To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, April 30, 2011

Dr. Khalil: A Lovely Human
[ڈاکٹر خلیل الدین ابن شجاع الدین تماندار ایک اسم با مسمیٰ شخص کا نام ہے۔ ان میں جذبۂ خلیلیت بھی خوب ہے کہ ہر قریب آنے والا ان کا دوست ہو جاتا ہے؛  جد رسول اکرم صلی الله علیہ و سلم حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام سے بھی روحانی نسبت کے سبب اﷲ نے انھیں بیت العتیق کے خدام کی طبی نگرانی پر مامور کررکھا ہے۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست؛ تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
ڈاکٹرخلیل کے ہم بھی والا و شیدا ہیں۔ وہ ہمیں اپنا برادرِ خورد سمجھتے ہیں تو یہ بھی ہمارے لیے باعثِ سعادت و انعام ہے، کیونکہ حدودِ حرمِ پاک میں ہمارے لیے ان کے دل سے سدا دعائیں نکلتی رہتی ہیں اور یہ بندۂ عاصی ان کے اثرات و فیوض سے یہاں فیضیاب ہوتا رہتا ہے۔ ذیل میں ہم ممبئی کے معروف محقق و قلمکار ڈاکٹر داود کشمیری کا ایک تاثر بھرا تبصراتی مضمون پیش کر رہے ہیں جو انھوں نے حال ہی میں سفرِ عمرہ کے دوران ڈاکٹر خلیل سے ملاقات کے بعد لکھا ہے۔ (ڈاکٹر ریحان انصاری)]************************
’’نیپال میں اسلام اور مسلمان‘‘ ڈاکٹر خلیل شجاع الدین کا ایک بیش بہا معلوماتی اور فکر انگیز مضمون ہے۔ ڈاکٹر خلیل سے میری ملاقات چند روز پیشتر حرم شریف میں ہوئی؛ جب میں عمرہ کے لیے وہاں پہنچا۔ ڈاکٹر خلیل گذشتہ اٹھارہ سالوں سے حکومت سعودی عربیہ کی طرف سے حرم شریف کے ملازمین کی طبی خدمات کے لیے متعین ہیں۔ ان سے ملاقات دلچسپ یوں رہی کہ ایک قابل ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہونے کے علاوہ وہ ایک ہندوستانی ہیں۔ ممبئی اور بھیونڈی سے ان کا تعلق ہے۔ اچھے ادیب اور صحافی بھی ہیں۔ ہندوستان (اور بیرونِ ہند) کے مختلف روزناموں اور رسالوں میں ان کے مضامین شائع ہوکر مقبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ ان مطبوعہ مضامین میں سے بعض کے تراشے مطالعہ میں آئے تو حیرت اس بات پر ہوئی کہ ان میں موضوعات کا زبردست تنوع تھا اور ہر موضوع پر ڈاکٹر خلیل کی یکساں گرفت تھی۔ اسلوب میں سادگی اور بیان میں تازگی موضوعات کی اہمیت کو خوب اجاگر کرتے اور ایک سحر انگیز دلکشی عطا کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مضمون ’’نیپال میں مسلمان اور اسلام‘‘ کا یہاں میں سرسری طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر خلیل کو ان کی خدمات کا اجر خالقِ حقیقی کی طرف سے مسلسل مل رہا ہے لیکن ان کے مضامین بالخصوص مذکورہ بالا مضمون کے مشمولات کو اردو قارئین تک پہنچانا بھی باعثِ اجر ہے۔ یہی اس مضمون کے قلمبند کرنے کا محرک ہے۔
’’نیپال میں اسلام اور مسلمان‘‘ ہرلحاظ سے مختصر ہونے کے باوجود ایک جامع مضمون ہے جسے پڑھ کر تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر خلیل نے بڑی محنت سے موضوع سے متعلق تمام معلومات کو مختلف ذرائع سے حاصل کرنے کے بعد خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ نیپال کا جغرافیہ اور اس کی تاریخ بیان کی ہے۔اس کا محل وقوع سمجھایا ہے۔ اس کا رقبہ بتایا ہے۔ اس کے پہاڑی علاقہ ہونے کی اہمیت کی طرف ہماری توجہ مبذول کی ہے۔ اس کی بولیوں Dialects کے نام گنوائے اور ضروری تفصیلات قلمبند کی ہیں۔ نیپال کی وجہِ تسمیہ کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق یہ سنسکرت لفظ ’نیپ آلیہ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں پہاڑوں کے دامن میں۔ دوسرا نظریہ بتلاتا ہے کہ نیپال میں مرکب لفظ ہے بمعنی ’’اون اور پال‘‘ بمعنی ’’خیموں کا گھر‘‘۔ پس نیپال کا مطلب ہوا ’اون کے خیموں کا گھر‘۔
ایک اور نظریہ کے مطابق نیپال کا نام ایک رِشی کے نام پر رکھا گیا۔ بہرکیف ان نظریات کے جھمیلوں میں الجھنے کی بجائے صرف ان کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خلیل بڑی ذہانت اور تیزی سے اپنے اشہبِ قلم کو اصل موضوع کے میدان میں دوڑانے لگتے ہیں۔ یعنی نیپال میں مسلمانوں کی آمد کب ہوئی اور اسلام کس طرح پھیلا؟
ڈاکٹر خلیل کی تحقیقات کو تسلیم کرتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی سے قبل ہی نیپال اور عرب کے درمیان تجارتی تعلقات قائم ہوگئے تھے اور عرب قوم کے افراد یہاں سکونت پذیر ہونے لگے تھے۔
جلد ہی نیپال میں مختلف سیاسی تنظیمیں قائم ہونے لگیں۔ کمیونسٹ پارٹی قائم ہوئی۔ نیشنل مسلم فورم کے نام سے ایک مسلم سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ جو معاشی طور پر غریب اور ہر شعبۂ حیات میں دوسروں کے مقابل پسماندہ ہیں۔
مالی اور اقتصادی کمزوری کے سبب اسکولوں میں مسلم بچوں کا تعلیم حاصل کرنا مشکل مرحلہ رہا ہے۔ اس لیے مدارس کا رواج ہوا۔ لیکن ان مدارس کے ذریعہ نیپالی مسلمانوں پر خلیجی ممالک میں ملازمت کے دروازے بھی کھل گئے۔ ان مدارس کی تعداد تقریباً تین سو ہے۔ پھر چودہ سو مساجد ہیں جہاں مسلم نوجوانوں میں تبلیغ و دعوت کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے اور ان کی اسلامی تربیت کی جاتی ہے۔ ہندوستان کی اسلامی درسگاہوں سے فارغ التحصیل علما اس دعوت و تربیت کے مشن کو پوری سرگرمی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر خلیل کے مذکورہ مضمون کو پڑھ کر انسان غور و فکر میں ڈوب جاتا ہے۔ موضوع سے وفاداری کاحق ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر خلیل نے جہاں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ماؤنٹ ایوریسٹ اور کنچن جنگا جیسی چوٹیوں پر مشمول یہاں کئی پہاڑی سلسلے ہیں تو اسی کے ساتھ انھوں نے قرآن مجید کی اس آیت کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں بارئ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ہم نے پہاڑوں کو میخوں کی طرح ٹھونکا تاکہ زمین کا توازن برقرار رہے۔ علاوہ برایں جیسا کہ اس مضمون کے آغاز میں راقم الحروف نے بتایا ہے کہ ڈاکٹر خلیل نے یہ مضمون دینی جذبے کے ساتھ ضرور لکھا ہے لیکن اس کو مستند تحقیقی مواد کا جامہ عطا کیا ہے۔ چنانچہ نیپال کی آبادی کی تقسیم اور شہنشاہیت کی تاریخ بھی رقم کی ہے۔
ڈاکٹر خلیل کے اس مضمون اور دیگر مضامین کو پڑھتے ہوئے ذہن میں ایک شعر جاگ اٹھتا ہے کہ:

تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
اس لیے ڈاکٹر خلیل کے ان مضامین کو پڑھیے جو انھوں نے مختلف اسلامی علما اور مقتدر ہستیوں کے بارے میں قلمبند کیے ہیں۔ اور اپنے تاثرات کے ذریعہ ان شخصیتوں کو چلتا پھرتا بولتا انسان بنا کر پیش کیا ہے۔ یا پھر وہ مضامین دیکھیے جو مختلف اسلامی مفکرین اور صاحبِ اقتدار شخصیتوں نے ڈاکٹر خلیل کی شخصیت کو خراج پیش کرتے ہوئے لکھے ہیں۔ اور جن سے ڈاکٹر خلیل کی سیرت کے کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خلیل حرم شریف کے ملازمین کی طبی خدمات کے عہدے پر مامور ہونے کے سبب جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں اور شبانہ روز حرکت سے برکت حاصل کر رہے ہیں تو نہ صرف ان کا اس عہدہ پر تقرر قابلِ رشک ہے بلکہ اپنے منصب کے تئیں ان کا خلوص اور احساسِ ذمہ داری بھی ترغیب دلاتا ہے کہ اس شخص سے ایک بار نہیں بار بار ملاقات کی جائے. 
Dr. Khalil: Delivering a lecture on "Seerat-un-Nabi" (saws) at
Saboo Siddique Engineering College; Mumbai, India

