To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Saturday, May 21, 2011

Akhbar Ki Qeemat Hai Mere Bas Se Ziyada

اپنا تجربہ ایسا رہا ہے کہ دنیا میں دوسری زبانوں کے اخبارات کی قیمت جب بڑھتی ہے تو اس کے مقابلے میں اردو اخبارات کی قیمت اس درمیانی وقفے میں تین سے چار مرتبہ بڑھائی جاتی ہے۔ آج کل پھر یہی موسم ہے۔ دوسری زبانوں کے اخبارات سے تقابل کیا جائے تو اردو کے اخبارات ہر محاذ پر کافی پچھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن جب قیمت بڑھانی ہو تو معذرتانہ بڑھاتے ہیں۔ کسی اور محاذ پر انھیں کبھی معذرت کرتے نہیں پایا جاتا۔ یہ محاذ معیارِ طباعت کا ہو، اخبار کی ڈیزائننگ کا ہو، تحقیقی صحافت کا ہو، کاغذ کی کوالیٹی کا ہو، انتخابِ مشمولات و مضامین کا ہو، قارئین کی صحتمندانہ تنقید یا آرا کا ہو، اشتہارات کی معقولیت کا ہو... حتیٰ کہ زبان یا اِملے کی صحت کا معاملہ ہو؛ ہر جگہ ’’اصرار و پر اسرار‘‘ اور’’ چلتا ہے‘‘ والا معاملہ جاری و ساری رہتا ہے۔
اخباربینی ایک ایسی عادت ہے، چسکا ہے، جو ایک بار لگ گیا تو کسی فرد کو صبح آنکھ کھلتے ہی شدید طور سے اس کی طلب محسوس ہوتی ہے۔ اگر یہ نہ ملے تو اس کا موڈ بالکل بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے کسی (مستحکم) اخبار کی تعدادِ اشاعت یومیہ کسی بھی انداز سے کم نہیں ہوا کرتی۔ اخباروں کی کوشش بھی ہمیشہ ایک نیا یعنی اضافی ٹارگٹ ہوا کرتا ہے۔ اس لیے انھیں گھاٹے میں جانے کے لیے اخباری کاغذ کتنا بڑا رول اداکرتا ہے اسے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بعض ایسے اخبارات بھی اپنا دام بڑھانے لگتے ہیں جن کا نیوزپرنٹ (کاغذ) ہوٹلوں میں دئیے جانے والے ٹشوپیپر کے مقابلے میں بھی کم معیاری رہا کرتا ہے، انھیں ردّی والے بھی لینے میں ہمیشہ گھروالوں کا منہ تاک کر لیتے ہیں یا لینے سے انکار کردیتے ہیں۔
آئیے ذرا تجزیہ کریں کہ کیا واقعی اخبار کی قیمت ان ’’بڑے اخبار‘‘ کے اداروں کے بجٹ کو اتنا متاثر کرتی ہے کہ وہ اسے اپنے قارئین کی جیب سے نکالنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
آج کل اردو کے اخباروں کی قیمت چار روپے یا پانچ روپے یومیہ چل رہی ہے۔ یہ اخبارات تعداد میں بھی بیس ہزار یا اس سے زیادہ چھپ رہے ہیں۔ اگر اس (بظاہر غیرمتاثرکن) تعداد کے پیشِ نظر ہم حساب کریں تو یومیہ ایک سے دولاکھ روپے تک اخباری اداروں کو صرف اخبار کی فروخت سے حاصل ہوتے ہیں جس میں سے ڈسٹری بیوشن کی رقموں اور کمیشنوں کو منہا کیا بھی جائے تو تقریباً پون لاکھ روپے یومیہ یا بیس تا تیس لاکھ روپے ماہانہ بنتے ہیں۔ مدیران اور عملہ کی ایک اوسط تعداد پچاس بھی مان لی جائے (جو بہت زیادہ ہے) اور انکی ماہانہ تنخواہ پچیس ہزار فی کس کے انتہائی زیادہ اوسط سے بھی نکالیں تو بارہ سے پندرہ لاکھ روپے بنتے ہیں۔ یعنی صرف اخبار کی فروخت سے ادارے کو اتنا ضرور بچ رہتا ہے کہ وہ ’’کھا پی کر گھاٹے میں نہیں‘‘ جاسکتا۔ دوسری مدوں سے ہونے والی آمدنی کو ہم نے تو ابھی جوڑا بھی نہیں ہے۔ ان میں سب اہم اشتہارات کی آمدنی ہے۔ ان بڑے اخبارات کے اشتہارات کی شرح بھی ایسی بڑھ چکی ہے کہ عام طور سے اشتہارات دینے والے اب خوشی سے نہیں بلکہ اندیشوں کے ساتھ اشتہارات دیتے ہیں کہ کیا پتہ وصول بھی ہوگا یا ڈوب جائے گا۔ پھر بھی ماضی کے مقابلے انھیں (کاروباری اداروں کے) اشتہارات بھی بھرپور ملنے لگے ہیں۔
 دوسری آمدنی سیاسی حضرات یا پارٹیوں سے کی گئی سیٹنگ کے نتیجہ میں یا مختلف ضمیموں کی اشاعت کی آڑ میں کی جانے والی آمدنی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جسے تحریر کرنا اب معیوب ہے۔ بلکہ یہ تو اب جرنلسٹک پروفیشن کا ایک ’’پارٹ‘‘ بن چکا ہے۔ خصوصاً سابقہ الیکشنوں میں یہ پول بہت بڑے پیمانے پر کھل چکا ہے اور ’’پیڈ نیوز آئٹم‘‘ جیسے نام سے اسے شہرت بھی مل چکی ہے۔

