To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, June 7, 2012



Muslims have to face the music
Dr. Rehan Ansari
ایک ماں کی خواہش کے برخلاف اس کی بیٹی کے حق میں ’محمڈن لا‘ کا سہارا لیتے ہوئے دہلی ہائیکورٹ کا حالیہ فیصلہ ایک مرتبہ پھر مسلمانوں اور اسلام پر حملہ کرنے والوں کے لیے بہانہ بن گیا ہے۔ گویا اس فیصلہ کے ذریعہ دہلی ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان نے مسلمانوں کی پیٹھ پھر سے کھول دی ہے کہ اب جو چاہے لٹھ لے کر دوڑے اور ان پر برسانا شروع کردے۔
اس لڑکی کی ماں مسلم ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ اس کی کمسن بیٹی کو ایک برس قبل پھسلا کر لے جانے والے مسلم شخص پر اغوا اور زنا کا معاملہ درج کیا جائے تو اس ماں کی حمایت کرنے اور فیصلہ پر تنقید کی بجائے ہم نے دیکھا کہ نام نہاد قومی میڈیا کے مبصرین نے دہلی ہائیکورٹ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر شرعی عائلی قوانین کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ یامظہرالعجائب۔
دہلی ہائیکورٹ نے اس دلیل کو تسلیم کیا کہ خود لڑکی کی خواہش ہے کہ وہ اپنے زیرِ بحث شوہر کے ساتھ رہے اور ’محمڈن لا‘ کی رو سے ایک لڑکی ’’اگر‘‘ پندرہ برس کی عمر میں ’’بالغ‘‘ ہوجاتی ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رضا سے نکاح کرکے اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گذار ے۔ اسی خواہش (مرضی) کی رو سے اس مسلم لڑکی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جاتی ہے!... جبکہ ہندوستانی قانون کی رو سے کوئی بھی لڑکی یا لڑکا اٹھارہ برس سے کمسنی میں نابالغ تصور کیا جاتا ہے یعنی (اپنی یا کسی اور کی مرضی سے) شادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ ... پھر کورٹ نے لڑکی کی سسرال والوں کو ہدایت دی کہ وہ ہر چھ مہینے پر ’’چائلڈ ویلفیر کمیٹی‘‘ کے سامنے لڑکی کو لے کر حاضر بھی ہوتے رہیں تاوقتیکہ وہ اٹھارہ برس کی نہیں ہوجاتی؛ تاکہ ’’لڑکی کا بچپن‘‘ محفوظ رہے!... کیا آپ کو ہنسی نہیں آئی؟
یہ مختلف فیصلہ کس لیے؟ کس کی بہبود کے لیے؟ کیا اسلام اور مسلم دشمن اس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھائیں گے؟ ہم نے دیکھا کہ انٹرنیٹ پر اس خبر کے ذیل میں دئیے جانے والے کمینٹ کس قدر گندے خیالات اور گالیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔




ایک دن ہی گذرا ہے کہ ’اِندرجیت ہزرہ‘ Indrajit Hazra نامی انگریزی کالم نویس کی ہرزہ گوئی سامنے آئی۔ ’دی ہندوستان ٹائمز‘ جسے عرفِ عام میں HT لکھا اور بولا جاتا ہے ، کی۷جون کی اشاعت میں اس نے اپنا تضحیک آمیز کمینٹ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’لیکن ملّا کے ’پرنسپلس آف محمڈن لا‘ کی دفعہ 251 ’ہندوستانی قانون‘ سے بالا ہوجاتی ہے؛ جس کے مطابق ہر عاقل و بالغ محمڈن شادی کر سکتا/سکتی ہے‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’بلوغت کے لیے اگر کوئی ثبوت و صراحت نہ ملے تو پندرہ برس کی عمر تسلیم کی جاسکتی ہے!‘‘ ’’اور یہ مذہبی قانون ہے جسے دہلی کی سیکولر ہائیکورٹ نے پندرہ سالہ ’ہندوستانی شہری‘ کے لیے تسلیم کیا ہے‘‘!
