To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Wednesday, August 10, 2011



What an Independance
Abuse One Day and Applaud 364
Dr. Rehan Ansari
۱۵ اگست کا دن عیدالوطن ہے، ہم نے برطانوی ظلم و استبداد سے اسی روز نجات حاصل کی تھی۔ اسی لیے ہم سب اس دن کو خصوصی اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں اور اسے ’’یومِ آزادی‘‘ کہتے ہیں۔
ہوش سنبھالنے کے بعد ہمیں جب میونسپل پرائمری اسکول میں داخل کروایا گیا تھا تو سب سے پہلے ہمیں گاندھی جی والا ’’عہد‘‘ اور راشٹریہ گیت ’’جن گن من...‘‘ رٹایا گیا تھا جسے ہم معمول کے ساتھ پڑھا کرتے تھے البتہ ان کے معانی و مطالب سے ہمیں کوئی علاقہ نہیں تھا۔ جس نغمہ نے سب سے پہلے شعوری طور پر ہمیں حب الوطنی سے آشنا کیا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ ہی تھا۔اس وقت ہم چوتھے درجہ میں پڑھ رہے تھے اور یومِ آزادی کی مناسبت سے ہمیں اپنی جماعت میں اسے پیش کرنے کے لیے یاد کروایا گیا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، ہنوز اس سے زیادہ پیارا کوئی اور نغمہ دل و ذہن کو نہیں محسوس ہو پایا۔
اونچے درجہ میں پڑھائی کے لیے ہمیں رئیس ہائی اسکول میں داخل کروایا گیا تو وہاں سے تاریخِ ہند سے بھی درجہ بہ درجہ آشنائی ہونی شروع ہوئی۔ ابتدا میں وادئ سندھ اور آریائی عہد، موریہ عہد، اشوک عہد اور پھر مغلوں کے دور تک ہمارے ملک میں جس قسم کی (متعدد و مختلف) چھوٹی موٹی سیاسی جنگیں لڑی جاتی رہیں وہ اکثر اقتدار کے حصول کی خاطر صرف حکمرانوں اور ان کی فوجوں کے مابین ہی رہیں۔ استثنائی معاملات سے اعراض کریں تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی راجہ، نواب، بادشاہ، چھترپتی یا راج گھرانے نے پوری ہندوستانی تاریخ میں اپنی پرجا (عوام) کے ساتھ عمومی ظلم و بربریت اور استحصال و ناانصافی کا کبھی کوئی باب نہیں لکھا۔ کہیں سے کوئی مستند ثبوت نہیں ملتا۔ لیکن انگریزوں نے اس ملک کو مجموعی طور سے لوٹا اور اپنے مفاد کے لیے عام ہندوستانی عوام پر ظلم و استبداد کی وہ داستانیں رقم کیں کہ ہر انصاف پسند ان سے پناہ مانگتا ہے۔ یہ خلاصہ ہے ہماری پڑھی ہوئی تاریخ کا۔ یہیں آزادی کے معنی بھی پیدا ہوتے ہیں۔
جب ہمارا تعلق بیرونی دنیا سے ہوا تو یہاں جھوٹ اور سچ کے ایک بڑے پٹارے سے سابقہ پڑا جسے اردو والے پہلے ذرائع ابلاغ کہتے تھے مگر اب نئی اصطلاح میں سب کے ساتھ یہ بھی ’’میڈیا‘‘ Media کہتے ہیں۔
میڈیا نے اس تاریخ کے چند ابواب پر جھوٹ کا ایسا ملمع چڑھایا کہ ہمارے دماغ کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ جن حکمرانوں نے اپنی اور اپنی نسلوں کو اس ملک کی خاک کا حصہ کردیا، اپنی صلاحیتیں اور اپنا سب کچھ اسی ملک کے حوالے کیا انھیں غاصب، ظالم اور جانے کیا کیا القاب دئیے اور جن انگریزوں نے اسی میڈیا کے مطلبی آبا و اجداد کو خطابات اور نوازشوں کے لالی پاپ دئیے اور عام ہندوستانیوں پر ظلم کی سیاہ راتیں طویل تر کر دیں انھیں یہ میڈیا ایک دن یعنی یومِ آزادی کی روایت کے تحت گالی دیتا ہے اور باقی دن ان کی داد و تحسین میں تالیا ں بجاتے ہوئے نہیں تھکتا۔


