To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Tuesday, April 26, 2011

Nobody Dies of AIDS
The Patient Dies of OIs
بڑی عجیب سی حقیقت ہے کہ ایڈز AIDSسے کوئی بھی نہیں مرتا۔ ایڈز پر دنیا میں تحقیقات کے دفتر موجود ہیں۔ انٹر نیٹ کو کھنگال ڈالیے یہاں بھی آپ کو ڈیٹا کی صورت میں مختلف ملکوں میں ہزاروں اور لاکھوں اموات کا تذکرہ مل جائے گا؛ مگر ایک لاحقے کے ساتھ یعنی ’’ایڈز ریلیٹیڈ‘‘ AIDS Related یا ’’ایڈز ایسوسی ایٹیڈ‘‘ AIDS Associated بیماریوں سے اموات! دوسری جو بات کہی جاتی ہے وہ ہے ’’تاک میں بیٹھے تعدیے‘‘ یعنی Opportunistic Infections (یا اسے مخفف طور سے OI کے نام سے لکھتے ہیں) یعنی موقع کی تاک میں بیٹھی مہلک بیماریاں اس مریض کی موت کا سبب بنتی ہیں۔
پچھلے تیس برسوں سے ایڈز کا معاملہ دنیا کے سامنے ہے اور طبی دنیا کے علاوہ ایک بڑا دائرہ Paramedics کا ہے جس نے ایڈز سے تحفظ کی تعلیم کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ یہ تعلیم بھی اس سطح پر دی جارہی ہے جہاں نہایت لازمی ہے۔ اور یہ طبقہ جس جس انداز و ادا سے بھی سمجھنا چاہتا ہے اُس اُس انداز و ادا کو اختیار کیا جا رہا ہے۔ میڈیا کے کسی بھی وسیلے کو چھوڑا نہیں جا رہا ہے خواہ اس پر کتنی ہی رقم صرف ہو جائے۔ اسی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات بھی مسلم ہو کر سامنے آئی ہے کہ ایڈز کے موجودہ مریضوں کی کثیر تعداد ایسی ہے جو جنسی اعمال یا مباشرت وغیرہ کی وجہ سے متاثر نہیں ہوئی ہے بلکہ دیگر طریقوں نے ایسے افراد کو ایڈز میں مبتلا کر دیا ہے۔ خواہ وہ طریقہ روزمرہ کی شیونگ کا ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح انتقال الدم Blood Transfusion ، ٹیٹو Tattoo بنانا، کان اور ناک چھدانا، غیر تطہیرشدہ (Unsterile)سوئیوں یا آپریشن کے اوزاروں کا استعمال اور بھی ایسے ہی عام زندگی کے دوسرے اعمال ہیں جو ایڈز کے پھیلانے کے اسباب بنتے ہیں۔
The Devil of AIDS invites OIs
یہ معلومات دینی بھی ضروری ہے کہ ایڈز کے تعلق سے دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔آج سے تیس برس قبل ایڈز کا پہلا مریض امریکہ میں تشخیص کیا گیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک ایڈز پر تحقیقات اورسیمنار و دیگر تحریکات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ اس عرصہ میں دنیا نے کروڑوں ڈالر (اربوں روپے) صرف کر دئیے ہیں مگر اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ اس کے مریضوں کی تعداد بھی ہر تحریک اور سیمنار میں بڑھتی ہوئی ہی پائی گئی۔ اب تو یکم دسمبر کو ’عالمی ایڈز ڈے‘ کے طور پر منانے کی رسم بھی چل پڑی ہے... الامان و الحفیظ۔
دنیا میں اس سے قبل کسی بھی مرض کا اس قدر چرچا ہوا ہے اور نہ اتنی بڑی تعداد میں انسانی توانائی اور دولت ضائع کی گئی ہے جتنی ایڈز کے تعلق سے ہوئی ہے۔ڈاکٹروں تو ڈاکٹروں ، عام آدمی تک کو ایڈز کی باریکیاں سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی دوران ایک نسل جوان ہو چکی ہے۔ ربع صدی بیت گئی۔ اس جوان ہونے والی نسل نے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک کسی دوسری بیماری کا اتنا چرچا نہیں سنا جتنا ایڈز کا ہوا۔ اسی لیے اس میں یہ تجسس پیدا ہونا فطری تھا کہ وہ بھی اسے اور اس کے اسباب و عوامل کو جاننے کی کوشش کرے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اس جاننے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے... بالکل رشوت خوری کی طرح... رشوت خوری کے عام ہونے کا سبب بھی تو ’مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے‘ والا فارمولہ ہے!۔ (وگرنہ یہ مشاہدہ کچھ مشکل نہیں ہے کہ رشوت خور جب کسی دوسرے رشوت خور کو رشوت دینے پر مجبور ہوتا ہے تو اس کے منہ کا مزہ کیسا ہو جاتا ہے... لیکن رشوت کا ارتقا ہی ہوتا ہے۔)
