیا تھا۔ اب ان کے اندر نہ ہماری تہذیب جھلکتی ہے نہ ثقافت کے زیور ہی اس کے تن بدن پر نظر آتے ہیں۔ اس کا سب سے محبوب مکالمہ ہے ’’سب چلتا ہے‘‘!
اسی ’’چلتا ہے‘‘ کلچر کے زیرِ دام ہماری زبان و تہذیب کا چل چلاؤ ہوتا نظر آرہا ہے۔’جینے سے ہمیں بس مطلب ہے اب اور ہمیں کچھ کام نہیں‘۔ موضوع بہت طویل بحث کا متقاضی ہے اور اخبار کے صفحات ایسی طوالت کے متحمل نہیں ہوتے۔ اس لیے طوالت کو بین السطور میں پڑھنے کی کوشش بھی کئی پیغامات کی ترسیل کر سکتی ہے۔
اصل میں زبان بولنے یا جاننے کو بھی ہم نے بیحد محدود معنوں میں سمجھا ہوا ہے۔ بول چال کی زبان خواہ انگریزی یا مراٹھی ہی کیوں نہ ہو، کا جان لینا ہماری نظر میں زباندانی ہے۔ یہ تو کام چلانا ہے۔ اسی کی وجہ سے سب چلتا ہے۔ وگرنہ زباندانی ایک دوسری شئے ہے۔ آپ انگریزی بول چال کی زبان جان کر بھی انگریزی کی تحریر کو مکمل طور سے سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔ انگریزی اخبارات کا مطالعہ کیجیے تو محسوس ہوگا کہ ہر انگریزی زبان کا قلمکار بہتر سے بہتر انگریزی اور نئے سے نئے الفاظ و جدید ترکیبات لکھنے کی مسلسل کوشش میں لگا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ ’’چٹپٹی تحریر‘‘ لکھنے والے بھی دوسری زبان کے الفاظ کو انگریزی پیکر دے کر لکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو ازخود ایک نئی محنت ہے۔ ان کی انگریزی پڑھنے کے بعد جب ہم اپنے اخبارات کی جانب آتے ہیں تو یہاں آوا کا آوا ہی بگڑا ملتا ہے۔ کسی نے معمولی سا بھی کوئی غیرمستعمل اردو لفظ لکھ دیا تو اس پر یہ الزام لگ جاتا ہے کہ ’’بہت مشکل زبان لکھتا ہے یار، ذرا آسان لکھنا چاہےے تاکہ سب کو سمجھ میں آئے۔‘‘ یعنی ہم لوگ عام بول چال کی زبان میں ہی تحریر بھی کرنا اور پڑھنا چاہتے ہیں۔کیا یہ تنزلی کی بات نہیں ہے۔ کیا زبان اس طرح ترقی کرنا تو کجا محفوظ بھی رہ سکے گی؟
ہمارے مشاہدے میں یہ بات بھی آتی رہی ہے کہ (یہاں بھی استثنائی معاملات کو چھوڑ کر) اردو اسکولوں میں اردو مضمون پڑھانے والے اساتذہ کی اکثریت نصاب سے ہٹ کر کسی موضوع پر انھیں لکھنے کو کہہ دیں تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور کسی موضوع پر اظہارِ خیال انھیں سخت امتحان میں ڈال دیتا ہے۔ وہ اپنے طلبہ کو اردو مضمون نویسی کے لیے بازار میں دستیاب ڈائجسٹ سے نقل کروا دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی برمحلِ تذکرہ لکھ دیں کہ اردو میڈیم اسکولوں میں دیگر مضامین کے اساتذہ تو اردو (اچھی اردو زبان) کا جاننا اور بولنا اپنے لیے قطعی لازمی نہیں سمجھتے! گویا اردو کی علمبرداری اور ذمہ داری صرف اردو پڑھانے والے استاذ کو ہی زیبا ہے۔