Dr. Khaliluddin Shujauddin and Dr. Rehan Ansari
sharing some good moments

Thursday, April 28, 2011

سیکولر  ہندستان میں کئی سوالوں کا ایک سوال

ڈاکٹر ریحان انصاری
کیا اس سے پہلے کسی مذہبی شخصیت کو بعد از مرگ قومی پرچم ترنگے میں لپیٹنے کا اعزاز دیا گیا ہے؟
Sathya Saibaba being honoured posthumously
as a national hero
A Question of Many Questions in Secular India
Has any religious head been honoured posthumously by wrapping his/her body in (National Flag) Tricolour before also

Tuesday, April 26, 2011

Nobody Dies of AIDS
The Patient Dies of OIs
بڑی عجیب سی حقیقت ہے کہ ایڈز AIDSسے کوئی بھی نہیں مرتا۔ ایڈز پر دنیا میں تحقیقات کے دفتر موجود ہیں۔ انٹر نیٹ کو کھنگال ڈالیے یہاں بھی آپ کو ڈیٹا کی صورت میں مختلف ملکوں میں ہزاروں اور لاکھوں اموات کا تذکرہ مل جائے گا؛ مگر ایک لاحقے کے ساتھ یعنی ’’ایڈز ریلیٹیڈ‘‘ AIDS Related یا ’’ایڈز ایسوسی ایٹیڈ‘‘ AIDS Associated بیماریوں سے اموات! دوسری جو بات کہی جاتی ہے وہ ہے ’’تاک میں بیٹھے تعدیے‘‘ یعنی Opportunistic Infections (یا اسے مخفف طور سے OI کے نام سے لکھتے ہیں) یعنی موقع کی تاک میں بیٹھی مہلک بیماریاں اس مریض کی موت کا سبب بنتی ہیں۔
پچھلے تیس برسوں سے ایڈز کا معاملہ دنیا کے سامنے ہے اور طبی دنیا کے علاوہ ایک بڑا دائرہ Paramedics کا ہے جس نے ایڈز سے تحفظ کی تعلیم کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ یہ تعلیم بھی اس سطح پر دی جارہی ہے جہاں نہایت لازمی ہے۔ اور یہ طبقہ جس جس انداز و ادا سے بھی سمجھنا چاہتا ہے اُس اُس انداز و ادا کو اختیار کیا جا رہا ہے۔ میڈیا کے کسی بھی وسیلے کو چھوڑا نہیں جا رہا ہے خواہ اس پر کتنی ہی رقم صرف ہو جائے۔ اسی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات بھی مسلم ہو کر سامنے آئی ہے کہ ایڈز کے موجودہ مریضوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو جنسی اعمال یا مباشرت وغیرہ کی وجہ سے متاثر نہیں ہوئی ہے بلکہ دیگر طریقوں نے ایسے افراد کو ایڈز میں مبتلا کر دیا ہے۔ خواہ وہ طریقہ روزمرہ کی شیونگ کا ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح انتقال الدم Blood Transfusion ، ٹیٹو Tattoo بنانا، کان اور ناک چھدانا، غیر تطہیرشدہ (Unsterile)سوئیوں یا آپریشن کے اوزاروں کا استعمال اور بھی ایسے ہی عام زندگی کے دوسرے اعمال ہیں جو ایڈز کے پھیلانے کے اسباب بنتے ہیں۔
The Devil of AIDS invites OIs
یہ معلومات دینی بھی ضروری ہے کہ ایڈز کے تعلق سے دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔آج سے تیس برس قبل ایڈز کا پہلا مریض امریکہ میں تشخیص کیا گیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک ایڈز پر تحقیقات اورسیمنار و دیگر تحریکات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ اس عرصہ میں دنیا نے کروڑوں ڈالر (اربوں روپے) صرف کر دئیے ہیں مگر اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ اس کے مریضوں کی تعداد بھی ہر تحریک اور سیمنار میں بڑھتی ہوئی ہی پائی گئی۔ اب تو یکم دسمبر کو ’عالمی ایڈز ڈے‘ کے طور پر منانے کی رسم بھی چل پڑی ہے... الامان و الحفیظ۔
