Dr. Khalil: A Lovely Human |
ڈاکٹرخلیل کے ہم بھی والا و شیدا ہیں۔ وہ ہمیں اپنا برادرِ خورد سمجھتے ہیں تو یہ بھی ہمارے لیے باعثِ سعادت و انعام ہے، کیونکہ حدودِ حرمِ پاک میں ہمارے لیے ان کے دل سے سدا دعائیں نکلتی رہتی ہیں اور یہ بندۂ عاصی ان کے اثرات و فیوض سے یہاں فیضیاب ہوتا رہتا ہے۔ ذیل میں ہم ممبئی کے معروف محقق و قلمکار ڈاکٹر داود کشمیری کا ایک تاثر بھرا تبصراتی مضمون پیش کر رہے ہیں جو انھوں نے حال ہی میں سفرِ عمرہ کے دوران ڈاکٹر خلیل سے ملاقات کے بعد لکھا ہے۔ (ڈاکٹر ریحان انصاری)]************************
’’نیپال میں اسلام اور مسلمان‘‘ ڈاکٹر خلیل شجاع الدین کا ایک بیش بہا معلوماتی اور فکر انگیز مضمون ہے۔ ڈاکٹر خلیل سے میری ملاقات چند روز پیشتر حرم شریف میں ہوئی؛ جب میں عمرہ کے لیے وہاں پہنچا۔ ڈاکٹر خلیل گذشتہ اٹھارہ سالوں سے حکومت سعودی عربیہ کی طرف سے حرم شریف کے ملازمین کی طبی خدمات کے لیے متعین ہیں۔ ان سے ملاقات دلچسپ یوں رہی کہ ایک قابل ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہونے کے علاوہ وہ ایک ہندوستانی ہیں۔ ممبئی اور بھیونڈی سے ان کا تعلق ہے۔ اچھے ادیب اور صحافی بھی ہیں۔ ہندوستان (اور بیرونِ ہند) کے مختلف روزناموں اور رسالوں میں ان کے مضامین شائع ہوکر مقبولیت کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ ان مطبوعہ مضامین میں سے بعض کے تراشے مطالعہ میں آئے تو حیرت اس بات پر ہوئی کہ ان میں موضوعات کا زبردست تنوع تھا اور ہر موضوع پر ڈاکٹر خلیل کی یکساں گرفت تھی۔ اسلوب میں سادگی اور بیان میں تازگی موضوعات کی اہمیت کو خوب اجاگر کرتے اور ایک سحر انگیز دلکشی عطا کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مضمون ’’نیپال میں مسلمان اور اسلام‘‘ کا یہاں میں سرسری طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
ڈاکٹر خلیل کو ان کی خدمات کا اجر خالقِ حقیقی کی طرف سے مسلسل مل رہا ہے لیکن ان کے مضامین بالخصوص مذکورہ بالا مضمون کے مشمولات کو اردو قارئین تک پہنچانا بھی باعثِ اجر ہے۔ یہی اس مضمون کے قلمبند کرنے کا محرک ہے۔
’’نیپال میں اسلام اور مسلمان‘‘ ہرلحاظ سے مختصر ہونے کے باوجود ایک جامع مضمون ہے جسے پڑھ کر تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر خلیل نے بڑی محنت سے موضوع سے متعلق تمام معلومات کو مختلف ذرائع سے حاصل کرنے کے بعد خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ نیپال کا جغرافیہ اور اس کی تاریخ بیان کی ہے۔اس کا محل وقوع سمجھایا ہے۔ اس کا رقبہ بتایا ہے۔ اس کے پہاڑی علاقہ ہونے کی اہمیت کی طرف ہماری توجہ مبذول کی ہے۔ اس کی بولیوں Dialects کے نام گنوائے اور ضروری تفصیلات قلمبند کی ہیں۔ نیپال کی وجہِ تسمیہ کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق یہ سنسکرت لفظ ’نیپ آلیہ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں پہاڑوں کے دامن میں۔ دوسرا نظریہ بتلاتا ہے کہ نیپال میں مرکب لفظ ہے بمعنی ’’اون اور پال‘‘ بمعنی ’’خیموں کا گھر‘‘۔ پس نیپال کا مطلب ہوا ’اون کے خیموں کا گھر‘۔
ایک اور نظریہ کے مطابق نیپال کا نام ایک رِشی کے نام پر رکھا گیا۔ بہرکیف ان نظریات کے جھمیلوں میں الجھنے کی بجائے صرف ان کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خلیل بڑی ذہانت اور تیزی سے اپنے اشہبِ قلم کو اصل موضوع کے میدان میں دوڑانے لگتے ہیں۔ یعنی نیپال میں مسلمانوں کی آمد کب ہوئی اور اسلام کس طرح پھیلا؟