آج ایڈز کے بارے میں جاننے کا جب سلسلہ شروع ہوتا ہے تو بات ’’جنسی اختلاط‘‘ سے شروع ہوکر رٹے ہوئے طوطے کی مانند پورا سبق پڑھانے کے بعد ’’محفوظ جنسی اختلاط اور اس کے طریقے‘‘ پر ختم ہوتی ہے... یا مظہرالعجائب!... سننے والے ابتدا اور انتہائے سبق کو خوب اچھی طرح سمجھ کر جلسہ گاہ یا آڈیٹوریم یا ڈرامہ سین سے باہر آتے ہیں۔ یہاں انہیں تحفے میں کچھ تصویری لٹریچر اور کنڈوم دیا جاتا ہے۔
اگر یہی عالم رہا تو ہمیں ایڈز کی سلور جوبلی کے بعد گولڈن، ڈائمنڈ، پلاٹینم اور سینٹنل جوبلیاں بھی منانے کا پورا پورا موقع ملے گا۔
ہمیں ایڈز کے صرف ان مریضوں سے ہمدردی ہے جو حادثاتی طور پر اس مرض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہم بڑے ہی واضح الفاظ میں کہنا چاہتے ہیں کہ ان مریضوں کو ہم مکمل اور پوری دیانتداری کے ساتھ ہمدردی اور صبر کی تلقین کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتے۔ اضافی طور پر ہم انہیں یہ ہدایت دینا پسند کریں گے کہ زندگی کو صرف اور صرف احتیاط کے ساتھ بسر کریں، اور گھر نیز اڑوس پڑوس کے نونہالوں میں اپنا مرض منتقل ہونے سے بچائیں۔
ہمیں ایڈز کے ان مریضوں سے قطعی کوئی ہمدردی نہیں ہے جنہوں نے خود کو اس مرض کا نوالہ بنایا ہے۔ کیونکہ انہوں نے جو بے راہ روی اپنائی تھی اس کا نتیجہ ایسے کسی بھی مرض کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟
عالمی طبی برادری درس دیتی پھر رہی ہے کہ ایڈز کے مریضوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا برتاؤ نہ کریں بلکہ ان کے ساتھ ہمدردی سے پیش آئیں۔مگر ہمارا نظریہ ان مریضوں میں تقسیم کے بعد ہے۔ یعنی جو مریض حادثاتی طور پر اس مرض کا شکار ہیں ان کے ساتھ ہر انسانی ہمدردی کی جائے مگر پورے احتیاط کے ساتھ۔ جبکہ ایسے مریض جنہوں نے مرض کو خود دعوت دی ہے ان سے بالکل ایسے ہی بچنا چاہیے جس طرح کوئی شیر کو سامنے آتا دیکھ کر بچنا پسند کرتا ہے۔ ان مخربِ اخلاق لوگوں کے ساتھ کوئی ہمدردی اپنے لیے مصیبت کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ آگ کو پھول سمجھ کر ہاتھ لگاؤ گے تو جل جاؤگے۔
ہم سے یقینا کوئی یہ بھی جاننا پسند کرے گا کہ اس کا حل کیا ہے اور اس مصیبت سے چھٹکارے کی بھی کوئی تدبیر ہے یا نہیں۔ ایڈز کا مریض ہونے کے بعد علاج بے حد مشکل ہے۔ کوئی کیسی ہی دعویداری کرے لیکن پوری دنیا میں تحقیق کے باوجود ہنوز کوئی شافی و کافی علاج ندارد ہے۔ بھلا کسی عذاب کا بھی کوئی علاج ممکن ہے؟ اگر کوئی علاج اس دنیا کے ہاتھ لگ بھی گیا تو یقین جانیے جنسی برائیوں کے راستے نہیں بلکہ شاہراہیں کھل جائیں گی۔ ہماری اس بات کو کوئی بدنیتی پر محمول کرنا چاہے تو بھی ہم اس الزام کو اپنے سر لینے کے لیے تیار ہیں، لیکن سچ بات تو یہی ہے جو ہم نے تحریر کی ہے۔
ایڈز کا علاج ہے... یقینا ہے... اور اس کا حکیمانہ نسخہ یہ ہے:

’’بڑے موذی کو مارا، نفسِ امّارہ کو گر مارا!‘‘
جو دنیا نفس، ہوس اور شہوت کی غلام بن کر رہنا پسند کرتی ہے اسے تلاش کے باوجود ایڈز کا علاج شاید ہاتھ نہ آئے،اور اگر ہاتھ آ بھی گیا تو ان کی عادتوں اور خواہشات کے پیشِ نظر کیا اس صدی میں کوئی ’’دوسرا ایڈز‘‘ تشخیص ہونے کے امکانات نہیں رہ جائیں گے؟... الامان و الحفیظ۔
اخیر میں ایک بار پھرہم اپنے عنوان پر لوٹنا چاہیں گے اور کہیں گے کہ حکومت کو اگر دلچسپی ہے کہ ایڈز سے عوام اور بچے محفوظ رہیں تو ایڈز کے تشخیص شدہ مریضوں کی بازآبادکاری اور ان کی تعلیم و علاج پر توجہ اور پیسہ صرف کرے۔ ایڈز سے کوئی نہیں مرتا۔ بلکہ ایڈز کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر دوسرے امراض OI مریض کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں اور وہ مریض کو گھلا گھلا کر مار ڈالتے ہیں۔ اگر حکومت سنجیدگی کے ساتھ دوسرے امراض کو ایڈز کے مریض پر حملہ آور ہونے سے روکے رکھے توایڈز کا مریض محفوظ رہ سکتا ہے اور اسے تعلیم دینی لازمی ہے کہ وہ اپنے مرض کو دوسروں میں منتقل نہ ہونے دے۔ جب تک ایڈز کا مریض احتیاط کرے گا تو مرض نہیں پھیلے گا اور وہ بھی اپنے طبعی زندگی جی سکے گا۔ بصورتِ دیگر اچھی سے اچھی تعلیم کے باوجود ہمارے بچوں میں تحفظ کی بنیادیں کمزور ہی رہیں گی کیونکہ جنسی عمل تو تعلیم پانے والا بھی انجام دے گا اور تعلیم نہ پانے والا بھی انجام دے گا۔ یہ فطرت کا اصول ہے اور طبیعت کا تقاضہ ہے۔ کنڈوم اس عمل میں زیادہ دیر تک بیچ میں نہیں رہ سکے گا۔ اور بات کا اینٹی کلائمکس یوں ظاہر ہو گا کہ:
’’اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا‘‘

3 comments:

ChashmDeed said...

بالکل درست کہا آپ نے کہ ’ہمیں ایڈز کے ان مریضوں سے قطعی کوئی ہمدردی نہیں ہے جنہوں نے خود کو اس مرض کا نوالہ بنایا ہے۔ کیونکہ انہوں نے جو بے راہ روی اپنائی تھی اس کا نتیجہ ایسے کسی بھی مرض کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟‘‘.....واقعی ان سے کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہئے جنہوں نے خود ہی شامت کو دی ہو۔

Unknown said...

bilkul durust kaha aap ne lekin aam admi keliye yeh ek galat message hai

Unknown said...

aam aadmi? koi zahar kha le aur kahe main aam aadmi hoon mujhe pata na tha, toh kya zahar apna asar na karega? Doctor Sahab ka khyal bilkul durust hai