جن دنوں میں آپ کا یہ خادم اخباری دنیا میں ملازم ہوا تھا تو وہ کمپیوٹر کا (آج جیسا عام) زمانہ نہیں تھا۔ میں بھی ایک معمولی سا کاتب تھا۔ کتابت ہر اخبار کے لیے ایک شانِ امتیاز کا درجہ رکھتی تھی۔ اسی سبب ان دنوں بڑے اخباری اداروں کا سالانہ کتابت کا خرچ بھی کافی رہتا تھا؛ جبکہ آج کے مقابلے ان کی تعدادِ اشاعت بھی پانچ یا دس ہزار سے تجاوز نہیں کرپاتی تھی۔ تصویروں کے لیے پازیٹیو میکنگ کے چارجز الگ ہوتے تھے۔ پیج (کاپی) پیسٹر کی تنخواہ بھی لازمی طور سے دینی پڑتی تھی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ کمپیوٹر اور ’’اِن پیج‘‘ جیسے اردو پبلشنگ پروگرام کی آمد سے پہلے اخباروں کو اضافی طور سے اخراجات بھی کافی کرنے پڑتے تھے۔ یہ اخراجات اس طرح نہ صرف کم ہوگئے بلکہ ’’گم ہوگئے‘‘ اور اردو اخبارات کی شکل و صورت میں بھی معاصرانہ تقاضے جھلکنے لگے۔ کانسیپٹ سافٹ ویئر Concept Software (دہلی، انڈیا) کے پروگرام اِن پیج نے جہاں ان کاموں کا قلع قمع کردیا ہے وہیں چند پاکستانی بددیانتوں نے (جنھیں زعم ہے کہ انھوں نے اردو کے لیے ’جہاد‘ انجام دیا ہے، یہ فتویٰ طلب بات ہے) ایک سافٹ ویئر کمپنی کا ’سافٹ ویئر لاک‘ توڑنے کے بعد ’اِن پیج‘ کو سب کو بانٹ دیا۔ اردو اخبارات کی شکل و صورت میں خوبیاں بڑھانے والے اس سافٹ ویئر کو ’’بالکل مفت‘‘ حاصل کرنے کی ہی بات نہیں کی جاتی بلکہ اس سافٹ ویئر کو استعمال کرکے اس سافٹ ویئر کو بنانے والی کمپنی کو بھی محسن کی جگہ مجرم، ڈاکو اور لٹیرا جیسے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔ کمال ہے کہ گاڑی آپ نے چرائی، سیرسپاٹا خود کر رہے ہیں اور چلاکر اس کے مالک کو ڈاکو کہتے ہیں۔ (چیلنج: اگر ممکن ہے تو ابھی ’اِن پیج‘ سے الگ ہوکر آپ کوئی پبلشنگ کر کے بتائیں)۔ اب تو اردو کے چند بڑے اور چھوٹے اخبارات ’’مسروقہ اِن پیج‘‘ کو دیدہ دلیری اور دھڑلے کے ساتھ استعمال کرنے میں کوئی عیب یا گناہ تصور نہیں کرتے۔ یہ بات اس لیے بھی ضمناً چلی آئی ہے کہ اردو اخبارات یا رسائل پر کتابت یا پیج میکنگ کا خرچ بھی صفر ہوچکا ہے۔ اسی طرح فوٹوگرافی (فوٹوجرنلزم) جیسے اہم ترین صحافتی سیکشن کو بھی اردو اخبارات نے چلتا کردیا ہے اور انٹرنیٹ یا ایجنسی سے دستیاب تصویروں سے ہی کام چلا کر اردو قارئین میں اپنا کالر ٹائٹ کر رہے ہیں!
یہ تو ہوئی ایک بات۔ اب آئیے اس جانب بھی دیکھیں کہ یہ اخبارات قارئین سے اخبارات کی قیمت بڑھا نے کے لیے بڑا جواز نیوزپرنٹ کو بناتے ہیں تو کس طرح اسی نیوزپرنٹ کے استعمال کو اپنے فائدے کے لیے اور قارئین کا نقصان کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ انھیں جب کبھی زیادہ اشتہارات ملتے ہیں تو یہ اسی نیوزپرنٹ پر گلے گلے تک بھر کر اشتہارات دیا کرتے ہیں۔ اور بچی ہوئی چند سطروں میں انتہائی بوسیدہ سی خبریں ڈال دی جاتی ہیں؛ لیکن انھیں یہ توفیق نہیں ہوتی کہ جن قارئین کی جیب سے آپ نے نیوزپرنٹ کا پیسہ لیا ہے ان کے حصہ کا نیوزپرنٹ مع خبریں یا مشمولات انھیں صفحات کی تعداد بڑھا کر لوٹائیں۔
انگریزی اور دوسری زبان کے اخبارات میں ایک بالکل جدا معمول اور ماحول ہے۔ یہاں جیسے اشتہارات میں اضافہ ہوا ویسے ہی صفحات میں بھی اسی قیمت کے اندر اضافہ کردیتے ہیں۔ ان کی طباعت اور اشاعت کا معیار بھی ہمیشہ معاصرانہ ہمروی کا غماز ہوتا ہے۔یہ اخبارات اپنے قلمکاروں اور کالم نویسوں کی بھی بھرپور قدرافزائی کرتے ہیں۔ انھیں معاوضہ بھی ان کی عزتِ نفس یا پھر اخبار کے ہی مقام و وقار کا خیال کر کے دیا کرتے ہیں۔
ایک اور بات سے شاید اردو کے عام قارئین واقف نہ ہوں گے کہ یہ بڑے اخبارات اپنے کالم نویسوں یا مضمون نگاروں یا دوسرے کنٹریبیوٹرس contributors کو بھی کچھ پیسہ دینا اپنی کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ کوئی اخبار والا اگر اس کو روا بھی رکھتا ہے تو اتنی قلیل رقم دیتا ہے کہ وہ متعلقہ مضمون نگار کی اسٹیشنری یا دوسرے میڈیم کے استعمال کی رقم کو بھی نہیں پہنچ پاتی۔ اس طرح دیکھا جائے تو کالم نویس یا مضمون نگار بیچارہ اپنے خون کو روشنائی بنادیتا ہے اور اس سے اخبار کو سنوارنے کا جتن کرتا ہے مگر کسی معقول صلے کی تمنا کرنا ایک جرمِ نا گوار و ناسپاس ہے۔ جب سے انٹرنیٹ کی سہولت ہوگئی ہے تو ان اردو اخبارات کے مدیران کی اینٹھن بھی کچھ بڑھ گئی ہے۔ انٹرنیٹ پر دستیاب پاکستانی اخبارات و رسائل سے جوٹھن اٹھا اٹھا کر ہمارے حوالے کرتے ہیں لیکن خود اپنے (ہندوستانی) سماج میں قلمکار پیدا کرنا نہیں چاہتے ہیں ۔ اس لیے آپ دیکھیے کہ عملہ کی تنخواہ سے آگے اردو اخباری اداروں کا کوئی واضح اضافی خرچ نہیں ہے۔
 اسی لیے اردو کے طلبا جب ہم جیسوں کے پاس کریئر سازی میں صحافت کے انتخاب کی بات کرتے ہیں تو ہم ان کو یہی مشورہ دیا کرتے ہیں کہ اگر تمھیں پیسہ کمانے نہیں بلکہ لٹانے سے دلچسپی ہو تو یہ تباہ کن شوق اپنانا اور اپنا ذریعۂ آمدنی کوئی اور اختیار کرنا۔
آج اردو کا ایک اخبار کسی بھی گھر سے ماہانہ ڈیڑھ سو روپے وصول کرتا ہے، یعنی سالانہ اٹھارہ سو روپے۔ اس مناسبت سے دیکھا جائے تو اردو میں شائع ہونے والی مفید کتابیں بھی اس سے کافی کم قیمت میں  دستیاب ہوتی ہیں جو ایک لمبی مدت تک ردّی نہیں ہوتیں نیز ردّی والا بھی اکثر انھیں خریدنے میں اخبارات کی مانند تامل نہیں کرتا.

