To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Sunday, March 13, 2011

Active and Passive Euthanasia : Debatable
ارُونا شان باغ ug)(Aruna Shanba کو KEM اسپتال کا نرسنگ عملہ ’’ارُونا اسٹاف‘‘ کے  نام سے پکارتا اور اپنی اُنسیت کا اظہار کرتا ہے۔ گذشتہ ۳۸ برسوں سے ارُونا اسپتال کے بستر پر پڑی ایک غیر محسوس زندگی گذار رہی ہے۔ اس کی مخلص، بے لوث خدمت و تیمارداری کرتے ہوئے اس وقت شاید نرسنگ اسٹاف کی بھی ’تیسری جنریشن‘ مامور ہو۔ ارُونا کے ساتھ ظلم و درندگی کے واقعہ کے فوراً بعد سے ہی وہ بے چارگی کا شکار ہے۔ اس کی بڑی تفصیلات اخباروں کے صفحات پر پڑھنے کو مل چکی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ارُونا کو موت کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ زندہ باد۔ پنکی ویرانی یعنی مدعیہ کو اس باب میں شکست ہوئی اور KEM اسپتال کے نرسنگ اسٹاف نے خوشیاں منائی۔ لازم بھی تھا اور یہ ان کا حق بھی تھا۔ ارُونا کو بالرّحم موت Euthanasia ( تلفظ: یوتھانیشیا) کے حوالے کیے جانے کی بابت دریافت کرنے پر اسپتال کے ڈین ڈاکٹر سنجے اوک (Dr. Sanjay Oak) نے برملا یہ بیان دیا تھا کہ ہمارا کام لوگوں کی زندگی کو بچانے کا ہے نہ کہ انھیں موت کے حوالے کرنے کا، ہم لوگوں سے جو کچھ بن پڑے گا ہم ارُونا کے لیے کریں گے۔
اردو کے ایک شاعر نے ان حالات کی کیسی اچھی ترجمانی کی ہے کہ:
ملک الموت کو ضد ہے کہ وہ جاں لے کے ٹلے
سر  بہ  سجدہ  ہے مسیحا  کہ  مری لاج  رہے!