اب سے چوسٹھ (64) برس قبل اسی دن ہمارا ملک آزاد ہوا تھا۔ اس سے قبل پوری ساڑھے تین صدیوں (350 years) تک اس ملک کی شہ رگ پر انگریزی دانت گڑے رہے اور مسلسل اس کا لہو چوستے رہے۔ ان ساڑھے تین صدیوں میں ہمارے بزرگوں کی کئی بڑی اور چھوٹی جماعتوں نے زبردست مزاحمت کی لیکن جنگی و جدلیاتی تکنیک کی کمزوری نے ہمیشہ انھیں شکست سے دوچار کیا۔ محدود تعلیم اور زمانے نے ان کا جغرافیہ صرف خشکی تک محدود رکھا تھا جبکہ دشمن خشکی، آبی اور ہوائی وسائل کا بھرپور استعمال کرنے کی صلاحیت اور تکنیک سے لیس تھا اس لیے رہ رہ کر وہ حاوی ہوتا رہا۔ انجام کار ابتدائی مزاحمتوں کو اس عیار دشمن نے ناکام بغاوتوں کا عنوان دے کر تحریکِ آزادی کے باب سے اٹھا کر الگ کردیا۔ اسی میڈیا کے حوالے سے ہم سب بھی ابتدائی جنگِ آزادی کو بغاوت ہی سمجھتے آئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بعد میں ہمارے ’’کالے انگریزوں‘‘ نے بھی اپنے گورے آقاؤں سے پوری وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اسے میڈیا سے حاصل کرکے نصابی کتابوں میں ایسے ہی رکھ دیا۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ تین سو سال کی اس مزاحمت میں چند ایک واقعات ہی استثنائی ہیں وگرنہ کلی طور پر یہ ’’بغاوتیں‘‘ مسلمانوں سے عبارت ہیں۔ اگر یہ بغاوتیں ہی تسلیم کی جائیں تب بھی ان میں موجود حرارتِ حریت کو کیوں محسوس نہیں کیا جاتا۔ یہ حرارت انگریزی استبداد کے خلاف ہی تو تھی۔ وہ انگریزی استبداد جو عام ہندوستانیوں کی گھریلو اور چھوٹی موٹی صنعتوں کا گلا دبائے جارہا تھا، ان کی روزمرہ کی معیشت کو کچلے جارہا تھا، ان کی زمینوں اور دوسری املاک پر لگان کی صورت میں تیزاب چھڑک رہا تھا۔ کیوں ہم سب تین صدیوں کے بعد چلائی جانے والی (مصنوعی) صرف کانگریسی تحریک کو ہی آزادی کی تحریک مانتے چلے آرہے ہیں؟
The Lahore Train 1947
 کیا گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد سے یہ مسلح انگریز اتنے خوفزدہ ہو چکے تھے کہ وہ شکست کھا کر چل دئیے؟ نہیں حقائق کچھ اور ہیں اور گاندھی جی اینڈ کمپنی کو انگریزوں نے جس طرح عام ہندوستانیوں کو جل دینے کے لیے خوبی کے ساتھ استعمال کیا وہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔ تاریخ کے اوراق میں اس کے بڑے شواہد مل جائیں گے۔ اس موضوع کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ۱۹۳۵؁ء میں دوسری عالمی جنگ نہ چھڑی ہوتی اور اس میں برطانوی فوجوں کی اضافی کمک کی ضرورت نہیں ہوتی تو انگریز ہندوستان کو کبھی نہیں چھوڑتے۔ وہ خود کو بھگوڑا ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے گاندھی جی اینڈ کمپنی کو سامنے کرکے بڑی خوبیوں اور چالبازیوں کے ساتھ ان برسوں میں استعمال کیا اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستانیوں کے دلوں کو مذہبی تعصب سے بھر دیا، نتیجہ کے طور پر ہندوستانی پچھڑی، نچلی، اور مذہبی ذات برادریوں میں وسیع پیمانے پر انھی کے دور میں تقسیم ہو گئے۔ یہ تقسیم ہنوز قائم ہی نہیں ہے بلکہ مزید مستحکم ہوتی جارہی ہے۔ یہ کام بھی وہی کالے انگریز کیے جارہے ہیں جن کا شیوہ ہے ایک دن انگریزوں کو گالی دینا اور باقی دن تالیاں بجانا۔ جاتے جاتے ان انگریزوں نے یہ تک کیا کہ ہم سگے بھائی بہنوں کو ایک دوسرے سے اس قدر متنفر کردیا کہ ان کے درمیان ایک جغرافیائی لکیر کھینچ گئے اور اس لکیر نے طرفین کو ایک دوسرے کا بے ثمر اور بانجھ دشمن بنا کر رکھ دیا۔ دونوں جانب اقتدار پر قابض ہونے والے افراد یا جماعتیں اس دشمنی کو موقع بے موقع بساطِ سیاست پر پیدل کی مانند خانے کے آگے اور پیچھے چلتے رہتے ہیں۔


Only 14 years later our so called freedom fighters
were seen welcoming the cruel English Queen! Where the