Thursday, May 19, 2011

Urdu: Our Mother Tongue and We
Shahid Latif: Editor "Inquilab" Mumbai

زبان کی اہمیت تو خیر سے کسی دور میں کم نہیں ہوسکتی لیکن یہ حقیقت ہے کہ دور حاضر میں اس سے بے طرح انکار کیا جارہا ہے۔ لوگ باگ یہ کہنے لگے ہیں کہ زبان، ترسیل کا محض ذریعہ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں چنانچہ اگر زبان کے قواعد کا لحاظ رکھے بغیر بھی ترسیل ہوسکتی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے۔
    اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان اظہار کا وسیلہ ہے لیکن اسے اتنے محدود معنی میں دیکھنے کی کوشش بے معنی کہلائے گی ۔ اس سلسلے میں ایک مثال ملاحظہ کیجئے۔ مکان رہنے کےلئے ہوتا ہے۔ پھونس کا مکان بھی مکان ہے، اینٹ اور گارے سے بنایاہوا کچا مکان بھی مکان ہے، پختہ دیواروں سے گھرا ہوا لیکن مختصر رقبے کا مکان بھی مکان ہے اور عالی شان، وسیع و عریض محل نمامکان بھی مکان ہے۔ جب ان میں سے ہر چیز مکان ہے تب انسان پھونس کے مکان پر کیوں اکتفا نہیں کرتا جبکہ رہنےکےلئے وہ بھی کافی ہے اور مکان کی تعریف پر پورا اُترتا ہے۔ زبان صرف اظہار کا وسیلہ ہے تو مکان بھی صرف رہنے کےلئے ہوتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف ہم مکان کو زیادہ وسیع اور خوبصورت بنانے کی سعی کرتے ہیں لیکن زبان سے صرف ’’کام چلانے‘‘ کا کام لینا چاہتے ہیں۔مکان کےلئے رنگ و روغن کو ضروری قرار دیتے ہیں لیکن زبان پر معمولی سی محنت بھی نہیں کرنا چاہتے؟ مکان کو آراستہ و پیراستہ رکھنا چاہتے ہیں اور اسے اپنی حیثیت کا نشان (اسٹیٹس سمبل) گردانتے ہیں لیکن زبان کو یہ درجہ نہیں دینا چاہتے۔ مکان کی دیوار پر خراش بھی آجائے تویوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے منہ نوچ لیا ہو لیکن زبان کی دیواروں کا پلاسٹر اُکھڑتا چلا جائے تب بھی ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ مکان کو گھر اور گھر کو اُس کی تہذیب کا حامل بنانا چاہتے ہیں لیکن زبان کی تہذیب سے خود کھلواڑ کرتے ہیں۔ اور یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ ہم مکان کو مارکیٹ ریٹ کے نقطہ ٔ نظر سے آنکتے ہیں اور زبان کو بے قیمت تصور کرنے لگے ہیں جبکہ اس دور خرابات میں بھی زبان تنگ دست نہیں ہوئی بلکہ اپنے سچے قدردانوں کو بہت کچھ عطا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جو شخص اچھی زبان بولتا ہو وہ اپنے مخاطب کے دل میں جگہ بنا کر رہتا ہے۔ جو شخص بامحاورہ زبان جانتا ہو لوگ اس کی قدر کرتے ہیں۔ جو زبان کی تہذیب سے واقف ہو اُسے سر پر بٹھایاجاتا ہے۔ جو زبان کا نکتہ داں ہو اُس کا احترام کیا جاتا ہے۔ الغرض زبان کی اہمیت بھی ہے اور اس سے فائدہ بھی۔ اب اس کا انحصار ہم پر ہے کہ ہم اس کےلئے دیدہ و دل فرش راہ کرتے ہیں یا اسے سربازار رُسوا۔ آج تقریباً ہر زبان کے لوگ اپنی زبان کے ساتھ بدترین درجے کی نا انصافی کررہے ہیں۔ ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ کی ملاوٹ، تلفظات کے تئیں بے حسی، املا کے تئیں لاپروائی، محاوروں اور ضرب الامثال کو غیر ضروری سمجھنے کی فکری کجی اور زبان کی تہذیب اور اس کی اہمیت سے انکار کی سرکشی عام ہوتی جارہی ہے۔ گھر اور معاشرے کے بڑے بھی اب اپنے بعد کی نسل کو ٹوکتے نہیں ہیں ورنہ ایک زمانہ تھا جب ایک لفظ کے غلط بولنے یا پڑھنے والے کی وہی سزا ہوتی تھی جو کسی مجرم کی ہوتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کو زبان کے غلط استعمال پر نہ صرف ٹوکتے تھے بلکہ بعض اوقات سزا بھی دیتے تھے۔ اس کے برخلاف صحیح زبان بولنے اور برجستہ اشعار سنانے پر شاباشی بھی دیتے تھے اور بعض اوقات انعام بھی۔ اب شاید ہی کسی گھر میں ایسا ہوتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ ’’خواب‘‘ بے چارہ ’’کھاب‘‘ ہوکر رہ گیا اور ’’گرم‘‘ پگھل کر ’’گَرَم‘‘ ہوگیا ہے۔
    زبان کی محبت کم سے کم تر ہوجانے کے سبب زبان کی محفلوں سے اُنسیت ختم ہوگئی اور زبان کی درس و تدریس کا جذبہ مفقود۔ ز بان کام چلانے تک محدود ہوگئی جبکہ صحتِ زبان زوال پذیر ہے۔ اپنی غفلت کے سبب ہم یہ بھولتے جارہے ہیں کہ (اپنی) زبان میں ہمارا مذہبی لٹریچر موجود، ہمارا ادب محفوظ، ہماری تہذیب سلامت اور ہماری تہذیبی شناخت پوشیدہ ہے۔ زبان گئی تو ہمارا بہت کچھ رُخصت ہوجائے گا اور اگر ہمارا بہت کچھ رُخصت ہوگیا تو سمجھ لیجئے کہ ’’اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا!‘‘