اردو کے سلسلے میں تو معروضات بہت سی ہیں اور گذرتے ایام کے ساتھ اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے لیکن چند ایک باتیں کہنے پر اکتفا کرتے ہیں جیسے بہت سے اردو کے ہمدرد ایسی باتیں بھی پوچھتے ہیں کہ مثلاً ٹیلیویژن کو اردو میں کیا لکھیں گے، ہمارا کہنا یہ ہے کہ ’’دوردرشن‘‘ کی ترکیب خالصتاً اردو ہی ہے اور لفظ درشن اور دور، اردو میں ہندی کی تشکیل و ترویج سے پہلے بھی رائج رہا ہے؛ پھر وہ پوچھتے ہیں کہ اچھا ٹیلیفون کے لیے آپ کیا لفظ لکھیں گے پھر کہنا پڑتا ہے کہ اردو میں بہت سے انگریزی الفاظ جذب ہوچکے ہیں جیسے ٹیچر، اسکول، پروفیسر، انسپکٹر، ڈاکٹر وغیرہ، تو ٹیلفون کو من و عن لکھا جاسکتا ہے اور اردو نام ہی ہے اس وسیع القلب اور روادار زبان کا کہ اس میں ہندوستانی اور انگریزی کے علاوہ دنیا کی دیگر زبانوں خصوصاً عربی اور فارسی کے الفاظ کی کثرت ہے اور یہ اکلوتی ہندوستانی نژاد زبان ہے جو غیرمنقسم ہندوستان کے طول و عرض میں عوامی رابطے کے لیے مکمل طور سے قبول کی جا چکی تھی۔ جس کا اظہار داغ دہلوی نے بھی کیا تھا کہ:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
یہ کریڈٹ کسی دوسری ہندوستانی زبان کو کبھی حاصل نہیں رہا۔ یہ انگریزوں کی چال (فورٹ ولیم کالج کا قیام) اور چند بدنہاد ہندوستانیوں کی سازش کا نتیجہ اور دیانتدار و محبِّ وطن ہندوستانیوں کی زبوں حالی تھی کہ اردو پر برا وقت آن پڑا پھر اس میں ترقیاتی کام بند ہوکر اس تنزلی کا دور شروع ہوگیا جسے آج ہم سب ’’آسان اردو‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
کمپیوٹر کا دور آنے کے بعد اس پر اور ایک برا دور آگیا کہ اردو میں کتابت اور خوش نویسی سے لوگوں کی دلچسپی تقریباً صفر ہوگئی۔ قدر مفقود ہوگئی۔ اس کامستقبل میں انجام اچھا نہیں ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے۔  البتہ ہمیں لازمی ہے کہ اردو کے چہرے یعنی خطِ نستعلیق کی بھی حفاظت کریں۔ 
آخر ہم آج اردو کا یہ دکھڑا لیے کیوں بیٹھے ہیں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ دنیا میں چھوٹی چھوٹی زبان والوں اور چھوٹے چھوٹے علاقے کے لوگ اپنی زبان و تہذیب کی حفاظت کو لے کر تحریک چلا بیٹھے ہیں... جس کی ایک مثال ہماری اپنی ریاست مہاراشٹر ہے۔ یہاں راج ٹھاکرے Raj Thackrey اور ان کے قبیل کے دیگر لوگ مراٹھی جیسی محدود زبان کی خدمت و تحفظ میں کیا کچھ نہیں کرتے... لیکن ہم اردو والے بے فکر بیٹھے ہیں۔ 
اپنی زبان کی حفاظت کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اس کے الفاظ و معانی جانتے رہیں اور بولتے رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا تہذیبی اثاثہ، اپنی تاریخ، اپنی ثقافت اور اپنے آبا واجداد کے کارناموں کی حفاظت کرتے ہیں؛ انھیں نئی نسل میں منتقل کرتے ہیں، انھیں سونپتے ہیں۔ان میں دلیری و بہادری کی کہانیاں بھی ہیں، فنون اور فنونِ لطیفہ بھی ہیں، ہماری مقامی تاریخ بھی ہے، نظم و نثر کا بیش بہا ادبی سرمایہ بھی ہے، روایات واقدار کا اثاثہ بھی ہیں اور ہماری اپنی تہذیبی جڑیں بھی اس میں موجود ہیں... اور یہ سب مل کر ہماری اپنی شناخت ہیں۔کیا ہم اپنی ہی شناخت کے خود دشمن نہیں ہوچکے ہیں.

