To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Monday, December 29, 2014

Muslim Reservation Cancelled
Congress Succeeded in it's Ploy
Dr. Rehan Ansari

ناگپور سے اس مرتبہ ہمارے لیے کھٹے سنترے آئے۔ مسلم ریزرویشن کی تجویز اپنے (متوقع) سیاسی انجام سے دوچار ہوئی۔ اسمبلی کا دو ہفتوں تک جاری رہنے والا سرمائی اجلاس اپوزیشن کے ناکارہ پن کے سبب بیشتر اوقات میں سرد تر ہی رہا۔پورے دوران میں کبھی کبھار اپوزیشن کی آوازیں کسی بیمار کے سینے سے ہوک کی مانند اٹھتی تھیں اور پھر کوئی نمایاں اثر ڈالے بغیر بند ہوجاتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سرمائی اجلاس کے خاتمے کے ساتھ ہی (مسلم علاقوں میں) سیاسی ماحول کو گرمایا جانے لگا۔ اور اس عمل میں کانگریس پارٹی پیش پیش نظر آئی۔ ہمارے پیدائشی سیاسی بھولے بھائی بندوں نے کانگریس کی اس ہائےہو کو اپنی نمائندگی بھی تسلیم کیا اور فڈنویس حکومت پر تعصب و تنگ نظری کا الزام بھی خوب خوب لگایا اور ناانصافی کا بھی۔ ہم بھی اس بات کو یکسر غلط نہیں کہتے کہ ریاستی حکومت نے تعصب و ناانصافی نہیں برتی۔ مگر کیا اسی نومنتخبہ حکومت نے یہ غلطی کی ہے؟ پتہ نہیں آپ کا کیا خیال ہے لیکن ہمیں تو زیادہ شورشرابہ کرنے والوں کے چہرے ہی مجرم نظر آتے ہیں۔ اس پر کوئی گفتگو کرنے سے قبل آئیے پہلے کچھ آموختہ پڑھ لیں۔
ہم ریزرویشن کی تحریکات کی تفصیل میں نہ جاتے ہوئے بس یہ نکتہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ قلیل مدتی نارائن رانے کمیٹی نے ایسی کیا پُراثر رپورٹ پیش کردی کہ اس پر ہائی کورٹ کا امتناع بھی اثرانداز نہیں ہوا اور کانگریسی حکومت کے کانگریسی وزیر کی پیش کردہ رپورٹ کو بھاجپا کی حکومت نے یکلخت اور بلا تردّد منظور کرلیا لیکن طویل مدت تک چھان پھٹک اور مشاہدہ و مطالعہ کرنے والے بالغ نظر سابق جسٹس سچر، سابق چیف جسٹس رنگناتھ مشرا اور سابق آئی اے ایس افسر محمود الرحمٰن کی تین کمیٹیوں کی رپورٹوں میں ایسی کیا خامیاں اور سقم تھے کہ وہ توجہ کے مستحق بھی نہیں بن سکے؟



Justice Rajendra Sachar Presenting the Committee's Report
to the then PM Manmohan Singh

یہاں یہ حوالہ بے محل نہیں ہوگا کہ کوزیکوڈے کے مقام پر ہونے والی مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ۲۰؍ویں اجتماع، اپریل ۲۰۱۲ء، میں یہ ریزولیوشن پاس کیا گیا تھا کہ: ’’مسلمانوں کو جائز ریزرویشن دینے کی بابت کانگریسی حکومت جسٹس رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کو پارلیمنٹ کے ایوان میں مباحثہ کے لیے پیش کرنے کی بجائے اسے اترپردیش میں ہونے والے انتخابات میں سیاسی کھلونے یا حربے کے طور پر استعمال کررہی تھی۔اور ایسا کرتے ہوئے کانگریس نے فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کیے اور انھیں بے لگام ہونے میں مدد کی، ساتھ ہی ساتھ سماج کے دیگر طبقات کو ایک کنفیوژن میں مبتلا کردیا۔ بائیں بازو کی پارٹیوں کے مسلسل مطالبہ کے باوجود کانگریسی حکومت نے ان رپورٹس سے چشم پوشی کی اور بے پروائی برتی‘‘۔
اسی طرح یہ بھی یاد کرلیں کہ ریاست میں تسلسل کے ساتھ منتخب ہونے والی کانگریسی حکومتوں نے متعدد مطالبات کے باوجود مذکورہ بالا رپورٹس کو زیرِ بحث ، زیرِ غور یا زیرِ عمل نہیں لایا۔ کیا ہم مسلم اتنے بے حس (یا زہر کے عادی) ہوچکے ہیں کہ ایک ہی بل سے بار بار ڈسے جانے کے باوجود ہوش میں نہیں آتے؟ کوئی مخلص متبادل قبول کرتے ہیں نہ تیار کرتے ہیں!