اندرجیت ہزرہ درج بالا سطروں میں کس کس کی تضحیک کررہے ہیں یہ بات کوئی بڑی وضاحت نہیں چاہتی۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ متعدد تضحیکات میں بیک وقت ہائیکورٹ کی تضحیک بھی کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ہزرہ نے ہندو میریج ایکٹ کی اس ضمن میں تعریف کی ہے کہ وہ شادی کے لیے کم سے کم عمر اٹھارہ سال کی تسلیم کرتا ہے جبکہ مسلم قانون ایسا نہیں کرتا!... اور مزید تنقیدیں بھی ہیں جن کا جواب دیا جاسکتا ہے لیکن ہم سرِ دست ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔
ہزرہ سے ہم زیادہ بات کیا کہیں؟ بس اتنا کہنا چاہیں گے کہ ’’ اچھی طرح دیکھ لیں اور اگر آپ کا اپنا گھر (یعنی ہندو قوانین) ہر طرح سے درست ہو تو ہی دوسرے کے گھر کے عیوب پر انگلی اٹھائیں۔ اسلام کو اور اس کے قوانین کو سمجھنا ہو تو پوری دیانتداری سے سمجھیں۔ اپنا دماغ لادنے کی کوشش نہ کریں۔ ہم اس وقت تک اسلامی قوانین کو آپ کے لیے ناقابلِ قبول سمجھتے اور جانتے ہیں جب تک آپ خود مسلمان نہیں ہوجاتے۔ اس طرح واضح ہے کہ ملک کی دوسری مذہبی اقلیتوں کی مانند ہمیں بھی اپنے مذہبی قوانین پر چلنے کی پوری آزادی دستورِ ہند سے ملی ہے اور یہ آزادی ہمارا (سبھی اقلیتوں کا) دستوری حق ہے‘‘۔
دستورِ ہند تو محض آزادی کے دن جتنا پرانا ہے، اسلام ہو، ہندو مذہب ہو یا ارضِ وطن کا دیگر کوئی بھی مذہب، ان کا زمانہ زیادہ قدیم ہے اس لیے ان کے قوانین بھی قدیم تر ہیں۔ کل اگر ہندوستان کے دستور و قانون میں ترمیمات یا حکومتوں میں تبدیلیاں جاری رہیں تو کیا سبھی کے مذہبی قوانین بھی انھی کے مطابق تبدیل ہوا کریں گے؟ ایسا ممکن نہیں ہے... ہمارا (کثیرالمذہبی) سیکولرزم یہی ہے کہ ’جیو اور جینے دو‘۔
ہمیں تو یہ توقع تھی کہ فاضل کالم نگار یا ان جیسے کمنٹیٹرس دہلی ہائیکورٹ کے ججوں کو ہندوستانی قوانین کی دہائی دے کر ان کے فیصلے پر کچھ لکھتے یا کہتے، اس بچی کی ماں کے درد کو سمجھتے اور اس کے ہمدرد بنتے، لڑکی کی آمادگی کی وجوہات کا پتہ چلاتے اور تحقیق کرتے کہ اسے کہیں بلیک میل کرکے تو بیان نہیں دلایا جارہا ہے؟ اس نامعقول شوہر کے خلاف کچھ الفاظ خرچ کرتے جس نے ’’ایک نابالغ ہندوستانی شہری‘‘ کے جسم و نفسیات کے ساتھ گھناونا کھلواڑ کیا ہے۔ مگر، افسوس، ہمیں ایسا کچھ نہیں ملا! ملا تو یہ ملا کہ ’’ملّا‘‘ ملا! ’’محمڈن لا‘‘ ملا! مسلمان ملا جس کی برہنہ پیٹھ پر سب لٹھ لے کر برسانا شروع کرچکے ہیں اور یہ ملّا بیچارہ شرعی تو چھوڑئیے طبی طور سے بھی یہ ثابت کرتا پھرے کہ بلوغت کی عمر کیا ہوتی ہے (اور کم عمری میں بھی کئی لڑکیاں ہمارے وشال دیش میں مائیں بن چکی ہیں) تو وہ ہندوستانی قانون کے خلاف ہی رہے گا!
ہم اخیر میں یہ بھی لکھنا چاہیں گے کہ پورے ملک میں اعدادوشمار اکٹھا کر کے دیکھنا چاہیے کہ مسلمانوں میں ’’اٹھارہ برس سے کم عمر میں شادیاں‘‘ کہاں رائج ہیں اور دستورِ ہند کی پامالی کہاں کہاں ہورہی ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ بہرحال ہمیں ابھی اپنی پیٹھ پر مزید لٹھیں سہنے کے لیے تیار رہنا ہوگا.

