To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Sunday, October 25, 2015

Qalam Goyad Ki Man Shah-e-Jahanam
By: Shahid Latif ; Editor: "Inquilab" Daily, Mumbai
مرکزی حکومت کے خواب و خیال میں بھی نہ رہا ہوگا کہ ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی اور عدم تحمل کے رجحان  کے خلاف سماج کے ایسے طبقے سے آواز اُٹھے گی جس کے بارے میں یہ غلط فہمی عام ہوکر تقریباً پختہ ہوچکی ہے کہ اس طبقے کے لوگ کچھ لکھتے ہیں، ایک دوسرے کو سناتے ہیں، دانشورانہ باتیں یا بحثیں کرتے ہیں اور پھر منتشر ہوجاتے ہیں یعنی اس طبقے کا سماج پر کوئی اثر نہیں  لہٰذا   سیاست کو اس سے کوئی خطرہ نہیں۔
جب کرناٹک کے اکا دکا ادیبوں نے ایوارڈ واپس کرنے کا اعلان کیا تو حکومت نے اس کی قطعی پروا نہیں کی۔ جب اُدے پرکاش جیسے ادیب نے ایوارڈ لوٹایا تب بھی حکومت نے کوئی تاثر نہیں دیا۔ دھیرے دھیرے ایوارڈ لوٹانے والے ادیبوں کی تعداد بڑھنے لگی تو حکومت متوجہ ہوئی اور جب یہ تعداد اور زیادہ بڑھی تو اس نے ایوارڈ لوٹا کر حکومت کو ’’بدنام کرنے کے رجحان‘‘ کی حوصلہ شکنی کی۔ مہیش شرما نے ادیبوں سے بے ادبی کے لہجے میں کلام کیا۔ ارون جیٹلی کا انداز بھی گستاخانہ تھا۔ اُنہوں نے ادیبوں کے اس رجحان کو ’’مینوفیکچرڈ ریوالٹ‘‘ (کسی کے اُکسانے پر ہونے والی بغاوت) قرار دیا۔ اس دوران میڈیا کی بھی ’’مدد‘‘ لی گئی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ بے چین،   ادیب نہیں بلکہ  وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو حاشئے پر آگئی ہیں اور یہ اُنہی کا کیا دھرا ہے۔ اس کے باوجود ادیبوں کی ’’ایوارڈ واپسی مہم‘‘ کو سبوتاژ نہیں کیا جاسکا بلکہ رفتہ رفتہ آمادۂ احتجاج ادیبوں کی تعداد پچاس تک پہنچ گئی۔ ایف ٹی آئی آئی کے طلبہ کے ناقابل تسخیر ثابت ہونے کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب ملک کے ادباء بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہونے لگے۔ اگر ادیبوں کا  احتجاج انفرادی نہ رہ کر اجتماعی اور منظم ہوتا تو جتنے ایوارڈ لوٹائے گئے اُس سے زیادہ لوٹائے جاسکتے تھے۔ اس کے باوجود  یہ تحریک عالمی خبروں کا حصہ بن گئی۔ ادیبوں کی عالمی انجمن ’’پین انٹرنیشنل‘‘نے، جس کا صدر دفتر لندن میں ہے، ۱۷؍اکتوبر کو ایک بیان جاری کیا جس میں ایوارڈ لوٹانے والوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’پین انٹرنیشنل کی ۸۱؍ ویں کانگریس میں شریک ہونے والے دُنیا بھر کے ادیب ، ہندوستان کے اُن ادباء کے حوصلے کو سلام کرتے ہیں جو ہندوستانی ادب کی وسعت اور اس کے تنوع کی ترجمانی کرتے ہیں۔ پین انٹرنیشنل، ہندوستان سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اپنی آئینی اقدار کے تحفظ پر توجہ دیگا تاکہ ہر ہندوستانی شہری کا سر اونچا رہے اور اس کےدل میں کسی قسم کا خوف  نہ ہو۔