Israel Using US Shoulder to Target Iran Dr. Rehan Ansari |
اسرائیل کا معاملہ اکھا ڑے میں پہلوان کے اس بغلی کردار کی مانند ہوتا ہے جسے مقابل پر دھونس جمانا ہوتا ہے تو وہ پہلوان کی مچھلیاں ٹھونکتا اور دکھلاتا ہے ؛ پہلوان کو چابی بھرتا رہتا ہے۔ شرم اسے چھو کر بھی نہیں گذرتی۔ اسرائیل امریکہ کو اکساتا رہتا ہے اور اسی کا دم بھرتا ہے۔ دراصل امریکہ بھی اسی کا ہم قبیل ہے۔ بلکہ کہا جائے کہ اسرائیل کا استاد ہے تو غلط نہیں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سمیت تمام ایشیائی ممالک پر امریکہ کی دھونس جمانے کے لیے اسرائیل شطرنج کی بساط پر شہ دینے والا مہرہ ہے۔
ایران کا قصور (سچ کہیں تو اس سے حسد کا سبب) یہ ہے کہ وہ ایک مسلم جمہوریہ ہو کر جوہری توانائی کی افزونی اور استعمال کے معاملہ میں ترقی کرتا جارہا ہے؛ یہ گویا ایک خاموش للکار ہے، اس کے پاس ایک جغادری اور نڈر، دانشور، غیرمصلحت پسند، راست گو، مخلص رہنما احمدی نژاد ہے جو دنیا کے سپرپاور کی آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرتا ہے۔ اسے شیر کی زندگی عزیز ہے؛ گیدڑ کی نہیں!... دنیا کے سیاسی مصلحت پسند اسے ’پاگل پن‘ کہتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں ایسے لیڈروں کو ’’ہیرو‘‘ کی دائمی حیثیت حاصل رہی ہے۔ انھیں وقتی مفاد کے لیے قوم کی عزت و ناموس کا سودا کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ملک ایران کے عوام کو مرحبا کہنے کو جی کرتا ہے یعنی انھیں اپنے رہنما پر مکمل اعتماد بھی ہے اور وہ اس کے ساتھ ہر سرد و گرم میں کھڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی عزتِ نفس کو جانتے پہچانتے ہیں۔
The Predators and the Oppressed The history of tomorrow |
اخبارِ مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ یروشلم اور واشنگٹن میں اس بات پر اتفاق ابھی تک نہیں پایا جاتا کہ نیوکلیائی تنصیبات کو بہانہ بنا کر ایران پر حملہ کر دیا جائے۔ دونوں ممالک کے سرکاری اہلکار مارچ کی ملاقات کو کامیاب بنانے اور ہم خیالی پر منتج کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ پسِ پردہ اسرائیل امریکہ کے کاندھے پر بندوق رکھنا چاہتا ہے اور اس میٹنگ میں ایک مشترکہ قرارداد پاس کر کے ایران پر دباؤ ڈالا جائے گا۔ اس کام کے لیے نیتن یاہو امریکی کانگریس اور صدارت کے ریپبلیکن امیدواروں کو بھی استعمال کرکے اوبامہ پر دباؤ ڈالنے کی حرکت کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو کے قریبی کروڑپتی قمارخانہ کے مالک نے اوبامہ کے قریبی حریف امیدوار کی انتخابی مہم کے لیے کئی ملین ڈالر جھونک دیئے ہیں پھر بھی اوبامہ اور نیتن یاہو کے مابین ایران کے معاملہ میں اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوا ہے۔ حالانکہ یہ کوشش بھی کی جارہی ہے کہ اوبامہ کے مقابل کی زبان سے ’امریکی اسرائیلی عوامی معاملہ کمیٹی‘ کی میٹنگ میں یہ تک کہلوایا جائے کہ ’’ایرانی خطرہ سے مقابلہ میں اوبامہ کمزور ثابت ہوئے ہیں‘‘۔
اسرائیلی امریکی مذاکرات کے تعلق سے ایک اسرائیلی اہلکار کا یہ تبصرہ معنی خیز ہے کہ ’’ان مذاکرات کی تعداد اہم نہیں ہے بلکہ ان کے نتائج اہم ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہونے والے مذاکرات خارپشتوں (Porcupines) کی ہمبستری کے مانند نکلے ہیں یعنی بہت سست رفتار، احتیاط اور مزید احتیاط!‘‘
