To View This Blog in Nastaliq Script Download Faiz Nastaliq Unicode Font

Download Faiz Nastaliq Unicode Font from http://www.faiznastaliq.com/faiznastaliq.zip unzip & install it to your windows/font directory

Thursday, December 15, 2011

Nocturnal Emissions or Wet Dreams
Do not have any bad effect on
General Health
Dr. Rehan Ansari
مغربی اور ترقی یافتہ ملکوں میں ہمارا ہندوستانی معاشرہ قدامت پرست کہلاتا ہے اور ہم اس قدامت پرستی کو تہذیبی قدروں کا عنوان دیتے ہیں۔ہمارے یہاں افرادِ معاشرہ کے مراتب کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ہاں جو لوگ (مغربی انداز کی) ترقی پسندی کے مرض میں مبتلا ہیں ان میں بھی قدریں کسی قدر رخصت پذیر ہیں۔تہذیبی قدریں جہاں بے شمار صحتمند صلاحتیں پیدا کرتی ہیں وہیں بعض اوقات افراد میں تفکرات اور منفی احساسات بھی پیدا کرتی ہیں۔انہی منفی احساسات میں شامل ہے ’احتلام‘۔ احتلام کو بعض طبی حلقوں میں ایک مرض خیال کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ متنازعہ فیہ ہے۔ آئیے اس موضوع پر کچھ کھلی کھلی باتیں کریں۔
تعارف
احتلام کے معنی ہیں خواب (شہوانی) دیکھنا۔ انسان جب خواب میں کوئی شہوانی تصویر یا عمل دیکھتا ہے تو اسے انزال ہو جاتا ہے اور کپڑے ناپاک ہو جاتے ہیں۔ عمر کے کسی نہ کسی حصے میں اسّی تا نوّے فیصدی مردوں کو احتلام ہوتا ہے۔ ویسے تو کوئی مخصوص عمر اور صنف نہیں ہے لیکن اکثریت کی عمر پندرہ سے بائیس سال کے درمیان ہوتی ہے۔ کنوارے افراد (لڑکا اور لڑکی) میں یہ شکایت بالکل عام ہے مگر لڑکوں کو شرمندگی کا شکار زیادہ دیکھا جاتا ہے کیونکہ ان کے زیرجامے یا پاجامے اسے ظاہر کردیتے ہیں۔جب لڑکا بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو دیگر ثانوی جنسی علامات ظاہر ہونے کے بعد فطری طور پر اسے کم و بیش شہوانی خیال و خواب آنے لگتے ہیں۔ مشاہدے سے خیالات اور پھر شہوانی تصورات سے خواب تک کے سفر کا انجام احتلام کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ بعض لوگوں کو ہفتہ عشرہ اور بعض کو پندرہ بیس میں احتلام ہوا کرتا ہے۔
’’احتلام ہونا شہوانی تناؤ سے آزادی اور حفظانِ صحت و بدن کے لیے فطری واقعہ ہے۔‘‘ یہ حقیقتاً کوئی مرض نہیں ہے۔ یہ شکایت اکثر ایسے افراد میں پائی جاتی ہے جو غیرشادی شدہ ہوتے ہیں۔ خوشگوار اور مطمئن ازدواجی زندگی گذارنے والے افراد میں یہ شکایت تقریباً ختم ہو جاتی ہے۔
غلط فہمی
احتلام کے ساتھ سماجی سطح پر ایک اہم غلط فہمی لپٹی ہوئی ہے کہ منی کا خارج ہونا جسم کے لیے انتہائی خطرناک اور شدید ناتوانی کا سبب ہے؛ اور یہ کہ منی کا وافر مقدار میں موجود رہنا ’’خزانۂ صحت‘‘ ہے!۔ اس مقام پر سب سے پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ منی آخر کیا ہے؟.... اور کیا حقیقتاً یہ کسی فرد کی جسمانی صحت کی ضمانت اور دلیل ہے؟