    ہمیں اتنی طویل تمہید کی ضرورت صرف یہ کہنے کےلئے پیش آئی کہ گرما کی تعطیلات میں ہم، نئی نسل کو زبان کی طرف راغب کرسکتے ہیں اور اُنہیں اچھی اچھی کتابیں پڑھا سکتے ہیں۔ پاش لوکالیٹی میں مکان خریدنے کی آرزو پوری ہو نہ ہو، زبان و ادب کی پاش لوکالیٹی میں بودوباش اختیار کرنے کی تمنا (اگر پیدا کی گئی تو) ضرور پوری ہوسکتی ہے۔ اگر آپ اسے ضروری سمجھتے ہیں تو بعد کی نسل کو سمجھائیے کہ ایک بار طالب علمی کا یہ دور گزر گیا تو پھر عملی زندگی اس ذخیرے سے فیضیاب ہونے کا موقع نہیں دیتی بالخصوص اس دور میں جب مادی ترقی انسان کو ہر طرح کی دوسری ترقی سے بے نیاز کرکے پیسہ کمانے کےلئے اتنا دوڑاتی ہے کہ آدمی دوڑتا ہی رہتا ہے۔ چاہے ہانپتا کانپتا دوڑے لیکن دوڑنا ضروری ہوتا ہے!!

Tuesday, May 17, 2011

Is Mobile Phone or Tower
Hazardous
آج کل بلڈنگوں کی ٹیریس پر لوہے کے پیڑ نما سیلولر فون ٹاورس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اکثر بلڈنگوں کے مکین ایک تذبذب کا شکار ہیں کہ کہیں یہ ٹاور ان کی یا ان کے عیال کی صحت پر کوئی مضر اثر تو نہیں ڈالیں گے؟... بہت مجبوری کی صورت میں وہ سیلولر فون کمپنیوں کو اس کی تنصیب کے لیے منظوری دیتے ہیں۔ کسی بھی چیز کو صد فیصد محفوظ تو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ درجنوں تحقیقات ہوئیں لیکن ہنوز یہ ثابت نہیں کیا جا سکا ہے کہ دماغی یا کسی بھی کینسر کا سبب موبائل فون (سیلولر فون) ہو سکتے ہیں۔کینسر کی پیدائش کے اسباب جسم میں DNA کی نوعی تبدیلی (mutation)ہے۔ یہ اس وقت ہوتی ہے جب اس کا کیمیکل بانڈ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس بانڈ کے توڑنے کے لیے جس شدید توانائی کی ضرورت ہوتی ہے وہ موبائل فون کے ذریعہ استعمال ہونے والی ریڈیو لہروں میں بالکل نہیں پائی جاتی۔ اس تمہیدی مگر حاصل، گفتگو کی توسیع کے لیے ہمیں سیلولر فون کی تکنیک کو بھی سمجھنا ضروری ہے اس لیے آئیے اس پر بھی گفتگو کریں۔
بعض اشیاء ایسی ضروریاتِ زندگی بن جاتی ہیں کہ ان سے پیچھا چھڑانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ موبائل فون یا سیلولر فون ایسی ہی ایک شئے ہے۔ ہمیں اپنے بچپن کا وہ دور اچھی طرح یاد ہے جب ایلومنیم کے برتن میں کھانا پکانا مضر سمجھا جاتا تھا۔ اور یہ دھات زبردست بدنامی کا شکار ہوئی تھی۔ لیکن بعد کے دور میں تانبہ اور پیتل کے برتن باورچی خانوں سے رفتہ رفتہ رخصت پذیر ہوگئے اور آج ہر باورچی خانے میں ایلومنیم کے برتوں کی حکومت ہے۔ اس کا سب سے مفید پہلو یہ ہے کہ برتنوں کو قلعی کرنے سے لوگوں کو نجات مل چکی ہے۔
آج کل موبائل یا سیلولر فون بھی اسی قسم کی بدنامی یا اندیشوں کا شکار ہے کہ اس سے دماغی ٹیومر یا کینسر وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔

اصل میں سائنسی تحقیقات کا معاملہ فی زمانہ ایسا ہی ہے کہ جو تحقیقات پیش کی جاتی ہیں وہ پیشکش کی خوبی کے سبب جھوٹی ہو کر بھی سچ ہی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر ایسا کسی مخصوص پروڈکٹ کے ساتھ ہوتا ہے۔ پروسیس کے ساتھ نہیں۔ عمومی تحقیقات میں دیانت برتی جاتی ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے واضح کردیں کہ زیرِ بحث سیلولر فون ایک پروڈکٹ ہے لیکن اس کی ٹیکنولوجی یعنی ریڈیو میگنیٹک ویوز (Radiomagnetic Waves) پروڈکشن ایک پروسیس ہے۔ آئیے سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں کہ موبائل فون کی مضرت سے خوف کی بنیاد کیا ہے۔
تابکار شعاعیں اور ریڈیائی موجیں:

 Radiation Rays and Radiomagnetic waves
موبائل فون کی افادیت کے باوجود لوگوں میں یہ خوف ہے کہ اس میں جو لہریں پیدا ہوتی ہیں یا اس کو موصول ہوتی ہیں ان سے ٹیومر یا کینسر ہوتا ہے۔ اصل میں لہروں سے مراد صرف تابکار لہروں کا تصور ذہن میں ہوتا ہے۔ جبکہ سائنس میں لہریں کئی طرح کی ہیں۔ تابکار جوہری لہریں جنھیں Radioactive Rays کہتے ہیں یہ امواج (Waves) نہیں ہیں۔ بلکہ جوہری شعاعیں ہیں، Rays ہیں، ان کا صحیح نام ’’اَشعاع‘‘ ہے یعنی Radiation۔ ان کی مضرت سب پر واضح ہے۔ جبکہ روشنی اور آواز کی اساسی حیثیت لہروں کی ہے ’’امواج‘‘ یعنی Waves کی۔انھیں ’ریڈیائی لہریں‘ Radio waves کہتے ہیں۔ جس طرح روشنی کی مناسب مقدار آنکھوں کی صحت کے لیے ضروری ہے اسی طرح آواز کی مناسب مقدار قوتِ سماعت کے نارمل رہنے کے لیے لازمی ہے۔روشنی کی مقدار میں کمی یا اس میں شدت و اضافہ جس طرح الگ الگ نتائج پیدا کرتا ہے ویسے ہی ریڈیائی لہروں کی دوسری شکلیں بھی ہیں جن کی کمی و بیشی طرح طرح کے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ یہ اتنی متنوع ہیں کہ کسی معیار کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ تابکار شعاعیں اصل میں براہِ راست جسمانی ساختوں کو نقصان پہنچاتی ہیں جبکہ ریڈیائی لہریں تکنیکی سہاروں سے مفید نتائج کی ذمہ دار ہیں۔ ریڈیائی لہروں کو دو اہم عوامل کی ضرورت پڑتی ہے؛ برقی رَو اور مقناطیسی میدان۔ جب تک یہ دونوں مہیا نہیں ہوتے ریڈیائی لہروں سے نتائج نہیں نکلتے۔ ریڈیائی لہروں سے انسان انگنت فائدے حاصل کرتا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
٭M  اور FM  ریڈیوبراڈکاسٹ
٭ Cordless Phones
٭ آٹومیٹک (خودکار) دروازے
٭ وائرلیس نیٹ ورک، راڈر، ہوائی جہاز کے لوازمات
٭سیلCell والے کھلونے
٭ ٹیلیویژن براڈکاسٹ
٭سیٹیلائٹ کمیونکیشن... اور درجنوں دیگر وسائل وغیرہ
اب اگر دیکھا جائے تو سیلولر فون کی بھی نوعیت انھی میں سے ایک ہے۔

سیلولر فون:
سیلولر فون ریڈیو، ٹیلیویژن اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا مشترکہ استعمال کرتا ہے۔  اس کے نام کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تکنیک جغرافیائی خانوں یا قطعات (Cells) کا استعمال کرتی ہے۔ یہ خانے سیلولر فون ٹاور یا ستونوں پر منحصر ہوتے ہیں اور ان کا ایک متعین احاطہ ہوتا ہے۔ دو ٹاوروں کے احاطے ایک دوسرے پر اس طرح (overlap) چڑھ جاتے ہیں کہ ان کا بڑا حصہ مشترک ہو جاتا ہے۔ اسی لیے جب استعمال کنندہ ایک سیل سے دوسرے سیل میں داخل ہوتا ہے تو کمپیوٹرائزڈ موبائل ٹیلیفون سویچنگ آفس (MTSO) کے ذریعہ ایک ٹاور سے دوسرے ٹاور میں کال ٹرانسفر Handover ہو جاتی ہے اور سلسلۂ کلام ٹوٹتا نہیں۔ اس سلسلہ میں موبائل فون ٹیکنالوجی کتنی ایڈوانس ہو چکی ہے اس کا اندازہ کیجیے کہ اب موبائل فون کے ذریعہ ہی ویڈیوکانفرنسنگ بھی ممکن ہے، انٹرنیٹ اور ای میل کا استعمال بھی ممکن ہوچکا ہے اور اس کے علاوہ اب آفس یا گھر سے دور ہونے کے باوجود بہت سے کاروباری معاملات کے لیے اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس کا تذکرہ اس مضمون میں زیادہ ضروری نہیں ہے اس لیے ہم دوبارہ اپنے موضوع یعنی صحت کے ساتھ موبائل فون یا اس کے ٹاور کا تعلق پر لوٹتے ہیں۔
ٹاوروں کو اینٹینا Antenna بھی کہتے ہیں۔ ٹاوروں کی اپنی اپنی استعداد ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ تعداد اور فاصلے کے لحاظ سے ٹیلیفون کالس کے سگنل وصول کرتے یا بھیجتے (ٹرانسمٹ کرتے) ہیں۔ ایک ہی علاقے میں کئی ٹاور بھی ہوتے ہیں اور اب تو ایک ہی ٹاور پر مختلف ٹیلیفون کمپنیوں کے ٹرانسیورس (ٹرانسمیٹرس اور ریسیورس کا اجتماع) ہوتے ہیں۔ یہ امدادِ باہمی کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اب سروسیس میں کافی سہولت ہوگئی ہے۔ ریڈیو لہروں کے ذریعہ آواز، تصویریں، کمپیوٹر ڈیٹا کو میلوں دور کے فاصلے تک پہنچانا اب زیادہ آسان ہوچکا ہے۔حالانکہ ریڈیو لہریں نہ تو انسانی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں اور نہ محسوس ہوتی ہیں لیکن ان لہروں اور موجوں نے پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے.