hatred towards English rulers rested? Astonishing
انگریزوں نے اس ملک کے ساتھ اور اس کی عوام کی نفسیات کے ساتھ کتنا اور کیسا گھناونا کھلواڑ کیا ہے اس کے لیے ایک چھوٹا سا مضمون ناکافی ہے۔  چند اشارے شاید تشفی کا سبب ہو سکتے ہیں اس لیے رقم کرتے ہیں۔ آپ اور ہم انگریزوں کی تعمیرکردہ جتنی بھی عمارتیں دیکھیں تو وہ انجینئرنگ کا ایک اعلیٰ نمونہ نظر آتی ہیں۔ یہ سبھی عمارتیں ’’ نوآبادیاتی کام کاج‘‘ کے لیے تعمیر کردہ ہیں۔ عوام کے فائدے یا تفریح کے لیے نہیں تھیں۔ اگر ہم اس دور کی مناسبت سے غور کریں تو یہ عمارتیں ہندوستانیوں کے مقابلے میں کسی قلعہ کی مانند تھیں۔ اس قلعہ کی تعمیر میں دماغ اور تکنیک انگریزوں کی تھی مگر مزدور اور خون بہانے والے نیز اس کی محافظت اور چوکیداری پر مامور لوگ ہمارے ہندوستانی عوام ہی تھے۔ یہ انگریز اتنے عیار تھے کہ تین سو برسوں سے زیادہ کی حکومت کے باوجود ہندوستانیوں کو جدید تعلیم و تکنیک سے آراستہ کرنے کی سہولیات یہاں نہیں رکھی تھی۔ ایک بھی کالج اس عرصہ میں انگریزوں نے ایسا تعمیر نہیں کیا جہاں عام ہندوستانیوں کو جدید تکنیک اور فنون سے آراستہ کرنے کی تربیت دی جاتی۔ ارے ایک بات بے موقع یاد آگئی کہ اومابھارتی میڈم نے کہا تھا کہ ’’بابری مسجد کلنک کا ٹیکہ تھی، اسے دیکھ کر غلامی کی یاد آتی تھی‘‘ ؛ اومامیڈم سے یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ آپ کو پارلیمنٹ ہاؤس، راشٹرپتی بھون، گیٹ وے آف انڈیا، انڈیا گیٹ، (نام کی تبدیلی کے باوجود) وی ٹی اسٹیشن، پرنس آف چارلس میوزیم اور اس طرح کی عمارتیں دیکھ کر کبھی کچھ یاد نہیں آتا۔
میڈیکل کالجوں اوراسپتالوں کی بنیاد بھی اپنے سپاہیوں اور انگریزی عملہ کی بہتری کے لیے اس وقت کی گئیں جب ایلوپیتھک دوائیں آنے لگیں اور بڑی چالاکی کے ساتھ سبھی ہندوستانی طبوں کا گلا کاٹ دیا گیا۔ انگریزوں کی روانگی کے وقت تک (غیر منقسم) ہندوستان میں کل ملا کر ۱۲۰۰ اسپتال اور ڈسپنسریاں تھیں۔ اوسطاً ۳۳۰ مربع میل کے لیے ایک اسپتال تھا۔
بیوروکریسی میں بابووں کی پیدائش بھی اسی سازش کا ایک حصہ ہے۔  ایڈمنسٹریشن والوں کو ہر میڈیا آج بھی ’’بابو لوگ‘‘ کہتا ہے اور بابو نگری کو Babudom، یہ برطانوی اثرات ہی کا ثمرہ ہے۔ یہ بابو لوگ آج تک اسی تعلیم کے زیرِ اثر کام کرتے ہیں جو انگریزوں نے جاری کی تھی۔ ہماری پارلیمنٹ کے سارے کام کاج اور اس کے انتخابات کا پورا نظام آج بھی اسی ڈگر پر چل رہا ہے جوانگریزوں کا پردان کیا ہوا ہے۔ عدالتی کارروائیاں بھی آج تک انھی اداکار و مستعار خطوط پر گامزن ہیں جو انگریزوں نے مرتب کیے تھے اور اس میں کتنے چھید موجود ہیں یہ تو ایک معمولی سا ہندوستانی بھی دیکھ لیتا ہے۔ انتظامی امور میں ہندوستانیوں کو شامل کرنے کے لیے انگریزوں نے انھیں ٹیبل اور کرسیاں عنایت کر دیں۔ انھیں بابو کا لقب عطا کیا۔ انھیں مخصوص انداز میں تعلیم دی اور ان کے ذہنوں میں سپریمسی  Supremacy کا احساس بھر دیا۔ اس طویل سازش کے لیے حوالے کے طور پر لارڈ میکالے کے ’’منٹ: Minute‘‘ فروری ۱۸۳۵؁ء، کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے جو ایک Hidden Agenda  ہے  اور تعلیمی اصلاحات کے نام سے دانستہ چالاکی کا مظہر ہے۔
Macaulay`s clarification: "We must do our best to form a class who may be interpreters between us and the millions whom we govern, a class of persons Indian in blood and color, but English in taste, in opinions, words and intellect."