ڈاکٹر خلیل کی تحقیقات کو تسلیم کرتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی سے قبل ہی نیپال اور عرب کے درمیان تجارتی تعلقات قائم ہوگئے تھے اور عرب قوم کے افراد یہاں سکونت پذیر ہونے لگے تھے۔
جلد ہی نیپال میں مختلف سیاسی تنظیمیں قائم ہونے لگیں۔ کمیونسٹ پارٹی قائم ہوئی۔ نیشنل مسلم فورم کے نام سے ایک مسلم سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ یہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ جو معاشی طور پر غریب اور ہر شعبۂ حیات میں دوسروں کے مقابل پسماندہ ہیں۔
مالی اور اقتصادی کمزوری کے سبب اسکولوں میں مسلم بچوں کا تعلیم حاصل کرنا مشکل مرحلہ رہا ہے۔ اس لیے مدارس کا رواج ہوا۔ لیکن ان مدارس کے ذریعہ نیپالی مسلمانوں پر خلیجی ممالک میں ملازمت کے دروازے بھی کھل گئے۔ ان مدارس کی تعداد تقریباً تین سو ہے۔ پھر چودہ سو مساجد ہیں جہاں مسلم نوجوانوں میں تبلیغ و دعوت کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے اور ان کی اسلامی تربیت کی جاتی ہے۔ ہندوستان کی اسلامی درسگاہوں سے فارغ التحصیل علما اس دعوت و تربیت کے مشن کو پوری سرگرمی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر خلیل کے مذکورہ مضمون کو پڑھ کر انسان غور و فکر میں ڈوب جاتا ہے۔ موضوع سے وفاداری کاحق ادا کرتے ہوئے ڈاکٹر خلیل نے جہاں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ماؤنٹ ایوریسٹ اور کنچن جنگا جیسی چوٹیوں پر مشمول یہاں کئی پہاڑی سلسلے ہیں تو اسی کے ساتھ انھوں نے قرآن مجید کی اس آیت کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں بارئ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ہم نے پہاڑوں کو میخوں کی طرح ٹھونکا تاکہ زمین کا توازن برقرار رہے۔ علاوہ برایں جیسا کہ اس مضمون کے آغاز میں راقم الحروف نے بتایا ہے کہ ڈاکٹر خلیل نے یہ مضمون دینی جذبے کے ساتھ ضرور لکھا ہے لیکن اس کو مستند تحقیقی مواد کا جامہ عطا کیا ہے۔ چنانچہ نیپال کی آبادی کی تقسیم اور شہنشاہیت کی تاریخ بھی رقم کی ہے۔
ڈاکٹر خلیل کے اس مضمون اور دیگر مضامین کو پڑھتے ہوئے ذہن میں ایک شعر جاگ اٹھتا ہے کہ:
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
اس لیے ڈاکٹر خلیل کے ان مضامین کو پڑھیے جو انھوں نے مختلف اسلامی علما اور مقتدر ہستیوں کے بارے میں قلمبند کیے ہیں۔ اور اپنے تاثرات کے ذریعہ ان شخصیتوں کو چلتا پھرتا بولتا انسان بنا کر پیش کیا ہے۔ یا پھر وہ مضامین دیکھیے جو مختلف اسلامی مفکرین اور صاحبِ اقتدار شخصیتوں نے ڈاکٹر خلیل کی شخصیت کو خراج پیش کرتے ہوئے لکھے ہیں۔ اور جن سے ڈاکٹر خلیل کی سیرت کے کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ ڈاکٹر خلیل حرم شریف کے ملازمین کی طبی خدمات کے عہدے پر مامور ہونے کے سبب جس ماحول میں سانس لے رہے ہیں اور شبانہ روز حرکت سے برکت حاصل کر رہے ہیں تو نہ صرف ان کا اس عہدہ پر تقرر قابلِ رشک ہے بلکہ اپنے منصب کے تئیں ان کا خلوص اور احساسِ ذمہ داری بھی ترغیب دلاتا ہے کہ اس شخص سے ایک بار نہیں بار بار ملاقات کی جائے. Dr. Khalil: Delivering a lecture on "Seerat-un-Nabi" (saws) at Saboo Siddique Engineering College; Mumbai, India |
Dr. Khaliluddin Shujauddin and Dr. Rehan Ansari sharing some good moments |
No comments:
Post a Comment