دنیا میں اس سے قبل کسی بھی مرض کا اس قدر چرچا ہوا ہے اور نہ اتنی بڑی تعداد میں انسانی توانائی اور دولت ضائع کی گئی ہے جتنی ایڈز کے تعلق سے ہوئی ہے۔ڈاکٹروں تو ڈاکٹروں ، عام آدمی تک کو ایڈز کی باریکیاں سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی دوران ایک نسل جوان ہو چکی ہے۔ ربع صدی بیت گئی۔ اس جوان ہونے والی نسل نے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک کسی دوسری بیماری کا اتنا چرچا نہیں سنا جتنا ایڈز کا ہوا۔ اسی لیے اس میں یہ تجسس پیدا ہونا فطری تھا کہ وہ بھی اسے اور اس کے اسباب و عوامل کو جاننے کی کوشش کرے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اس جاننے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے... بالکل رشوت خوری کی طرح... رشوت خوری کے عام ہونے کا سبب بھی تو ’مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے‘ والا فارمولہ ہے!۔ (وگرنہ یہ مشاہدہ کچھ مشکل نہیں ہے کہ رشوت خور جب کسی دوسرے رشوت خور کو رشوت دینے پر مجبور ہوتا ہے تو اس کے منہ کا مزہ کیسا ہو جاتا ہے... لیکن رشوت کا ارتقا ہی ہوتا ہے۔)
آج ایڈز کے بارے میں جاننے کا جب سلسلہ شروع ہوتا ہے تو بات ’’جنسی اختلاط‘‘ سے شروع ہوکر رٹے ہوئے طوطے کی مانند پورا سبق پڑھانے کے بعد ’’محفوظ جنسی اختلاط اور اس کے طریقے‘‘ پر ختم ہوتی ہے... یا مظہرالعجائب!... سننے والے ابتدا اور انتہائے سبق کو خوب اچھی طرح سمجھ کر جلسہ گاہ یا آڈیٹوریم یا ڈرامہ سین سے باہر آتے ہیں۔ یہاں انہیں تحفے میں کچھ تصویری لٹریچر اور کنڈوم دیا جاتا ہے۔
اگر یہی عالم رہا تو ہمیں ایڈز کی سلور جوبلی کے بعد گولڈن، ڈائمنڈ، پلاٹینم اور سینٹنل جوبلیاں بھی منانے کا پورا پورا موقع ملے گا۔
ہمیں ایڈز کے صرف ان مریضوں سے ہمدردی ہے جو حادثاتی طور پر اس مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہم بڑے ہی واضح الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ ان مریضوں کو ہم مکمل اور پوری دیانتداری کے ساتھ ہمدردی اور صبر کی تلقین کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتے۔ اضافی طور پر ہم انہیں یہ ہدایت دینا پسند کریں گے کہ زندگی کو صرف اور صرف احتیاط کے ساتھ بسر کریں، اور گھر نیز اڑوس پڑوس کے نونہالوں میں اپنا مرض منتقل ہونے سے بچائیں۔
ہمیں ایڈز کے ان مریضوں سے قطعی کوئی ہمدردی نہیں ہے جنہوں نے خود کو اس مرض کا نوالہ بنایا ہے۔ کیونکہ انہوں نے جو بے راہ روی اپنائی تھی اس کا نتیجہ ایسے کسی بھی مرض کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟
عالمی طبی برادری درس دیتی پھر رہی ہے کہ ایڈز کے مریضوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا برتاؤ نہ کریں بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں۔مگر ہمارا نظریہ ان مریضوں میں تقسیم کے بعد ہے۔ یعنی جو مریض حادثاتی طور پر اس مرض کا شکار ہیں ان کے ساتھ ہر انسانی ہمدردی کی جائے مگر پورے احتیاط کے ساتھ۔ جبکہ ایسے مریض جنہوں نے مرض کو خود دعوت دی ہے ان سے بالکل ایسے ہی بچنا چاہیے جس طرح کوئی شیر کو سامنے آتا دیکھ کر بچنا پسند کرتا ہے۔ ان مخربِ اخلاق لوگوں کے ساتھ کوئی ہمدردی اپنے لیے مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ آگ کو پھول سمجھ کر ہاتھ لگاؤ گے تو جل جاؤگے۔
ہم سے یقینا کوئی یہ بھی جاننا پسند کرے گا کہ اس کا حل کیا ہے اور اس مصیبت سے چھٹکارے کی بھی کوئی تدبیر ہے یا نہیں۔ ایڈز کا مریض ہونے کے بعد علاج بے حد مشکل ہے۔ کوئی کیسی ہی دعویداری کرے لیکن پوری دنیا میں تحقیق کے باوجود ہنوز کوئی شافی و کافی علاج ندارد ہے۔ بھلا کسی عذاب کا بھی کوئی علاج ممکن ہے؟ اگر کوئی علاج اس دنیا کے ہاتھ لگ بھی گیا تو یقین جانیے جنسی برائیوں کے راستے نہیں بلکہ شاہراہیں کھل جائیں گی۔ ہماری اس بات کو کوئی بدنیتی پر محمول کرنا چاہے تو بھی ہم اس الزام کو اپنے سر لینے کے لیے تیار ہیں، لیکن سچ بات تو یہی ہے جو ہم نے تحریر کی ہے۔
ایڈز کا علاج ہے... یقینا ہے... اور اس کا حکیمانہ نسخہ یہ ہے:

’’بڑے موذی کو مارا، نفسِ امّارہ کو گر مارا!‘‘
جو دنیا نفس، ہوس اور شہوت کی غلام بن کر رہنا پسند کرتی ہے اسے تلاش کے باوجود ایڈز کا علاج شاید ہاتھ نہ آئے،اور اگر ہاتھ آ بھی گیا تو ان کی عادتوں اور خواہشات کے پیشِ نظر کیا اس صدی میں کوئی ’’دوسرا ایڈز‘‘ تشخیص ہونے کے امکانات نہیں رہ جائیں گے؟... الامان و الحفیظ۔
اخیر میں ایک بار پھرہم اپنے عنوان پر لوٹنا چاہیں گے اور کہیں گے کہ حکومت کو اگر دلچسپی ہے کہ ایڈز سے عوام اور بچے محفوظ رہیں تو ایڈز کے تشخیص شدہ مریضوں کی بازآبادکاری اور ان کی تعلیم و علاج پر توجہ اور پیسہ صرف کرے۔ ایڈز سے کوئی نہیں مرتا۔ بلکہ ایڈز کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر دوسرے امراض OI مریض کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں اور وہ مریض کو گھلا گھلا کر مار ڈالتے ہیں۔ اگر حکومت سنجیدگی کے ساتھ دوسرے امراض کو ایڈز کے مریض پر حملہ آور ہونے سے روکے رکھے توایڈز کا مریض محفوظ رہ سکتا ہے اور اسے تعلیم دینی لازمی ہے کہ وہ اپنے مرض کو دوسروں میں منتقل نہ ہونے دے۔ جب تک ایڈز کا مریض احتیاط کرے گا تو مرض نہیں پھیلے گا اور وہ بھی اپنے طبعی زندگی جی سکے گا۔ بصورتِ دیگر اچھی سے اچھی تعلیم کے باوجود ہمارے بچوں میں تحفظ کی بنیادیں کمزور ہی رہیں گی کیونکہ جنسی عمل تو تعلیم پانے والا بھی انجام دے گا اور تعلیم نہ پانے والا بھی انجام دے گا۔ یہ فطرت کا اصول ہے اور طبیعت کا تقاضہ ہے۔ کنڈوم اس عمل میں زیادہ دیر تک بیچ میں نہیں رہ سکے گا۔ اور بات کا اینٹی کلائمکس یوں ظاہر ہو گا کہ:
’’اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘

Sunday, April 24, 2011

Modi: the venomous
اب سے نوبرسوں قبل کے گجرات فسادات کے تابوت سے تحقیقات کے بعد یکے بعد دیگرے کئی طرح کے ڈھانچے برآمد ہوتے رہے ہیں... یہ گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی Narendra Modi کے گرد قانونی گھیرا بھی تنگ سے تنگ تر کرتے جارہے ہیں۔گذشتہ دو میقاتوں سے گجرات کی وزارتِ اعلیٰ پر براجمان نریندرمودی ہندوستانی سیاست کا وہ کریہہ چہرہ ثابت ہوئے ہیں کہ جسے دیکھ کر ہر انسان دوست کی طبیعت متلا جاتی ہے اور منہ بسوس جاتا ہے۔
آج (۲۳اپریل) کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں مودی کے اس نفرت انگیز بیان کی بازگشت جھلک رہی تھی کہ ’’ہندوؤں کے مشتعل جذبات کو مسلمانوں کے خون سے ہی ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے اور ہر عمل کا ردّ عمل ہوتا ہے‘‘۔
اس بیان کا سیاق و سباق یہ ہے کہ گودھرا Godhra کے مقام پر ۲۷ فروری ۲۰۰۲ء کو صبح کے وقت ریل آتشزنی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس میں کوئی ۵۹ افراد (الزام ہے کہ کارسیوک) بوگی سمیت جل گئے تھے۔ ریلوے لائن کے قریب میں مسلم بستی ہونے کے سبب آتشزنی کو مسلمانوں کا کام فرض کرلیا گیا تھا۔ حقائق اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ مودی نے اسے ہندوؤں کے جذبات مشتعل کرنے کا حیلہ بنایا اور ٹرین سے جلی ہوئی لاشوں کو نکال کر پورا دن ان کی نمائش کرکے ہندوؤں کو پہلے خوب مشتعل کیا اور اس کے بعد انھیں آزادی دی کہ ریاست گجرات سے مسلمانوں کی آبادیاں ختم کردی جائیں۔

پورے گجرات میں ایک منصوبے کے تحت مسلم کشی اور تباہ کنی کے لیے ہندوؤں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ انھیں اسلحے اور دوسری اشیا بھی فراہم کی گئیں۔ مودی نے پولیس اور سرکاری اہلکاروں کو اپنا بندۂ ناسپاس سمجھ کر، کرسئ وازارت کا استحصال کرتے ہوئے ، انھیں یہ وارننگ آمیز حکم دیا کہ جو کچھ ہورہا ہے اسے بس دیکھتے رہیے، اگر دیکھ نہ سکیں تو آنکھیں موند لینا لیکن کوئی کارروائی نہ کرنا۔سرکاری عتاب کے ڈر اور وقتی معاندانہ جذبات کی وجہ سے ان لوگوں نے مودی کا حکم مان بھی لیا۔اور دنیا نے کئی دنوں تک مسلم کشی اور بربریت کا وہ منظر دیکھا کہ جس نے فرعون اور ہلاکو کی روحوں کو بھی شرمندہ کردیا ہوگا۔
نتیجہ کے طور پر پورے ہفتہ یا دس دنوں تک سرکاری سرپرستی میں گجرات کے طول و عرض کے تمام علاقوں میں مسلمانوں پر ہرطرح کا ظلم روا رکھا گیا۔ قتل و غارت، عورتوں اور لڑکیوں کی عصمت دری، زندہ جلادیا جانا،گھروں کو لوٹنا اور جلانا، غرض ایک سے بڑھ کر ایک ظلم ڈھایا جاتا رہا اور پورے عرصہ میں مودی نے اپنی پولیس اور بیوروکریٹس کو ہندوؤں کے خلاف کسی بھی ایکشن کو لینے سے روکے رکھا اور فسادیوں کی ہر طرح کی اعانت کے انتظامات کیے۔ اس پورے واقعے کی بڑی تفصیلات (تحریری، تصویری اور ویڈیو ) قارئین انٹرنیٹ سے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

Teesta Setalvad
the courageous
warrior

اس کیس کے کئی نمایاں کردار بھی ہیں۔ ان سب کو تہلکہ Tehelka اور ٹیسٹاسیتلواد  Teesta Setalvadسمیت بیشتر صحافتی اداروں اور صحافیوں نے پوری بیباکی کے ساتھ بے نقاب بھی کیا ہے۔ ان نمایاں کرداروں میں مودی، امیت شاہ، سریواستو، بیسٹ بیکری اور ظہیرہ شیخ، بلقیس بانو اور سہراب الدین، قطب الدین انصاری، احسان جعفری اور ان کی اہلیہ ذکیہ جعفری، بیسٹ بیکری، شاہ عالم کیمپ، احمدآباد، وڈودرا، سابرکنٹھا، اور انگنت معروف و غیرمعروف گاؤں اور ضلعوں میں مسلمانوں کو مارا اور کاٹا گیا، ان کی نسل کشی کرنے کی مکمل سازش کو بروئے کار لایا گیا۔ کیا ایک ٹرین آتشزنی حادثہ کی تحقیقات کرنے کی جگہ (بہانہ تلاش کرکے) اپنی رعیت میں مسلمانوں (یا کسی بھی مذہبی اقلیت) کی جان ومال سے کھیلنے والے وزیر اعلیٰ کی کسی بھی زاویے سے تعریف کا پہلو نکل سکتا ہے۔ بالفرضِ محال یہ تصور بھی کرلیا جائے کہ گودھرا کے مسلمانوں نے ہی ریل جلائی تھی تو یہ کیسا انصاف ہے کہ پوری ریاست کے مسلمانوں کو اس کی سزا دی جائے؟