‘‘  پین انٹرنیشنل کے اس بیان میں جہاں ایوارڈ لوٹانے والے ادیبوں کے نام شامل کئے گئے وہیں مرکزی وزیر ثقافت مہیش شرما کا نام لے کر اُن کے گستاخانہ  بیان کی مذمت کی گئی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوارڈ کی واپسی احتجاج کا واحد طریقہ نہیں ہے لیکن ایسے وقت میں جب یہ طریقہ مؤثر ثابت ہو رہا ہو، اسی کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔  ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا جب بیک وقت اتنے سارے ادیب، جن کا تعلق مختلف زبانوں اور علاقوں سے ہو،  فکری یک جہتی کے مظاہرے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کے مقصد سے ہم صف ہوئے ہوں تاکہ بھگوائیت کے اُس سیلاب کو روکیں جس کی اگلی منزل فسطائیت کی سونامی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتی۔  یہ وہ ادیب ہیں جن کے ضمیر زندہ ہیں، جو انسانیت کا درد محسوس کرتے ہیں، جو ادبی اتحاد کے ذریعہ قومی اتحاد کو بچانا چاہتے ہیں، جو باطل پر حق، جھوٹ پر سچ اور بے ضمیری پر ضمیر کی بالادستی پر قلم ہی نہیں چلاتے، ان صفات سے متصف ہوکر عملی جولان گاہوں میں خود کو ثابت بھی کرتے ہیں۔  راقم یہ ہرگز نہیں کہتا کہ حددرجہ مادیت اور صارفیت نے  بہت سے ادیبوں کومصلحت اندیش نہیں بنا دیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اول تو سارے ادیب ایسے نہیں، دوئم یہ کہ مصلحت کوشی کے باوجود بعض حالات میں ادیبوں کو  انعام سے زیادہ وہ اطمینان درکار ہوتا ہے جو ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔  لیکن، اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم ہر اُس ادیب سے، جو ایوارڈ لوٹانے کے طریق احتجاج سے متفق نہ ہو، بالکل اُسی طرح ضمیر کا سرٹیفکیٹ مانگنے لگیں جس طرح مسلمانوں سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مانگا جاتا ہے۔
یہاں ایک بات اور صاف ہوجانی چاہئے۔ چونکہ کلبرگی قتل اور اس کے بعد سانحۂ دادری سے دل برداشتہ ادیبوں کے پاس ساہتیہ اکادیمی کا ایوارڈ تھا جسے لوٹا کر وہ اپنے غم و غصے اور بے چینی کا اظہار کرسکتے تھے اسلئے اُنہوں نے ساہتیہ اکادیمی ایوارڈ لوٹا دیا، اگر اُن کے پاس کوئی اور ایوارڈ ہوتا بالخصوص براہ راست حاصل ہونے والا سرکاری ایوارڈ تو وہ اُسی کو یا اُسے بھی لوٹاتے۔ آپ نے دیکھا کہ بعض فنکاروں نے اپنا پدم شری لوٹانے کا بھی اعلان کیا اور بعض نے ریاستی اُردو اکیڈمی کا ایوارڈ لوٹایا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ادیبوں کا غصہ اُن اداروں کے خلاف نہیں جہاں سے اُنہیں ایوارڈ ملا۔ اُن کا غصہ ملک کے مخدوش حالات اور اُس حکومت کے خلاف ہے جو خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ساہتیہ اکیڈمی نے جمعہ ۲۳؍ اکتوبر کو اپنی ہنگامی میٹنگ میں کلبرگی کے قتل کی مذمت کی، ادیبوں سے ایوارڈ دوبارہ قبول کرلینے کی اپیل کی اور یہ اشارہ دیا کہ ادیبوں کے احساسات و جذبات سے حکومت کو باخبر کرایا جائیگا۔ ہرچند کہ ساہتیہ اکیڈمی نے قرارداد منظور کرنے میں تاخیر سے کام لینے کے باوجود کوئی ٹھوس مؤقف اختیار نہیں کیا لیکن چونکہ ادیبوں کا غصہ حکومت کے خلاف ہے اس لئے حکومت کی یقین دہانی سے قبل مشکل ہی ہے کہ ادباء محض ساہتیہ اکادیمی کی قرارداد سے مطمئن ہوجائیں۔