نیتن یاہو نے سینہ پھلا کر یہ چال بھی چلی کہ ’’اسرائیل امریکہ کے اندرونی سیاسی معاملات میں دخل نہیں دیتا اسی لیے امریکہ بھی اس کے داخلی سیاسی معاملات میں دخل نہ دے۔‘‘ بین السطور یہ کہنا مقصد ہے کہ ایران کا معاملہ دونوں کا مشترکہ خارجی معاملہ ہے اس لیے اس میں مل کر دخل دیا جائے!... اگر ہماری جانب سے یہ تبصرہ کیا جائے کہ ایران کا معاملہ اس کا بھی داخلی معاملہ ہے تو کیا بے جا ہوگا؟
اسرائیل کو اس بات کا خطرہ ضرور ہے کہ حملہ کی صورت میں ایران جوابی حملہ کر سکتا ہے مگر اس کی منطق یہ ہے کہ یہ حملے نقصان تو پہنچائیں گے لیکن نیوکلیر ایران کے وجود سے بہتر ہیں!، (یعنی بہر صورت ایران کا گلا گھونٹ دیا جانا چاہیے)۔
جہاں تک صدرِ ایران محمود احمدی نژاد کی بات ہے تو وہ دوٹوک کہتے چلے آئے ہیں کہ جوہری توانائی سے استفادہ کرنا دنیا کے ان ممالک کی طرح اس کا بھی استحقاق ہے جنھیں یہ صلاحیت حاصل ہے۔ ان ممالک میں امریکہ اور اسرائیل دونوں بھی شامل ہیں۔
ایران پر حملے کے لیے بہانہ تراشی کی وجہ صاف سمجھ میں آتی ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی میان میں تنہا تلوار بنے رہنا چاہتا ہے۔ یہ اس کی بقا کا بھی سوال ہے۔ اس کی بدنیتی صاف نظر آتی ہے کہ وہ خود تونیوکلیائی طاقت بنے لیکن علاقے کے دیگر ممالک اس کے دست نگر رہیں۔
مگر اسرائیل کے بڑے دماغ یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود ابھی تک ایران پر دہشت گردی یا دہشت پروری کے الزامات چپک نہیں پائے ہیں۔ بین الاقوامی نیوکلیائی تفتیشی ایجنسیوں نے بھی ایران کے خلاف اب تک کسی سنگین سبب کی اطلاع نہیں حاصل کی ہے۔ عالمی برادری بلاثبوت ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں کر سکتی۔ اور ثبوت ہنوز عالمِ عدم میں ہیں۔
دوسرا کوئی جواز اور نہیں ہے کہ ایران پر فوج کشی کی جائے۔ دنیائے عرب کی حالیہ تبدیلیوں کو اخباری مبصرین نے Arab Spring یا ’بہارِ عرب‘ کا خوشنما نام دیا تھا جس کے نتیجہ میں عرب سرزمینوں پرعوامی انقلابات نے حکومتوں کو تبدیل کر دیا اور وہاں جمہوری حکومتوں کی زمین تیار ہونے لگی۔ ایران کی پوزیشن اس تناظر میں الگ ہے۔ ایران کا معاملہ اس حیثیت سے مختلف ہے کہ وہاں پہلے ہی عوامی منتخبہ حکومت موجود ہے اور اسے اپنے عوام کی ہی نہیں بین الاقوامی طور پر بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس کی پالیسیاں شفاف، معتدل اور قابلِ قبول ہیں۔ امریکہ یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایسی صورت میں ایران کوئی ترنوالہ نہیں ہے۔ ایران کے اندرونی پر امن ماحول میں عوام میں سے حکومت مخالف کسی (باغی) جتھہ کی تشکیل بھی سرِ دست ناممکنات میں سے ہے۔ سرحدسے باہر بھی ایران کے ہمدرد و بہی خواہ پائے جاتے ہیں جبکہ اسرائیل کے حامی سبھی ممالک کسی نہ کسی منفی جذبے کے پالے پوسے ہیں جو اسرائیل و امریکہ کی بین الاقوامی دہشت گردی و دہشت پروری کو امنِ عالم کا نقیب سمجھنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ ابھی تو وقت کا انصاف باقی ہے۔ اصلی دہشت گرد اور دہشت پرور بے نقاب ہو کر رہیں گے۔ کاش ہم سب یہ جلد ہی دیکھ سکتے۔