 یہ اصل میں غلامی پسند طبیعت والے سماج کے اونچے طبقے (جنھیں انگریزی آفس کا پیون کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے) کے لیے انگریزوں کی بہتر (غیرمزاحم) غلامی کا ہتھیار تھا جسے وہ باعزت منصب سمجھ کر انگریزوں کے ساتھ ہورہے۔ لارڈ میکالے نے خود اخیر سطروں میں انھیں ’’کالے انگریز‘‘ بنا دیا ہے۔


Even after only 60 years we show the similar
passion and preference as in pre-independance
towards the Enemy and Cruel English Rulers
انگریزوں کی غلامی کا ایک اور بڑا مظہر ہم ہندوستانیوں کی اپنے قومی کھیل یعنی ’’ہاکی‘‘ سے دور ہوجانا ہے اور ان کے کھیل ’’کرکٹ‘‘ پر دل و جان سے فدا ہوجانا ہے۔ آج ہاکی کا حال ہماری اپنی (اصلی ہندوستانی) زبان ’’اردو‘‘ سے بھی زیادہ پراگندہ اور ناقابلِ رفو ہو چکا ہے۔ اسی کے مانند اور بہت سی ہندوستانی قدروں اور فنون کا حال بھی برا ہوتا جارہا ہے اور مغربیت خصوصاً انگریزیت ہمارے تن بدن اور اعصاب و دماغ پر حاوی ہے۔ یہ انگریزیت کسی قدر امریکیت سے بھی مزین ہوتی جارہی ہے۔
جہاں تک ایک دن گالی اور باقی دن تالی والا معاملہ ہے اس کی ایک اور  مثال اکثر اپنا مکھڑا دکھاتی رہتی ہے۔وہ ہے برطانوی مہمانوں کے ساتھ ہمارا حسنِ سلوک۔ کوئی معمولی سا انگلستانی نمائندہ بھی حکومت کا مہمان ہو جائے تو اس کی آؤ بھگت میں شاہانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے۔ اس سے ہنس ہنس کر ملا جاتا ہے، مسکراتے ہوئے تصویریں کھنچوائی جاتی ہیں گویا بڑے کرم فرما سے ملاقات ہوتی ہے اور پورے اہتمام کے ساتھ انھیں میڈیا کے ذریعہ نشر و اشاعت کے مراحل سے بھی گذارا جاتا ہے۔ اگر برطانوی شاہزادہ یا ملکہ قدم رنجہ فرمادیں تو مت پوچھیے کہ ہم غلامانِ انگریز ابھی تک ان کے لیے کیسے سرخ قالین بچھانے میں سر پر پیر رکھ لیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے پڑوسی ملک کے نمائندوں کے ساتھ تصویریں بالکل معاندانہ انداز میں ہی کھنچوائی جاتی ہیں، ان کے چہرے کا تاثر بھی من و عن ویسا ہی رہتا ہے جیسے اکھاڑے کے پہلوان آنکھیں ملاتے ہیں۔ جبکہ ہر دو جانب کسی نہ کسی درجہ میں خون کا رشتہ بنتا ہے۔


Our Sports, Art and Cultural people
They too abuse the English Rulers in general population
but try to be loyal when in The English Royal company
ایسی ہی اور جانے کتنی باتیں ہیں جو ’’گاہے گاہے بازخواں...‘‘ کی مانند سامنے آتی ہیں۔ ہم نئے ہندوستانیوں نے تحریکاتِ آزادی کا ساڑھے تین سو برسوں پر محیط خونبار اور پرآشوب دور نہ کبھی دیکھا ہے اور نہ اس کی حرارت ہی محسوس کی ہے ۔ لیکن اس روایت کو ضرور سنبھالے ہوئے چل رہے ہیں کہ انگریزوں کو سال کے ایک دن تو ضرور گالی دیجیے لیکن باقی دن ان کی داد و تحسین میں تالیاں بجا کر ’’آزادغلام‘‘ کا احساس دلا دیا کریں

Mr. Jinnah was also a loyal fellow of
the Britishers. This is the proof. TOI 15th Aug. 1947 front page

Sunday, August 7, 2011



Miswak: The Key to Health

Dr. Rehan Ansari