ایوارڈ واپسی کے سلسلے کی ایک کڑی اُردو کے مشہور شاعر منور رانا بھی ہیں جنہوں نے پہلے تو ایوارڈ لوٹانے والوں کی مذمت کی (اُن کا بیان تھا کہ تھکے ہوئے رائٹر ایوارڈ لوٹا رہے ہیں)، پھر  یہ کہتے ہوئے خود بھی ایوارڈ واپس کردیا کہ آئندہ کوئی سرکاری انعام قبول نہیں کروں گا، پھر اچانک ایسے بیانات دینے لگے جن سے، اُن کے تعلق سے بدگمانیاں ہی پیدا ہوسکتی ہیں۔ سو شل میڈیا پر اُن کے خلاف جو کچھ بھی لکھا جارہا ہے وہ اُن کے بیانات کے خلاف عوام میں پھیلی بے چینی اور ناراضگی کا ثبوت ہی ہے۔ اِس کے باوجود راقم الحروف محسوس کرتا ہے کہ اس ایک واقعہ سے ادیبوں کی تحریک متاثر نہیں ہوگی بلکہ اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک وہ ماحول تبدیل نہیں ہوتا جن سے ادیبوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اطلاعاً عرض ہے کہ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، مراٹھی کے ۹؍ ادیب ریاستی حکومت کو اپنا ایوارڈ واپس کرنے منترالیہ پہنچے ہیں اور اس سے قبل ۱۰۰؍ سے زائد ادیبوں نے دہلی میں خاموش مارچ کیا ہے یعنی قلم اعلان کررہا ہے کہ وہ شاہِ جہاں ہے! 

Saturday, October 24, 2015




سنگھ پریوار کا مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کےلیے نیا پینترا


از: ڈاکٹر ریحان انصاری
کہنے کو تو ہمارا ملک آزاد ہے، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہبی امور کی ادائیگی کی دستوری آزادی اور حق حاصل ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ مختلف موقعوں کی مناسبت سے ملک کے مسلمانوں کو یہ دستوری حقوق حاصل نہیں ہوتے یا دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے جذبات کے احترام میں انهیں باز رہنا پڑتا ہے۔ غلامی کے دور سے لے کر آزاد ہندوستان تک کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے مذہبی رواداری کے لیے ہمیشہ اپنے برادرانِ وطن کے جذبات کو ملحوظ رکھا۔ دوسری جانب برادرانِ وطن کی اکثریت نے بھی سدا رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے ماضی میں عیدِ قرباں کے موقعوں پر مذہبی امور کی ادائیگی میں معاونت برتی تھی۔ آج بھی ہمارے غیرمسلم بھائیوں میں ایسے افراد کی اکثریت ہی ہے۔ لیکن آزادیٔ وطن سے ربع صدی پہلے وجود میں آئے ہوئے سنگھ پریوار کی (ابھی ابھی) لگام ڈھیلی ہوتے ہی اس کے پنجے اور شکنجے خونخوار ہو گئے۔ خود کو سبزی خور مشہور کرنے والوں نے رہ رہ کر مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھائی ہے۔ نفرت و تعصب کی آگ پھیلانے اور اس ملک پر بلاشرکتِ غیرے راج کرنے کے لیے یہ پریواری جس موقع کی تلاش میں تھے وہ انھیں تقریباً ایک صدی کا انتظار کرنے کے بعد ہاتھ لگا ہے۔ مگر انھیں یہ غلط فہمی بھی ہے کہ انھیں اب اپنا ایجنڈا زیرِعمل لانے سے کوئی نہیں روک سکے گا! یقیناً اقتدار پر قبضہ ان کے لیے کچھ من مانیاں کرنے کی آسانی ضرور پیدا کررہا ہے اور وہ بھی پوری طرح سے اس موقع کا استعمال حسبِ ارادہ کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع کرنا نہیں چاہتے، لیکن؛ ... لیکن انھیں انسانی مزاج اور تاریخ کا یا تو علم نہیں ہے یا پھر خوش فہمی اور تجاہلِ عارفانہ میں مبتلا ہیں کہ اب اقتدار کسی دوسرے کے ہاتھ منتقل نہیں ہوگا! انسانی تاریخ میں عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد من مانی کرنے والوں نے ہمیشہ منہ کی کھائی ہے اور تاریخ کے سیاہ ابواب میں ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ ہم حالیہ قتل (دادری سانحہ)، وارداتوں اور خبروں کا اعادہ اور ان پر تبصرہ نہ کرتے ہوئے وقت اور جگہ بچانا چاہتے۔ البتہ ان کے حوالوں سے کچھ نتائج نکال کر ایک فکر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریسی دورِ اقتدار رہا ہو یا درمیان میں این ڈی اے کے روپ میں (کسی قدر مجبور) سنگھ پریوار کا راج رہا ہو؛ آزادیٔ وطن کے فوراً بعد گاندھی جی کے قتل کی سازش سے لے کر آج اخلاق کے قتل تک، سنگھ پریوار کا اکلوتا ایجنڈا یہی رہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں چین و سکون سے رہنے نہیں دینا ہے۔ اس کی نظر میں دیگر تمام مذاہب کے ماننے والے کم و بیش ’’چل جائیں گے‘‘ لیکن کسی ایک مسلمان کا چہرہ دیکھنا تک انھیں کبھی گوارا نہیں ہوتا۔ یہ عیار و چالاک ٹولہ ابتدا سے ہی موقع شناس ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کی تعلیمی، سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور مذہبی انفرادیت کا دشمن یوں بنا رہا کہ بیوروکریسی کی ہر اہم کرسی پر اسی کے گُرگے اور اسی کی بساط کے پیادے، گھوڑے، اونٹ، ہاتھی اور وزیر مقرر رہتے رہے ہیں۔ ان کی کینچلی اس وقت اترتی ہے جب وہ ریٹائر منٹ کے بعد خاکی نیکر سے اپنی وفاداری کی تجدید کا اعلان کرتے ہیں۔ اپنے پورے دورِ ملازمت میں وہ مسلمانوں، مسلم اداروں، مسلم نمائندگیوں اور مسلم نوجوانوں کی ہر بہبود کی راہ میں روڑے اٹکانے اور ان کی کوششوں کو ناکام بنانے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں۔ کبھی کبھار ہی ناکام ہوتے ہیں لیکن اکثر اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اب اسی بات کو لے لیجیے کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد جب مسلمان تعلیمی پیش رفتیاں کرنے لگے تو ان کے باصلاحیت اور باعزم و باحوصلہ نوجوانوں کو بم دھماکوں کے الزام میں سلسلہ وار گرفتار کرکے جیلوں میں سڑایا جانے لگا۔ ہیمنت کرکرے جی کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ انھوں نے ان سازشیوں کو برسرِعام بے نقاب کردیا۔ انجام کار ایکسپرٹ بھگوا دہشت گرد قانون کے شکنجوں میں بری طرح پھنس گئے۔ جو اِدھر اُدھر دبکے بیٹھے تھے ان سے دھماکہ خیز مادے سنبھالے نہیںجارہے تھے تو ان کے مکانات یا فیکٹریوں میں ہی وہ پھٹنے لگے۔ سنگھ پریوار نے (مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے بعد ) یہ حربہ بھی ناکام ہوتا دیکھا تو اس نے پینترا بدلا۔ نصیب سے ڈیڑھ برس قبل اسے اقتدار ہاتھ آگیا۔ اس کا استعمال کرتے ہوئے اس نے اپنے تمام شرپسندوں کو کھلا چھوڑ دیا۔یہ ٹولہ ’’فلاں فلاں جہاد‘‘ ’’گھرواپسی‘‘ وغیرہ کے بعد اب ’’مقدس گائے‘‘ کا حیلہ اپنا کر مسلمانوں کو وسیع تر اور منظم فسادات کرکے پریشان و تباہ کرنے کے درپے ہے۔ میڈیا اور انتظامیہ کامعاملہ بھی پوری طرح مشکوک رہتا ہے۔ کیا ہندوستان میں امن و سکون اور سلامتی کی اس طرح ضمانت دی جاسکتی ہے کہ ایک دوسری بڑی اکثریت کو آپ اذیتوں اور پریشانیوں میں مبتلا رکھیں؟ کیا اس قسم کے حالات باقی رکھے جاتے رہے تو ملک کی ترقی کے کبھی امکانات پیدا ہوسکتے ہیں؟ کیا ہم اس طرح کسی بہتر مستقبل کا خواب بن سکیں گے؟ اگر ملک سے وفاداری کا دعویٰ ہے تو ہر مذہب کے ماننے والوں کو بھی آزادی سے جینے کا حق دینا ہوگا۔

Monday, December 29, 2014

Muslim Reservation Cancelled
Congress Succeeded in it's Ploy
Dr. Rehan Ansari

ناگپور سے اس مرتبہ ہمارے لیے کھٹے سنترے آئے۔ مسلم ریزرویشن کی تجویز اپنے (متوقع) سیاسی انجام سے دوچار ہوئی۔ اسمبلی کا دو ہفتوں تک جاری رہنے والا سرمائی اجلاس اپوزیشن کے ناکارہ پن کے سبب بیشتر اوقات میں سرد تر ہی رہا۔پورے دوران میں کبھی کبھار اپوزیشن کی آوازیں کسی بیمار کے سینے سے ہوک کی مانند اٹھتی تھیں اور پھر کوئی نمایاں اثر ڈالے بغیر بند ہوجاتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سرمائی اجلاس کے خاتمے کے ساتھ ہی (مسلم علاقوں میں) سیاسی ماحول کو گرمایا جانے لگا۔ اور اس عمل میں کانگریس پارٹی پیش پیش نظر آئی۔ ہمارے پیدائشی سیاسی بھولے بھائی بندوں نے کانگریس کی اس ہائےہو کو اپنی نمائندگی بھی تسلیم کیا اور فڈنویس حکومت پر تعصب و تنگ نظری کا الزام بھی خوب خوب لگایا اور ناانصافی کا بھی۔ ہم بھی اس بات کو یکسر غلط نہیں کہتے کہ ریاستی حکومت نے تعصب و ناانصافی نہیں برتی۔ مگر کیا اسی نومنتخبہ حکومت نے یہ غلطی کی ہے؟ پتہ نہیں آپ کا کیا خیال ہے لیکن ہمیں تو زیادہ شورشرابہ کرنے والوں کے چہرے ہی مجرم نظر آتے ہیں۔ اس پر کوئی گفتگو کرنے سے قبل آئیے پہلے کچھ آموختہ پڑھ لیں۔
ہم ریزرویشن کی تحریکات کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے بس یہ نکتہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ قلیل مدتی نارائن رانے کمیٹی نے ایسی کیا پُراثر رپورٹ پیش کردی کہ اس پر ہائی کورٹ کا امتناع بھی اثرانداز نہیں ہوا اور کانگریسی حکومت کے کانگریسی وزیر کی پیش کردہ رپورٹ کو بھاجپا کی حکومت نے یکلخت اور بلا تردّد منظور کرلیا لیکن طویل مدت تک چھان پھٹک اور مشاہدہ و مطالعہ کرنے والے بالغ نظر سابق جسٹس سچر، سابق چیف جسٹس رنگناتھ مشرا اور سابق آئی اے ایس افسر محمود الرحمٰن کی تین کمیٹیوں کی رپورٹوں میں ایسی کیا خامیاں اور سقم تھے کہ وہ توجہ کے مستحق بھی نہیں بن سکے؟



Justice Rajendra Sachar Presenting the Committee's Report
to the then PM Manmohan Singh

یہاں یہ حوالہ بے محل نہیں ہوگا کہ کوزیکوڈے کے مقام پر ہونے والی مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ۲۰؍ویں اجتماع، اپریل ۲۰۱۲ء، میں یہ ریزولیوشن پاس کیا گیا تھا کہ: ’’مسلمانوں کو جائز ریزرویشن دینے کی بابت کانگریسی حکومت جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کو پارلیمنٹ کے ایوان میں مباحثہ کے لیے پیش کرنے کی بجائے اسے اترپردیش میں ہونے والے انتخابات میں سیاسی کھلونے یا حربے کے طور پر استعمال کررہی تھی۔اور ایسا کرتے ہوئے کانگریس نے فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کیے اور انھیں بے لگام ہونے میں مدد کی، ساتھ ہی ساتھ سماج کے دیگر طبقات کو ایک کنفیوژن میں مبتلا کردیا۔ بائیں بازو کی پارٹیوں کے مسلسل مطالبہ کے باوجود کانگریسی حکومت نے ان رپورٹس سے چشم پوشی کی اور بے پروائی برتی‘‘۔
اسی طرح یہ بھی یاد کرلیں کہ ریاست میں تسلسل کے ساتھ منتخب ہونے والی کانگریسی حکومتوں نے متعدد مطالبات کے باوجود مذکورہ بالا رپورٹس کو زیرِ بحث ، زیرِ غور یا زیرِ عمل نہیں لایا۔ کیا ہم مسلم اتنے بے حس (یا زہر کے عادی) ہوچکے ہیں کہ ایک ہی بل سے بار بار ڈسے جانے کے باوجود ہوش میں نہیں آتے؟ کوئی مخلص متبادل قبول کرتے ہیں نہ تیار کرتے ہیں!




ہم مراٹھوں کے لیے ریزرویشن کے خلاف نہیں ہیں۔ نہ اس کے خلاف کوئی احتجاج یا ناخوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ نارائن رانے کمیٹی کی رپورٹ کی دستوری سطح پر مخالفت بھی ہوئی اور اس کے خلاف کیس بھی دائر کیا گیا۔ اور ادھر مسلمانوں سے متعلق تینوں کمیٹیوں کی رپورٹ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کے باوجود سابق ریاستی کانگریسی اور مرکزی حکومتوں نے ان رپورٹوں کو سیاسی ہتھکنڈہ ہی بنانے کو ترجیح دی اور کبھی کوئی سنجیدگی دیکھنے کو نہیں ملی۔ برا نہ لگے اگر یہ کہیں کہ ہم نے اپنے یعنی مسلمان ایوانی نمائندوں کو بھی اس جانب محض سیاسی خاطرداری تک متحرک پایا ہے۔ چند نعرے، ایوان کے باہر تصویر کشی کی حد تک مظاہرے اور اردو اخبارات میں اپنے اس فعل کی تشہیر کرنے سے زیادہ کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (تمام پارٹیوں کے) ہمارے یہ ایوانی نمائندے تو انتخاب کے بعد اپنے عام ووٹروں سے ملنے جلنے اور انھیں کسی مثبت تحریک کے لیے اکٹھا کرنے کے بھی روادار نہیں دکھائی دیتے۔
اسمبلی کا سرمائی اجلاس دو ہفتوں تک چلا۔ خاتمے کے موقع پر خود وزیرِاعلیٰ فڈنویس نے اپوزیشن کی کارکردگی پر جو ریمارک دیا وہ اسے شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’کانگریس این سی پی کی سربراہی میں اپوزیشن بٹی ہوئی تھی، بے سمت تھی، اور بے اثر بھی‘‘۔ مگر افسوس اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ ’’گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہوا‘‘۔
کارواں گذرنے کے بعد جب ہم غبار دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ہمارے ایوانی اور نام نہاد سیاسی نمائندے طرح طرح کی حرکتوں میں مبتلا ہیں۔ سڑک اور گلیوں میں ریاستی حکومت پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں بڑے ادب کے ساتھ عرض ہے کہ بھائی صاحب ریاست میں جس پارٹی کی حکومت بن چکی ہے اس کے بہت سے ایجنڈے خفیہ ہوں تو ہوں؛ مگر مسلمانوں کے تئیں کوئی ایک موقع بتلا دیجیے کہ ان کا ایجنڈا آپ لوگوں کی مانند خفیہ رہا ہو؟ اس نے بار بار مسلمانوں کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ قومی سطح سے لے کر علاقائی سطح تک (پارٹی کے اندر یا باہر) اس نے مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا رویہ ہی رکھا ہے۔ تو آخر آپ نے ایسی حکومت سے کیوں یہ جھوٹی آس لگائی تھی؟ پھر آج کل آپ کی جانب سے جو احتجاج اور نعرہ بازیاں کی جارہی ہیں ان کو (اردو اخبارات کے علاوہ) کیا کسی بھی قسم کا قومی، ریاستی یا علاقائی میڈیا کوریج دے رہا ہے؟ کہیں کوئی ہنگامہ یا ہمدردی کا مظاہرہ ہو رہا ہے؟ کیا ریزرویشن کے آرڈیننس کے نابود یا مرحوم ہوجانے کے بعد اس احتجاج سے کچھ حاصل بھی ہونے والا ہے؟ آخر اپنی بھوک کا علاج کرنے کے لیے ملت کے مفادات کو نگل جانے کی عادت کیوں بنا لی ہے؟ کانگریس پارٹی تو سنجیدہ ہونے سے رہی، ملت کی ناگفتہ حالت کو دیکھتے ہوئے آپ لوگ تو سنجیدہ ہوجائیں۔
کانگریس نے مسلمانوں کو ریزرویشن نہ دیئے جانے کے بعد جو اچھل کود مچائی ہے وہ انتہائی مشکوک ہوجاتی ہے۔ جس حکومت نے دس برسوں تک کمیٹیوں کی رپورٹ پر جمنے والی دھول صاف کرنے کی ذمہ داری تک نہیں نبھائی، اس نے اچانک کس نیت کے ساتھ اپنی میعاد کے بالکل آخری دنوںمیں ایک آرڈیننس جاری کرنے کا کھیل کھیلا تھا؟ اسی آرڈیننس کی بنیاد پر مسلمانوں سے ووٹ بھی طلب کیے۔ کیا کچھ برسوں نہ سہی کچھ مہینوں قبل ہی وہ اسے بل کی صورت میں نہیں پیش کرسکتی تھی؟ کیا وہ اسے منظور نہیں کرواسکتی تھی؟ یقیناً وہ یہ سب کرسکتی تھی مگر جیسا کہ سی پی آئی (ایم) نے دو برسوں قبل ہی بتلا دیا تھا کہ کانگریس اسے صرف سیاسی ہتھیار بنانا چاہتی تھی، اس نے وہ کر دکھایا۔ افسوس کہ کانگریس فتح نہیں حاصل کرسکی مگر اس کی یہ سازش ضرور کامیاب ہوگئی کہ مسلمانوں کو ریزرویشن نہ دیا جائے اور اسے یہ موقع یا بہانہ بھی مل گیا کہ اس کے جرم کا طوق ریاستی بی جے پی حکومت کےگلے میں ڈال دیا جائے۔ سرِ دست مسلمانوں کی مجموعی حالت ایسی ہی ہے کہ وہ کانگریس کے اس جھوٹ کو سچ مان رہی ہے لیکن حق بات تو یہ ہے کہ بی جے پی نے ابتدا سے ہی کھلے بندوں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کے خلاف ہے، تو بھلا اس کا ایک ریاستی وزیرِ اعلیٰ یا اس کی پوری ٹیم کیونکر اپنے اس کھلے ایجنڈے کے خلاف جا سکتے تھے؟