To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, January 10, 2013

Akbaruddin Owaisi vs Inspector Sujata Patil 
Who is more venomous?
Dr. Rehan Ansari
حیدرآباد میں رکنِ اسمبلی اکبرالدین اویسی کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ بہت اچھا ہوا۔ انھوں نے غلطی تو یقینا کی ہے۔ جس کا انھیں خمیازہ بھی بھگتنا ہوگا۔ پبلک لائف میں یہ سب تو جھیلنا ہی پڑتا ہے۔ ہم نے بھی ’یو ٹیوب‘ YouTube پر اس تقریر کی کلپ دیکھی اور سنی۔ اس کلپ کے دیکھنے اور سننے کے بعد ہمارا یہ تاثر ہے کہ انھوں نے انتہائی مکروہ اور بدمزہ انداز میں ہندوؤں کے عقائد اور کثیرمعبودیت کی بات پیش کرنے کے ساتھ ہی عیدالاضحی پر قربانی کے حوالے سے گوشت خوری کا بیان کیا ہے۔ یہ اجلاس حیدرآباد کے نرمل علاقے میں 22دسمبر 2012کو منعقد کیا گیا تھا۔ ہمارے دین اسلام میں کسی بھی دیگر مذہب کے معبود یا معبودوں کو غلط الفاظ اور انداز میں یاد کرنے یا بیان کرنے کی صریح ممانعت کی گئی ہے اس لیے اکبرالدین اویسی کو دین کے اس حکم کا بھی خیال کرنا چاہیے۔ یہ جملۂ معترضہ ہوسکتا ہے اگر ہم لکھیں کہ عقائد اور گوشت خوری کا اندازِ بیان غلط تھا، خصوصاً برادرانِ وطن کو عمومی طور سے گوشت خوری اپنانے کی بات کہنا، جبکہ ان میں سے بیشتر کے یہاں گوشت خوری کی جاتی ہے، کہیں بکرے کی، کہیں مچھلی کی، کہیں مرغ کی اور کہیں دوسرے جانوروں اور پرندوں کی اور انڈوں کی صورت میں بھی، لیکن باقی باتوں میں غیرجذباتی طور سے سوچیں تو کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کا ہندو بھی انکار کرسکیں۔ ’سگن بھکتی‘ کا عقیدہ رکھنے والے کثیرمعبودیت کے قائل ہیں اور ان میں اوتار بھی مسلسل جنم لیتے رہتے ہیں۔ انھیں عیدِ قرباں کا حوالہ دینے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ گوشت خوری کی بات صرف عید کے روز پر ہی موقوف تو نہیں ہے۔ البتہ تقریر کے کسی حصہ میں یہ کہیں بھی نہیں کہا گیا کہ ایک فرقہ دوسرے فرقہ پر نقصاندہ حملہ کرے۔ اس کے باوجود ہم اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک کے سیکولر ڈھانچہ اور برادرانِ وطن کی اکثریت کی رواداری اور جمہوری سوچ کا احترام کرنا لازمی ہے۔ اس لیے ایسے کسی بھی خیال کے عوامی مقامات پر اظہار سے بچنا ہی چاہیے۔ کیونکہ ہمارے مذاہب و عقائد میں اختلاف تو ہمیشہ رہنے والا ہے، اس کے باوجود ہم سب کی وطنی شناخت ’ہندوستانی‘ ہے اور ہمیں اپنے ملک سے ہر صورت میں محبت، اس کا احترام اور اس کے سیکولر کردار کا لحاظ و حفاظت کرنی لازمی ہے۔کیوں کہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ ہے۔