مسواک دنیا بھر میں مسلمانوں کی شانِ امتیاز سمجھی جاتی ہے۔طلوعِ اسلام کے ساتھ ہی مسواک کا بھی تعلق ہے۔ اس سے قبل انسانی دنیا کی تاریخ میں اس پیمانے پر مسواک کے استعمال کا کوئی حکم ملتا ہے اور نہ تذکرہ و تفصیل ہی پائی جاتی ہے۔ یہ عمل اور اس کا حکم بھی صرف حضورِ اقدسؐ کی سنت سے منسوب ہے۔ یہاں یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ آپؐ سے قبل دریافت نہیں ہوئی تھی یا استعمال نہیں کی جاتی تھی۔ البتہ اس کا باقاعدہ سماجی استعمال نہیں کیا جاتا تھا؛ کیونکہ اس کے اصلی فوائد سے دنیا آپؐ کے حکم کے بعد ہی متعارف ہوئی ہے۔ پہلے کی دنیا میں مشرقِ وسطیٰ سے لے کر جنوب ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیاء تک کے خطے میں اسے محض ’’چبانے والی لکڑی‘‘ کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ مالے (ملیشیائی) زبان میں اسے  'Kayu Sugi' کہتے ہیں یعنی چبانے والی لکڑی۔
اس سے قبل دنیا بھر کے جدا جدا تمدن میں دانتوں یا منہ کی صفائی کے لیے طرح طرح کے طریقے اپنائے جاتے تھے۔ مسواک سے جانکاری حاصل ہوئی تو اسے ’’نیچرل ٹوتھ برش‘‘ کہا جانے لگا۔ وسیع تر دنیا میں دانتوں اور مسوڑھوں کی حفاظت کے لیے کچھ سنون (منجن) کے نسخے اور کیمیائی وسیلے استعمال کیے جانے لگے اور اس طرح جدید زمانے کا ٹوتھ برش اور ٹوتھ پاؤڈر یا ٹوتھ پیسٹ بنائے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طبعی (نیچرل) ٹوتھ برش اور جدید ٹوتھ برش میں کیا کوئی برتری کا مقابلہ بھی ہے؟ اس مضمون کے آخری حصے میں اس کا خلاصہ کیا جائے گا۔
تسمیہ
سِواک‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خصوصی طور سے ’’دانتوں کو رگڑنے اور صاف کرنے کے ہیں‘‘ اسی کی مناسبت سے ’’اَراک‘‘ نامی پیڑ، جسے ہمارے یہاں ’’پیلو‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کی اس شاخ کے ٹکڑے کو ’مسواک‘ کہتے ہیں جسے بغرضِ سواک استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پیڑ کا نباتیاتی نام Salvadora persica  (سیلواڈورا پرسیکا)ہے۔ یہ پیڑ شہر مکہ اور اس کے نواح کے علاوہ پورے مشرقِ وسطیٰ کی پیداوار ہے۔


Salvadora persica : The Miswak Tree
ضرورتِ مسواک
ہمارے جسم کی توانائی کا پورا انحصار غذا کے استعمال پر ہوتا ہے اور اس کے لیے منہ سب سے پہلی منزل ہے۔ غذا کا جزوِ بدن بننے کا اوّلین مرحلہ یہیں انجام پاتا ہے۔ اس عمل میں سب سے کلیدی رول دانتوں کا ہوتا ہے پھر زبان کے علاوہ منہ کے دوسرے اعضا بھی غذا کو نظامِ ہضم کے حوالے کرنے میں حصہ لیتے ہیں۔ اس پورے عمل کے دوران دانتوں کی درازوں اور مسوڑھوں کے ابھاروں نیز زبان کے اوپر بھی غذا کا کچھ (نرم اور ریشہ دار) حصہ پھنسا رہ جاتا ہے یا پھر اس کی تہہ جم جاتی ہے۔ ان تمام غذائی اجزا کو صحیح انداز سے صاف کرکے نکالنا بہت لازم ہے ورنہ یہ اجزاء وہیں پڑے رہ کر سڑنے لگتے ہیں اور ان میں جراثیم کی وجہ سے تیزابیت اور صحت کو خراب کرنے والے اجزاء پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ دانتوں کو اور مسوڑھوں کو خراب کر دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ دانت قبل از وقت ہی آدمی کو داغِ مفارقت دے جاتے ہیں۔ مسوڑھوں میں پیپ پڑ جاتی ہے اور ’’پایوریا‘‘ Pyorrhoaea جیسا مکروہ و تکلیف دہ مرض لاحق ہو جاتا ہے یعنی مسوڑھوں سے پیپ رِستا رہتا ہے اور منہ پورا متعفن ہوتا ہے۔