3 comments:

Unknown said...

cartoon lajawab hai

Syed Manzar said...

یوُ این آئی نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آج دنیا بھر میں بولی جانے والی تقریباً سات ہزار زبانوں میں سے نصف زبانوں کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

.لِونگ ٹنگز انسٹیٹیوٹ آف اِنڈینجرڈ لینگویجز نامی ادارہ جو زبانوں کے متروک ہونے کے خطرات پر کام کر رہا ہے، اس ادارے نے دنیا میں پانچ ایسے علاقوں کی نشاندہی کی ہے جہاں اقلیتی زبانیں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ اس ادارے کا تجزیہ ہے کہ اقلیتی زبانوں کے ختم ہو جانے سے نہ صرف ایک زبان ختم ہوتی ہے بلکہ اس زبان سے منسلک صدیوں پر محیط تہذیب و ثقافت، انسانی علوم اور تاریخ بھی صفحہٴ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ مذکورہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جو زبانیں خطرے سے دوچار ہیں ان میں سے بعض ایسی ہیں جو محض چند افراد ہی بول سکتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر ہر دو ہفتوں میں ایک زبان متروک ہو رہی ہے۔ تحقیق کے مطابق نوجوانوں کے شہری علاقوں میں نقل مکانی کر جانے اور وہاں جا کر انگریزی یا دوسری عالمی زبانیں سیکھنے سے زبانوں کے متروک ہونے کے رجحان میں تیزی آ گئی ہے۔

تحقیقی ٹیم نے زبانوں کو درپیش خطرے کے پیش نظر ایک نقشہ بنایا ہے جس پر ان خطوں کو نمایاں کیا گیا ہے، جہاں علاقائی و مقامی زبانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس تحقیق میں شامل ایک امریکی ماہر لسانیات ڈیوڈ ہیرسن کا کہنا ہے کہ ایسے پانچ نمایاں ترین خطوں میں شمالی آسٹریلیا، مشرقی سائبیریا اور شمالی امریکہ کے علاقے شامل ہیں۔ شکر خدا کا کہ ایشیا ان علاقوں کی فہرست سے بچ گیا جب کہ یہاں بھی کئی مقامی زبانیں ہلاکت کے عمل سے دوچار ہیں۔ اس رپورٹ میں دم توڑتی زبانوں کو ریکارڈ کرکے محفوظ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ زبانوں کے مرنے سے سب سے بڑا خدشہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے مقامی سطح پر پائی جانے والی معلومات کا خزانہ بھی جاتا رہتا ہے مثلاً پودوں، جانوروں، جگہوں کے نام اور ان کے بارے میں معلومات وغیرہ۔

ایک زبان میں جمع کی ہوئی معلومات اور حکمت کا اظہار کسی دوسری زبان میں ممکن نہیں ہوتا کیونکہ ہر زبان کا معلومات جمع کرنے کا ایک اپنا طریقہ ہوتا ہے، جب لوگ کوئی دوسری عالمی زبان شروع کر دیتے ہیں تو اپنی مادری زبان کی معلومات کا خاصا حصہ چھوڑ جاتے ہیں۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ ہر زبان دنیا کو دیکھنے کا الگ ڈھنگ دیتی ہے۔ آج کل دم توڑتی زبانوں کو بچانے کی تحریک زور پکڑ رہی ہے لیکن ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ اس عمل میں کامیابی صرف اس وقت ممکن ہے جب نئی نسل کو اپنے والدین، دادا، دادی یا نانا، نانی کی زبانیں بولنے کی طرف راغب کیا جائے۔ ماہرین اور سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زبانوں کے خاتمے سے بائیو ڈرائیورسٹی کے بچاؤ کو بھی خطرہ درپیش ہے۔ امریکی سائنسدان ڈاکٹر ڈیوڈ ہیریسن کے مطابق ایکوسسٹم کے بارے میں زیادہ معلومات تاحال زبانی روایات تک محدود ہیں۔ ڈاکٹر ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ اگر زبانوں کو خاتمے سے بچانے کی کوشش کی جائے تو اس سے معلومات کے ضیاع کو روکا جا سکتا ہے ۔ یعنی بات وہی ہے کہ زندہ قومیں اپنی زبان کے حوالے سے ہی اپنی شناخت اور وجود رکھتی ہیں، جس زبان میں کسی قوم کا مذہبی، اخلاقی، سماجی، ثقافتی، علمی، تاریخی ورثہ محفوظ ہو اگر وہی زبان آنے والی نسلوں کو بھلا دی جائے تو یقیناً اس قوم کے ذہن و قلب پر فتح یاب ہونا کسی بیرونی قوم کے لیے مشکل نہ ہو گا۔ اسی لیے فاتحین جب کسی شہر کو روندتے ہوئے داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے وہاں کے تہذیبی، ثقافتی، تاریخی، علمی، ادبی سرمائے کی لوٹ مار کا اذن عام دیتے ہیں کہ مفتوح قوم کے پاس ایسی کوئی بنیاد اور انفرادی شناخت باقی نہ بچ رہے کہ وہ پھر سے اپنی جداگانہ حیثیت یا آزادی کے لیے برسرپیکار ہو سکیں۔

mohammad afzal said...

scince, politics, medical, technicalaur deenyat har mauzoo per likhna waqaee kamal ki baat hai, bhiwandi main aisi hama geer shakshiyat maujood hai yeh hamari khush nasibi hai.