To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Sunday, April 24, 2011

Modi: the venomous
اب سے نوبرسوں قبل کے گجرات فسادات کے تابوت سے تحقیقات کے بعد یکے بعد دیگرے کئی طرح کے ڈھانچے برآمد ہوتے رہے ہیں... یہ گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی Narendra Modi کے گرد قانونی گھیرا بھی تنگ سے تنگ تر کرتے جارہے ہیں۔گذشتہ دو میقاتوں سے گجرات کی وزارتِ اعلیٰ پر براجمان نریندرمودی ہندوستانی سیاست کا وہ کریہہ چہرہ ثابت ہوئے ہیں کہ جسے دیکھ کر ہر انسان دوست کی طبیعت متلا جاتی ہے اور منہ بسوس جاتا ہے۔
آج (۲۳اپریل) کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں مودی کے اس نفرت انگیز بیان کی بازگشت جھلک رہی تھی کہ ’’ہندوؤں کے مشتعل جذبات کو مسلمانوں کے خون سے ہی ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے اور ہر عمل کا ردّ عمل ہوتا ہے‘‘۔
اس بیان کا سیاق و سباق یہ ہے کہ گودھرا Godhra کے مقام پر ۲۷ فروری ۲۰۰۲ء کو صبح کے وقت ریل آتشزنی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اس میں کوئی ۵۹ افراد (الزام ہے کہ کارسیوک) بوگی سمیت جل گئے تھے۔ ریلوے لائن کے قریب میں مسلم بستی ہونے کے سبب آتشزنی کو مسلمانوں کا کام فرض کرلیا گیا تھا۔ حقائق اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ مودی نے اسے ہندوؤں کے جذبات مشتعل کرنے کا حیلہ بنایا اور ٹرین سے جلی ہوئی لاشوں کو نکال کر پورا دن ان کی نمائش کرکے ہندوؤں کو پہلے خوب مشتعل کیا اور اس کے بعد انھیں آزادی دی کہ ریاست گجرات سے مسلمانوں کی آبادیاں ختم کردی جائیں۔

پورے گجرات میں ایک منصوبے کے تحت مسلم کشی اور تباہ کنی کے لیے ہندوؤں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ انھیں اسلحے اور دوسری اشیا بھی فراہم کی گئیں۔ مودی نے پولیس اور سرکاری اہلکاروں کو اپنا بندۂ ناسپاس سمجھ کر، کرسئ وازارت کا استحصال کرتے ہوئے ، انھیں یہ وارننگ آمیز حکم دیا کہ جو کچھ ہورہا ہے اسے بس دیکھتے رہیے، اگر دیکھ نہ سکیں تو آنکھیں موند لینا لیکن کوئی کارروائی نہ کرنا۔سرکاری عتاب کے ڈر اور وقتی معاندانہ جذبات کی وجہ سے ان لوگوں نے مودی کا حکم مان بھی لیا۔اور دنیا نے کئی دنوں تک مسلم کشی اور بربریت کا وہ منظر دیکھا کہ جس نے فرعون اور ہلاکو کی روحوں کو بھی شرمندہ کردیا ہوگا۔
نتیجہ کے طور پر پورے ہفتہ یا دس دنوں تک سرکاری سرپرستی میں گجرات کے طول و عرض کے تمام علاقوں میں مسلمانوں پر ہرطرح کا ظلم روا رکھا گیا۔ قتل و غارت، عورتوں اور لڑکیوں کی عصمت دری، زندہ جلادیا جانا،گھروں کو لوٹنا اور جلانا، غرض ایک سے بڑھ کر ایک ظلم ڈھایا جاتا رہا اور پورے عرصہ میں مودی نے اپنی پولیس اور بیوروکریٹس کو ہندوؤں کے خلاف کسی بھی ایکشن کو لینے سے روکے رکھا اور فسادیوں کی ہر طرح کی اعانت کے انتظامات کیے۔ اس پورے واقعے کی بڑی تفصیلات (تحریری، تصویری اور ویڈیو ) قارئین انٹرنیٹ سے بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

Teesta Setalvad
the courageous
warrior

اس کیس کے کئی نمایاں کردار بھی ہیں۔ ان سب کو تہلکہ Tehelka اور ٹیسٹاسیتلواد  Teesta Setalvadسمیت بیشتر صحافتی اداروں اور صحافیوں نے پوری بیباکی کے ساتھ بے نقاب بھی کیا ہے۔ ان نمایاں کرداروں میں مودی، امیت شاہ، سریواستو، بیسٹ بیکری اور ظہیرہ شیخ، بلقیس بانو اور سہراب الدین، قطب الدین انصاری، احسان جعفری اور ان کی اہلیہ ذکیہ جعفری، بیسٹ بیکری، شاہ عالم کیمپ، احمدآباد، وڈودرا، سابرکنٹھا، اور انگنت معروف و غیرمعروف گاؤں اور ضلعوں میں مسلمانوں کو مارا اور کاٹا گیا، ان کی نسل کشی کرنے کی مکمل سازش کو بروئے کار لایا گیا۔ کیا ایک ٹرین آتشزنی حادثہ کی تحقیقات کرنے کی جگہ (بہانہ تلاش کرکے) اپنی رعیت میں مسلمانوں (یا کسی بھی مذہبی اقلیت) کی جان ومال سے کھیلنے والے وزیر اعلیٰ کی کسی بھی زاویے سے تعریف کا پہلو نکل سکتا ہے۔ بالفرضِ محال یہ تصور بھی کرلیا جائے کہ گودھرا کے مسلمانوں نے ہی ریل جلائی تھی تو یہ کیسا انصاف ہے کہ پوری ریاست کے مسلمانوں کو اس کی سزا دی جائے؟