ذرا تصور کیجیے کہ اس طرح کے متعدد حالات اور امراض منہ کے اندر رہیں گے تو بھلا کیسے صحت کی ضمانے دی جا سکے گی؟ یہی ساری گندگیاں پیٹ میں غذا کے ساتھ اتر جائیں گی اور پھر پیٹ میں نئے نئے امراض کا موجب بنیں گی۔اسی لیے دانتوں، مسوڑھوں، زبان اور منہ کے دیگر تمام اندرونی متعلقات کی خاطر خواہ صفائی ضروری کام ہے اور یہ کام نئے دور میں سیکڑوں قسم کے ٹوتھ پیسٹ اور ہزاروں ماڈل کے ٹوتھ برش کے ذریعہ انجام دیا جارہا ہے۔ پھر بھی کسی کو مکمل اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ اور وہ رہ رہ کر اپنا ٹوتھ پیسٹ یا پاؤڈر کا برانڈ کبھی بدلتا ہے تو کبھی ٹوتھ برش کی ساخت و ماڈل کو تبدیل کرنا مناسب خیال کرتا ہے۔ اسی کے مقابل میں مسواک جیسی فطری و طبعی شئے ہے جس کا استعمال و افادیت ہمیشہ وسعت سے دوچار ہے۔ اسی لیے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ مسواک صحت کی کلید (کنجی) ہے۔
جہاں تک مذہبی رخ سے دیکھنے کا تعلق ہے تو پیغمبرِ آخرالزماں اور خیرالبشر نبیِ مکرم محمد مصطفےٰؐ  نے اس کے احکامات اتنے پیارے انداز اور اتنی حکمتوں سے دئیے ہیں کہ بزبانِ شاعر ’’نہ چاہنے والا بھی اِک بار بڑھ کے پی جائے‘‘۔ حسنِ ترغیب کا یہ پہلو تو لاثانی ہے کہ ’’اگر میری اُمت پر شاق نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا‘‘۔ اس کے علاوہ بھی متعدد صحیح احادیث میں مسواک کے استعمال کو عادت بنا لینے کی بابت تواتر سے احکام دیئے ہیں جیسے جب آپ اپنے گھر یا کسی کے گھر میں داخل ہوں تو اس سے قبل مسواک کرلیا کریں، سفر شروع کرنے سے قبل یا اس کے خاتمے پر مسواک کیا کریں، جمعہ کو مسواک کیا کریں، سونے سے قبل اور جاگنے کے بعد مسواک کر لینا چاہیے، بھوک یا پیاس محسوس ہو تو مسواک کرنا چاہیے، یا کسی بھی تقریب یا مجلس میں شمولیت سے پہلے مسواک کرنا اچھی بات ہے۔
حضرت علی مرتضیٰؓ سے منقول ہے کہ ’’مسواک حافظہ بڑھاتی ہے اور رب کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے‘‘۔ ان احادیث و اقوال کی تشریح میں جائیں تو دورِ حاضر میں کی جانے والی تمام تحقیقات دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہیں کہ انسانی صحت کا دارومدار طہارت و پاکیزگی پر ہے جبکہ ان کا حصول منہ اور دانتوں کی صفائی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے اور طہارت تو نصف ایمان ہے۔
ہمارے ملک و معاشرے میں برائے مسواک پیلو کی شاخ کا ٹکڑا یا پھر نیم کی شاخ کا ٹکڑا مستعمل ہے۔ نیم کے تعلق سے تو پورا ایک علیحدہ مضمون درکار ہوگا البتہ ایک مشہور قول ہے کہ ’’نیم، سب سے بڑا حکیم‘‘ جو سب کچھ کہہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا بھر میں تقریباً سترہ ایسے پیڑ ہیں جن کی شاخوں سے مسواک کا کام لیا جاتا ہے۔ ان سب میں فوقیت پیلو کی مسواک کو ہی حاصل ہے اور اس کا سبب یہ بھی ہے کہ پیلو کی مسواک ہی اصل حکم میں شامل ہے۔ دوسرے تمام پیڑ کسی نہ کسی طرح دوسرے استعمالات میں بھی آتے ہیں مگر پیلو کی شاخ مسواک محض ہے۔
آئیے اب ہم سائنسی تحقیقات کی روشنی میں مسواک یا خشبِ اَراک یا کہیے پیلو کی لکڑی کے ان طبی فوائد پر نظر کریں کہ جو اس مضمون کا اصل منشا ہے۔
جدید تحقیقات