Monday, June 4, 2012

Aamir Khan's Half Truth
Dr. Rehan Ansari
۲۷ مئی ۲۰۱۲ء کو ’’ستیہ میوجیتے‘‘ پروگرام میں عامرخان نے جو کچھ پیش کیا یقینا اس میں سچائیاں تھیں؛ لیکن یہ آدھی تصویر تھی۔ اردھ ستیہ تھا۔جسے ہم اپنی زبان میں ’مریضوں کا وکیل‘ ہونا کہہ سکتے ہیں۔ ایک منطق یہ ہے کہ مریضوں کی گنتی میں ڈاکٹر بھی شامل ہو جاتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کی گنتی میں مریض نہیں آیا کرتے۔ بالفاظِ دیگر ڈاکٹروں کو بھی ڈاکٹر کی ضرورت پڑتی ہے اور مریضوں کو بھی ڈاکٹر کی ضرورت پڑتی ہے۔کسی کو کم پڑتی ہے کسی کو زیادہ۔
’ستیہ میو جیتے‘ شو میں بھی یہ مشہور مکالمہ دوہرایا گیا کہ ’ڈاکٹر کو لوگ ایشور یا بھگوان کا درجہ دیتے ہیں!‘‘ مگر دیکھا گیا ہے کہ ڈاکٹر کو اس کی مبینہ یا مفروضہ دونوں قسم کی (بشری) ’غلطیوں‘ کے لیے مریضوں کا سماج (خصوصاً شہروں میں بسنے والا تعلیم یافتہ یا نیم خواندہ سماج) ہر قسم کی سزا دینے پر اتر آتا ہے۔انھیں جسمانی اور مالی (کبھی جانی بھی) نقصانات پہنچاتاہے۔ بدتمیزیاں کرتا ہے۔ گویا وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ کب کسی ڈاکٹر کا گریبان ہاتھ میں آئے اور وہ اسے عریاں کرکے چھوڑیں۔ایک نہیں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ جانی نقصان کی مثال کی خبر زیادہ پرانی نہیں ہے کہ (غالباً کولہا پور کے قریب) ایک ڈاکٹر کے پاس ایک باربر نے اپنا علاج کروایا۔ ڈاکٹر نے اسے دورانِ علاج ایک مرتبہ انجکشن دیا تھا۔ خون کی جانچ کے بعد اسے ’ایچ آئی وی پازیٹیو‘ پایا گیا تو اس نے سمجھا کہ مذکورہ ڈاکٹر نے اسے یہ مرض دیا ہے۔ جب وہ ڈاکٹر اس کے پاس شیونگ کے لیے گیا تو اس باربر نے اس کا گلا کاٹ دیا اور ڈاکٹر وہیں فوت ہوگیا۔
ایمرجنسی کی صورت میں کسی بچے یا مریض و مریضہ کی جان بچانے کی کوششوں میں ناکامی ہاتھ آجائے تو اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور ان کے معاون عملہ پر جذبات کی رو میں بہہ کر حملہ کون کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے؟... اسپتالوں یا دواخانوں کا فرنیچر اور دوسرے مہنگے اسٹرکچر اور آلات کو تباہ و برباد کون کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے؟... دوا کا معمولی سا بھی ری ایکشن ہو جائے (جو مریض کی اپنی جسمانی کیفیت کی وجہ سے ہوتا ہے) تو ڈاکٹر کو ہر قسم کا کھرا کھوٹا کون سناتا ہے؟
آپ کو علم ہونا چاہیے کہ پورا منظرنامہ سرکار اور عوام کی وجہ تبدیل ہوا ہے۔ جب ۱۹۸۶ء میں کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ (CPA) کا میڈیکل پروفیشن پر بھی نفاذ و اطلاق ہوا تھا تو وکیلوں کی باچھیں کھل اٹھی تھیں۔ معمولی معمولی بیماریوں کے لیے ڈاکٹروں نے اپنے قانونی دفاع کے لیے پیتھالوجیکل یا ریڈیالوجیکل ٹیسٹ کیے بغیر علاج کرنا نامناسب لگنے لگا تھا۔ انھیں اندیشہ تھا کہ پتہ نہیں کس مرض کی پیچیدگی کی وجہ سے کو سا مریض انھیں کنسلٹنگ روم سے اٹھا کر عدالت کے کمرے تک پہنچا دے۔ یہیں سے ڈاکٹروں نے نہیں بلکہ چالاک، لالچی اور کاروباری طبقہ نے مریضوں کے جسم اور جیب پر اپنے دانت گاڑ دئیے تھے جس کی ترقی یافتہ شکل کو آپ نے ’ستیہ میو جیتے‘ پروگرام میں پیش کیا ہے۔