پنکی ویرانی (Pinky Virani) تو محسن کشی پر آمادہ تھی۔ فریش و بے چاری ارُونا شان باغ یقینا پنکی ویرانی کی محسن تھی۔ ’’ارُونا  کی کہانی‘‘ کو فروخت کرکے اس نے روپیہ بھی کمایا تھا اور نام بھی۔ ورنہ پنکی کی شہرت ایک محدود حلقے سے آگے نہیں تھی۔ بدلے میں پنکی نے ارُونا کو کیا دیا؟ کرُونا (رحم) کے نام پر اس کی موت کا مطالبہ کردیا!۔ بالفرض اگر پنکی کی درخواست کو سپریم کورٹ نے قبول کر لیا ہوتا تو پنکی کو اس حوالے سے شہرت و ناموری کے ساتھ مزید مالی فائدے حاصل ہوسکتے تھے... کیسا رحم ہے یہ پنکی کا؟... پنکی نے تو ارُونا کی ذات کا استحصال کیا ہے ہمدردی کے نام پر، نسوانیت کی آڑ میں۔ پنکی تو اپنے قبیح ارادوں کے لیے اسپتالی عملہ تک کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکی۔ اس عملہ کو جو اڑتیس برسوں سے شبانہ روز ارُونا کی تیمارداری پر مامور ہے۔ کیا پنکی کو اس وقت بھی سوچنا نہیں چاہیے تھا ۔ اُلٹا وہ دوست کے بہروپ میں سپریم کورٹ تک جا پہنچی۔ خیر سے سپریم کورٹ نے سہ رکنی طبی ماہرین کے عملہ کو تمام کوائف کی تحقیق پر مامور کرکے حقائق جاننے کے بعد ارُونا کی گردن پنکی کے ہاتھوں سے چھڑائی۔ مانا کہ ارُونا کی زندگی سرِ دست کوئی قیمت نہیں رکھتی۔ خود ارُونا کے لیے بے سود ہے یہ زندگی!۔ لیکن انسان تو فطری طور سے جانوروں کے ساتھ بھی رحم کا جذبہ رکھتے ہیں۔ قریب المرگ جانور کو بھی پوری راحت رسانی اور لوازماتِ زندگی کی فراہمی کرتے ہیں۔ارُونا تو انسان ہے۔ 
سپریم کورٹ نے فیصلہ کے اندر ایک عجیب سی رائے رکھ دی ہے۔ Active Euthanasia اور Passive Euthanasia یعنی فعلی قتل بالرّحم اور منفعلی قتل بالرّحم۔ اور سپریم کورٹ نے پیسیو یا منفعلی کو منتخب معاملات میں بالجواز قرار دیا ہے۔ اس کی تشریح یوں کی جائے گی کہ فعلی یا ایکٹیو یوتھانیشا میں ایسے مریض کو ڈاکٹر زہریلے انجکشن کے ذریعہ موت کے حوالے کردیں اور منفعلی یا پیسیو یوتھانیشیا میں جن مریضوں کے لیے مرضی حالت طویل ترین ہو اور کسی افاقے کی امید نہ ہو تو اس مریض کے جسم پر لگے طبی آلات و لوازمات کو علیٰحدہ کردیا جائے اور اسے اس طرح (ازخود) مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔یہی دوسرا عمل سپریم کورٹ نے بالجواز کر دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے ججوں نے یہ تقسیم اپنے طور پر کی ہے یا طبی ماہرین کے مشورے پر؛ یا انسانیت کے علمبرداروں کی رائے لے کر؛ یا مختلف مذہبی رہنماؤں سے تبادلۂ خیال کے بعد کی ہے... یہ صراحت ہمارے پڑھنے میں نہیں آئی۔ البتہ قانونی ماہرین اور وکلا کی جانب سے اس رائے کا استقبال ضرور پڑھنے کو ملا۔ ہمیں ضرور حیرت ہوئی۔ یہاں میں ڈاکٹر سنجے اوک صاحب کے بیان کی ترجیع ضرور کرنا چاہوں گا کہ ’’کسی بھی طبیب کا کام اخیر وقت تک مریض کی زندگی بچانے سے معنون ہے نہ کہ اس کی زندگی لینے سے۔‘‘ 
قتل بالرّحم کا کام فعلی ہو یا منفعلی ہر دو صورت میں مریض یا طبیب ایذا سے ضرور دوچار ہوگا۔ کیونکہ یہ خدمت طبیبوں کو ہی انجام دینی ہے۔ جسے کسی بھی طرح سے انسانی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ ’’حلفِ بقراطیہ‘‘ Hippocratic oath کے اس جز کے بھی سراسر منافی ہے جسے طبی لیاقت سے سرفرازی کے وقت ہر طبیب کو لینا لازم ہے کہ وہ کسی بھی مریض کو ایسی دوا (تدبیر) ہرگز نہیں دے گا جو اس کی ہلاکت کے لیے طلب کی جائے گی۔
 کیا منفعلی حالت میں وہ مریض جو بالکل بیخود و بے سدھ ہے اسے کوئی ایذا نہیں ہوگی؟ کیا ہوش و حواس والے اسے محسوس نہیں کر سکتے کہ اگر کوئی ہمارا گلا دباتا جائے یعنی آکسیجن کی فراہمی بند کر دے تو ہمیں کیسی گھٹن سی ہوتی ہے؟ اور اگر یہی عمل بجائے چند سیکنڈ کے کئی منٹ تک طویل ہوجائے تو ہر فراش مریض ’’ارُونا‘‘ میں نہیں تبدیل ہو سکتا۔ یہی ( کلبی زنجیر والاحادثہ) تو ہوا تھا ارُونا کے ساتھ جس کی وجہ سے وہ ایک  "vegetable life" گذار رہی ہے۔ سبزیوں میں بھی جان ہوتی ہے۔ انھیں کاٹنے پر وہ ایذا نہ دکھلائیں تو یہ جواز نہیں بنتا کہ انھیں تکلیف نہیں ہوتی۔ یقینا ہمارے سماج میں بہت سے بدنصیب مریض بھی ہوں گے اور بہت سے بدنصیب رشتہ دار بھی؛ ہم ہمدردی رکھتے ہیں ان سب سے؛لیکن انسانی ذمہ داریاں اور بھی بہت سی ہیں۔ یہ ساری جدید اصطلاحیں اور نئے قوانین کے جو حوالے پیش کیے جا رہے ہیں ان کی تاریخ بیسویں صدی عیسوی سے قبل دنیا میں کہیں اور کسی ملک میں بھی نہیں پائی جاتی۔ ہمارے نزدیک تو یہ صرف بہانے ہیں اپنی عیش پسند زندگیوں میں کسی بھی امتحان سے گریز کے۔ اصل میں ہم لوگ خود اب منفعل زندگی گذار کر مرجانا چاہتے ہیں

1 comment:

M.Mubin said...

بلاگ کے شروؑ کرنے پر دلی مبارکباد
امید ہے اب ساری دنیا کے قاریین آپ کی تحریوں سے فیضیاب ہوں گے۔۔
ایم مبین