WHO(عالمی تنظیم برائے صحت) نے ۱۹۸۶؁ء میں مسواک کا استعمال اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ ۲۰۰۰؁ء میں ایک تحقیقی رپورٹ پیش کی گئی جس میں مسواک کا کیمیاوی تجزیہ کرنے پر زور دیا گیا۔ ۲۰۰۳؁ء کی تحقیقات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوئی کہ مسواک کا استعمال کرنے والوں کی دہنی (Oral) صحت مصنوعی برش کا استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر نتائج کی حامل تھی۔ یہ بات بھی ڈاکٹر عتیبی
Al-Otaibi M اور ڈاکٹر رامی محمد ثیابی Dr. Rami Mohammed Diabi کی سترہ برسوں کی تحقیقات سے سامنے آئی کہ مسواک کا استعمال کرنے والوں کے جسم میں قوتِ مدافعت زیادہ افزوں تھی نیز مختلف قسم کے نشوں کی عادت بھی چھڑانے میں مسواک مددگار ثابت ہوئی تھی۔
مسواک کے اندر پائے جانے والے کیمیائی اجزا کے اثرات کا موازنہ جدید ترین دافعِ تعفن ادویہ جیسے Ticlosan, Chlorhexidine سے بھی کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مسواک ان دواؤں کے مانند ہی منہ کو تعفن سے محفوظ رکھتی ہے اور دانتوں پر جمنے والے سخت میل (پلاق Plaque ) کو ختم اور نابود کرتی ہے۔ مسواک مسوڑھوں پر ہلکی مالش (دلک) کے ذریعہ انھیں مضبوط بناتی ہے اور دانتوں کو سڑنے سے بچاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پہلے سے خراب دانتوں کی خرابی کو محدود کر کے انھیں مزید خراب ہونے سے محفوظ کرتی ہے۔ منہ سے بدبو کو زائل کر کے ایک خوشگوار احساس و ذائقہ بھر دیتی ہے، دانتوں کو چمک اور رونق دیتی ہے۔
مسواک کے ریشوں میں سیلولوز کافی مقدار میں ہوتا ہے اور وہ کچھ اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ وہ کتنا بھی دباؤ پڑے جلدی ٹوٹتے نہیں ہیں اور اتنے لچکدار ہوتے ہیں کہ کسی بھی انداز کی دراز یا کونا ہو اس میں سرایت کرسکتے ہیں، علاوہ ازیں ان ریشوں میں باریک باریک نلکی نما خلا بھی موجود ہوتے ہیں جو دباؤ کے زیرِ اثر Capillary Action کی مانند کام کرتے ہیں اور دانتوں کے درمیان پائے جانے والے مضر اجزاء اور بیکٹیریا کو اپنے اندر چوس کر گرفتار کر لیتے ہیں۔  یہ بیکٹیریا اگر ختم نہیں ہوتے تو ایسے انزائم پیدا کرتے ہیں جو دانتوں کا انیمل (Enamel)  خراب کر دیتے ہیں اور کیلشیم تباہ کردیتے ہیں۔ اس طرح دانتوں میں سوراخ اور گڑھے پیدا ہو جاتے ہیں۔ان میں بدبودار اجزا اور گیس کی پیدائش ہونے لگتی ہے۔
کیمیائی اجزاء
مسواک کے اندر جو کیمیائی اجزاء اور معدن دریافت کیے گئے ہیں ان میں ’ٹرائی میتھائیل امائن‘ (Trimethylamaine)، ایک الکلائیڈ ’سیلواڈورین‘ Salvadorine، پوٹاشیم کلورائیڈ، کافی مقدار میں فلورائیڈ اور سلیکاilica، سلفر (گندھک)، وِٹامن سی، صابنی جز ’سیپونِن‘aponin، اور سوڈیم بائی کاربونیٹ، کیلشیم آکسائیڈ،   Flavenoid، اور Sterol موجود ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر جراثیم کش خصوصیات رکھتے ہیں، مجفف (رگوں کو سکیڑنے والی) ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مسوڑھے پلپلے نہیں ہو پاتے، ان سے خون جاری ہونے کا امکان نہیں ہوتا اور مضبوط ہوتے ہیں، یہ پلاق (سخت میل) کی پیدائش کو بھی روکتے ہیں۔ دانتوں میں زُودحسیّت (Hypersensitivity) پیدا نہیں ہو پاتی جسے عام زبان میں ’’دانتوں میں پانی لگنا‘‘ کہتے ہیں۔ ایک خوشگوار بو رکھنے والا فراری روغن (Essential oil) بھی ہوتا ہے جس سے منہ اور سانس میں بدبو زائل ہوتی ہے اور تازگی کا احساس ملتا ہے۔