ہم مراٹھوں کے لیے ریزرویشن کے خلاف نہیں ہیں۔ نہ اس کے خلاف کوئی احتجاج یا ناخوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ نارائن رانے کمیٹی کی رپورٹ کی دستوری سطح پر مخالفت بھی ہوئی اور اس کے خلاف کیس بھی دائر کیا گیا۔ اور ادھر مسلمانوں سے متعلق تینوں کمیٹیوں کی رپورٹ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس کے باوجود سابق ریاستی کانگریسی اور مرکزی حکومتوں نے ان رپورٹوں کو سیاسی ہتھکنڈہ ہی بنانے کو ترجیح دی اور کبھی کوئی سنجیدگی دیکھنے کو نہیں ملی۔ برا نہ لگے اگر یہ کہیں کہ ہم نے اپنے یعنی مسلمان ایوانی نمائندوں کو بھی اس جانب محض سیاسی خاطرداری تک متحرک پایا ہے۔ چند نعرے، ایوان کے باہر تصویر کشی کی حد تک مظاہرے اور اردو اخبارات میں اپنے اس فعل کی تشہیر کرنے سے زیادہ کچھ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (تمام پارٹیوں کے) ہمارے یہ ایوانی نمائندے تو انتخاب کے بعد اپنے عام ووٹروں سے ملنے جلنے اور انھیں کسی مثبت تحریک کے لیے اکٹھا کرنے کے بھی روادار نہیں دکھائی دیتے۔
اسمبلی کا سرمائی اجلاس دو ہفتوں تک چلا۔ خاتمے کے موقع پر خود وزیرِاعلیٰ فڈنویس نے اپوزیشن کی کارکردگی پر جو ریمارک دیا وہ اسے شرمندہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’کانگریس این سی پی کی سربراہی میں اپوزیشن بٹی ہوئی تھی، بے سمت تھی، اور بے اثر بھی‘‘۔ مگر افسوس اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ ’’گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہوا‘‘۔
کارواں گذرنے کے بعد جب ہم غبار دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ہمارے ایوانی اور نام نہاد سیاسی نمائندے طرح طرح کی حرکتوں میں مبتلا ہیں۔ سڑک اور گلیوں میں ریاستی حکومت پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ ان کی خدمت میں بڑے ادب کے ساتھ عرض ہے کہ بھائی صاحب ریاست میں جس پارٹی کی حکومت بن چکی ہے اس کے بہت سے ایجنڈے خفیہ ہوں تو ہوں؛ مگر مسلمانوں کے تئیں کوئی ایک موقع بتلا دیجیے کہ ان کا ایجنڈا آپ لوگوں کی مانند خفیہ رہا ہو؟ اس نے بار بار مسلمانوں کی کھل کر مخالفت کی ہے۔ قومی سطح سے لے کر علاقائی سطح تک (پارٹی کے اندر یا باہر) اس نے مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا رویہ ہی رکھا ہے۔ تو آخر آپ نے ایسی حکومت سے کیوں یہ جھوٹی آس لگائی تھی؟ پھر آج کل آپ کی جانب سے جو احتجاج اور نعرہ بازیاں کی جارہی ہیں ان کو (اردو اخبارات کے علاوہ) کیا کسی بھی قسم کا قومی، ریاستی یا علاقائی میڈیا کوریج دے رہا ہے؟ کہیں کوئی ہنگامہ یا ہمدردی کا مظاہرہ ہو رہا ہے؟ کیا ریزرویشن کے آرڈیننس کے نابود یا مرحوم ہوجانے کے بعد اس احتجاج سے کچھ حاصل بھی ہونے والا ہے؟ آخر اپنی بھوک کا علاج کرنے کے لیے ملت کے مفادات کو نگل جانے کی عادت کیوں بنا لی ہے؟ کانگریس پارٹی تو سنجیدہ ہونے سے رہی، ملت کی ناگفتہ حالت کو دیکھتے ہوئے آپ لوگ تو سنجیدہ ہوجائیں۔
کانگریس نے مسلمانوں کو ریزرویشن نہ دیئے جانے کے بعد جو اچھل کود مچائی ہے وہ انتہائی مشکوک ہوجاتی ہے۔ جس حکومت نے دس برسوں تک کمیٹیوں کی رپورٹ پر جمنے والی دھول صاف کرنے کی ذمہ داری تک نہیں نبھائی، اس نے اچانک کس نیت کے ساتھ اپنی میعاد کے بالکل آخری دنوںمیں ایک آرڈیننس جاری کرنے کا کھیل کھیلا تھا؟ اسی آرڈیننس کی بنیاد پر مسلمانوں سے ووٹ بھی طلب کیے۔ کیا کچھ برسوں نہ سہی کچھ مہینوں قبل ہی وہ اسے بل کی صورت میں نہیں پیش کرسکتی تھی؟ کیا وہ اسے منظور نہیں کرواسکتی تھی؟ یقیناً وہ یہ سب کرسکتی تھی مگر جیسا کہ سی پی آئی (ایم) نے دو برسوں قبل ہی بتلا دیا تھا کہ کانگریس اسے صرف سیاسی ہتھیار بنانا چاہتی تھی، اس نے وہ کر دکھایا۔ افسوس کہ کانگریس فتح نہیں حاصل کرسکی مگر اس کی یہ سازش ضرور کامیاب ہوگئی کہ مسلمانوں کو ریزرویشن نہ دیا جائے اور اسے یہ موقع یا بہانہ بھی مل گیا کہ اس کے جرم کا طوق ریاستی بی جے پی حکومت کےگلے میں ڈال دیا جائے۔ سرِ دست مسلمانوں کی مجموعی حالت ایسی ہی ہے کہ وہ کانگریس کے اس جھوٹ کو سچ مان رہی ہے لیکن حق بات تو یہ ہے کہ بی جے پی نے ابتدا سے ہی کھلے بندوں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کے خلاف ہے، تو بھلا اس کا ایک ریاستی وزیرِ اعلیٰ یا اس کی پوری ٹیم کیونکر اپنے اس کھلے ایجنڈے کے خلاف جا سکتے تھے؟