Sunday, May 15, 2011

The Role of Urdu Newspapers in
Promoting Urdu Literature
ہر زبان و ادب کے فروغ اور ترویج میں اس زبان کے اخبارات کا رول بے حد اہم خیال کیا جاتا ہے۔ اہلِ دانش و بینش کا اس پر سدا اتفاق رہا ہے۔ حتیٰ کہ اردو کے ہی ایک شاعر نے کیا خوب نکتہ بیان کیا ہے کہ’’وہ قوم زندہ ہے جہاں اخبار زندہ ہے!‘‘
اصل میں کسی بھی متمدّن معاشرے کی زندگی اخبار سے عبارت ہے۔ اخبار اس تمدّن کا آئینہ ہوتا ہے۔ ادب اور اہلِ ادب زندگی کی حسین و لطیف قدروں سے معاشرے کو آگاہ اور آراستہ کرتے ہیں۔ اسی لیے جب تک اخبارات ادب کو فروغ نہیں دیں گے تب تک زندگی مستحسن قدروں سے عاری ہوگی۔
اب ہم اس ضمن میں جب اردو اخبارات کے رول کو دیکھنا چاہیں گے تو ایک طویل ماضی سے حال کو مربوط کرنا ہوگا۔ اور یہ کوئی بہت آسان کام ہے نہ اِس کا بیان ہی اُتنا سہل ہے۔ ملکِ عزیز کی برطانوی استبداد سے آزادی کے بعد اردو کی حالت پھر بھی بہت بری نہیں ہوئی تھی۔ ہندوستان کے طول و عرض میں اردو ایک مقبول زبان کی حیثیت رکھتی تھی۔ بلا تفریقِ مذہب و ملّت ایک بڑے عوامی طبقے میں اسے اظہارِ رائے کے لیے استعمال کرنے کا رواج تھا۔ لہٰذا اس دور میں اردو کے بیحد کامیاب اور معیاری اخبارات و رسائل کی ایک بڑی تعداد تاریخ میں درج ملتی ہے۔ جیسے الہلال، اردوئے معلی، جامِ جہاں نما، البلاغ، کامریڈ، تیج، صدقِ جدید؛ اور ممبئی سے شاعر،صبحِ امید، خلافت، انقلاب، ہندستان وغیرہ۔ حالانکہ دیکھا جائے تو اس وقت طباعت کے معاملات گوناگوں مسائل سے دوچار رہتے تھے جبکہ آج کمپیوٹر کی مدد سے ان تمام مسائل کو چند کلک کی مدد سے حل کر لیا جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں ہی عرض کیا کہ  اخبارات اور رسائل کی کامیابی و مقبولیت کا بڑا دارومدار ان کے مشمولات میں ادب کی شمولیت پر ہوتا ہے؛ چنانچہ اردو کے اخبارات بھی اسی لیے ترقی کرتے رہے کہ اُس دورمیں اُردو کے نامور اُدبا اور شعرا کے علاوہ سماجی معاملات و مسائل پر خامہ فرسائی کرنے والے اکثر ادبی زبان  میں ہی اظہارِ خیال کیا کرتے تھے۔
رفتہ رفتہ ہم چھ دہائیوں میں ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں کہ اخباروں کی اشاعت تو کمپیوٹر کی جدید ٹکنالوجی کے سہارے بیحد آسان ہو چلی ہے۔ پہلے زمانے میں ایک یا دو رنگوں کے ساتھ ہی اسپاٹ رنگین شمارے شائع کرنا گویا بڑا صحافتی کام انجام دینا تھا...  مگر آج کا عالم بالکل جدا ہے...  یعنی اب چہار رنگی شمارے شائع نہ ہوں تو اخبار نامکمل لگتا ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نظروں کو خیرہ کرنے والی دیدہ زیبی کے باوجود ادب کے طلبہ ہی کیا عوام کو بھی صحتمند اور تعمیری ادب میسر نہیں ہے۔ ہمارا یہ الزام ان معنوں میں نہ لیا جائے کہ اردو کے معروف اور مستند ادبا و شعراء کے رشحاتِ قلم اور کلامِ بلاغت نظام رہ رہ کر ان میں شامل کیے جاتے رہتے ہیں پھر ہم ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ بلکہ ہم اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آموختہ بیان کرتے رہنا ایک بات ہے اور نیا ادب تخلیق کرنا نیز آج کی دنیا کی ضروریات و مسائل کی ترجمان تحریروں کا سامنے آنا دوسری بات ہے۔ پہلے کے اردو اخباروں یا رسائل کے مدیران کے انتخاب کا پیمانہ بھی اداروں کے نزدیک جدا رہتا تھا۔ وہ کسی بھی ایسے صاحبِ طرز شاعر یا ادیب کا انتخاب کرتے تھے جو زمانے کی تبدیلیوں اور تقاضوں پر بھرپور نگاہ رکھتے تھے۔ ادبی دنیا میں داخل ہونے والے نئے ادبا اور شعرا کی بھرپور پذیرائی اور حوصلہ افزائی جن کا شیوہ تھا۔ معیاری تسلیم کیے جانے والے تمام اخبار و رسائل تازہ نگارشات کی اشاعت میں تعلق و تملق کو قطعی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کے نزدیک معیارمحض تعمیری و تخلیقی نگارشات ہوتی تھیں۔ اب اخباری اداروں کے پیشِ نظر صرف کاروباری مفادات ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ ایسے افراد کو منصبِ ادارت سونپتے ہیں جو اس کام میں ان کے لیے بھرپور مفید ثابت ہوں۔ ان افراد کا زبان و ادب سے یا پاسبانِ زبان و ادب سے کسی قسم کا کوئی تعلق یا رابطہ قطعی شرط نہیں رہ گئی ہے۔ اب اس طرح کیا حال پیش آئے گا اسے بیان کرنا شاید ضروری نہیں رہ جاتا۔