کارپوریٹ اداروں نے فائیو اسٹار اور سیون اسٹار اسپتالوں کو جنم دیا۔ جو لوٹ کھسوٹ کے سب سے بڑے اڈے ہیں لیکن یہ مالکان بدنام نہیں ہیں بلکہ سامنے جو ڈاکٹر ہیں وہ بدنام ہوجاتے ہیں۔ان اداروں کا سیٹ اپ کرنے والے افراد میں تاجرانہ ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں جو مریضوں کو طرح طرح سے لوٹنے کے حربے آزماتے ہیں لیکن ڈاکٹروں کا چہرہ سب کے سامنے ہوتا ہے اس لیے بدنام بھی وہی ہوا کرتے ہیں۔ مریضوں نے ان مہنگے اسپتالوں کی فیس کا بوجھ برداشت کرنے سے معذوری ظاہر کی وہیں انھیں ایک دوسرا راستہ ’میڈی کلیم‘ Mediclaim کا سجھایا جاتا ہے۔آخر میڈی کلیم کے کارپوریٹ فیشن کو کس نے رواج دیا ہے، اور اس کی آڑ میں کون کیا کررہا ہے؟
آئی ایم اے (IMA) اور دیگر طبی تنظیموں کا یہ اعتراض بھی بالکل بجا ہے کہ عامرخان کے پروگرام سے یہ غلط پیغام بھی گیا ہے کہ رحم (بچہ دانی) کو کاٹ کر نکالنے کی اکلوتی وجہ اس میں کینسر لاحق ہونا ہے جبکہ متعدد دیگر وجوہات بھی ہیں کہ کسی عورت کی مجموعی صحت کی خرابی کی ذمہ دار رحم میں موجود دیگر تکلیفیں بھی ہوتی ہیں۔ جس ڈاکومینٹری کے ذریعہ عامرخان نے آندھراپردیش کے غریب و ناخواندہ افراد کے گاؤں میں بیشتر عورتوں کی بچہ دانی کے آپریشن کے ذریعہ ان کو بانجھ کرنے کی سازش دکھائی ہے اس میں یہ نہیں بتلایا کہ یہ سازش کسی ڈاکٹر یا طبی ادارے کی تھی یا حکومت کے ’فیملی پلاننگ‘ ڈپارٹمینٹ کی تھی؟ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ سازش حکومت کی ہی تھی؛ کسی بھی ڈاکٹر کے جسم میں یہ شیطان نہیں پلتا کہ وہ عورتوں کا رحم کاٹتا پھرے۔
یہ بیان بھی کافی توجہ طلب رہا کہ ڈاکٹر جو برانڈیڈ Branded دوائیں لکھتے ہیں وہ جینرک Generic دواؤں کے مقابلے میں کافی مہنگی ہوتی ہیں، دس گنا تک مہنگی!... جناب عامر خان صاحب آپ یا کوئی اور سپراسٹار جب کسی نیوٹریشنل سپلیمنٹ کے اشتہار میں آتے ہیں یا مثال کے طور پر کیڈبری چاکلیٹ بار کو ہی لیجیے؛ یہ چاکلیٹ اپنی لاگت کے اعتبار سے ۲ روپے فی بار سے زیادہ کا نہیں بنتا ہوگا مگر صارفین کو بیس روپے سے کم میں دستیاب نہیں ہوتا! آپ جانتے ہی ہیں کیوں ایسا ہوتا ہے۔ جب دواؤں کو بھی برانڈیڈ کیا جاتا ہے تو اس پر سرکاری ٹیکس ایسے لگتے ہیں کہ ایک روپے کی چیز جگہ پر پانچ روپے کی ہو جاتی ہے۔ پھر پروموشن سے لے کر سیل تک اس پر جتنے اخراجات ہوتے ہیں وہ اس کی قیمت میں برابر اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔ بس اتنی سی بات کے غبارے میں آپ نے ایسی ہوا بھردی کہ وہ چرچے میں آگئی۔ اگر برانڈیڈ دوائیں مہنگی ہیں تو وہ حکومت کی پالیسیوں اور قوانین کی وجہ سے ہیں۔ ڈاکٹروں کی وجہ سے نہیں۔ آپ کی ریسرچ ٹیم کے کام سے بھی یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ ایک ہی پریسکرپشن پر دو کاؤنٹرس سے الگ الگ قیمت میں دوائیں ملیں اور ڈاکٹرس کو کوئی اعتراض نہیں رہا۔