نقلی دانتوں اور اشیاء کا استعمال کرنے والے گروپوں پر بھی مسواک کا تجربہ کیا گیا تو نتائج مسواک کے حق میں زیادہ نکلے۔ ان مریضوں میں مسوڑھوں کی حفظِ صحت کے علاوہ نقلی دانتوں کی صفائی کی وجہ سے ان پر اُگنے والی کائی اور جراثیم کی پیدائش کے لیے مانع پائی گئی۔ اس طرح نسبتاً زیادہ بہتر نتائج نکلے۔


Miswak is sold loose and in branded packs too
مسواک کے تعلقات سے ہدایات:
مسواک کی لمبائی بیش و کم ایک بالشت کی ہونی چاہیے۔ اس کی موٹائی ہاتھ کی چھوٹی انگلی جتنی مناسب ہوتی ہے۔
مسواک کو داہنے ہاتھ سے اس طرح پکڑیں کہ چھوٹی انگلی کو مسواک کے نیچے اور انگوٹھے کو مسواک کے سرے کے بازو اور نیچے اور بقیہ تینوں انگلیوں کو مسواک کے اوپر ٹکائیں۔
مسواک کے سرے کو بھگو کر اور چبا کر برش کی مانند کر لیں۔
پہلے دائیں جانب کے اوپری ڈاڑھوں کو صاف کرنے کے لیے داخل کریں اور اوپر نیچے حرکت دے کر ہلکے ہلکے رگڑیں۔ اس طرح بتدریج سامنے کے دانتوں تک لائیں، اس کے بعد نیچے سمنے والے دانتوں کو اسی انداز میں رگڑتے ہوئے اندر کی جانب لوٹیں اور نیچے کی آخری ڈاڑھ تک جائیں۔
اسی طرح کا عمل بائیں جانب بھی کریں اور ہر مرتبہ کم از کم تین مرتبہ ایسا کریں۔
دانتوں کو افقی (آڑے) انداز میں صاف مت کیا کریں کہ اس سے مسوڑھوں کے زخمی ہوجانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
استعمال کے بعد مسواک کو پانی سے اچھی طرح دھو کر صاف کرلین اور کھڑا کر کے رکھیں جس میں برش والا سرا اوپر رہے۔
اگر مسواک سوکھ گئی ہو تو اسے پہلے پانی سے یا گلاب پانی سے تر کرلینا چاہیے۔ اگر یہ دستیاب نہ ہو تو منہ کا لعاب بھی کافی ہوتا ہے۔
اپنی زیرِ استعمال مسواک دوسروں کو استعمال کرنے نہ دیں۔ اور دوسروں کے سامنے بھی مسواک کرنے سے گریز کرنا چاہیے تاکہ دوسروں کو کسی قسم کی کراہت اور ناگواری کا احساس نہ ہو۔
جدید ٹوتھ برش بمقابلہ مسواک:
٭مسواک کو وسیع تر پیمانے پر سماج میں دانتوں کی حفظِ صحت کے لیے جاری کیا جانا ٹوتھ برشنگ سے زیادہ آسان ہے۔ ٭ ٹوتھ برش کے ساتھ ٹوتھ پیسٹ/پاؤڈر لازمی شئے ہے اس کے برخلاف مسواک تنہا کافی ہے۔ ٭جدید ٹوتھ پیسٹ یا پاؤڈر میں اتنے کیمیائی اجزاء کی شمولیت نہیں ہوتی جتنے مسواک میں ہیں اور اگر کسی کمپنی نے کی بھی تو وہ خاصا مہنگا ثابت ہوگا۔ ٭ مسواک کودن میں کئی مرتبہ استعمال کرنا بالکل سہل ہے اور اسے جیب میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ ٭ ٹوتھ برش کی جڑوں میں جراثیم کا پلنا بڑھنا کافی آسان ہوتا ہے اور عموماً برش کی برسٹلس (ریشوں) کی جڑوں میں گندگی جمع ہو ہی جاتی ہے جسے بارہا کوشش کے باوجود مکمل صاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے برخلاف مسواک کے ریشوں میں ایسی گندگی جمع ہونے کا امکان نہیں ہوتا بلکہ اسے فوراً کاٹ کر پھینکا جا سکتا ہے اور بار بار اسے نیا بنایا جا سکتا ہے۔ ٭ٹوتھ برش وغیرہ خراب ہونے کے بعد ضائع کرنا ایک ماحولیاتی مسئلہ ہے جبکہ مسواک کے طبعی ریشے ضائع کرنے کے بعد خود بخود مٹی بن جاتے ہیں۔ اس طرح مسواک کو ماحولیات کی آلودگی مٹانے میں معاون  اور Bio-friendlyسمجھا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