Akbaruddin Owaisi vs Inspector Sujata Patil Who is more venomous? Dr. Rehan Ansari |
Akbauddin Owaisi being arrested in Hyderabad |
انسپکٹر سجاتا پاٹل، ماٹنگا پولیس میں سینئر ٹریفک پولیس انسپکٹر ہیں۔ ماہ نومبر 2012 میں محترمہ سجاتا پاٹل کی زہریلی فرقہ وارانہ سوچ پر مبنی ایک نظم ’آزاد میدان‘ خود ممبئی پولیس کے ماہنامہ ’ممبئی پولیس سنواد‘ میں شائع ہوئی ہے۔ یعنی اکبرالدین اویسی کی ’زہریلی تقریر‘ سے پورے ایک مہینہ پہلے۔ نظم ہندی زبان میں لکھی گئی ہے جس کا اردو ورژن ہم یہاں پیش بھی کررہے ہیں۔ اس نظم کو پورے اہتمام سے، پورے صفحہ پر دیا گیا ہے۔ یہ نظم کوئی تصوراتی یا نظریاتی نظم نہیں ہے بلکہ بیانیہ ہے۔ ’آزاد میدان‘ سانحہ کے پس منظر میں ان جذبات کا من و عن اظہار ہے جو سجاتا پاٹل کے دل میں فوری طور سے اٹھے تھے، وہ تو شکر ہے کہ محترمہ کی ڈیوٹی ماٹنگا میں ہے۔ اسے ’ممبئی پولیس سنواد‘ میں شائع کرنے سے اس نظم کی معنویت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ممبئی پولیس کا ترجمان ماہنامہ ہے۔ یقیناً بہت سے پولیس والوں میں اس کا ابلاغ ہوا ہے۔ مگر اس پر کوئی پولیس ایکشن تو کجا اس کا نوٹس تک نہیں لیا گیا۔ ملاحظہ کیجیے انسپکٹر سجاتا پاٹل کی نظم من و عن:
Image of the page bearing poem "Azad Maidan" by Insp. Sujata Patil Click to enlarge |
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
لاٹھی ہاتھ میں تھی، پستول کمر پہ تھی،
گاڑیاں پھونکی تھیں، آنکھیں نشیلی تھیں،
دھکا دیتے اُن کو، تو وہ بھی جلتے تھے،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
حوصلہ بلند تھا، عزت لُٹ رہی تھی،
گراتے ایک ایک کو، کیا ضرورت تھی اشاروں کی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
ہمت کی غدّاروں نے امرجیوتی کو ہاتھ لگانے کی،
کاٹ دیتے ہاتھ ان کے تو فریاد کسی کی بھی نہ ہوتی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
بھول گئے وہ رمضان، بھول گئے وہ انسانیت،
گھاٹ اُتار دیتے ایک ایک کو،
ارے، کیا ضرورت تھی کسی کو ڈرنے کی،
سنگین لاٹھی تو آپ کے ہاتھ میں تھی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
حملہ تو ہم پہ تھا، جنتا دیکھ رہی تھی،
کھیلتے گولیوں کی ہولی تو،
ضرورت نہ پڑتی، نوراتری میں راوَن کو جلانے کی،
رمضان کے ساتھ ساتھ، دیوالی بھی ہوتی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
سانپ کو دودھ پلا کر ،
بات کرتے ہیں ہم بھائی چارے کی،
خواب اَمر جوانوں کے،
اور جنتا بھی ڈری ڈری سی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی ٭٭٭
محترمہ سجاتا پاٹل کی اس نظم پر اور ہندوستانی مسلمانوں پر اعتبار نہ کرنے کے سلسلے میں باتیں تو بہت سی کی جاسکتی ہیں مگر ہم ان سے گریز کرتے ہوئے ان کے چند فیصلے جنھیں نظم میں استعارہ بنایا گیا ہے ان کی وضاحت ضرور چاہیں گے: ’اشاروں، گھاٹ، غدّاروں، راوَن اور سانپ‘... یہ کس خیال کے ترجمان ہیں اور اتنا کھلا ہوا پیغام کسے دیا گیا ہے۔ اگر ہمیں ایک رائے دینے کی جمہوری آزادی ملتی ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محض ایک مہینہ کے فرق سے ماہ جنوری 2013 میں ایک معمولی واقعہ کے بعد دھولیہ میں پولیس رائفل کا پہلا ٹریگر دبانے میں ہوسکتا ہے اس نظم کا بھی رول رہا ہو۔
بہرحال ہم اس بات کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ سیاست کے گلیاروں میں نووارد اکبرالدین اویسی اگر اس ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے لیے نقصاندہ ہو سکتے ہیں تو وہیں انسپکٹر سجاتا پاٹل جیسی پختہ کار پولیس افسر کے خیالات و افکار بھی اتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایک بات کو عام ہونا چاہیے کہ یہ ملک صرف ’جیو اور جینے دو‘ کا کلیہ اپنانے سے ہی پرامن رہ سکتا ہے، کسی بھی قسم کے ٹکراؤ سے ملک کے عوام اور ملک کی ترقی کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