منی کے تعلق سے طب کی پرانی کتابوں میں بہت زیادہ درج نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ ظاہری مشاہدے کی بنیاد پر ہے۔ہم نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ایسے عنوانات پر علوم کا تشنہ ہونا زمانہ کی مجبوری تھی۔ اُس دور میں خوردبین نہیں تھی اس لیے قیاسی مضامین ہی پائے جاتے ہیں۔ اُن مضامین میں سب سے معتبر تذکرہ جو موجود ہے اس کا خلاصہ ہے کہ: ’’منی نوعِ انسانی کے تحفظ کا سامان ہے، آلہ ہے، اور قوتِ تناسلیہ غذا میں تصرف کرکے اس کی پیدائش کا سبب بنتی ہے۔‘‘ منی کی پیدائش اعضاءِ تناسلیہ کے عضوِ رئیس خصیتین میں ہوتی ہے۔
جدید طب کی کتابوں میں نئی تحقیقات کی روشنی میں مادۂ منویہ اور منی (یعنی مجموعۂ رطوباتِ مذی و مجرئ بول اور مادۂ منویہ) کے تعلق سے بڑا لٹریچر دستیاب ہے۔ مگر یہاں بھی یہ سوال تشنۂ جواب ہی رہتا ہے کہ آیا منی خود مرد کے لیے جسمانی طور پر مفید ہے یا نہیں؟۔ دوسرے الفاظ میں فیکٹری کے لیے اپنا پروڈکٹ کتنا کارآمد ہے؟