جہاں تک ڈاکٹروں کی انسانیت کی بات ہے تو عامرخان یہ بھی سن لیں کہ جہاں کہیں ہنگامی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو جس پروفیشنل طبقے کو پہلے دن سے ہی (ضرورت کے آخری دن تک) ’فری سروسیس‘ دیتے ہوئے دیکھا جاتا ہے وہ دوسرا کوئی نہیں صرف ڈاکٹر اور ان کا معاون طبی عملہ ہوتا ہے۔ چاہے کوئی وبا پھیلے یا ارضی و سماوی آفات کا زمانہ ہو، ہر جگہ کے تمام ڈاکٹر اپنی نیند اور آرام سب تج کر متاثرین و مریضوں کا فری علاج اور دوسری خدمات کرتے ہیں۔ پورے ملک میں صرف اساتذہ کا دوسرا طبقہ ملتا ہے جو طلبہ اور ان کے سرپرستوں کے لیے ’فری رہنمائی سروسیس‘ دینے آتا ہے (حالانکہ اس میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اب کچھ جگہوں پر اساتذہ پروفیشنل انداز سے آنے لگے ہیں)۔ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ عامرخان یا ان جیسے بڑے نام والے کبھی خود سے، بغیر کسی اپیل کے، بغیر فیس لیے ہوئے سماجی کاموں کے لیے اس انداز میں آگے بڑھتے ہیں جیسے ڈاکٹرس بڑھتے ہیں! یہ تمام پروفیشنلس میں صرف ڈاکٹرس کا خصوصی امتیاز ہے کہ وہ امداد پر آتے ہیں تو بلا معاوضہ اور بلاآرام انتھک یہ کام کرتے ہیں۔
ایک بات اور لکھنے کا جی کرتا ہے کہ عامر خان کے اسپانسرس، اسکرپٹ رائٹر اور وہ خود بھی نام نہاد قومی میڈیا، سسٹم اور حکومت کی پولیں کھولنے والے ’ستیہ‘ کو شاید ہی کبھی دکھانے کی جرأت کرسکیں۔ جیسے اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور تعصبات، ان کے حقیقی مسائل کی پیشکش، پولیس کے ذریعہ معصوم نوجوانوں کا انکاؤنٹر، رات کے اندھیرے میں گھروں سے اٹھا کر نامعلوم مقامات پر قید کرکے انھیں ٹارچر کرنا اور ناکردہ گناہوں کو قبول کرنے کے لیے ہر قسم کا دباؤ، وزیر اور اسٹیبلشمینٹ میں شامل افراد کس طرح ٹینڈر کے ذریعہ کماتے ہیں اور غیرمحسوب دولت اکٹھا کرتے ہیں، بلڈرلابی کس طرح کوڑیوں کے مول زمینیں ہتھیاکر ان سے کروڑوں روپے کی فصل کاٹتی ہے؟ وغیرہ... ہمیں پتہ نہیں کیوں یقین سا ہے کہ عامرخان یا ان کے اسکرپٹ رائٹر ان عنوانات پر کوئی ستیہ دکھا نہیں پائیں گے۔ ان میں اتنی ہمت نہیں دکھائی دیتی۔ ہمیں ماضی میں پریہ تینڈولکر کا سیریئل ’رجنی‘ یاد ہے جو عامرخان کے ٹاک شو کی بجائے باقاعدہ ایک کہانی کی مانند دکھایا جاتا تھا۔ دونوں میں مماثلت کافی ہے۔ خود رجنی نے بھی اسٹیبلشمینٹ کے کالے کرتوتوں کو کبھی اجاگر نہیں کیا گیا تھا۔ وہ بھی سماج کو چھوٹے پیمانے پر لوٹنے والوں کے عنوانات سے متعلق ہوا کرتا تھا۔
عامرخان صاحب چھوٹے اسکرین پر جذبات انگیز باتوں کے بعد اپنی نمناک آنکھوں کو آستین کے کناروں سے پونچھنے کا انداز اور جذبات میں ڈوبے ہوئے حاضرین خصوصاً لڑکیوں کے چہرے اسکرین پر دکھانے سے آپ کے شو کی ٹی آر پی تو بڑھ سکتی ہے مگر حقیقت بھی افشا ہوجائے یہ ضروری نہیں ہے۔ خیر، ہمیں انتظار کرکے دیکھنا ہوگا کہ عامر خان اور ان کے اسکرپٹ رائٹر ہمارے دعوے کو جھٹلا سکتے ہیں یا نہیں.