نئے دور میں بھی اکّا دکّا اخبارات و رسائل اس بات کا ضرور لحاظ رکھ رہے ہیں کہ ادبی حصہ میں شائع ہونے والی تحریریں غیر معیاری اور سطحی انداز کی نہ ہوں مگر ان میں اور پرانے اخبار و جرائد میں ایک فرق یہ ہے کہ نئے اخبارات ادب سے ہٹ کر دوسرے صفحوں پر یہی احتیاط روا نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے دوسرے صفحات پر زبان اور اِملے کی جو گت بنتی ہے اس سے بڑی کراہت ہونے لگتی ہے اور محسوس ہونے لگتا ہے کہ اردو ادب کی خدمت میں یہ اخبار محض اتنا ہی حصہ لینا پسند کرتے ہیں کہ ادب کی جانب سے چشم پوشی اور عدم توجہی کے الزام سے بچ سکیں۔
علاوہ ازیں ہم دیگر زبانوں سے موازنہ کریں تو وہاں زبان و ادب میں نئی کتابوں کے اضافے پر صاحبِ تصنیف یا تالیف کی بھرپور پذیرائی اور قارئین کو کتاب خریدنے پر اکسانے کے لیے اچھے تبصرے کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس جانب اردو زبان کے تعلق سے بہت کم مخلصین نظر آتے ہیں۔
نئی نسل میں ابھرنے والے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی بھی اس طرح کی جاتی ہے گویا ان پر ایک بار شائع کر کے احسان کیا جا رہا ہے۔ اور کسی نئے تخلیق کار کا مکرّر شائع ہوجانا تو جانیے خوش بختی کی معراج پر متمکن ہونا ہے۔ ان سب پر مستزاد یہ کہ انھیں کوئی معاوضہ ملنا تو درکنار ان کے اسٹیشنری کے مناسب اخراجات بھی انھیں دینے والے ادارے موجود نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔
یہی ہیں چند وجوہات کہ جن کی وجہ سے نئے قلمکار حوصلہ مند نہیں ہو پاتے اور مشقِ خامہ فرسائی رک جاتی ہے۔ اس کا انجام ہمارے اور آپ کے سامنے ہے کہ نئے زمانے کے قلمکاروں کی ترجیحات بڑی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو جاتی ہیں اور وہ بساطِ ادب سے اٹھ کر کسی اور دنیا میں مگن ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اردو اخبارات کا مناسب پلیٹ فارم فراہم نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ اس زبان میں نئے افکار و خیالات اب رقم نہیں ہو پا رہے ہیں۔ اردو اخباروں کو جلد ہی اپنی اس روِش پر مثبت طور سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ بے اعتنائی لاعلاج مرض بن چکی ہوگی۔ اچھے ادیب و شاعر اور دیگر اصنافِ ادب کے تخلیق کاروں کو اردو اخباروں کے پلیٹ فارم میسر آنے کے بعد ہی زبان کی ترقی ممکن ہے۔ ورنہ وہ دن بھی آئے گا کہ جب رونے بھی نہ پاؤگے.