حقیقت
منی دراصل بدن سے خارج ہونے والی دیگر فاضل رطوبات جیسے تھوک، آنسو، پسینہ، ناک اور کان کی رطوبات کی مانند ایک قابلِ اخراج رطوبت ہے۔ اب قارئین خود غور فرمائیں کہ تھوک، آنسو اور پسینے کی پیدائش اور زائد مقدار کے اخراج میں بدن کے کتنے فائدے مضمر ہیں۔ جبکہ یہی رطوبات اگر بدن میں رک جائیں اور خارج نہ ہوں تو (ان کے امتلاء سے) بدن کو کیسی کیسی تکلیفوں کاسامنا ہو سکتا ہے۔ بس یہی کیفیت احتلام کی ہے۔ منی کی پیدائش اور امتلاء مردانہ جنسی ہارمون کے زیرِ اثر ہوتا ہے اور یہ فی نفسہٖ مرد کے لیے کسی کام کی چیز نہیں ہے۔بلکہ فطرت نے اس کی پیدائش کا نظام محض نوعِ انسانی کی بقا کے لیے برپا کیا ہے۔ تو بھلا بتائیے کہ اس کے کسی صورت اَزخود ضائع ہونے سے بدن کو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ پھر اس کی زیادتی اور کمی پر بحث کا سلسلہ کئی صدیوں سے ( دنیا کے ہر انسانی سماج میں) آج تک ختم نہیں ہو سکا ہے اور ہنوز بے نتیجہ ہے! قرآنِ پاک میں بھی اسے ایک ’گرنے والا قطرہ‘ ہی کہا گیا ہے۔ اس لیے اس پورے پس منظر میں ہمیں جس نکتہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ ’’مادۂ منویہ اور منی کی طبعی مقدار اور حالت‘‘ ہو سکتا ہے جو کہ تولید کے لیے اصل ہے۔
آج ہم صرف یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتے ہیں کہ احتلام سے قوتِ مردانہ کم ہو جاتی ہے۔احتلام بدن کا ایک فطری تقاضہ ہے اور منی کے احتلام میں ضائع ہونے سے بدن کے دیگر افعال و اعضاء پر کوئی غلط اثر نہیں پڑتا بلکہ اعضاءِ تناسلیہ پر گرانی کم ہو جاتی ہے۔ اس کی فکر میں شکوک و شبہات اور شرمندگی کا شکار ہونا عبث ہے۔ اس کے علاج پر خرچ کرنا ضیاع ہے۔
اسبابِ احتلام
جیسا کہ بتایا گیا احتلام خصوصیت سے کنواروں (دونوں جنسوں) کا عارضہ ہے۔جس قدر شہوانی تصورات پالنے والا ذہن ہوگا اسی قدر وہ احتلام میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ ٭چت سونا، بالخصوص گدگدے، نرم و گرم اور ریشمی بچھونوں پر سونا عضو میں انتشار پیدا کرتا ہے۔ ایسے ہی پھسلتے رہنے والے مصنوعی ریشوں کے کپڑے اور لنگی وغیرہ بھی عضو میں انتشار پیدا کرکے وہاں کی شریانوں کو خون سے بھر دیتے ہیں اور احساس جاگ جاتا ہے۔ ٭عورتوں کی مصاحبت اور معاشرت سے جو فی زمانہ شادی بیاہ کی تقریبات، پارٹیوں اور محفلوں اور ناچ گانوں جیسے ڈانڈیاراس جیسے کلچرل پروگراموں میں بہت آسانی کے ساتھ مہیا ہوتی ہے۔ ٭شہوت انگیز اصاویر، کتب اور فحش لٹریچر نیز محرکِ شہوت کھیل وغیرہ معاون اسباب و عوامل ہیں۔
علامات
احتلام کو ایک مرض سمجھنے والے افراد میں چند علامات بالکل عام ہیں۔ جیسے سستی، کاہلی، پست ہمّتی، عمومی کمزوری اور لاغری، مریض تنہائی پسند ہو جاتا ہے۔ متفکر اور گھبرایا ہوا رہتا ہے۔اس میں اعتماد کی کمی پائی جاتی ہے۔مغموم اور پریشان رہتا ہے۔بدہضمی، نفخ، قبض، دردِ سر اور چکر کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے جو نفسیاتی وجوہ سے ہوتی ہے۔دماغی قویٰ میں کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔اکثر کمر اور خصیوں میں درد کی شکایت کرتا ہے۔
مشورے
٭احتلام یوں تو ایک فطری امر ہے مگر نفس کا دخل اس کی تعداد بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے نفس کو قابو میں کرنے کے لیے حضرت محمد ؐ نے جو طریقے اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے ان سے بہتر کوئی علاج ممکن ہی نہیں ہے۔یعنی نفلی روزوں اور نفلی نمازوں کا اہتمام کرنا اور دائیں پہلو سے بستر پر سونا۔
٭ ٹھنڈے اور قدرے سخت بچھونوں کا انتخاب کیا جائے۔
٭رات کے وقت غذا پیٹ بھر کر نہ کھائیں اور ممکن ہو تو سونے سے چند گھنٹوں قبل ہی کھا لیا کریں تاکہ سوتے وقت معدہ کچھ ہلکا ہو جائے۔
٭مستقل قبض ہو تو اس کا مناسب علاج کروائیں۔
٭گرم مصالحہ، مرچیں، کھٹائی، اور چٹ پٹی چیزیں مزاج میں گرمی پیدا کرتی ہیں اس لیے ان کا استعمال کم کریں۔
٭گرم و محرک غذاؤں جیسے گوشت، مچھلی، انڈا، چائے، قہوہ، شراب سے بھی اجتناب کریں۔
ذہن اور نفس کو سکون دینے والی تدابیر اختیار کی جائیں اور تبدیلئ رجحان کے لیے مفید اور فاضل وقت میں مصروف رکھنے والے نئے مشاغل اختیار کیے جائیں۔
٭بستر پر جانے سے قبل پیشاب کر لیں کیونکہ بھرے ہوئے مثانے کے سبب بھی انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔
٭کسی بھی قسم کے اشتہاری ہتھکنڈے سے بچیں۔ اپنا اعتماد بحال کریں۔
علاج
علاج کی افادیت کے تعلق سے اب تک کوئی بھی معتبر اسٹڈی سامنے نہیں آئی ہے
۔