اس سڑاند کو دبانے کے لیے مودی نے گجرات کی صنعتی و معاشی ترقیات کو حوالہ بنانے کی اور اپنے دامن پر لگے خون کے دھبے چھپانے کی اس ایک دہائی میں پوری کوشش کی۔ حتیٰ کہ اس ملمع کاری سے متاثر ہوکر مرکز کی کانگریس حکومت نے بھی مودی کو ایک کامیاب ترین وزیرِ اعلیٰ کی (راجیو گاندھی سے منسوب) سند دے دی تھی۔ وائے حیرت۔ کیا جس ریاست میں اس کی رعایا اپنے حاکم سے ڈری سہمی رہے اور ہر وقت دہشت میں گھری رہے کہ اس کے اہلِ خانہ گھر سے نکل کر جاتو رہے ہیں مگر کہیں آج کی یہ ملاقات آخری ملاقات نہ ہو، اور جب تک وہ واپس گھر کو نہیں لوٹ آتے تو دن بھر کسی وسوسے اور اندیشے (دہشت) کے ساتھ گذارنا، کسی اچھے وزیرِ اعلیٰ کی علامات ہیں۔ پھر سارے گجرات کی گلیاں برقی قمقموں سے جگمگائیں، لوگ اناج کی جگہ ہیرے اور جواہرات کھائیں تو اسے ترقی کہا جائے گا؟
 نو برس بیتے۔ انسان تو انسان ہوتا ہے۔ ان ایام میں انسانی ضمیر جلد یا بہ دیر بیدار ہوتے رہے۔ یہ مودی کو رفتہ رفتہ کٹہرے میں کھینچ کر لارہے ہیں۔ ہماری دانست میں سب سے پہلے ہرش مندَر Harsh Mandar نامی بیوروکریٹ نے ضمیر کی آواز پر اپنا استعفیٰ دیا تھا اور اس کے بعد ایک لمبا سناٹا چھایا رہا۔ بعد میں گجرات فسادات کی تحقیقات میں بھی گھپلے ہوئے۔ تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹ میں اختلاف رہا۔ عدالتوں میں مختلف کیس جیسے بیسٹ بیکری، احسان جعفری، بلقیس بانو اور سہراب الدین وغیرہ کے فیصلے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ سے ٹکراتے رہے۔ گواہوں کی سودے بازی یا سراسیمگی نے پورے معاملہ کو بجائے سلجھانے کے اور الجھا دیا۔ اس پورے معاملہ میں مرکزی حکومت نے ایک پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ بہانہ یہ کہ ابھی معاملہ عدالتوں اور تحقیقاتی کمیشنوں کے پاس زیرِ غور ہے۔ اس طرح مودی کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ وہ تو بھلا ہو کہ تازہ ترین ضمیر بیداری کا معاملہ پیش ہوا اور سنجیوبھٹ Sanjeev Bhat نامی ایک آئی پی ایس افسر نے مودی کی پول کھولنی شروع کی اور سپریم کورٹ کی جانب سے مامور خصوصی تفتیشی ٹیم (SIT) کے تعلق سے بھی جو انکشافات اپنے حلف نامے میں کیے ہیں اس نے دوبارہ مودی کا بہروپ کھولنے کا کام کیا ہے۔ مودی کے سیاسی نامۂ اعمال پر جلد ہی مہربندی ہو جائے گی اور وقت اپنا انصاف ظاہر کرکے رہے گا۔ شبیر احمد راہی مرحوم کا یہ شعر ان تمام واقعات کا عکاس ہے کہ:

جل  چکا  ہوں مگر  اے  مجھ کو جلانے والو
پھر اسی خاک سے اٹھوں گا فسادات کے بعد
٭٭