اس سڑاند کو دبانے کے لیے مودی نے گجرات کی صنعتی و معاشی ترقیات کو حوالہ بنانے کی اور اپنے دامن پر لگے خون کے دھبے چھپانے کی اس ایک دہائی میں پوری کوشش کی۔ حتیٰ کہ اس ملمع کاری سے متاثر ہوکر مرکز کی کانگریس حکومت نے بھی مودی کو ایک کامیاب ترین وزیرِ اعلیٰ کی (راجیو گاندھی سے منسوب) سند دے دی تھی۔ وائے حیرت۔ کیا جس ریاست میں اس کی رعایا اپنے حاکم سے ڈری سہمی رہے اور ہر وقت دہشت میں گھری رہے کہ اس کے اہلِ خانہ گھر سے نکل کر جاتو رہے ہیں مگر کہیں آج کی یہ ملاقات آخری ملاقات نہ ہو، اور جب تک وہ واپس گھر کو نہیں لوٹ آتے تو دن بھر کسی وسوسے اور اندیشے (دہشت) کے ساتھ گذارنا، کسی اچھے وزیرِ اعلیٰ کی علامات ہیں۔ پھر سارے گجرات کی گلیاں برقی قمقموں سے جگمگائیں، لوگ اناج کی جگہ ہیرے اور جواہرات کھائیں تو اسے ترقی کہا جائے گا؟
 نو برس بیتے۔ انسان تو انسان ہوتا ہے۔ ان ایام میں انسانی ضمیر جلد یا بہ دیر بیدار ہوتے رہے۔ یہ مودی کو رفتہ رفتہ کٹہرے میں کھینچ کر لارہے ہیں۔ ہماری دانست میں سب سے پہلے ہرش مندَر Harsh Mandar نامی بیوروکریٹ نے ضمیر کی آواز پر اپنا استعفیٰ دیا تھا اور اس کے بعد ایک لمبا سناٹا چھایا رہا۔ بعد میں گجرات فسادات کی تحقیقات میں بھی گھپلے ہوئے۔ تحقیقاتی کمیشنوں کی رپورٹ میں اختلاف رہا۔ عدالتوں میں مختلف کیس جیسے بیسٹ بیکری، احسان جعفری، بلقیس بانو اور سہراب الدین وغیرہ کے فیصلے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ سے ٹکراتے رہے۔ گواہوں کی سودے بازی یا سراسیمگی نے پورے معاملہ کو بجائے سلجھانے کے اور الجھا دیا۔ اس پورے معاملہ میں مرکزی حکومت نے ایک پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ بہانہ یہ کہ ابھی معاملہ عدالتوں اور تحقیقاتی کمیشنوں کے پاس زیرِ غور ہے۔ اس طرح مودی کے حوصلے مزید بلند ہوئے۔ وہ تو بھلا ہو کہ تازہ ترین ضمیر بیداری کا معاملہ پیش ہوا اور سنجیوبھٹ Sanjeev Bhat نامی ایک آئی پی ایس افسر نے مودی کی پول کھولنی شروع کی اور سپریم کورٹ کی جانب سے مامور خصوصی تفتیشی ٹیم (SIT) کے تعلق سے بھی جو انکشافات اپنے حلف نامے میں کیے ہیں اس نے دوبارہ مودی کا بہروپ کھولنے کا کام کیا ہے۔ مودی کے سیاسی نامۂ اعمال پر جلد ہی مہربندی ہو جائے گی اور وقت اپنا انصاف ظاہر کرکے رہے گا۔ شبیر احمد راہی مرحوم کا یہ شعر ان تمام واقعات کا عکاس ہے کہ:

جل  چکا  ہوں مگر  اے  مجھ کو جلانے والو
پھر اسی خاک سے اٹھوں گا فسادات کے بعد
٭٭

3 comments:

Hamid Iqbal Siddiqui said...

wo apni nafraton ko kahan jaa ke bantta,
is ke liye to sheher mein aasan main hi thaa.
JAMHOORIYAT ZINDABAD!

Unknown said...

گجرات فساد اور مودی کی کارکردگی کی تعلق سے حقایق پر مضمون کے لئے مبارکباد.

Unknown said...

Behatreen Article hai, ALLAH se duaa hai ki Moozi Modi ko jald se jald aisi ibrat aamez saza mile ke aayendah koi modi banne ki juraat na kar sake. (Ameen)