Akbauddin Owaisi being arrested in Hyderabad
اب آئیے ایک اور پہلو پر غور کریں۔ مسلمانوں یا مسلم لیڈروں کی ایک ایک حرکت اور بیان (خصوصاً اردو زبان والے) پر ایک سینسر (انگریزی املا بھی لکھ دیں تاکہ غلط فہمی نہ ہو؛ Sensor بہ معنی حساس آلہ) لگانے والے ہمارے ایڈمنسٹریشن کا یہ سینسر پتہ نہیں اس وقت کس اندھے کنویں کی نذر ہو جاتا ہے جب غیراردوداں، نام نہاد ہندوتواوادی مقررین یا صحافی، شاعر اور کارٹونسٹ حضرات اس ملک کے یکساں جمہوری حقوق  (لیکن دیگر مذہبی عقیدہ) رکھنے والے ’ہندوستانیوں‘ کی جان و مال کو نقصان پہنچانے والے پیغامات اور بیانات سے ملک کے سیکولر ڈھانچے کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیں کس خصوصی حق کے تحت۔ ماضی سے لے کر آج تک ناموں کی فہرست بھی مختصر نہیں ہے مگر حالیہ تاریخ سے چند نام جو بڑے ہیں ان میں آنجہانی بال ٹھاکرے، ڈاکٹر پروین توگڑیا، اومابھارتی، ورون گاندھی وغیرہ نمایاں ہیں۔ ان کے مقابلے میں مسلمانوں میں شاید ہی کوئی نام ایسا ملے جو ان کی ہمسری میں ہندو یا ملک مخالف بیانات دیتا رہا ہو۔ یہاں ملحوظ رہے کہ احتجاجی بیانات، فرقہ وارانہ اشتعالی بیانات کا درجہ نہیں رکھتے۔ (یہ اور بات کہ ہمارا ایڈمنسٹریشن اس کو بھی برا ہی سمجھتا ہے!)۔ کیونکہ اسی ایڈمنسٹریشن میں انسپکٹر سجاتا پاٹل کی سوچ کی حامل عورتیں اور بھی ہوسکتی ہیں اور مرد بھی۔ پولیس کی اس فکر کا ہمیں احساس ہے کہ مسلم ’کمیونیٹی‘ اور پولیس میں ایک خلیج حائل ہے، بے اعتمادی کی!۔ اس کی وجوہات یقینا ہیں جس کی ایک مثال حاضر ہے۔
انسپکٹر سجاتا پاٹل، ماٹنگا پولیس میں سینئر ٹریفک پولیس انسپکٹر ہیں۔ ماہ نومبر 2012 میں محترمہ سجاتا پاٹل کی زہریلی فرقہ وارانہ سوچ پر مبنی ایک نظم ’آزاد میدان‘ خود ممبئی پولیس کے ماہنامہ ’ممبئی پولیس سنواد‘ میں شائع ہوئی ہے۔ یعنی اکبرالدین اویسی کی ’زہریلی تقریر‘ سے پورے ایک مہینہ پہلے۔ نظم ہندی زبان میں لکھی گئی ہے جس کا اردو ورژن ہم یہاں پیش بھی کررہے ہیں۔ اس نظم کو پورے اہتمام سے، پورے صفحہ پر دیا گیا ہے۔ یہ نظم کوئی تصوراتی یا نظریاتی نظم نہیں ہے بلکہ بیانیہ ہے۔ ’آزاد میدان‘ سانحہ کے پس منظر میں ان جذبات کا من و عن اظہار ہے جو سجاتا پاٹل کے دل میں فوری طور سے اٹھے تھے، وہ تو شکر ہے کہ محترمہ کی ڈیوٹی ماٹنگا میں ہے۔ اسے ’ممبئی پولیس سنواد‘ میں شائع کرنے سے اس نظم کی معنویت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ممبئی پولیس کا ترجمان ماہنامہ ہے۔ یقیناً بہت سے پولیس والوں میں اس کا ابلاغ ہوا ہے۔ مگر اس پر کوئی پولیس ایکشن تو کجا اس کا نوٹس تک نہیں لیا گیا۔ ملاحظہ کیجیے انسپکٹر سجاتا پاٹل کی نظم من و عن:



Image of the page bearing poem "Azad Maidan" by Insp. Sujata Patil
Click to enlarge
عنوان: "آزاد میدان‘‘
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
لاٹھی ہاتھ میں تھی، پستول کمر پہ تھی،
گاڑیاں پھونکی تھیں، آنکھیں نشیلی تھیں،
دھکا دیتے اُن کو، تو وہ بھی جلتے تھے،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
حوصلہ بلند تھا، عزت لُٹ رہی تھی،
گراتے ایک ایک کو، کیا ضرورت تھی اشاروں کی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
ہمت کی غدّاروں نے امرجیوتی کو ہاتھ لگانے کی،
کاٹ دیتے ہاتھ ان کے تو فریاد کسی کی بھی نہ ہوتی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
بھول گئے وہ رمضان، بھول گئے وہ انسانیت،
گھاٹ اُتار دیتے ایک ایک کو،
ارے، کیا ضرورت تھی کسی کو ڈرنے کی،
سنگین لاٹھی تو آپ کے ہاتھ میں تھی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
حملہ تو ہم پہ تھا، جنتا دیکھ رہی تھی،
کھیلتے گولیوں کی ہولی تو،
ضرورت نہ پڑتی، نوراتری میں راوَن کو جلانے کی،
رمضان کے ساتھ ساتھ، دیوالی بھی ہوتی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی،
سانپ کو دودھ پلا کر ،
بات کرتے ہیں ہم بھائی چارے کی،
خواب اَمر جوانوں کے،
اور جنتا بھی ڈری ڈری سی،
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی    ٭٭٭
محترمہ سجاتا پاٹل کی اس نظم پر اور ہندوستانی مسلمانوں پر اعتبار نہ کرنے کے سلسلے میں باتیں تو بہت سی کی جاسکتی ہیں مگر ہم ان سے گریز کرتے ہوئے ان کے چند فیصلے جنھیں نظم میں استعارہ بنایا گیا ہے ان کی وضاحت ضرور چاہیں گے: ’اشاروں، گھاٹ، غدّاروں، راوَن اور سانپ‘... یہ کس خیال کے ترجمان ہیں اور اتنا کھلا ہوا پیغام کسے دیا گیا ہے۔ اگر ہمیں ایک رائے دینے کی جمہوری آزادی ملتی ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محض ایک مہینہ کے فرق سے ماہ جنوری 2013 میں ایک معمولی واقعہ کے بعد دھولیہ میں پولیس رائفل کا پہلا ٹریگر دبانے میں ہوسکتا ہے اس نظم کا بھی رول رہا ہو۔
بہرحال ہم اس بات کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ سیاست کے گلیاروں میں نووارد اکبرالدین اویسی اگر اس ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے لیے نقصاندہ ہو سکتے ہیں تو وہیں انسپکٹر سجاتا پاٹل جیسی پختہ کار پولیس افسر کے خیالات و افکار بھی اتنا ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایک بات کو عام ہونا چاہیے کہ یہ ملک صرف ’جیو اور جینے دو‘ کا کلیہ اپنانے سے ہی پرامن رہ سکتا ہے، کسی بھی قسم کے ٹکراؤ سے ملک کے عوام اور ملک کی ترقی کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے
۔

No comments: