To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Wednesday, June 18, 2014



At times instead of patting the back of Muslims
Credit is given to the Police

Dr. Rehan Ansari

 نریندر مودی کی حلف برداری کو ابھی تین ہفتے بیتے ہیں۔ ان تین ہفتوں میں ہندو فرقہ پرستوں کے حوصلے مبینہ طور سے کتنے بلند ہوئے ہیں اس کا مظاہرہ مہاراشٹر میں خصوصیت سے دیکھنے کو ملا ہے۔ آگے گفتگو سے قبل آئیے ہم ان تین ہفتوں کے دستاویزی واقعات کو مندرج کر لیں جن کی تفصیلات اخباروں میں آچکی ہیں: ۱] ناندیڑ میں ۳؍مئی کو ایک مسلم نوجوان کو پکڑ کر زبرستی داڑھی مونڈھ دی گئی اور مارا پیٹا بھی گیا۔ ۲] ۳۰؍ مئی کو بھیونڈی میں ’’گوونش رکھشا اہنسا مہا سبھا‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ ۳] پونہ میں ایک نوجوان آئی ٹی انجینئر محسن شیخ کو ۲؍ جون کو قتل کردیا گیا۔ ۴] ۹؍ جون کو شولاپور میں امبیڈکر کے مجسمے کی بےحرمتی کر کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ۵]چکھلی،بلڈانہ میں ایک اور محسن شیخ کو نام پوچھ کر آٹو میں بٹھا کر زدوکوب کیا گیا۔
ان کے علاوہ کچھ چھوٹے موٹے واقعات ہو سکتا ہے کہ خبر بننے سے رہ گئے ہوں۔کیا یہ سب اتفاقات ہیں؟ یا منظم طور سے فسادات بھڑکانے کی سازشیں؟ ان سازشوں میں کامیابی نہ مل پانے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ کیا مہاراشٹر پولیس کی چابکدستی؟ ریاستی وزیرِ داخلہ آر آر پاٹل نے حسبِ سابق روایتی بیان دیا اور امن و امان کا کریڈٹ اپنی پولیس کو دیا۔

 کیا یہ واقعی پولیس کی کارکردگی تھی یا مسلمانوں کا فرقہ وارانہ فسادات کےنتائج سے آگہی، صبر و تحمل، حسنِ تدبر اور بردباری، نیز ملک و ریاست سے ان کی وفاداری؟ آر آر پاٹل کےبیا ن کے فوراً بعد ان کے لیڈر شردپوار کا بیان ان واقعات کے پس منظر میں پیارے آرآر (آبا) کے لیے کسی تازیانہ سے کم نہیں تھا کہ مرکز میں بی جے پی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی فرقہ پرستی بڑھ گئی ہے، وہ تنظیمیں بھی اب سر ابھارنے لگی ہیں جو اب تک خاموش تھیں اور مسلمانوں پر حملہ کرنے لگی ہیں۔لیکن آرآر پاٹل کی موٹی چمڑی اسے بھی سہہ گئی۔
درج بالا واقعات کے علاوہ فرقہ واریت کا یہ نزلہ پڑوسی ریاست کرناٹک کے شہر منگلور تک پہنچا اور وہاں بھی ۲۷؍ مئی کو لاؤڈ اسپیکر پر فجر کی اذان سے متعلق ایک کم معروف ہندو تنظیم راشٹریہ ہندو آندولن نے آندولن چھیڑ دیا۔
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان واقعات کی یاددہانی کے لیے ہلکی ہلکی متعلقہ تفصیلات قارئین کو بتلا دیں۔ لوک سبھا انتخابات کے خاتمے کے ساتھ ہی، نتائج کے اعلان سے پہلے ہی، ہندوتوا وادی چھوٹی بڑی تنظیموں کے حوصلے کچھ یوں بلند ہوئے کہ مشہورِ عام مقولہ ’’سیّاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘ ان کی حرکت و عمل سے منعکس ہونے لگا۔
ناندیڑ میں لوک سبھا انتخابات کے خاتمے کے ایک ہفتے بعد ہی ایک مسلم نوجوان محمد فردوس محمد ابراہیم کو شرپسندوں کے ایک گروہ نے نام پوچھا اور آٹورکشا میں ٹھونس کر اس کی ڈاڑھی مونڈھ دی اور کافی مارا پیٹا۔ حتیٰ کہ وہ کافی زخمی ہوگیا۔ بہرحال کسی طرح اس کی جان بچ گئی اور کئی دنوں تک اسپتال میں رہنا پڑا۔ ادھر مقدس گائے کا قصہ بھی چھڑا۔بھیونڈی میں مئی کی آخری تاریخوں میں یکے بعد دیگرے کئی عوامی مقامات پر ہورڈنگ نظر آنے لگے۔ ان ہورڈنگز میں ۳۰؍ مئی کو منعقد ہونے والی ’گوونش رکھشا اہنسا مہا سبھا‘ میں شرکت کی اپیل کے ساتھ چند باتیں اور گائے اور بچھڑے کی تصویر کچھ اس انداز سے پیش کی گئی تھی کہ ایک خوف حملہ آور ہوجاتا تھا۔ لوگوں میں عجیب قسم کی مشتبہ سرگوشیاں اور چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ ہر ہفتے کے معمول کے برخلاف جمعہ کا دن ہونے کے باوجود ایک سناٹا سا سڑکوں پر پھیلا تھا۔ ان باتوں کی بنیاد میں ظاہر سی بات ہے کہ لوگوں کے دلوں میں عیدالاضحٰی پر مذہبی امور ی ادائیگی سے متعلق شک و شبہات اٹھ رہے تھے۔ اس مہاسبھا کو چند پابندیوں کے ساتھ اجازت نامہ ملنے پر نارضگی کا اظہار کیا گیا اور حکومت اور پولیس کو ’’مسلمانوں کا نام‘‘ لیتے ہوئے دبے لفظوں میں دھمکیاں بھی دی گئیں۔ جب حکومت کی جانب سے کوئی امتناعی ردّعمل سامنےنہیں آیا تو ان شرپسندوں نے فیس بک پر متنازعہ امیج کا حیلہ اختیار کرکے پونہ میں نماز کی ادائیگی سے گھرلوٹتے ہوئے نوجوان مسلم آئی ٹی انجینئر محسن شیخ پر جان لیوا حملہ کردیا۔ مساجد اور مذہبی مقامات کو خوب نقصان پہنچایا گیا۔ قرآن کی بے حرمتی کی گئی۔ محسن کی موت نے میڈیا کی لہریں کچھ اونچی اٹھا دی تو وسیع پیمانے پر اس پر مباحث ہوئے۔ ان مباحث میں خصوصی مذمتیں تو خوب ہوئیں مگر ہندوتواوادیوں کی عمومی سرکوبی کرنے کی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی۔ شولاپور میں امبیڈکر کے مجسمے کی بے حرمتی (افواہ؟) کو بہانہ بنا کر ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی املاک اور مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ بلڈانہ میں ایک دیگر محسن شیخ کو نماز کے بعد گھیر لیا گیا اور آٹو میں بٹھاکر دوسرے مقام پر لے جاکر مارا پیٹا گیا۔ اگر وہ شور نہ مچاتا اور کچھ لوگوں کی بروقت امداد نہ ملی ہوتی تو ممکن ہے اسے بھی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا!
یوں بھی اپنے وطن میں شرپسند مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے بہانے ڈھونڈتے یا پیدا کرتے رہتے ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں کا کوئی قصور نہ رہتے ہوئے بھی سرکاری اہلکاروں اور وزیروں کی سرپرستی میں انھیں ایسے بیشتر مواقع ملتے رہے ہیں۔ جانے کتنے بے گناہوں کو سالہا سال جیلوں اور کوٹھریوں میں گذارنے کے بعد ملک کی عدالتِ عالیہ نے بے گناہ قرار دیا ہے۔ لیکن ایک مفروضہ ہے جو سائے کی طرح ساتھ لگا ہوا ہے۔
اس ضمن میں ایک مشہور شعریاد آتا ہے کہ:
جب نیا فتنہ زمانے میں کہیں اٹھتا ہے
وہ اشارے سے بتا دیتے ہیں تُربت میری
درج بالا واقعات میں سے کوئی ایک بھی ماضیٔ قریب میں ہوتا تھا تو ہم سب جانتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر فسادات کا سبب بن جاتا تھا۔ لیکن محض ایک مہینے کے اندر آدھ درجن واقعات پیش آئے اور کہیں کوئی فساد نہیں ہوا! کیا اس میں واقعی پولیس یا حکومت کی مستعدی اور فرض شناسی کو دخل ہے؟؛ اس باب میں ہم پُرزور آواز میں ’’نہیں، ہرگز نہیں‘‘ کہتے ہیں۔ یہ فسادات تو اس لیے نہیں ہو سکے کہ مسلمانوں نے عمومی طور سے، علاقہ در علاقہ، تدبر، صبر و تحمل، وطن کی سلامتی اور بردباری سے کام لیا۔ ماضی کے فسادات کے انجام سے سبق لیا۔ وگرنہ ایک علاقہ کا واقعہ دوسرے علاقے کے فساد کا سبب بنتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔

 یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مسلمانوں کو انفرادی طور سے گھیرنے اور مارنے والے عموماً یہ کہتے رہتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کو اس ملک میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔ کون اس ملک میں رہ سکتا ہے اور کون نہیں، آخر انھیں یہ حکم یا فیصلہ صادر کرنے کا اختیار کس نے اور کیونکر دیا ہے؟ یہ کس بنیاد اور ذہنیت کی پیداوار ہے؟
مسلمانوں کو ہمیشہ شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ حساس دنوں میں جب پولیس میٹنگیں لیتی ہے تو سبق مسلمانوں کو پڑھاتی ہے۔ دوسری قومیں اور اقلیتیں مبرا سمجھی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کو قابلِ اصلاح سمجھنے والوں کے سامنے دست بستہ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ دوسری (ہندو پڑھیں) قوموں کو فارغ الاصلاح کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ان کے کیمپوں اور مہاسبھاؤں میں کیسی حب الوطنی سکھائی جاتی ہے؟ ان کو تادیب و تنبیہہ کب کی جاتی ہے؟
آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹر کی موجودہ سیاسی صورتحال ایسی ہے کہ کانگریس اور این سی پی کا ایک دوسرے کے بغیر وجود ہی بے معنٰی ہے۔ وہ ایک دوسرے پر سیاسی مجبوریوں کے تحت تنقیدیں کرسکتے ہیں لیکن ایک دوجے کے بغیر اقتدار میں باقی نہیں رہ سکتے۔ مہاراشٹر کے مسلمان کو نسبتاً زیادہ حساس بھی سمجھا جاتا ہے۔ درج بالاواقعات کو اسٹیج کرنے کے لیے لوک سبھا انتخابات کے بعد مہاراشٹر کو ہی چنا جانا برسرِ اقتدار پارٹیوں کے در پر دستک دینے کے لیے کافی سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ یہاں کی بیشتر لوک سبھا سیٹوں پر بھگوا محاذ قابض ہوا ہے اور اس کامیابی کی تہہ میں کام کرنے والے جذبات و احساسات کو ٹھنڈا پڑنے سے پہلے اسمبلی انتخابات کے لیے بھنانا ضروری ہو گیا ہے۔ کانگریس این سی پی محاذ مسلمانوں کو سمجھانے بجھانے کی بجائے برادرانِ وطن کو وطن سے اصلی محبت کے سبق پڑھانے کی جانب توجہ دے تو شاید اس کی نیّا پار لگ سکے گی۔ نہیں تو، منترالیہ پر یک رنگا پرچم لہرا سکتا ہے۔